22 محرم 1447 هـ   17 جولائی 2025 عيسوى 1:05 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-09-21   384

عائلی قانون پر اختلاف رائے۔ کیا اسلام لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کو جائز قرار دیتا ہے ؟؟!

عائلی قانون کے بارے میں جاری اس بحث میں بعض لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اسلام میں حد بلوغت کو پہنچنے سے پہلے بھی لرکیوں کی شادی کی اجازت دی گئی ہے؟ اور بعض لوگوں نے اسی مسئلے کو لے کر دین اسلام کے قوانین کو ہدف تنقید بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔

احکام شرعیہ کو ثابت نصوص اور متغیرمصالح کے حوالے سے صحیح طور پر سمجھنا ضروری ہے ۔ اسی سلسلے میں نابالغ لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ بھی آتا ہے ۔ قرآن مجید کی یہ آیت کہ: (وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ) (البقرة: 189)اور (ساتھ یہ بھی کہدیجیے کہ حج کے احرام باندھو تو) پشت خانہ سے داخل ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور تم اپنے گھروں میں دروازوں سے ہی داخل ہوا کرو اور اللہ(کی ناراضگی) سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

در اصل یہ حکم اس زمانے کے عرب معاشرے میں رائج ایک غلط رسم کی اصلاح کے لیے آیا۔ جب ان میں سے کوئی شخص حج کے لیے احرام باندھنے کے بعد گھر آتا تو وہ گھر کے دروازے سے داخل نہیں ہوتا تھا بلکہ گھر کے عقب سے دیوار میں سوراخ کر کے اس سے اندر داخل ہوتا تھا۔ اسلام نے آ کر انہیں اس عمل سے منع فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ گھروں میں دروازوں سے ہی داخل ہوں

اگرچہ یہ آیت ایک خاص واقعے کے لیے نازل ہوئی ہے، لیکن قاعدہ یہ ہے کہ کسی حکم کا مخصوص واقعہ سے تعلق اس کے عمومی اطلاق کو محدود نہیں کرتا۔ امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک روایت، جو البرقی کی کتاب 'محاسن' میں مذکور ہے، بھی اسی اصول کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر کام کو اس کے مناسب طریقے سے انجام دینا انتہائی اہم ہے۔ یعنی ہر کام کو اس کے جائز اور درست طریقے سے انجام دینا ضروری ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی کام ہو، اسے صحیح طریقے سے ہی انجام دینا چاہئے

"یہ آیت اپنے عموم کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دینی احکام و قوانین کو ان کے مقاصدِ تشریع کے علاوہ کسی اور طریقے سے بیان کرنے یا ان سے استفادہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت سے یہ استدلال فرمایا کہ اوصیاء الٰہی اللہ تک پہنچنے کے دروازے ہیں، جن کے ذریعے اللہ کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ 'اصول کافی' میں آیا ہے: 'اوصیاء اللہ وہ دروازے ہیں جن کے ذریعے اللہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اگر یہ اوصیاء نہ ہوتے تو اللہ کی حقیقی پہچان ممکن نہ ہوتی۔' انہی مقدس ہستیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر حجت تمام کرتا ہے

اس آیت مبارکہ سے واضح طور پر شریعت کی روح کے مطابق عمل کی جانب دعوت دی جارہی ہے وہ شریعت جس نے ہر حکم کے لئے کچھ حدود و قیود طے کئے ہیں جن سے تجاوز کرنا جائز نہین ہے۔ یہ معاملہ صرف شریعت اسلامی سے خاص نہیں ہے بلکہ یہ تمام آسمانی شریعتوں میں یکساں ہے۔ کسی بھی شریعت میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ جس کے کوئی حدود قیود ہی نہ ہو ۔ اسی لئے فقہاء کے ہاں ایک قاعدہ مشہور ہے، کوئی ایسا عام نہیں ہے کہ جس کی تخصیص نہ ہوئی ہو ،یا اسی طرح کوئی بھی مطلق ایسا نہیں ہے کہ جس کی تقیید نہ ہوئی ہو ۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ عائلی قانون کے بارے میں جاری اس بحث میں بعض لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اسلام میں حد بلوغت کو پہنچنے سے پہلے بھی لڑکیوں کی شادی کی اجازت دی گئی ہے؟ اور بعض لوگوں نے اسی مسئلے کو لے کر دین اسلام کے قوانین کو ہدف تنقید بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، جبکہ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں ، یا انجان بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے جہاں نابالغ بچیوں کی شادی کو جائز قرار دیا وہاں اس میں بنایدی شرط یہ رکھی کہ یہ شادی اس بچی کی مصلحت میں ہو، اسلام نے والد کی ولایت کو بچی کی مصلحت کے ساتھ مشروط رکھا ہے ۔ اسے صرف والد کی شخصی رائے ہی سے نہیں بلکہ عقل و منطق کی نظر میں بھی اس کا بچی کی مصلحت میں ہونے کوضروری قرار دیا ۔

