18 ربيع الثاني 1446 هـ   22 اکتوبر 2024 عيسوى 11:50 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-10-16   97

ڈارونیزم: ایک سائنسی نظریے سے کٹر عقیدے تک

شیخ مقداد الربیعی:  ڈارون کا نظریہ ارتقاءکا ایک سائنسی مفروضے سے ایک DogmaticIdeaاورپیچدہ موضوع میں تبدیل ہونا علم اور نظریاتیات کے درمیان پیچدہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔

چارلس ڈارون کا نظریۂ ارتقاء ابتدا میں زمین پر موجود مختلف جانداروں کی تنوع اور ان کی زندگی کے ارتقائی عمل کو بیان کرنے کی ایک علمی اور تجرباتی کوشش تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ نظریہ ایک  ناقابل تردید اور مکمل عقیدے کی شکل اختیار کر گیا اور بہت سے ماہرین نے اسے ایک مستند حقیقت کے طور پر پیش کیا۔ اس نظریے کو ناقدین کی جانب سے شدید تنقید اور اعتراضات کا سامنا رہا، یہاں تک کہ سائنسی دنیا کے ماہرین جو علم کی دنیا میں تحقیق، سوالات اور  اعتراضات کے دروازے کھلے رہنے کے قائل ہیں ان کی طرف سے بھی اس پر سوالات اٹھائے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ارتقاء کے حامی اور مخالفین کے درمیان یہ نظریہ آج تک بحث و مباحثے کا موضوع ہے۔

(چارلس ڈارون اور "اقسام کی ابتداء")

سن 1859میں جب چارلس ڈارون نے اپنی مشہور کتاب *"On the Origin of Species"* (اقسام کی ابتداء) میں پہلی بار اپنے نظریے کو پیش کیا، تو یہ علمی دنیا میں ایک حیران کن اور جرات مندانہ قدم تھا۔ ڈارون نے جانداروں کی مختلف اقسام میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں اور ان کی ماحول کے ساتھ مطابقت پر غور کیا۔ اس مشاہدے کے نتیجے میں، انہوں نے ارتقاء اور تنوع کو منطقی طور پر پیش کیا۔تاہم، ڈارون نے خود اپنے نظریے کو مطلق حقیقت کے طور پر پیش کرنے میں احتیاط برتی۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ان کا نظریہ مکمل اور حتمی نہیں ہے اور یہ مزید تجربات اور مشاہدات کا متقاضی ہے۔ ڈارون نے اپنے دوست جوزف ڈالتن ہوکر کو ایک خط میں لکھا: "میں یہ بات سمجھ چکا ہوں کہ اقسام کی تنوع میں طبیعی انتخاب ایک اہم ترین سبب ہے، لیکن یہ واحد سبب نہیں ہے۔" (Darwin, Charles. Letter to Joseph Dalton Hooker, 1858)

(نظریہ ارتقاء: ڈارون کی کتاب پر اعتراضات)

(ڈارون کی کتاب (اقسام کی ابتداء) نے اشاعت کے فوراً بعد سائنسی دنیا میں تہلکہ مچایا۔ بہت سے ماہرین نے اس پر بنیادی اعتراضات کیے جنہوں نے ڈارون کو مجبور کیا کہ وہ اپنے نظریے کے مختلف پہلوؤں پر دوبارہ غور کریں۔ یہ اعتراضات زیادہ تر اس بات پر مبنی تھے کہ ڈارون کا نظریہ طبیعی انتخاب کس حد تک مکمل اور جامع ہے۔)

