15 رجب 1446 هـ   15 جنوری 2025 عيسوى 4:55 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-08-31   178

فرانکینسٹائن اور مابعد جدیدیت کا عہد

شیخ مقداد ربیعی

قدیم سامری سلسلے کا بادشاہ گلگامیش مہاکاوی اس امرت کی تلاش میں سفر پر نکلا جسے پی لینے کے بعد انسان کو ابدی زندگی عطا ہو جاتی ہے۔تاریخ دان ہیروڈوٹس کے کاموں میں جوانی کے ابدی چشمے کے افسانے کا ذکر ملتا ہے۔عباس ابن فرناس جس نے دو پر بنائے تھے کہ وہ پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان نے قدیم زمانے سے انسانی فطرت کے قوانین کی طرف عائد کردہ پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔

یہ سب ایک ایسے نظریے کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کی بنیاد عاجزی و انکساری پر ہو، جو اپنا ہاتھ غیب سے مدد کے لیے بڑھاتا ہو۔اس میں انسان اپنے روحانی پہلو کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو ترقی دینے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ یورپ میں نشاہ ثانیہ اور روشن خیالی کا دور آگیا۔اس دور میں یورپ نے روحانیت سے جڑی ہر چیز کی نفی کر دی اور نطشے کی تعبیر میں بیان کریں تو یہاں سے انسان کے سپرمین ہونے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

یہ ایک حد سے بڑھا متکبر انسان ہے جو سرکش ہے اور اپنے آپ کو خدائی صفات و طاقت کا حامل گردانتا ہے۔انسانیت سے عاری اس انسان کے تکبر کی اللہ تعالی نے مذمت کی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ. مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ. مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ. ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ. ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ)، عبس: 17 ـ 21

ہلاکت میں پڑ جائے یہ انسان، یہ کس قدر ناشکرا ہے۔ ۱۸۔ (یہ نہیں سوچتا کہ) اسے اللہ نے کس چیز سے بنایا ہے؟ ۱۹۔ نطفے سے بنایا ہے پھر اس کی تقدیر بنائی، ۲۰۔ پھر اس کے لیے راستہ آسان بنا دیا۔ ۲۱۔ پھر اسے موت سے دوچار کیا پھر اسے قبر میں پہنچا دیا۔

انسان خدا کا بندہ ہے اس حقیقت کو ملحدین تسلیم نہیں کرتے۔ یہ انسان کو ہی الہ کہتے ہیں،ان کے نام نہاد فلسفی اور ان کی فکر کا دائرہ کار انہیں یہی بتاتا ہے۔یہ لوگ ظاہری اسباب کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لڈوگ فیورباخ نے دینی ظواہر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے،اس کا ہم و غم فقط مادی اسباب تھے۔ فیورباخ اپنی سب سے معروف کتاب "عیسائیت کا جوہر" میں اس رجحان کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔

لڈوگ فیورباخ کی بنیادی بات ہی اس سوال سے شروع ہوتی ہے کہ انسانوں اور جانوروں میں کیا فرق ہے؟ لڈوگ فیورباخ کا خیال یہ ہے کہ انسان اپنی اندرونی بھرپور زندگی کی وجہ سے ممتاز ہوتا ہے یہی بات اسے ماوراء اور لامحدودیت کی طرف لے جاتی ہے۔جب انسان اپنی بشری حدود و قیود سے ٹکراتا ہے جو اسے اس کے عزائم کی تکمیل سے روک رہی ہوتی ہیں تو اس وقت یہ خدا کا تصور ایجاد کرتا ہے یعنی تصور خدا ایک مجبوری کےنتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ہر وہ چیز جو انسانی صلاحیتوں سے بلند ہو وہ خدا کی طرف منسوب کر دی جاتی ہے۔جب انسان کے لیے کمال مطلق کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ جیسے حق،خیر،محبت جو اس کی فطرت کا لازمی حصہ ہیں تو اس وقت وہ انہی کمالات مطلق کو اللہ کی طرف منسوب کر دیتا ہے۔وہ ان مذہبی توہمات کی وجہ سے عقل کو چھوڑ دیتا ہے۔

