وجودیت سے نور اسلام کی طرف: عبد الرحمن بدوی کی توبہ نے دین کے خلاف مغرب کی نسل پرستی کو کس طرح بے نقاب کیا؟
شیخ مقداد ربیعی:
مغرب اور اسلام کا تعلق صدیوں سے تضادات سے بھرتا چلاآ رہا ہے۔ کبھی تو یہ اسلامی تہذیب، علم، اور فکر سے متاثر ہوتا نظر آتا ہے، اور کبھی اسے اس دین سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے، جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔
تاہم، آج اس تعلق کی ایک نئی جھلک سامنے آئی ہے، جو اپنے اندر فکری نسل پرستی کو سموئے ہوئے ہے۔ نسل پرستی کی یہ وباء اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی عظیم الشان اقدار کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی دکھاتی دیتی ہے۔ یہ کوئی حالیہ رجحان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طویل تاریخ کا تسلسل ہے، جو صلیبی جنگوں سے شروع ہوتا ہے اور ہر سیاسی یا سماجی تبدیلی کے ساتھ مختلف صورتوں میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔
اسلام کے حوالے سے مغرب کی نسل پرستی سطحی رویوں یا عارضی نفرت تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک فکری دھارا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی تصورات اور بے بنیاد الزامات کو فروغ دیتا ہے۔ اس نسل پرستی کی سیاسی اور مذہبی وجوہات ہیں، خاص طور پر جب سوشلسٹ بلاک کے زوال کے بعد مغربی سامراجی اور سرمایہ دارانہ طاقتوں نے اسلام کو اپنا نیا دشمن قرار دیا تو اسلام کے خلاف نفرت، خوف اور غلط بیانی کی ایک وسیع مہم شروع کی گئی۔ اس ضمن میں کیمبرج یونیورسٹی سے شائع ہونے والے "شؤون دولية" نامی جریدے کے جنوری 1991 کے شمارے میں لکھا گیا: "بہت سے لوگوں نے سوویت یونین کے خطرے کی جگہ لینے والے نئے خطرے کو دریافت کرنے کی ضرورت محسوس کی، اور اس مقصد کے لیے اسلام ان کےلئےبہت سہل اور قابلِ دسترس تھا! اسلام سیکولرائزیشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے، اور اپنے پیروکاروں پر اس کی گرفت مضبوط ترہے، جو سو سال پہلے کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ مستحکم ہو چکی ہے۔ اس لیے مغرب کی نئی مہم کا براہ راست نشانہ وہ جنوبی ثقافتیں نہیں ہیں، بلکہ اسلام ہے، کیونکہ یہ واحد ایسی تہذیب ہے جو الحاد زدہ، سستی اور بے حسی کا شکار مغربی معاشروں کے لیے ایک حقیقی اور عملی چیلنج بن سکتی ہے، اور جو بالآخر ان معاشروں کو مادی اور اخلاقی طور پر تباہی کی جانب لے جا سکتی ہے۔
یہ تحریر مغرب کی اسلام مخالف طویل عرصے سے جاری مہم کی عکاس ہے، جس کا مقصد نہ صرف اسلامی دنیا کو دباؤ میں رکھنا ہے بلکہ اس کی روحانی اور سماجی اقدار کو بھی مٹانا ہے۔
مغربی مفکرین اور حکمت عملی کے ماہرین اسلام کے بارے میں خبردار کرنے، اس کے خلاف دشمنی کو ہوا دینے، اور اس کے مقابل جنگ کا اعلان کرنے میں سبقت لے جا رہے ہیں۔ فُکویاما نے لکھا: "اسلام دنیا کی واحد تہذیب ہے جو مغربی جدیدیت اور اس کے بنیادی اصول یعنی سیکولرازم کو مسترد کرتی ہے۔ موجودہ تنازعہ دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے جو اسلامی عقیدہ، بالخصوص اس کے ان قدامت پسند اصولوں کے خلاف ہے جو جدیدیت اور سیکولر ریاست کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ تنازعہ نظریاتی چیلنج ہے، اور بعض پہلوؤں میں یہ اُس خطرے سے زیادہ بنیادی ہے جو کمیونزم نے پیش کیا تھا۔" (حوالہ: کتاب "دفاع عن القرآن الكريم" از ڈاکٹر محمد عماره، صفحہ 13)