لورین ایزلی کے مطابق:  "ڈارون کی کتاب "اقسام کی ابتداء" کی آخری ایڈیشن کا گہرائی سے مطالعہ اور جائزہ لینے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈارون نے اس کتاب میں اپنے نظریہ پر کئے جانے والے اعتراضات کے جوابات دینے کی کوشش کی، اور نتیجۃ اسی کوشش میں یہ کتاب تناقضات کا شکار ہوگئی۔   اس میں کی جانے والی آخری اصلاحات ڈارون کے نظریے کی اساس اور مبانی کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں۔ اور ان کو حل کرنے کی کوششوں نے  مسائل حل کرنے کی بجائ مزید سنجیدہ تضادات اور تناقضات کو جنم دیا، لیکن یہ کتاب ان تمام تراعتراضات، اشکالات، تناقضات اور تضادات کے باوجود ایک نمونہ بن گئی اور یہ انحرافات اور قابل اعتراض مواد اکثراس کے مخالفین کی نظر سے بھی اوجھل رہے"۔(Darwin’s Century, p242)

لورین ایزلی کے بیان کے مطابق  جب ڈارون کے اس نظریہ کے بارے میں لوگوں کو اس کی کتاب "اقسام کی ابتداء" کی پہلی اشاعت  پر علم ہوا تو ان کی طرف سے حقیقت پر مبنی بنیادی اور اہم ترین اعتراضات کیے گئے،  جن کی وجہ سے ڈارون کو اپنے اس نظریہ کے  بنیادی اور اساسی ارکان کے بارے میں نظر ثانی کرنی پڑی، اور اسے مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔    یہاں تک ڈارون کا نظریہ طبیعی انتخاب کو  ایک فرانسی عالم جان باٹیسٹ لامارک ( ڈارون سے پہلے)  کے نظریہ کے قریب اور مشابہ قرار دیا گیا، جو اس بات کا قائل تھا   بدن کے اندر مادہ کے علاوہ ایک قوت کے موجود  ہے  اوروہ  بدن کی ترقی کے عمل کو ہدایات  جاری کرتا ہے۔ یہ واضح طور پر ڈارون کی زندگی میں شائع ہونے والی چھٹی اور آخری ایڈیشن میں دیکھا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے ڈارون کے ہم خیال اور ماننے والوں نے اس نظریہ سے پیچھے ہٹنے کو غیر معقول قرار دیا اور  کہنے لگے اس نظریہ کی صحیح وجہ اور توضیح وہی ہے جو پہلی ایڈیشن میں بیان کیا گیا ہے ۔

(نظریۂ ارتقاء: ایک مستند حقیقت یا مفروضہ؟)

(ڈارون کے نظریے پر اعتراضات اور اس کی وضاحت کے لیے کی گئی ترمیمات نے اس بحث کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا کہ آیا ارتقاء ایک مستند حقیقت ہے یا محض ایک مفروضہ۔ ارتقاء کے حامی اس نظریے کو ایک سائنسی حقیقت کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ مخالفین اسے ایک نامکمل مفروضہ سمجھتے ہیں جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ڈارون خود بھی اس بات کے قائل تھے کہ ان کا نظریہ  حقیقتِ مطلق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس بات کا اعتراف کیا کہ طبیعی انتخاب جانداروں کے ارتقاء کا واحد سبب نہیں ہے، اور اس عمل کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے مزید تحقیق اور تجربات کی ضرورت ہے۔)

چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء، تمام تر اختلافات، اعتراضات اور مناقشات کے باوجود، حیرت انگیز طور پر محض بیس سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصے میں ایک سائنسی مفروضے سے ایک غیر متنازعہ اور مسلمہ حقیقت میں تبدیل ہو گیا۔ ایسا کسی اور نظریے کے ساتھ نہیں ہوا۔ میری تحقیق اور فہم کے مطابق، اس نظریے کی  شہرت اور قبولیت کی وجوہات محض سائنسی نہیں ہیں، جیسا کہ آگے چل کر وضاحت کی جائے گی۔سن 1959 میں ایک اہم کانفرنس میں جولیان ہکسلی نے واضح الفاظ میں کہا: "سب سے پہلی بات جو ہم (ڈارون کے نظریے) کے بارے میں کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ نظریہ اب محض ایک 'نظریہ' نہیں رہا جس کے درست یا غلط ہونے پر بحث کی جائے، بلکہ یہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ ڈارونیت اب اتنے کمال علمی پر پہنچ چکی ہے کہ یہ خود اپنے وجود اور سچائی کو ثابت کرتی ہے، ہمیں اس کی تصدیق کی ضرورت نہیں رہی۔"The Emergence of Darwinism, pp1-21

جبکہ ریچرڈ ڈاوکنز نے  وضاحت کرتے ہوئے کہا: "ڈارون کے نظریے پر شک کرنا ویسے ہی ہے جیسے زمین کے سورج کے گرد گھومنے پر شک کرنا۔"( الجين الأناني، ص1.)