مختصرا بیان کریں تو انسان کی فطرت کمال مطلق سے متصف ہونا چاہتی ہے لیکن فطرت خود کو اس سے متصف ہونے سے عاجز پاتی ہے تو اس وقت خدا کے کردار کو ایجاد کیا جاتا ہے۔انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یہ خصوصیات فقط خداوں میں ہو سکتی ہیں اور کوئی انسان ان صفات سے متصف نہیں ہو سکتا۔

فیورباخ مذہب کے بارے میں اپنے تجزیے میں کہتا ہے کہ مذہب حیرت انگیز طور پر انسانی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہی فیورباخ نظر میں خدا کو انسان نے خود بنایا ہے۔ فیورباخ آگے کہتا ہے کہ انسان اپنی عظمت اور وقار سے خود خوفزدہ تھا، اس لیے خدا کو کمالات مطلق کے ظاہر کرنے کے لیے پیدا کیا گیا۔ انسان اس وقت پوری پختگی کو پہنچے گا جب اسے یہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ خود ایک خدا ہے۔

نطشے ہمدردی اور عاجزی کی خصوصیت والے انسان کو حقیر سمجھتا ہے۔ وہ ایسے انسان کو بزدل اور کمزور قرار دیتا ہے۔نطشے ایسے انسان کو جو ان سے آزاد ہے سپر مین کہتا ہے جو اعلی انسان ہے۔وہ دین پر تہمت لگاتا ہے کہ دین دراصل ہارنے والوں کا کامیاب ہونے والوں سے ایک انتقام ہے۔وہ خود کے خدا ہونے کا اعلان کرتا ہے،جو خالق قدرت مند ہے اور ہر وجود پر قدرت رکھتا ہے۔

وہ اپنی کتاب "The Antichrist" میں کہتا ہے: "کمزور اور ہارنے والوں کو مرنے دو: یہ انسانیت سے ہماری محبت کا پہلا اصول ہے۔ "اور آئیے ان کی ختم ہونے میں مدد کریں۔"

کارل مارکس نے بھی یہی نظریہ اختیار کیا جب اس نے کہا: ’’مذہب مظلوم انسان کی آہ ہے، یہ بے دل دنیا کے لیے دل ہے، اور یہ بے روح ظروف کے لیے روح ہے۔ مذہب معاشروں کے لیے افیون ہے۔

فکری بے باکیوں اور فلسفی جولانیوں کی موجودگی میں انہیں بالکل بھی یہ توقع نہیں تھی کہ انسان اپنی تمام تر طاقت کو اپنی حدود میں ظاہر کرے گا۔ فرینکنسٹین کا افسانہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب کوئی مخلوق اپنے خالق کے کنٹرول سے نکل جاتی ہے۔ایسی مخلوق خود اس کے خلاف ہو سکتی ہے اور یہ جہاں بھی جائے گی تباہی ہی پھیلائے گی۔ہم نے اس پر ایک مستقل مضمون لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ جب الحاد نے بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیار کا کردار ادا کیا۔

جہاں تک ان کے اس دعوی کی بات ہے کہ دین انسان کو کمزوری کی طرف لے جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کی عبودیت انسان کو ذلت اور رسوائی کی طرف لے جاتی ہے۔

یہ بات دینی فکر کے اور خصوصی اسلامی فکر سے متصادم ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ)، المنافقون: 8

۸۔ کہتے ہیں: اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں تو عزت والا ذلت والے کو وہاں سے ضرور نکال باہر کرے گا، جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔

ہم اس سوال کو ذرا گہرائی سے کرتے ہیں کہ اللہ کی عبودیت کی حقیقت کیا ہے؟

قرآن مجید کی آیات کو مزید دیکھتے ہیں ارشاد ربانی ہوتا ہے:

(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ. مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ. إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ)، الذاريات: 56 ـ 58

۵۶۔ اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔ ۵۷۔ میں نہ ان سے کوئی روزی چاہتا ہوں اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۵۸۔ یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، بڑی پائیدار طاقت والا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کا مقصد اپنی عبادت کو قرار دیا ہے۔اللہ تعالی انسان کی عبادت کا محتاج نہیں ہے۔آیات قرآنی یہ بات واضح الفاظ میں بتاتی ہیں کہ انسانوں اور جنوں کی عبادت سے اللہ کی کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوتا۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کو مقصد قرار دینے کا مقصد کیا ہے؟ دوسرے الفاظ میں اللہ نے انسان کا مقصد عبادت کو قرار دیا ہے مگر یہاں سوال کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ہم یہاں بھی یہ جاننے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اس کو مقصد قرار دینے کا مقصد و وجہ کیا ہے؟

