18 ربيع الثاني 1446 هـ   22 اکتوبر 2024 عيسوى 3:36 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-08-26   301

الحاد انسانی تباہی کا نظریہ !

شيخ مقداد ربيعي

1914 سے پہلےیورپ کے لوگ بڑی بے تابی سے جنگ کا انتظار کر رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ جنگ چھڑ جائے۔یہ جنگ  کیوں چاہتے تھے؟ اور اس کے آنے پر خوشی کا اظہار کیوں کر رہے تھے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت یورپ نے اپنے سکولوں میں جو نصاب لاگو کیا تھا اس کی بنیاد سوشل ڈارونزم پر تھی جو اس وقت یورپی معاشرے پر حکمران نظریے کے طور پر غالب تھا۔اس میں جنگ کو ترقی کی علامت کے طو رپر دیکھا جاتا ہے کہ جنگ اپنے ساتھ  معاشی سرگرمی لے کر آتی ہے۔

امریکی مورخ تھامس نیپ آف لائل یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں۔تاریخی طور پر، ہم نے دیکھا ہے کہ نظریات، خواہ وہ مذہبی ہوں یا فلسفیانہ، اکثر جنگیں شروع کرنے کا باعث بن جاتے تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے ملحدوں نے  بڑی چالاکی سے ساری جنگوں کو شروع کرنے کی تہمت مذہب پر لگا کر دیگر وجوہات کو پس منظر میں ڈال دیا ہے۔

اگرہم انسائیکلوپیڈیا آف وارز کا مشاہدہ کریں جو اس معاملے پر ناقابل تردید حوالہ فراہم کرتا ہے جو مذہب سے ہٹ کر جنگوں کی دوسری وجوہات کی تصدیق کرتا ہے، انسائیکلوپیڈیا آف وارز میں پوری انسانی تاریخ  کی1,763 جنگیں درج ہیں۔ ان جنگوں میں سے 123کی جزوی طور پر وجہ مذہبی تھی۔یہ کل جنگوں کا 7 فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ یہ پہلا اور ناقابل انکار حوالہ ہے:ان جنگوں میں مذیب کی بنیادپر لڑنے والی جنگیں  بہت کم ہیں  جبکہ دیگر وجوہات والی جنگیں  بہت زیادہ ہیں۔

یہ کیسے شروع ہوا؟

1870 کی دہائی جو "سوشل ڈارونزم" کے نام سےجانی جاتی ہے اس میں یہ نظریہ سامنے آیا۔اس میں کچھ ملحدوں کی جانب سے یہ تحریک چلائی گئی کہ جس میں اس نظریہ کو پھیلایا گیا کہ مذہب جنگوں کی وجہ ہے تاکہ اس کے علاوہ دیگر اخلاقی نظاموں کے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

 یہ کچھ ملحدوں کی طرف سے مذہب کے علاوہ اخلاقیات کے وجود کو جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش تھی، جس کا احساس ملحد اور شدید وجود پرست فلسفی نے کیا۔ اس کا نام  جان پال سارتر ہے یہ ملحد اور وجودیت پسند فلسفی  ہے ۔اپنے نظریے میں اس نے فکری بحث کی ہے اور خیر و شر کے درمیان اخلاقی فرق کو واضح کیا ہے وہ کہتا ہے:وجودیت پسند فلسفی جب دیکھتا ہے کہ اگر خدا نہیں ہے تو اس کے بغیر دنیا میں کسی اخلاقی قدر کے میسر ہونے کا کوئی امکان نہین ہے۔اخلاق کی بنیاد خدا کے وجود کو تسلیم کرنے  پر ہے۔کوئی بھی اچھائی محض دنیا میں موجود نہیں ہے کیونکہ اگر خدا کو نکال دیں تو لامحدود اور شعور کامل جو یہ فیصلہ کر سکے وہ وجود ہی نہیں رکھتا۔یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ یہاں ہر صورت میں اچھائی ہے اور یہ بھی ضروری نہ ہو گا کہ انسان کو سچ بولنا چاہیے اور جھوٹ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رچرڈ ڈاکنز کے نظریات اور الحاد کے درمیان مطابقت پائی جاتی ہے۔اسی لیے وہ اخلاق کے کسی بھی معیار کو پوری طرح سے رد کرتا ہے اور اخلاقی مشکل کا اقرار کرتے ہوئے کہتا ہے:"اس دنیا میں  کوئی اچھائی اور برائی نہیں پائی جاتی یہاں بے رحم اندھیر نگری کے سوا کچھ نہیں ہے"وہ یہ بھی کہتا ہے:"میرے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ میں مذہب کے علاوہ کسی بھی پیمانے پر اخلاق کا دفاع کروں"

