طوفان اقصی کے مقابلے میں انسانیت دشمن انتقام کا فرسودہ نظریہ
شیخ مقداد ربیعی
صیہونی فوج کا ردعمل ہمیشہ بہت زیادہ شدید ہوتا ہے۔ جب ہم خطے کے ممالک کو دیکھتے ہیں تو وہ جنگ کے خطرات کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور مسلسل احتیاط برت رہے ہیں کہ جنگ کا دائرہ وسیع نہ ہو۔جب خطے میں جنگ بھڑک اٹھتی ہے تو اس کے بے شمار سماجی اور معاشی اثرات ہوتے ہیں۔جب ہم صیہونی ریاست کو دیکھتے ہیں تو وہ حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام عقلی حدوں کو پار کرتی نظر آتی ہے۔اسرائیل کا فوجی مورخ آریہ یتزہکی لکھتا ہے کہ 1948 اور 1949 کے صرف ایک سال میں اسرائیلی فوج نے مقدس سرزمین پر دس بڑے قتل عام کیے۔لیکن سیاسی سطح پر ان قتل عام کاشاذو نادر ہی تذکرہ کیا جاتا ہے۔
میں اس پر غور و فکر کرتا ہوں کہ صیہونی حد سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا اس جوش کے پیچھے ان کے مذہبی نظریات ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے سے مختلف نظریہ رکھنے والوں کے خلاف حد سے زیادہ تشدد کرسکتے ہیں اور ان کا مذہب اس کی تائید کرتا ہے؟
جی ہاں، یہ بائبل کے وہ احکامات ہیں جو مرد، عورت، بالغ یا شیر خوار کے درمیان فرق کیے بغیر، قتل اور دہشت گردی کی بدترین صورت اختیار کرنے پر ابھارتے ہیں۔ ہم نے سموئیل کی پہلی کتاب میں پڑھا: "جاؤ اور عمالیقیوں سے لڑو، انہیں مکمل طور پر تباہ کر دوان کے سب مال اسباب کو برباد کردو۔ان کو نہ چھوڑو، تمام مردوں، عورتوں، بچوں اور چاہے نوزائیدہوں کو مار ڈالو اور ان کے بیلوں، بھیڑوں، اونٹوں اور گدھوں کو بھی مار ڈالو اور ان سے اس وقت تک لڑو جب تک کہ وہ ہلاک نہ ہو جائیں۔"
حزقی ایل (9-6): بوڑھے، جوان، کنواری، چھوٹی لڑکی اور عورتیں قتل کردی جائیں گی۔اور جس کے پاس نشان ہو اس کے پاس نہ جاؤ اور میرے حرم سے شروع کرو۔ چنانچہ انہوں نے ان بوڑھوں سےقتل عام شروع کیا جو گھر کے سامنے بیٹھے تھے۔
جوشوا (6-21): "اور انہوں نے شہر کی ہر چیز کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، مرد اور عورت، جوان اور بوڑھے، یہاں تک کہ بیل، بھیڑیں اور گدھے تلوار سے دھار سے کاٹ دیے۔"
یہ نوزائیدہ بچوں کو قتل پر زور دیتے ہیں:
1سموئیل (15-3): اب جاؤ اور عمالیق کو مارو اور جو کچھ اس کے پاس ہے اسے مکمل طور پر تباہ کر دو۔اور ان کو نہ بخشو بلکہ ایک ایک مرد اور عورت ،ایک ایک بچہ اور شیر خوار کو بھی قتل کرو۔اسی طرح گائے ،بھیڑ، اونٹ اور گدھے کو ماردو۔"
زبور 137-9: "مبارک ہے وہ جو تیرے بچوں کو پکڑ کر چٹان پر پھینک دیتا ہے۔"
آیت 31-17: "اس لیے اب بچوں میں سے ہر ایک مرد کو مار ڈالو۔"
حاملہ خواتین کے پیٹ کاٹنا اور عورتوں کی عصمت دری کرنا:
ہوزیا (13-16): "سامریہ کو سزا دی جائے گی کیونکہ اس نے اپنے خدا کے خلاف بغاوت کی ہے، وہ تلوار سے گریں گے، ان کے بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا اور حاملہ عورتوں کو کاٹ دیا جائے گا."