 وقت کے ساتھ، یہ نظریہ ایک عقیدے کی صورت اختیار کر گیا جو ہر حیاتیاتی مظہر کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض سائنسدانوں نے اس تبدیلی پر تنقید کی اور کہا کہ نظریہ ارتقاء اپنی اصل حدود سے تجاوز کر چکا ہے۔ برطانوی فلکیاتی سائنسدان سر فریڈ ہوئل نے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "زندگی کے حادثاتی طور پر پیدا ہونے کا امکان ویسا ہی ہے جیسے کہ ایک طوفان کباڑ کے ڈھیر سے گزرتے ہوئے بوئنگ 747 کو بنا ڈالے۔" یہ مشہور قول اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حادثاتی ارتقاء اور قدرتی انتخاب سے زندگی کے وجود کی وضاحت کرنے کی اپنی حدود ہیں۔ Interview with Discover Magazine, 2011

ارتقاء کی یہ بحث محض جانداروں کے مطالعے اور حیاتیاتی تنوع تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ ایک فکری و نظریاتی جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ اب یہ نظریہ  ایک عقیدے کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس کی مخالفت کرنے والوں کو رد کر دیا جاتا ہے، جیسے کہ کسی مذہبی عقیدے کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس  مشہور حیاتیاتی ماہر لین مارگولیس نے کہا: "نظریہ ارتقاء کو ایک مذہبی متن کی طرح نہیں لینا چاہیے جو تنقید سے بالاتر ہو۔"  مارگولیس نے یہ بھی کہا کہ اس  نظریے کے حامی کچھ افراد  کسی بھی تنقید یا چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، جو سائنسی اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ سائنس تو سوال اور شک کی بنیاد پر ترقی کرتی ہے۔  

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور سائنسی حلقوں میں بھی  اس نظریے کے اردگرد پائے جانے والے دوگماٹک رجحانات پر عدم اطمینان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کیمیائی حیاتیات کے عالم مائیکل بیہی نے اپنی کتاب "Darwin’s Black BOX" میں اشارہ کیا کہ جانداروں میں موجود بعض پیچیدہ انتظامات محض قدرتی انتخاب کے اصول سے واضح نہیں ہوسکتے۔ ان پیچیدہ حیاتیاتی نظاموں کی وضاحت کے لیے دیگر ممکنہ نظریات کو بھی زیر غور لانا ضروری ہے۔ بیہی نے مزید کہا: "کچھ سائنسدانوں کی طرف سے  ضرورت سے   زیادہ سخت دفاع نے اس نظریہ کو ایک ایسے عقیدے کی شکل  میں منتقل کردیا  جو تنقید سے بالاتر ہے۔"Darwin's Black Box: The Biochemical Challenge to Evolution, 1996

علم اور تحقیق کی حقیقی اساس ہمیشہ شک، تجزیے اور مسلسل سوالات پر مبنی ہوتی ہے۔ سائنسی نظریہ، چاہے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، ہمیشہ نئے شواہد ،  دلائل ، اور تجربات  کی روشنی میں ترقی پذیر یا حتیٰ کہ منسوخ ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ یہی خاصیت اسے متحرک اور قابل اعتبار بناتی ہے۔