امریکی محقق ایلا ایڈری ڈیوڈ برلینسکی دوستوفسکی کے اس قول کی وضاحت کرتے ہیں: "اگر خدا موجود نہیں ہے تو پھر سب کچھ جائز ہے" اس سے واضح طور پر اس بات کا پتہ چلتا ہے: "اگر اخلاقی ذمہ داریاں خدا کی مرضی سے متعین نہ ہوں اور یہ اخلاقی ذمہ داریاں مطلق نہ ہوں گے۔اس وقت اخلاقی معیارات کا فیصلہ حتمی نہیں ہو گا۔ یہ ایک طرح سے ہم کہہ رہے ہیں کہ خدا کاوجود نہیں ہے۔جب خدا کا وجود نہیں ہے تو سب کچھ جائز ہے؟"

ڈارون نے خود خدا پر یقین اور زندگی میں اس کے موثر ہونے کی تعریف کی ہے وہ کہتا ہے: "اور سب سے زیادہ مہذب نسلوں کے لیے، خدا کے وجود پر پختہ یقین، جو ہر چیز سے واقف ہے، اخلاق کی ترقی پرزبردست اثر ڈالتا ہے۔"

یہاں ایک اور بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ڈارون کا نظریہ  طبعی انتخاب اور انتخاب اجتماعی ایک جیسے ہیں۔جس میں آمریت کی حمایت، نسل کاتفاخر، نسل پرستی، سامراج، فاشزم، نازی ازم اور قومی یا نسلی گروہوں  سے مقابلے پر زور دیا گیا ہے۔

انسانوں میں موجود جینز ان میں نسلی تصادم کا راستہ کھولتے ہیں۔اس میں تمام اخلاقی تصور بدل جاتے ہیں۔جنہیں اخلاق سمجھا جاتا ہے یہ غیر اخلاقی نظریات سے بدل جاتے ہیں۔اچھائی برائی بن جاتی ہے،جینیاتی جین کے مطابق لوگوں کی تمیز ایک ایسے نسلی تصادم کا راستہ کھولتی ہے جس میں تمام اخلاقی تصورات غیر اخلاقی تصورات میں بدل جاتے ہیں، اور اچھائی برائی بن جاتی ہے، نسل پرستی نیکی بن جاتی ہے، انصاف کمزوری، ناانصافی طاقت، انصاف مضحکہ خیز اور رحم جہالت بن جاتا ہے۔ حقوق  صرف اور صرف طاقتور اور صاحبان اقتدار کے لیے ہوتے ہیں۔

اس نسلی معیار کا نتیجہ یہ ہو گا:نام نہاد اعلی نسل کا دوسری نسل کو وحشیانہ انداز میں ختم کرنے کا حق دینا ہو گا،اسے یہ کہا جائے گا کہ یہ قدرت کا فیصلہ ہے کہ سب سے طاقتور اور اعلی بچ جائے۔ ڈارون اپنی کتاب "دی ڈیسنٹ آف مین" میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتا ہے:آنے والے کسی مرحلے پر جو کہ معین ہے یہ بات بعید نہیں ہے کہ  مہذب یا اعلی انسانی نسلیں جنہیں وہ وحشی خیال کرتی ہیں  ان کی جگہ لے لیں گے"انسان کی اصل،فصل ششم