فلسفی اور تہذیبوں کے نظریے کے حامی، سیموئل ہنٹنگٹن، نے بھی فُکویاما کا ساتھ دیا اور دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ "اسلام کے اندر ایک ایسی جنگ کا آغاز ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں وہ مغربی جدیدیت، سیکولرازم اور مسیحی اصول، یعنی ریاست اور مذہب کی علیحدگی کو قبول کر لے۔" (حوالہ: نیوزویک امریکی جریدہ، سالانہ شمارہ، دسمبر 2001 – فروری 2002)
ویٹیکن کے کارڈینل پول پوبار نے اعلان کیا: اسلام یورپ اور مغرب کے لیے ایک چیلنج پیش کرتا ہے، اور یہ چیلنج اس میں ہے کہ اسلام ایک دین، تہذیب، معاشرہ، طرزِ زندگی، طرزِ فکر، اور طرزِ عمل ہے، جب کہ یورپ کے عیسائی اپنے کلیساؤں کو معاشرتی زندگی میں ثانوی حیثیت دینے کی طرف مائل ہیں۔ (حوالہ: الشرق الاوسط لندن، 1/10/1999)
مونسینیور جوزیپی برنارڈینی نے ویٹیکن کے پوپ کی موجودگی میں کہا: "اسلامی دنیا کے پاس یورپ میں توسیع کا ایک منصوبہ ہے، اور وہ اسے دوبارہ فتح کرنا چاہتی ہے۔" (حوالہ: 13/10/1999)
مغربی مطالعاتی ادارے، خاص طور پر امریکی رینڈ کارپوریشن، مغربی پالیسی سازوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ عرب اور اسلامی دنیا میں جدیدیت پسندوں اور سیکولر عناصر پر انحصار کریں تاکہ ان کا استعمال اسلامی قدامت پسندوں اور شدت پسندوں کے ساتھ مقابلے میں کیا جا سکے۔
یہ مغربی حکمت عملی اس بات کی غماز ہے کہ اسلام کو ایک تہذیبی چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کے خلاف ہر ممکن قدم اٹھایا جا رہا ہے۔
مغربی دنیا کے اسلام کے خلاف نسل پرستانہ رویے اور اس فکری یلغار کے تناظر میں، ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی کی داستان ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آتی ہے، جو حق کی طاقت اور حقیقت کے غلبے کی گواہی دیتی ہے۔ بدوی بیسویں صدی کے وجودیت کے علمبرداروں میں سے ایک تھے، اور ان کا نام آزاد فکر کے علمبردار کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وجودیت وہ فلسفہ ہے جو انسان کے کائنات میں کھو جانے اور زندگی کے معنی کھو دینے کی بات کرتا ہے۔ لیکن برسوں تک مذاہب کے خلاف بغاوت اور مسلسل غور و فکر کے بعد، بدوی نے اسلام کی طرف رجوع کیا، تو اس وقت انہوں نے اس دین کی گہرائی اور ہمہ گیریت کو محسوس کیا اور یہ سمجھا کہ مغربی دنیا نے نہ صرف اسلام کو بدنام کیا ہے، بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اس سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
بدوی کی وجودیت سے اسلام کی طرف واپسی کوئی ایک انفرادی واقعہ نہیں، بلکہ یہ اس بات کی زندہ مثال ہے کہ اسلام مادیت پر مبنی افکار اور مغرب میں پھیلے منحرف فلسفیانہ رجحانات کے مقابلے میں کتنی مضبوطی سے کھڑا ہے۔ بدوی نے اس حقیقت کو پہچان لیا کہ اسلام انسان کو ایک جامع نقطہ نظر فراہم کرتا ہے، جو مادیت اور روحانیت، عقل اور ایمان، فرد اور معاشرہ کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ اس کے برعکس، وجودیت، چاہے کتنی بھی فلسفیانہ چمک دمک کیوں نہ رکھتی ہو، انسان کو نابودی اور کھو جانے کی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اسلام، اس کے مقابلے میں، ایک روشن مینار کی مانند ہے، جو انسانی روح کو حقیقت کی تلاش کے سفر میں راہ دکھاتا ہے۔