تاہم، جب ایک سائنسی نظریہ دوغمائی عقیدے میں تبدیل ہو جاتا ہے، تو یہ اپنی اصل لچک کھو دیتا ہے، اور علم کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔ نظریۂ ارتقاء اس کی ایک واضح ترین مثال دکھائی دیتی ہے ، جو ایک سائنسی نظریے سے دوغمائی عقیدے میں تبدیل ہوا۔ اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے ہمیں محض سائنسی حقائق سے آگے بڑھ کر سماجی، نفسیاتی، اور فلسفیانہ عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جو اس تبدیلی کے پیچھے کارفرما تھے۔نظریۂ ارتقاء بذات خود سائنسی دائرے میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر سامنے آیا تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، یہ نظریہ ایک ایسے عقیدے میں تبدیل ہوتا گیا جس نے اپنی سائنسی بنیادوں سے دوری اختیار کر لی۔ یہاں  پر ہمارا مقصد نظریۂ ارتقاء کی تردید نہیں، بلکہ اس بات کا مطالعہ اور تحقیق  ہے کہ کس طرح نئے سائنسی نظریات کی قبولیت اکثر  اوقات غیر سائنسی عوامل، یعنی سماجی، نفسیاتی اور فلسفیانہ رویوں پر موقوف  ہوتی ہے۔ نظریہ انتخابِ قدرت  (Natural Selection) بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔

ان اہم عوامل میں سے چند جو اس نظریے کے اس قدر وسیع پیمانے پر قبول کیے جانے کا باعث بنے، خاص طور پر اُس وقت کے سائنسدانوں کے درمیان، درج ذیل ہیں:

پہلا عامل: نظریۂ ارتقاء کی مقبولیت میں ایک اہم سماجی عامل انیسویں صدی کے وکٹورین معاشرے میں پائی جانے والی استمراری اور تدریجی ترقی کا نظریہ تھا۔ وکٹورین عہد میں اچانک تبدیلی یا "طفرے" کا کوئی تصور نہیں تھا، بلکہ ہر چیز کو تدریجی اور مسلسل ترقی کے عمل سے منسلک سمجھا جاتا تھا۔

مشہور حیاتیات دان اسٹیفن جے گولڈ اور نیلز ایلڈریج نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ "تدریج" کے لیے پسندیدگی دراصل مغربی تہذیب کے تاریخی اور مابعد الطبیعی نقطہ نظر کا حصہ ہے، نہ کہ فطرت کے کسی اعلیٰ تجرباتی مشاہدے کا نتیجہ۔مثال کے طور پر، مشہور نباتات دان کارل لینئیس کا یہ قول "فطرت کبھی چھلانگ نہیں لگاتی" بظاہر کچھ بیولوجیکل حقائق پر مبنی معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ اس یورپی سماجی ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے جس میں ترتیب، ہم آہنگی، اور مستقل ترقی کو برقرار رکھنے کی شدید خواہش موجود تھی۔ اس سماجی تناظر نے نظریۂ ارتقاء کو ایک ایسی ترقی کے نظریے میں تبدیل کر دیا جس کا تجرباتی ثبوت کم اور سماجی اثرات زیادہ تھے۔ ».   (Punctuated Equilibria: The Tempo and Mode of Evolution Reconsidered, p145)

دوسرا اہم عامل:  یہ تھا کہ وکٹورین عہد میں ترقی اور ترقی کی حتمیت کا ایک فلسفیانہ عقیدہ بھی گہرائی تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نظریے کے تحت یہ تصور کیا جاتا تھا کہ تاریخ ایک سیدھی لکیر میں آگے بڑھتی ہے، جس میں حال ماضی سے بہتر اور مستقبل حال سے زیادہ ترقی یافتہ ہوگا۔ اگرچہ یہ فلسفیانہ خیال تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس نے نظریۂ ارتقاء کو دیگر سائنسی شعبوں جیسے سماجیات اور معاشیات  تک گسترش پیدا کر دی ۔ ہربرٹ اسپنسر جیسے مفکرین نے اس نظریے کو اپناتے ہوئے کہا کہ آزاد اقتصادی اور معاشی میدان میں  مقابلہ سماجی اور اقتصادی ترقی کا بنیادی اصول ہے۔یہ تصور حیاتیاتی ارتقاء کے نظریے میں بھی داخل ہو گیا اور اس نے انتخاب قدرت کو ایک ایسا فلسفہ بنا دیا جسے نہ صرف سائنسی دائرے میں بلکہ سماجی اور معاشی دائرے میں بھی نافذ کیا جانے لگا۔