یہاں سے ہم جدید امریکی مؤرخ تھامس کنپ کی رائے کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ کہتا ہے: "1914 عیسوی سے پہلے، لوگ انتہائی جذبے کے ساتھ جنگ کا انتظار کر تے تھے، اور وہ جنگ شروع ہونے کی خواہش رکھتے تھے اور اس خوشی کا مقصد اس زمانے میں لوگوں پر سوشل ڈارونزم کا غلبہ تھا۔ اسے اس وقت یورپ کے اسکولوں میں بطور نصاب لاگو کیا گیا تھا، اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جنگ انسانی ترقی کا سب سے مضبوط محرک اور سرگرمی ہے۔

آغاز کی طرف واپسی

سب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ الحاد تشدد کا باعث بنتا ہے،اس کے ذریعے جنگیں ہوتی ہیں اور کمزوروں کو کچل دیاجاتا ہے۔الحاد ایک رجحان ہے، بطور رجحان اس کی  عمر تین صدیوں سے زیادہ نہیں ہے۔ان تین صدیوں میں الحاد نے بہت ترقی کی ہے۔اس کے ذریعے موت اور جنگیں ہوئی ہیں۔اس کی تصدیق مؤرخ جیفری بلینی نے کی ہے حالانکہ یہ نطریاتی تشدد جو مذہب سے جوڑنے کی جلدی کرتا ہے وہ کہتا ہے: "وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے سب سے سفاک رہنما ملحد اور سیکولر تھے، جو یہودیت اور عیسائیت دونوں کے شدید مخالف تھے،" انہوں نے کہا کہ " بعد میں مشرق میں ان پرجوش ملحدوں، پول پوٹ اور ماؤ زیڈونگ کے ذریعہ بڑے پیمانے پر مظالم ڈھائے گئے۔ تمام تہذیبیں اپنے  جرائم کی وجہ سے اپنے لیے تاریخ میں   کئی صفحات سیاہ کرتی ہیں۔

آئیں ہم ان اعداد شمار پر روشنی ڈالتے ہیں جس  سے ہمیں الحاد کے جنونی رہنماوں کے قتل عام کا پتہ چلے گا۔ہم بہت آسانی سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جب الحاد اور سیاست مل جاتے ہیں تو یہ تباہی لاتے ہیں۔آپ دوسری جنگ عظیم کے ان متاثرین کو ہی دیکھ لیں جس میں بیس ملین لوگ ملحد نازی جرمنی کے ہاتھوں مارے گئے مگر اس پر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے یہ نتائج اکثر قارئین کو معلوم ہیں۔

فرانسی انقلاب

اس دور میں جسے مورخین نے "فرانسیسی انقلاب" کا دور کہا ہے ۔اس میں کیتھولک عقیدےکے مطابق اس کے سب سے زیادہ رہنما ملحد تھے اور یہ چرچ کو سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ اس دور کو تاریخی طور پر "دہشت کا دور" کہا جاتا تھا، اس میں مذہب کے ہر نشان کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ " وانڈی کا علاقہ انقلاب کی ہولناکیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے کے طور پر نمایاں ہوا۔ 1793 کے آغاز میں، نوجوان فرانسیسی فرسٹ ریپبلک نے انقلاب کی کامیابیوں کے دفاع اور پڑوسی ریاستوں تک اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے 300,000 شہریوں کو بھرتی کرنے کا حکم نامہ جاری کیا، لیکن وینڈی کے علاقے کے مردوں نے بھرتی ہونے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کو نئی جمہوریہ اور اس کی فوج کی طرف سے پرتشدد اور خونی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