جب ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی نے مغرب کے مادی فلسفے سے اسلام کی طرف رجوع کیا، تو انہیں وہ حقیقت معلوم ہوئی جسے مغرب نے عمداً نظرانداز کیا تھا کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک مکمل طریقہ اور وجود کا جامع نظام ہے۔ حقیقت میں، مغرب کو اسلام سے خوف اس لیے نہیں ہے کہ یہ ایک محض مذہب ہے، بلکہ اسے خوف اس لیے ہے کہ اسلام زندگی کو معنی عطا کرتا ہے اور ان دلوں کو روشن کرتا ہے جو مادیت کی تھکن سے بے حال ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی کو اسلام دشمنی کےیہ تمام پہلو فرانس اور مغرب میں ان برسوں کے دوران نظر آئے جب وہ وہاں مقیم تھے۔ ان چیلنجوں کے مقابلے میں بدوی کا ذہن بیدار ہوا، اور وہ اپنی تہذیبی اساس کی طرف پوری طاقت کے ساتھ واپس پلٹے۔پس یہی وہ وقت تھا جب ان کی فکر نے پلٹنا شروع کیا اور انہوں نے اسلام، قرآن، اور رسولِ اسلام ﷺ کے دفاع میں کھل کر آواز بلند کی۔ اُس وقت انہوں نے کہا: اہل مغرب کی اسلام کے خلاف نسل پرستی بالکل واضح ہے، مغرب اسلام کے معاملے میں دو نہیں، بلکہ دس اور شاید سو معیارات سے فیصلے کرتا ہے۔ وہ اسلام کے حوالے سے اتنی زیادہ نسل پرستی اور وحشیانہ رویہ اپناتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پیرس کی لائبریریوں میں درجنوں ایسی کتابیں موجود ہیں جو اسلام کے خلاف زہر اگلتی ہیں، بلکہ اسلام پر لکھنے کا کام ان لوگوں کے لیے مخصوص ہو چکا ہے جو کج فہم نظریہ رکھتے ہیں! مغربی دنیا کا ہر شخص، چاہے وہ جاہل ہو یا دانشور، خود کو اسلام پر بولنے اور قرآنِ مجید کا ترجمہ کرنے کا حق دار سمجھتا ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی جب میں نے دیکھا کہ ایک یہودی محقق، اندریه شوراکی، جو یروشلم کا میئر بھی تھا، نے قرآن مجید کا ایسا ترجمہ کیا جو ترجمے اور مترجمین کے لیے ہر دور میں باعثِ شرم ہے، کیونکہ اس میں قرآنی متن کی تقدیس پر صریح حملے کیے گئے ہیں۔
یہ بدوی کی اس جنگ کے خلاف گواہی ہے، جو مغرب نے اسلام اور اس کے مقدسات کے خلاف چھیڑ رکھی ہے۔
مغرب اسلام سے وہی کچھ سمجھنا چاہتا ہے جو اس کی اپنی مرضی ہو، اسی لیے وہ ان سیکولر مصنفین کی کتابوں کے تراجم کا خیر مقدم کرتا ہے اور انہیں فروغ دیتا ہے، جیسے فرج فودہ، سعید العشماوی، اور فؤاد زکریا، جن کی تصانیف کو عربی سے فرانسیسی زبان میں مشہور مستشرق جیل کیپیل نے منتقل کیا۔
اسی طرح، ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی نے پیرس میں ان "عرب" محققین کے نمونے بھی دیکھے جو مغربی مستشرقین کے فکری بہکاوے میں پھنس گئے اور ان استشراقی منصوبوں کے خادم بن گئے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر محمد اَرکون تھے، جن کے بارے میں ڈاکٹر بدوی نے کہا: "کیا اَرکون کی کوئی اور غرض ہے سوائے اسلامی ورثے کو مسخ کرنے کے؟! وہ استعماری استشراق کے بڑے مکتبے کا شاگرد ہے، جس کا مستقل مقصد اسلام کو بدنام کرنا، اس کے نبی کی توہین کرنا، اور قرآن مجید پر طعن کرنا ہے۔ وہ خود کو بے بنیاد علمی دعوؤں کے لبادے میں چھپاتا ہے، اور اس کی قوم پرستی پر شک کیا جا سکتا ہے۔ اس نے عربی فکر پر ایسا ناقابل معافی ظلم کیا ہے کہ جس کی تلافی ممکن نہیں۔ اس نے کازیمسکی کی قرآن کے ترجمے پر ایک مقدمہ لکھا، جو اتنی غلطیوں اور فکری مغالطوں سے بھرا ہوا تھاا کہ ایک ابتدائی طالب علم بھی اسے معاف نہیں کر سکتا جو اسلامی فکر کی تاریخ پڑھ رہا ہو۔" (حوالہ: "دفاعاً عن القرآن ضد منتقديه"، از ڈاکٹر محمد عماره، صفحہ 16)
پس اس طرح ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی کا ذہن اور دل دونوں جاگ اٹھے، اور وہ اپنی تہذیبی اصالت کی طرف لوٹ آئے، اسلام، قرآن، اور رسولِ اسلام ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے۔