تیسرا اور سب سے اہم عامل:  نظریۂ ارتقاء پہلی بار زندگی کے ارتقاء اور تنوع کے مطالعے کو مذہبی دائرے سے نکال کر سائنسی دائرے میں لے آیا۔ سترویں اور اٹھارویں صدی میں، بی کون، ڈیکارٹ اور نیوٹن جیسے مفکرین نے کائنات کے مظاہر کو ماورائی طبیعت سے جوڑنے والے نظریات کو مسترد کیا اور ان کی جگہ جدید سائنسی طریقہ کار  کو  متعارف کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کو ایک علت و سبب بعیدہ  کے طور پر تصور کیا جانے لگا، جس نے  کائنات کو  تخلیق  کرنے کے بعد  اسے خود بخود کام کرنے کے لیے چھوڑ دیا ، اور کوئی اضافی الٰہی مداخلت ضروری نہیں سمجھی ۔یہی تبدیلی نظریۂ ارتقاء کو ایک سائنسی تصور سے ایک عقیدے میں تبدیل کرنے کا باعث بنی۔ یہ نظریہ زندگی کے تنوع اور ارتقاء کو خدا کے کردار سے الگ کرنے کی پہلی منظم کوشش تھی، اور اس کے نتیجے میں یہ نظریہ سماجی اور نفسیاتی عوامل کی بنیاد پر مضبوط ہوتا چلا گیا، جبکہ اپنی سائنسی بنیادوں سے دور ہوتا گیا۔

انیسویں صدی  کے وسط میں، یہ بات واضح ہو گئی کہ روزمرہ کے طبیعی مظاہر کو قدرتی اسباب کی مدد سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں، چارلس ڈارون نے اپنی مشہور کتاب "اصل انواع" میں سائنسی طریقۂ کار کو حیات کی سائنسوں میں شامل کر کے زندہ مخلوقات کے ڈیزائن کی قدرتی وضاحتیں فراہم کیں۔ ڈارون کے نظریات نے ایک نئے فکری دائرۂ کار کو جنم دیا، جہاں زندہ مخلوقات کی پیچیدگی کو قدرتی عمل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی۔

ڈارون کے حامیوں  میں سے ایک نے اس بات کا ذکر کیا کہ وہ ولیم لیل کی کتاب "مبادئ الجیولوجیا- (Principles of Geology)-" سے متاثر ہوئے، جس میں تمام جغرافیائی تبدیلیوں کو صرف قدرتی اسباب کے ذریعے بیان کیا گیا تھا، بغیر کسی مابعد الطبیعی وجوہات کے۔ ہیگسی نے 1887 میں کہا:"میں نے حال ہی میں اور دوبارہ "مبادئ الجیولوجیا" کی پہلی جلد پڑھی، اور یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ اہم کتاب تقریباً تیس سال سے ہر کسی کی دسترس میں ہے، اور اس نے ہر ایسے قاری کو قائل کیا ہے جو معمولی ذہانت  رکھتا ہو، اس عظیم اصول اور حقیقت کے بارے میں کہ ماضی کو حال کے ذریعے سمجھایا جانا چاہیے، جب تک کہ ایسا کوئی مؤثر سبب نہ ہو جو اس کے خلاف ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زمین پر زندگی کی سابقہ تاریخ کے بارے میں ہماری معلومات کے مطابق، ایسا کوئی سبب سامنے نہیں آئے گا، تو میں صرف یہ مان سکتا ہوں کہ لیل نے دوسروں کے لیے، جیسا کہ میرے لیے، ڈارون کے راستے کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ہیگسی کا یہ بیان ہمیں اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح لیل کے اصول نے ڈارون کے نظریے کی بنیاد رکھی، اور یہ کہ قدرتی اسباب پر مبنی نقطہ نظر نے سائنسی تفہیم کو نئی شکل دی۔ مزید برآں، ہیگسی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ نامیاتی دنیا میں ترقی کا تصور بھی غیر نامیاتی دنیا کی ترقی کے طرز پر چلتا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی نئی نوع غیر معمولی قوتوں کے بغیر وجود میں آئی، تو یہ ایک "بہت بڑی تباہی" ہوگی، جو کہ لیل نے جیولوجیکل مفروضے سے خارج کر دیا۔ Science and Pseudoscience, P374