سلامتی کے ادارے نے سب سے ظالم لشکر کو یہاں بھیجنے کا حکم دیا جنرل ٹور نے پورے وندے کو اجتماعی قبر میں تبدیل کر دیا  اس نے وندے میں موجود بچوں اور عورتوں سمیت ہر انسان کو مارنے کا حکم دیا۔

فرانز جوزف ویسٹر مین، آرمی آف دی کوسٹس آف لا روچیل (ریپبلک کی خدمت میں وینڈی کی فوج) کا ایک کمانڈر ہے، جسے "وینڈی کا قصاب" کا لقب دیا جاتا ہے۔اس نے وینڈی کی ہولناکی پر یہ الفاظ لکھے ہیں: "اب کوئی وینڈی میں زندہ نہیں ہے، سب مرگئے ہیں۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو ہماری تلوار نے  دلدل اور جنگل میں دفن کردیا۔ جو حکم مجھے دیا گیا اس کے بعد  بچوں کو گھوڑوں کے کھروں کے نیچے کچل دیا اور عورتوں کو ذبح کر دیا تاکہ وہ مزید ڈاکو وں جنم نہ دیں۔ میرے پاس کوئی قیدی نہیں ہے کہ میں اپنے آپ کو قصوروار ٹھہراؤں۔ "سب کچھ فنا ہو چکا ہے۔"

میکسیکن انقلاب

1910 میں پھوٹنے والا میکسیکو کا انقلاب ایک آتش فشاں کی مانند پھوٹا تھا جس میں مذہب  کی مخالفت میں  قتل عام کا لاوا پھوٹا، وہ قتل عام جس کی بربریت اور وسعت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1917 میں شروع ہونے والا انقلابی آئین جسے Queretaro Constitution کہا جاتا ہے، جس کا مسودہ صدر Carranza نے تیار کیا،اس نے  مذہب کے حق پر مطلق العنان ریاستی آمریت قائم کی۔ آئین میں آرٹیکلز کا ایک پیکج شامل تھا جو مخالف علما کی سیاہی سے کندہ  کیا گیا۔ ملک نے جابرانہ اقدامات کا ایک سلسلہ دیکھا۔

صدر کالس کا دور ا نیس سو چوبیس میں شروع ہوا اس نے مذہب کے خلاف و ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا۔اس نے کسی پر رحم نہیں کی اور اہل مذہب کا قتل عام کیا۔آبادی کے ایک وسیع طبقے کی طرف سےدرست  مزاحمت کے پیش نظر صدر نے مذہب کے خلاف حکومت کے جابرانہ قوانین کو نافذ کرنے کے لیے فوج کو استعمال کیا۔

نومبر 1910 میں فرانسسکو مادیرو کے ذریعہ شروع ہونے والے انقلاب نے ایک ملین میکسیکن کو ہلاک کردیا۔

سوویت الحاد

ایک سو سال پہلے سوویت یونین میں شامل یوکرین نے آزادی کی کوشش شروع کی۔اس کے سوویت رہنماون نے یوکرین پر موت کو مسلط کر دیا،یہاں جان بوجھ کر قحط مسلط کیا گیا جس سے فاقہ کشی کی وجہ سے بہت اموات ہوئیں بلکہ جان بوجھ کر نسل کشی کی گئی۔1932 اور 1933 کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے جسے بعد میں نشل کشی قرار دیا گیا۔

روسی مصنف الیگزینڈر سولزینیتسن کی ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک مشہور تقریر میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ: " سوشلزم کے ملک میں نفاذ  کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا حاصل یہ ہے کہ میں کسی بھی طرح سوشلسٹ متبادل نظام تجویز نہیں کروں گا۔ ہر سوشلزم عام طور پراور اپنے تمام مظاہر میں انسان کی روحانیت کی مکمل تباہی، صلیب پر انسانیت کو بسانے کے مترادف ہے۔" ہمت کا زوال، 8 جون 1978۔