اپنی وفات سے ایک ماہ قبل، جو 25 جولائی 2002 کو ہوئی، اس وقت جب وہ بستر علالت پر تھے، سعودی جریدہ "الحرس الوطني" نے ان سے ایک انٹرویو کیا، جس میں انہوں نے کھل کر اپنے فکری رجوع کا اعلان کیا، اور یہ کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی دہائیوں پر محیط وجودیت کے سفر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے اور اسلام اور اس کی تہذیب کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اس انٹرویو میں، جریدے کے نمائندے نے ان سے پوچھا:
جب ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی سے ان کے بسترِ علالت پر پوچھا گیا: "آپ اس وقت کیا کہنا چاہتے ہیں جب آپ اس حالت میں ہیں؟"
انہوں نے جواب دیا: "میں اپنے اندر کے شدید پچھتاوے کا اظہار نہیں کر سکتا، کیونکہ میں نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اسلام اور عربی ورثے کی مخالفت کی۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے شفاف اور صاف پانی سے دھوئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ میں دوبارہ حقیقی مسلمان بن سکوں۔ میں اللہ کے حضور توبہ کر چکا ہوں اور اپنے کیے پر نادم ہوں۔ اور میں نیت رکھتا ہوں کہ، اگر اللہ نے مجھے شفا دی، تو میں اسلامی فکر کا سپاہی بن جاؤں گا اور اپنے آباء و اجداد کی تعمیر کردہ اس تہذیب کا دفاع کروں گا، جو صدیوں تک مشرق و مغرب میں چمکتی رہی۔"
جب ان سے پوچھا گیا: "کیا آپ اپنی سابقہ تحریروں، وجودیت اور وجودی زمانے کے بارے میں، اور عرب دنیا میں وجودیت کے علمبردار ہونے کے حوالے سے دستبردار ہو چکے ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا: "ہاں، کوئی بھی پختہ دماغ جو سوچتا ہے، وہ ایک حقیقت پر قائم نہیں رہتا، بلکہ ہر وقت سوالات اٹھاتا، استفسار کرتا اور تجسس کرتا ہے۔ وہ مسلسل اپنی توانائی کو بالیدگی فراہم کرتا ہے۔ اس لیے، اس وقت میں اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں اور میں نے ان تمام خیالات کو ترک کر دیا ہے جو میں نے پہلے لکھے تھے، جو عقیدہ اور شریعت کے ساتھ ٹکراتے ہیں، اور ادب کے ساتھ جو حق، خیر، اور جمال سے وابستہ ہے۔ میں نے ہمارے تراث (ورثے) کو پڑھا، محسوس کیا، تجزیہ کیا، اور اس کی وضاحت کی، اور اب میرے سامنے یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی قوم کو ایسا قیمتی اور وافر علم، ادب، فکر اور فلسفہ میسر نہیں آیا جیسا کہ عربی قوم کو! میں نے مغربی ادبیات اور فلسفے بھی ان کی اصل زبانوں میں، جیسے انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، جرمن، اور اطالوی، میں پڑھا ہے، اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یورپی عقل نے ایسی کوئی چیز پیدا نہیں کی جس کی ویسی تعریف ہو سکے جیسی عربی عقل کی جا سکتی ہے! بالآخر ، میرے سامنے صحیح اور غلط، اور حق و باطل واضح ہو چکے ہیں۔
جب ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی سے ان سے پوچھا گیا کہ "آپ کا جدیدیت کے بارے میں کیا خیال ہے، خاص طور پر جب اس کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے اور اس کے بارے میں مالیاتی تعاون اور مغربی انٹیلی جنس کے ساتھ مشکوک تعلقات کی کہانیاں گردش میں ہیں؟"