یسعیاہ 13-15: "جو بھی ملے گا وہ چیر لیکر آجائے گا، اور جو کوئی پیچھے ہٹے گا وہ تلوار سےکاٹا جائے گا اور ان کے بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا، اور ان کے گھر برباد ہو جائیں گے، اور ان کی عورتیں بے پردہ ہو جائیں گی۔ دیکھ مَیں اُن کے خلاف اُکساؤُں گا جو نہ چاندی کا لالچ رکھتےہیں اور نہ ہی سونے سے خوش ہوتے ہیں۔وہ جوانوں کی کمانیں توڑیں گے،وہ ماں کے پیٹ میں موجود بچوں پر رحم نہیں کریں گے اور وہ اولاد کو بھی نہیں بخشیں گے۔
اقوام کو قحط سے دوچارکرنا کہ وہ مردار کھائیں اور انہیں قتل کرنا:
یرمیاہ (14-12): "جب وہ روزہ رکھیں گے تو میں ان کی فریاد نہیں سنوں گا اور جب وہ سوختنی قربانیاں چڑھائیں گے تو میں انہیں قبول نہیں کروں گا، لیکن میں انہیں تلوار، کال اور وبا سے فنا کروں گا۔ "
یرمیاہ (11-22): "اس لیے ربُّ الافواج یوں فرماتا ہے: دیکھو، میں اُن کو سزا دوں گا، اُن کے جوان تلوار سے مریں گےاور اُن کے بیٹے اور بیٹیاں قحط سے مریں گے اور کوئی باقی نہ رہے گا۔ کیونکہ میں شر لاؤں گا۔
یرمیاہ (19-9): "اور میں ان کو ان کے بیٹوں کا گوشت اور ان کی بیٹیوں کا گوشت کھلاؤں گا، اور وہ اپنے ہر ایک پڑوسی کا گوشت اس محاصرے اور مصیبت میں کھائیں گے جس سے ان کے دشمن ان پر ظلم کرتے ہیں اور ان کی تلاش کریں گے ۔"
صہیونی نظریاتی کھیل کے ذریعے اپنے جرائم کے جواز کی کوشش کرتے ہیں۔، یہ سمجھتے ہوئے کہ بچوں کو قتل کرنے اور خواتین کی عصمت دری کے طریقے ان کو بتائے گئے اعلیٰ سامی اخلاق کی بنیاد ہیں، ربی منیس فریڈمین نے اس بات کا دعویٰ کیا جب وہ "اقدار" کے بارے تورات" یا "یہودی طریقہ" اخلاقی جنگ میں لکھا ہے جس کے ذریعے اس نے جنگ کی "مغربی اخلاقیات" کو مسترد کیا ہے۔ اس کے خیال میں مغربی اخلاقیات کا نظریہ بین الاقوامی تنازعات کے دوران انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس نے کہا کہ اخلاقی جنگ لڑنے کا واحد راستہ یہودیوں کا طریقہ تھا: "دشمن کے مقدس مقامات کو تباہ کر دو، ان کے مردوں، عورتوں، بچوں اور مویشیوں کو مار ڈالو۔"
اس نے بات کو جاری رکھا کہ یہ تورات کی اقدار ہیں جو اسرائیلیوں کو "ان قوموں کے لیے مثالی بنا دیں گی جو انسان کی ایجاد کردہ اس تباہ کن (مغربی) اخلاقیات کی وجہ سے شکست سے دوچار ہیں" اور وہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ وہ طریقہ ہے جو اسرائیلی ریاست نے اختیار کیا ہے۔ "فلسطینیوں کی استقامت اور مسلسل مزاحمت واحد حقیقی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے ان سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکا۔"
انسانیت دشمن انتقام اسرائیل کے لیے مقدس دینی نصوص سے ثابت نظریہ ہے جو ان کی پالیسی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے،اس کا اعتراف سابق صیہونی وزیر جنگ جنرل موشے یاعلون نے بھی کیا تھا۔اس کا مطلب حد سے زیادہ طاقت کے استعمال کے ذریعے انسانیت دشمن انتقام ہے۔قابض افواج کی پالیسی ہے اپنے دشمن کو نفسیاتی طور پر شکست دی جائے،مقابل لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ اگر وہ کوئی کاروائی کریں گے تو ان کے خلاف شدید ردعمل دیا جائے گا۔عملی طورپر ان تمام مزاحمتی قوتوں کو اجتماعی سزا دی جائے گی۔خون بہایا جائے،گھروں کو گرایا جائے پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے۔زندگی کو دوبارہ بحال کرنا ہی ناممکن ہو جائے اس طرح مزاحمتی لوگ ہتھیار ڈال دیں گے۔