پروفیسر ٹنڈل نے 1874 میں بیلفاسٹ میں ایک تقریر میں اس تبدیلی کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:

نظریہ اتقاء و تطور کی بنیاد نہ صرف تجرباتی شاہد پر مبنی ہے (جہاں اس موضوع پر ثبوت اور براہین پیش فراہم کرنا مشکل ہے)  بلکہ عمومی ہم آہنگی کے اعتبار سے  یہ  سائنسی فکر کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔۔ ہمارا یہ دعویٰ بھی  ہے اور  ہم  یہ کوشش بھی کریں گے کہ cosmological theory   کو مکمل طور پر الٰہیات اورعقائدسے   جدا کریں ۔ وہ تمام  سسٹمز،  اور نظامات جو سائنسی میدان کے خلاف ہیں اور اب بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں، انہیں اس کے  اندر آنا ہوگا۔ سائنس کی مخالفت کے نتیجے میں بہت سارے غیر متوقع اور ناقابل قبول نتائج سامنے آچکے ہیں اور اور اب بھی  اس طرز عمل  میں تبدیلی نہ لانا بہت بے وقوفی ہوگی Presidential Address to British Association, p43)

(ٹنڈل کا یہ بیان اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ سائنسی نظریات کے خلاف مزاحمت نہ صرف غیر سائنسی ہے اور  سائنسی فکر کو ہر قسم کے مابعد الطبیعی نظریات سے آزاد ہونا چاہیے، تاکہ سچائی کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس طرح، ڈارون کے نظریے کی ترقی نے نہ صرف حیاتیاتی سائنس میں ایک نئے دور کا آغاز کیا، بلکہ اس نے سائنسی طریقہ کار کے تحت قدرتی مظاہر کی تشریح کے عمل کو بھی مستحکم کیا۔ یہ ترقی دراصل سائنسی فکر کی مستقل جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے، جہاں تجربات اور مشاہدات کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی گئی۔ڈارون کی دریافتیں، خاص طور پر انتخاب قدرت کا تصور، نے سائنس کی دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا کیا، جس نے انسانی سوچ اور فہم کو نئی جہتوں  کی طرف منتقل کیا۔ اس کے  اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں، اور یہ بات واضح ہے کہ اس نے سائنسی نظریات کے دائرے میں گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔)

1882 میں رومانس نے اپنی ترقی پسند دلیل میں کہا: "کسی نے بھی کبھی مافوق  الطبیعیات نظریات کی طرف رجوع کرنے اور ان کے بارے میں تحقیق کرنے  کا نہیں سوچا، سوائے چند مخصوص صورتوں کے جب سائنس کچھ انتہائی پیچیدہ وجوہات کی وضاحت کرنے سے قاصر رہی۔ اب ہمارے پاس کئی تاریخی مشابہتیں ہیں، جہاں ہر وہ ذہن جس میں سائنسی جھکاؤ موجود ہے، وہ سابقہ مفروضوں کی بنیاد پر   ایسے تفاسیر اور توضیحات کو چیلنج کرتا ہے جو معجزاتی عناصر  پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس سوچ کے حامل کسی بھی ذہن کے لیے، قدرتی نشوونما کے سائنسی نظریے کا درجہ دیگر نظریات پر فوقیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ان کے نزدیک دوسروں کے مقابل سابقہ مفروضون کی بنیاد پر   زیادہ معقول ہے۔"( Cited in Lovejoy, p376)