یہ بات واضح ہے کہ گزشتہ زمانوں میں چھوٹے بچیوں کی شادی ایک رائج رسم تھی، اور اس وقت کے حالات اور ان لوگوں کی ثقافت آج کی حالات اور ثقافت سے یکسر مختلف تھی، لہذا آج کے دور مٰں زیادہ تر عقلاء اس قسم کی شادیوں میں بچی کی کوئی مصلحت نہیں دیکھتے ،اسی وجہ سے بچی کے ولی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نابالغ بچی کی شادی کرائے جب تک کہ اس شادی میں بچی کی کوئی مصلحت واضح طور پر موجود نہ ہو ۔

اگر ہم فقہی اور دقیق انداز میں بات کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ بچی کی شادی کا جائز ہونا حکم اولی ہے ، لیکن یہ حکم ایک ایسی شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ جو زمان و مکان کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو سکتی ہے ۔ اور وہ شرط ہے بچی کی مصلحت میں ہونا ۔ یہ مصلحت مختلف معاشروں میں مختلف ہو سکتی ہے ۔ مختلف زمانوں کے اعتبار سے بھی مختلف ہو سکتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم ایک مطلق اور ثابت حکم نہیں ہے ،بلکہ یہ خاص حالات و ظروف کے ساتھ مشروط ہے ۔

مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی السید علی الحسینی السیستانی نے اس مسئلے کو بالکل واضح اور واشگاف الفاظ میں یوں بیاں فرمایا ہے کہ کسی قسم کا شک و شبہہ باقی ہی نہ رہے ۔ جب بی بی سی نے آپ سے یہی سوال پوچھا تو آپ نے اس موضوع کے تمام پہلووں پر روشنی ڈالی ، آپ نے اپنی فقہی مہارت اور دین اسلام کو گہرائی سے سمجھنے کی بہترین صلاحیت کی بناء پر فرمایا کہ نابالغ بچیوں کی شادی سے متعلق احکام مطلق نہیں ہیں، بلکہ یہ احکام عقلاء کی نظر میں موجودہ دور اور حالات کے مطابق بچی کی مصلحت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ اس بیان کے ذریعے آپ نے اسلامی احکام کے بارے میں زبان درازی کے راستوں کو بند کر دیا ، مزید آپ نے اس بات پر تاکید فرمائی کہ اسلام اپنے قوانین میں لوگوں کے مصالح کو فوقیت دیتا ہے اور ایسے قوانین بناتا ہے کہ جن میں زمان و مکان کے تقاضوں کے ساتھ سازگار ہونے کے لئے ضروری لچک موجود ہوتی ہے۔

 جب بی بی سی کے نامہ نگار نے یہ سوال کیا کہ ہمارے پاس ایسی آدیو رکارڈینگز ہیں کہ جن میں دینی علماء لوگوں کو قانونی اعتبار سے شادی کی حد جو یہ عراق میں 15 سال ہے کو پہنچنے سے پہلے بچیوں کے ساتھ شادی کی طرف لوگوں کو ترغیب دلا رہے ہیں ۔ اور وہ اس لرکیوں کے ساتھ جنسی روابط رکھنے کو شرعی عمل قرار دے رہے ہیں ۔ تو اس کے جواب میں مرجع عالی قدر نے لکھا کہ

 

سوال کیا مرجع عالی قدر اس قسم کی حرکات انجام دینے والے دینی علماء کی مذمت کرتے ہیں ؟

جواب : یہ بالکل قابل مذمت ہے اور ان پر بھی وہی احکام جاری ہوتے ہیں کہ جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے(لہذا متعلقہ اداروں اور افراد کی ذمہ داری ہے کہ ایسی قبیح حرکات کے مرتکب لوگوں کوخواہ وہ کوئی بھی ہو ، قانون کے مطابق پکڑیں اور سزا دیں) اور (۔ ہم متعلقہ حکام اور اداروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دینی علماء کا لباس پہن کر اس قسم کی حرکات کرنے والے اور جنسی بے راہ روئی کی طرف دعوت دینے والوں کو شدید ترین سزائیں دی جائیں کیونکہ ان قبیح کاموں کا نہ صرف معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ان سے دین اور اہل دین کی زیادہ بدنامی بھی ہوتی ہے)