قابض افواج نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اس قتل عام کو ایک پالیسی کے طور پر اختیار کیا ہوا ہے۔اسرائیل نے جب غزہ پر موجودہ دور کی بدترین جارحیت کی تو اس وقت اسرائیلی وزیردفاع یووگیلانٹ نے غزہ کے مکمل محاصرے کا اعلان کیا۔اس میں بغیر کسی تخصیص کے غزہ کی تئیس لاکھ آبادی کو محصور کر دیا۔ان کی خوراک،بجلی،پانی اور گیس کو بند کر دیا گیا،یوں سمجھیں زندگی ہی معطل ہو گئی۔
اسرائیلی وزارت دفاع نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس نے غزہ کو پانی کی فراہمی کو "فوری طور پر" بند کرنے کا حکم دیا ہے، اور اسرائیلی انفراسٹرکچر کے وزیر یسرائیل کاٹز نے "غزہ کی پٹی سے فوری طور پر پانی اور توانائی منقطع کرنے" کا فیصلہ جاری کیا۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا "انسانیت کے قتل " کا نظریہ لوگوں میں مزاحمت کی خواہش کو توڑنے میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا؟
اس کا عملی جواب بالکل واضح ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور اسرائیل کےد شمن بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔جب جوان اپنے والدین اور بھائیوں کو قتل ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کے بدلے کے لیے ہم سوچ سکتے ہیں کہ وہ کس جذبے کے ساتھ تیار ہوں گے؟
چونکہ 2015 میں "چاقو کا انتفادہ" کے نام سے جانا جاتا تھا، اور 2017 میں الاقصیٰ الیکٹرانک انتفادہ جو نسل پرست اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے- فلسطینیوں کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے گھناونے عمل پر اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیل کی نسل پرست حکومت کی مذمت کی گئی۔ شیخ جراح اور سلوان اب تک کے بڑے گروپس ہیں۔دن بدن واضح ہو رہا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کا نظریہ مقاومت کے سامنے دم توڑ رہا ہے۔
فلسطینیوں کی مزاحمت بے مثال ہے اور اس نے قبضے کے خلاف اپنی ضروریات کی قربانی دی ہے،ان میں شعور آیا ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ علاقے میں آزدی کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔پچھلے کچھ عرصے میں اس بیداری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔اس بیداری میں خالی نعرے لگانے والوں اور مایوس کرنے والوں کو بھی فلسطینی عوام پہچان گئی ہے۔فلسطینیوں نے بے بسی کا راگ الاپنے والوں کا بھی مقابلہ کیا ہے۔
اسرائیل کی اس پالیسی کا اثر ہم فقط ان مغرب پرست افراد میں دیکھتے ہیں جو مغرب سے متاثر ہیں۔ان کی طرف سے بار بار یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیں صیہونیوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے نہیں تو ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس مضمون کے ذریعے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ پالیسی جو صیہونی ریاست اور حکومت کی طرف سے اختیار کی گئی ہے یہ کو ئی جزوقتی یا کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں ہے۔اس کے پیچھے ایک انتہا پسند مذہبی سوچ موجود ہے اور یہ انسانیت دشمن انتقام کی پالیسی کسے کے مفاد میں نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت طویل عرصے تک ظلم وبربریت کی یہ پالیسی برقرار نہیں رکھ سکتی۔اسے بین الاقوامی سطح پر جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔تھوڑے وقت کے لیے عالمی ضمیر خاموش ہو کسکتاہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔
یہ بات ان تک پہنچائی جانی چاہیے جن کی توجہ اس طرف نہیں ہے اور وہ اس سے غافل ہیں۔ان تک بھی جنہوں نے اس ظالمانہ پالیسی کو ذلت و رسوائی کے ساتھ اختیار کیا ہوا ہے۔ہمارے میڈیا ،شخصیات اور سیاستدانوں کو یہ بات وقار کے ساتھ کرنی چاہیے اور انہیں سمجھانا چاہیے جن کے پا س شائستگی اور وقار نہیں ہے۔