در حقیقت  نظریۂ ڈاروین کے مقابل میں کوئی مضبوط متبادل نظریہ  نہ ہونے کی وجہ سے یہ دیگر نظریات پر غالب آ چکا ہے،  اور سائنسی میدان میں اس نظریہ کے خلاف قائم کئے جانے والے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے اس کے لیے مادی شواہد پیش کرنے کی ہر قسم کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

وقت کے ساتھ، ڈاروینی نظریے کی بڑھتی ہوئی عقیدت نے اسے حیاتیات کے ہر پہلو پر مستحکم کر دیا، جس کے نتیجے میں بحث و مباحثے کم ہوگئے اور اس کی توجیہات کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ اب ہر علمی بحث اس نظریے کی صداقت کو مستحکم کرنے کے لیے کی جاتی ہے ۔ سماجیات کے ماہرین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہم عمومی طور پر اپنے خیالات اور تصورات کو برقرار رکھنے اور اس کی معقولیت کو قائم رکھنے  کے لیے کی سماجی حمایت پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، نہ کہ اس کے تجرباتی مواد یا منطقی استدلال پر۔

لہذا، ڈاروینی نظریے کی صحت کے لیے پیش کیے گئے تمام دلائل کا حتمی اثر اس کی حیثیت کو مضبوط کرنا تھا، جسے اب ایک ناقابل رد،  مسلم الثبوت سچائی کے طور پر قبول کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہیگسی اور رچرڈ ڈوکینز اس نظریے کو ایک مسلم  ثابت شدہ حقیقت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے ثابت کرنے کے لیے دلیل قائم کرنے کی  ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جو چیز علمی دنیا میں حقیقی سمجھی جاتی ہے، وہ واقع میں حقیقی  ہوتی ہے، چاہے یہ علم کی واحد بنیاد تجرباتی طور پر ثابت نہ کی گئی ہو۔

یہ صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ نظریۂ ڈارون  عقیدہ بن چکا ہے، جس کی وجہ سے ڈاروینیوں نے ہر اس عالم، سکالر اور محقق کے خلاف سختی دکھائی ہے جو اس پر یقین نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر، کلائمرر نے بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ایسے ہی نظریات کے خلاف آواز اٹھائی، اور حال ہی میں آسٹریلوی جینیاتی ماہر اسٹیل نے، جو لا مارکین نظریے کی حمایت کرتے ہیں، غیر مادی قوتوں کے وجود کا یقین رکھنے کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔

اسی طرح، جینیاتی ماہر گولڈ شمڈٹ اور paleontologist  شینڈولف کے خلاف بھی اسی نوعیت کی دشمنی اور ناروا سلوک موجود ہے، کیونکہ انہوں نے قدرتی انتخاب کے نظریے کو ترقی کے اہم ترین اور تنہا ترین  ذریعۂ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔یہ عداوت اور مخالفت علم سماجیات کے لحاظ سے بہت اہم ہیں، کیونکہ جب حیاتیاتی سماج ڈاروینی نظریے کو مستند سمجھتا ہے تو اس کے خلاف ہونا غیر منطقی اور پریشان کن ہوتا ہے، خاص طور پر جب مخالفین یہ دعویٰ کریں کہ وہ تنقید منطقی  انداز میں  کر رہے ہیں۔