اختصار کے ساتھ بیان کریں تو عبادت وہ اعلی ترین کمال ہے جس پر انسان فائز ہو سکتا ہے۔اللہ تعالی یہ بتانا چاہتا ہے کہ مخلوق شکر ادا کرے اور اس کا شکر ادا کرنے کے نتیجے میں انسان کو کمال تک پہنچانے کا ذمہ اللہ نے اپنے اوپر لے لیا ہے۔اس تفسیر کی روشنی میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ عبادت ایسا عمل جو انسان کو تکامل تک پہنچاتا ہے۔ یہ غلامی اور کمزوری نہیں ہے۔ بندگی سے انسان علیم اور مہارت کی اعلی منازل تک پہنچ جاتا ہے۔اس کے ذریعے انسان کائنات کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور یہ واضح ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا)، الطلاق: 12

۱۲۔ وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔

اس آیت مجیدہ پر غور کریں تو یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ انسان اس کائنات کی تخلیق کا مقصد ہے۔وہ ہر چیز میں غور و فکر کرے اور اس پروردگار کا ادراک کرے جس کے سوا کوئی طاقت نہیں اور وہی اللہ ہی طاقت و قدرت کا مالک ہے۔

اس کا مطلب محض نظریاتی سمجھ اور علم ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ وہ علم ہے جس سے انسان کائنات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ ابراہیم علیہ السلام کو آزمائش کے بعد عطا کیا گیا۔ یہ عظیم فائدےکا حامل ہے۔ اس میں کامیابی کے بعد خدا نے انہیں عالمین کا امام بنا دیا جو زمین و آسمان میں تصرف کرسکتے تھے،اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

(وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ)، الأنعام: 75

۷۵۔اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔

یعنی پر رویا علم کے معنی میں ہے۔ یہاں پر علم طاقت کے ساتھ ہے دراصل یہ ایک ہی حقیقت ہیں۔

یہی وہ ایمان تھا جس کے نتیجے میں حضرت ابراہیم ؑ مردوں کو زندہ کرتے تھے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، البقرة: 265

۲۶۵۔ اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی خوشنودی کی خاطر اور ثبات نفس سے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو، جس پر زور کا مینہ برسے تو دگنا پھل دے اور اگر تیز بارش نہ ہو تو ہلکی پھوار بھی کافی ہو جائے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

آپ غور کریں کہ مردہ کو زندہ کرنے والے تو حضرت ابراہیمؑ ہیں مگر آیت کا اختیار پروردگار کی ذات پر ہو تا ہے جو کہ قدرت کا اعلی درجہ ہے۔یہ سب سے بڑی قدرت ہے جو  کسی چیز سے عاجز نہیں ہے۔حکمت و علم کے اعلی ترین درجات میں سے ہے۔حکمت اور عزت کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہے۔حالانکہ ان کے انجام دینے والے حضرت ابراہیمؑ ہیں۔یہ اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہے کہ یہ سب کچھ  جو حضرت ابراہیمؑ انجام دے رہے ہیں یہ اللہ تعالی کی طرف سے فیض کا نتیجہ ہے اور اسی کی نعمت ہے۔حضرت ابراہیمؑ نے اسے حاصل کیا،اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبادت کرنے والا پوری دنیا پر حکومت کی  صلاحیت رکھتا ہے۔ مذہب طاقت کا ذریعہ ہے کمزوری کا نہیں جیسا  بعض لوگ  لوگ  یہ تصور کرتے ہیں۔

گزری بحث سے ہم اللہ کا یہ فرمان بھی سمجھتے ہیں جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.)، هود: 119

۱۱۹۔ سوائے ان کے جن پر آپ کے رب نے رحم فرمایا ہے اور اسی کے لیے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے اور تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہو گیا (جس میں فرمایا تھا) کہ میں جہنم کو ضرور بالضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

رحمت انسان کی تخلیق کا مقصد ہے، اسے اپنے کمال کی منزل تک پہنچانا ہے  جو عبادت ہے۔یعنی اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور اس کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018