ہسپانوی خانہ جنگی

ہسپانوی خان جنگی ۱۹۳۶ تک نہیں پھوٹی تھی لیکن جہان تک مذہبی تشدد کی بات ہے تو وہ  جیسے ہی ۱۹۳۱ میں دوسرے ہسپانوی جمہوریہ کا اعلان ہوا اسی وقت شروع ہو گیا تھا۔ کورٹیس میں نئے آئین کی تیاری کے دوران فرانسسکو لارگو کیبالیرو، جنہوں نے جنہیں"ہسپانوی لینن" کہا (وہ ستمبر 1936 میں حکومت کے سربراہ بنے) نے واضح الفاظ میں کہا: "حساب کا وقت آ گیا ہے، ""تمام پادریوں اور پریسٹوں کو پھانسی دی جانی چاہیے،" "ہماری سرزمین سے مذہب کا خاتمہ ہونا چاہیے۔"

جولائی 1937 میں، کاتالان اخبار L'Esquella de la Torratxa نے اعلان کیا: "یہ(مذہب) ختم ہو گیا، اب ہمیں یقین ہو گیا ہے!" ہم نے تمام پادریوں کو مار ڈالا، ان تمام لوگوں کو جو پادریوں کی طرح نظر آتے تھے، اور ان تمام لوگوں کو جو ہمیں پادریوں کی طرح نظر آتے تھے۔

16 فروری 1938 کو اسپین میں فرانسیسی سفیر ایرک پیئر لیبون نے اپنے وزیر خارجہ کو درج ذیل رپورٹ بھیجی:

"مذہب کے حوالے سے ریپبلکن اسپین کے موقف میں تضاد ہے۔ کیاعجیب منظر ہے! دو سال ہوئے بڑے پادری قتل کر دیے گئے ہیں ، گرجا گھروں کو تباہ، خالی اور برباد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی دیکھ بھال اور کوئی عبادت نہیں ہے۔ ہجوم والی سڑکوں کے درمیان اور شہر میں ذرا ہٹ کر چرچ کے کھنڈرات متاثرہ جگہوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ جہاں لوگ ان کی طرف دیکھنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔لوگ اپنا خوف چھپاتے ہیں اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ خدا کے گھر ہیں اور ان کی تباہ حالی  انتقام اور نفرت کی مستقل علامت بن کر کھڑی ہے۔ تمام خانقاہوں کا ایک ہی انجام ہوا ہے۔ راہب، راہبہ، پادری سب غائب ہو گئے۔ ان میں سے بہت سے مارے گئے۔ کچھ ہمارے قونصلوں کی مدد اور کوششوں سے فرانس فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ (...) ان  کے فرمان سے مذہب کا وجود ختم ہو گیا۔ تمام مذہبی مظاہر جبر اور خاموشی کے بوجھ تلے  دبے ہیں۔ تاہم ریپبلکن اسپین کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت ہے۔ اس کی حکومت اس کا  اعلان کرتی ہے کہ وہ آزادیِ فکر، ضمیر کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت کرتی ہے۔ اس نے پروٹسٹنٹ اور یہودیوں کی عبادت گاہوں  کو قبول کیا، لیکن کیتھولک ازم کے لیے بالکل بھی رواداری نہیں دکھائی۔یہ  تضاد اتنا شدید ہے کہ ان کے خلوص پر شک پیدا ہوتا ہے۔اس سے اس کے بیانات اور اس کے حقیقی احساسات پر شک پیدا ہوتا ہے۔"

پاپولر فرنٹ کی خون کی یہ پیاس " 7,000 سے زیادہ پادریوں اور دسیوں ہزار دوسرے لوگوں کی موت کا سبب بنی۔

البانیہ اینور ہوکسہ کے دور میں

بیسویں صدی کے پہلے نصف کے دوران، البانیہ میں مسلمانون اور مسیحیوں کا  تناسب تقریبا برابر  تھا جو  (بالترتیب 47% اور 53%) ہے۔