انہوں نے جواب دیا: "جدیدیت مغرب میں 1970 کی دہائی میں ختم ہو چکی تھی، لیکن ہم نے اسے اپنی زمین پر، اپنی جامعات، اداروں، فکری، ثقافتی اور ادبی حلقوں میں دوبارہ زندہ کیا۔ اس کے لیے ہم نے اپنے عظیم ورثے، عمودی شاعری، اور درست فکر کی مخالفت کی، اور اس کی خاطر ہم نے بے مقصد فکری جنگیں لڑی ہیں۔ ہمارے ادیب اور مفکرین اس کی اصل حقیقت اور نقصانات کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکے جب تک کہ کتاب الحرب الباردة الثقافية (ثقافتی سرد جنگ) شائع نہیں ہوئی، جو امریکی سی آئی اے کے ثقافت اور اس فن میں اس کے کردار کے بارے میں ہے۔ اس کتاب نے مغرب زدہ طبقے کو شدید جھٹکا دیا اور آخر کار وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے جس کا ہم پہلے سے ہی ذکر کرتے آئے تھے۔"
پھر جب ان سے گلوبلائزیشن پر تنقید کے بارے میں پوچھا گیا، جسے ثقافتوں، شناختوں اور تہذیبی ورثوں کو مٹانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا: "گلوبلائزیشن ایک ایسا دیوداس ہے جو ہم سب کو نگلنا چاہتا ہے۔ یہ ایک بے قابو درندہ ہے جو دنیا کے ہر کونے میں تاک لگائے بیٹھا ہے تاکہ اسے ثقافتی، فکری، تہذیبی، اقتصادی اور عسکری لحاظ سے اپنی گرفت میں لے لے۔ یہ نیا سامراج ہے، اور مغربی تسلط کا ایک ذریعہ ہے جو دنیا کے وسائل، ذہنوں اور اموال پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اس کے مکارانہ منصوبوں کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔"
جب ان سے پوچھا گیا: "کیا آپ کو اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ کی اسلام کی طرف محبت بھری واپسی جدیدیت پسندوں اور سیکولر طبقے کے لیے کیسی ہوگی؟ جبکہ وہ آپ کے خلاف شدید جنگ شروع کر سکتے ہیں؟"
انہوں نے جواب دیا: "جب میں نے اصل اور بڑے مفکرین پر تنقید کی اور ان کی تخلیقات پر کئی برسوں تک اعتراضات اٹھائے، تو اس میں کیا برائی ہے کہ میں بھی اسی کڑوے جام کا ذائقہ چکھوں؟ میں اس بات سے خوش ہوں کہ وجودیت پسند، کمیونسٹ اور سیکولر لوگ مجھے تنقید کا نشانہ بنائیں گے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں حق کی راہ پر ہوں اور درست سمت میں جا رہا ہوں۔ میں ان کی تنقید کی پروا نہیں کرتا، کیونکہ قافلہ چلتا رہتا ہے اور کتّے بھونکتے رہتے ہیں۔"
آخر میں ان سے پوچھا گیا: "اس لمحے میں آپ کیا خواہش رکھتے ہیں؟"
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری عمر میں اضافہ کرے، تاکہ میں اسلام کی خدمت کر سکوں اور اس کے دشمنوں کی چالوں اور حاسدوں کی کینہ پروری سے اس کا دفاع کر سکوں۔ (مجلة الحرس الوطني السعودية، شمارہ 244، 1/10/2002)
ڈاکٹر بدوی کی توبہ کا حوالہ واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام میں ایک روحانی طاقت موجود ہے جو گمراہ کن فکری دھاروں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ بدوی مغربی وجودیت کی فلسفہ کا حصہ رہے، لیکن انہوں نے اس وقت سے آزادی حاصل کی جب انہوں نے اس کی گمراہی کو سمجھا، اور اسلام کا انتخاب کیا کیونکہ یہ انہیں زندگی اور وجود کے سوالات کے حقیقی جوابات فراہم کرتا تھا، جو دیگر فلسفوں کے لیے ناممکن تھے۔
آخر میں، اسلام اس قسم کے حملوں اور تعصبات کے سامنے ہمیشہ بلند و بالا رہے گا، بالکل اسی طرح جیسے عبد الرحمن بدوی اپنے دین فطرت کی طرف لوٹنے کے فیصلے میں ثابت قدم رہے۔ اسلام اپنی اقدار، انصاف، اور خالص روح کے ساتھ ایک عظیم قوت کے طور پر دلوں اور ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا رہے گا، چاہے مغرب اس کی تصویر کو بگاڑنے کی کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرے۔