جب کوئی نظریہ ایک مابعد الطبیعت عقیدے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، تو یہ اس کے پیروکاروں کے درمیان ایک مضبوط تعلیلی طاقت  اور درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ جیسا کہ پول فیرابینڈ نے بتایا: " نظریہ کے فکری اسباب  اور اس کے استعمال  سے جڑے جذبات نے  روابط اور اتصالات کے تمام ذرائع، تمام  فعالیتوں، اور یقینی طور پر تمام تر معاشرتی زندگی  تک متاثر کر کے رکھا ہے۔ ایسے طریقہائ استدلال جیسے پیشین گوئی ، تحلیلِ استعمالی، اورمشاھدتی تجزیہ جو کہ خرافات کو فروغ دینے کے وسائل ہیں، بڑی حد تک کامیاب رہیں گے  ۔ مشاہدے اور رصد کے نتائج بھی اسی نظریے کے حق میں اس طرح پیش کیے جائیں گے جیسے وہ اس کے مطابق تشکیل دیے گئے ہوں۔ آخرکار، یہ محسوس ہوگا کہ حقیقت تک پہنچنے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔"( Problems of Empiricism, p176)

فیرابینڈ مزید کہتے ہیں کہ  یقین مطلق کو تسلیم کرنے  کی وجہ سے ہی ثبات محققہ حقیقت مطلقاً کو  ظاہر کرتا ہے ، ہم کسی نظریے کی حقیقت کو کیسے جانچ سکتے ہیں یا اس میں بہتری کیسے  لا سکتے ہیں، جب کہ یہ کسی ایسے طریقے اور  انداز میں تشکیل دی گئی ہو،  جس سے کسی بھی متصور واقعے کی وضاحت اور تفہیم ممکن ہو؟ ( اسے منطق میں مصادرہ عن المطلوب کہا جاتا ہے، یعنی آپ  اپنے مدعی کے ثبوت کے لیے کسی دلیل خارجی سے استفادہ کرنے کی بجائ اسی مدعیٰ کو ہی دلیل کے طور پر پیش کریں)۔ ایسی جامع اصولوں پر بحث کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انہیں مختلف نوعیت کے اصولوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے، لیکن یہ طریقہ ابتداء سے ہی ناقابل قبول قرار دیکر مسترد کر دیا ا گیا ہے، لہذا خرافات کسی بھی چیز کے لیے موضوعیت کی حیثیت نہیں رکھتیں، بلکہ یہ صرف ان لوگوں کی کوششوں کی بنا پر موجود رہتی ہیں جو ان پر یقین رکھتے ہیں، اور ان کے راہنما، چاہے پادری ہوں یا نوبل انعام یافتہ۔  ان کی کامیابی ہمیشہ معنی حرفی کی طرح دوسروں کے محتاج ہوتی ہے، اپنا کوئی مستقل  نہیں رکھتی، کوئی مانے تو کامیاب وگرنہ عدم ہے۔

خلاصہ یہ کہ، ہم ڈاروینی نظریے کے بطلان کی بات نہیں کر رہے، بلکہ یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ سائنسی نظریات کا مقصد قدرتی مظاہر کی وضاحت اور تفصیل دینا ہے۔ جب علم اور پیشگی نظریات آپس میں مل جاتے ہیں تو یہ نظریات حقیقتاً مذہبی عقائد میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں تنقید اور بہتری کا عمل رک جاتا ہے، جو کہ سائنسی ترقی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ نظریہ کچھ فلسفیانہ خیالات کی بنیاد پر قائم ہے، جن میں سے بعض کی حقیقت میں غلط ثابت ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی سائنسی کمیونٹی نے ان پر یقین رکھا۔

ڈاکٹر مائیکل ڈینٹن نے اس حقیقت کی نشاندہی کی: " مجھے کوئی ایک بھی ایسا مفروضہ یاد نہیں ہے کہ جو پہلی بار پیش کیا گیا ہو  پھر اسے مسلسل قبول کیا جاتا رہا ہو، کبھی ترک نہ کیا گیا ہو  اور  یا اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہ کی گئی ہو۔" یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سائنسی نظریات کی ترقی ہمیشہ سوالات اور تنقید کا مطالبہ کرتی ہے، تاکہ وہ اپنی درستگی اور مؤثریت کو برقرار رکھ سکیں۔(التطور نظرية في أزمة ص87)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018