مرجع عالی قدر کے رسالہ عملیہ کے شروع کے بعض ایڈیشنز میں یہ جملے لکھے گئے تھے کہ نابالغ بیوی کے ساتھ جماع کے علاوہ باقی جنسی لذات حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعد کے ایڈیشنز میں یہ جملے شامل نہیں کئے گئے ہیں ۔

سوال : کیا مرجع عالی قدر اس سلسلے میں کوئی خاص نصیحت فرمائیں گے ؟

جواب: نابالغ بچیوں کی شادی نابالغ بچوں کے ساتھ کروادینے کا رواج مشرقی معاشروں میں ماضی قریب تک بالکل رائج اور عام سی بات تھی ، اسی لئے ہمارے رسالہ عملیہ کے ابتدائی اڈیشنوں میں اس کے بعض مسائل کو شامل کیا گیا ، لیکن جب ہم نے یہ دیکھا کہ اب ان معاشروں میں بھی اس رواج کا تقریبا خاتمہ ہو چکا ہے تو ہم نے بعد کے ایڈیشنوں میں ان مسائل کا ذکر نکال دیا ۔ جو بات ہم بہت تاکید کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ بچی کے ولی کو بچی کی مصلحت کے علاوہ کسی بھی صورت میں اس کی قبل از بلوغت شادی کا اختیار نہیں ہے ۔ اور عام طور پر شادی کسی بچی کی مصلحت میں تب تک نہیں ہوتی کہ جب تک وہ بالغ ہو کر جنسی عمل کے قابل نہ ہو جائے ۔ اسی طرح کسی بھی بچی کی شادی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کروانا بھی اس بچی کی مصلحت میں نہیں ہے کیونکہ اس سے اسے بہٹ سے قانونی مشکلات کا سامنا ہو سکتاہے جو کہ خود مصلحت کے خلاف ہے ۔

آخر میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض شرعی احکام کے بارے میں جس میں اختلاف اور جدل سامنے آتا ہے جیسا کہ نابالغ بچیوں کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس کی وجہ اکثر اوقات دین کے احکام کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہوتا ہے ، اسلام بنیادی طور پر انسان کے مصالح اور عدالت و انصاف کے قیام کو اہمیت دیتا ہے ۔ دین اسلام کے احکام جس طرح علماء بیان فرماتے ہیں کہ جامد اور مطلق نہیں ہوتے ۔ بلکہ دین کے احکام زمان و مکان کے ساتھ سا گازاور مصلحت عمومی کے مطابق قابل تغیر و تبدل ہوتے ہیں۔ اسی لئے مراجع کرام ہمیشی احکام دین کو ان کے درست سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے پر زور دیتے آئے ہیں ۔ اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہر حکم در اصل کچھ ایسے شرائط سے جڑے ہوتے ہیں کہ جن کا ہونا یا نہ ہونا ان احکام کا زمانے کے ساتھ ساز گار او ہم آہنگ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اس طریقے سے شریعت لوگوں کے اجتماعی مصالح کا خیال رکھتی ہے اور ضروریات کو پورا کرتی ہے ۔ یہاں سے ہم دین کے بنیادی اور حقیقی مصادر کی طرف رجوع کو ضروری سمجھنے اور دینی احکام میں اھل علم سے مشورہ لینے کی اہمیت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں ۔

پس ہمیں دین اور شریعت کا مزید گہرا اور دقیق فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم دین کے چہرے کو بگاڑنے اور دینی احکام کو انحراف کا شکار کر دینے والے لوگوں اور نظریات کا مقابلہ کر سکیں، ساتھ ساتھ ان دینی تعلیمات کا احترام اور تقدس بھی قائم رہے اور جن مقاصد کے حصول کے لئے یہ احکام نازل ہوئے ہیں ان تک رسائی ممکن ہو سکے ، فما ذا بعد الحق الا الضلال فانا تصرفوں پھر حق کے بعد گمراہی کے سو اکیا رہ گیا؟ پھر تم کدھر پھرائے جا رہے ہو؟

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018