1946 سے 1990  کے دوران  کسی بھی مذہبی  سرگرمی  کو پرتشدد طریقے سے دبایا گیا۔ البانوی کمیونسٹ حکومت، ایک سٹالنسٹ  آمریت تھی۔ ا س میں بہت زیادہ جابرانہ نظام تھا۔اس نے فکری مخالفین کو کچلنے کے لیے بہت زیادہ آپریشن کیے۔ خفیہ پولیس نے ان تمام لوگوں کو بے اثر کر دیا جنہیں وہ حکومت کے مخالف سمجھتے تھے: شہریوں پر ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی، مذاہب پر پابندی لگا دی گئی اور کچھ مذہبی رہنماؤں کو قتل کر دیا گیا۔ 1967 میں، اینور ہوکسا، جو اس وقت البانوی لیبر پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے (اور 1985 تک ملک کی قیادت کرتے رہے)، نے تمام مذہبی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کیا اور عوامی جمہوریہ البانیہ کو "دنیا کی پہلی ملحد ریاست" قرار دیا۔ الحاد نے ریاست کی آبادی کو 1967 اور 1990 کے درمیان کسی بھی مذہبی عمل کو ترک کرنے پر مجبور کیا۔

صرف 30 لاکھ آبادی کے اس چھوٹے سے ملک میں 8000 سے زیادہ البانویوں کو موت کی سزا سنائی گئی (ان میں بہت سے علماء بھی تھے) اور ہزاروں عبادت گاہیں بند کر دی گئیں۔ 1990 میں کمیونزم کے خاتمے کے ساتھ ہی مذہبی ظلم و ستم کا خاتمہ ہوا۔

شمالی کوریا

15 اگست 1945 کو جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اس کے بعد کم ال سنگ نے خود کو ملک کے مرکزی رہنما  اور  ورکرز پارٹی آف کوریا کے سیکرٹری جنرل کے طور  پر مسلط کر لیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعدکمیونسٹ حکومت نے مذہبی سرگرمیوں کو غیر قانونی تصور کرتے ہوئے اور انہیں سیاسی جرائم  میں شامل کر لیا جن کی انجام دہی  سزا ہے۔ مذہبی ظلم و ستم کی سخت پالیسی اپنائی ہے۔

ملک کے دو بنیادی نظریات کی وجہ سے کوئی بھی مذہبی عمل معاشرے کا دشمن  قرار دیا گیا ہے: "جوچے" (جو خود انحصاری کی وکالت کرتا ہے) اور ایک شخصیت پرستی کا فرقہ جس کی ہدایت کم خاندان  کی طرف سے دی  گئی تھی۔

چونکہ حکومت نے کم خاندان کو الوہیت کا درجہ دیا ہے، اس لیے کوئی بھی فرد جو کسی دوسرے فرقے پر عمل کرتا ہے اسے فوری گرفتاری، جبری مشقت ،کیمپ میں حراست، تشدد اور پھانسی تک  کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حکومت کی طرف سے بچوں کو بھی اپنے مذہبی ہونے یا مذہبی والدین کی مذمت کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک مشہور رپورٹ، جو 2014 میں شائع ہوئی،اس میں  حکمران اتھارٹی کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کی خوفناک  صورتحال کا پتہ چلتا  ہے۔

اس   رپورٹ سے  چند اقتباسات:

کمیشن نے پایا کہ عوامی جمہوریہ کوریا کی طرف سے منظم، وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں ۔ بہت سے معاملات میں، یہ خلاف ورزیاں انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ قتل، غلامی، تشدد، عصمت دری، جبری اسقاط حمل اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سیاسی، مذہبی، نسلی اور صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم کیا گیا۔ آبادی کی جبری منتقلی، گمشدگیاں، اور غیر انسانی کارروائیاں جو جان بوجھ کر طویل مدتی قحط کا باعث بنتی ہیں۔

گزشتہ پچاس سالوں میں لاکھوں سیاسی قیدی کیمپوں میں مر چکے ہیں۔

انہیں بتدریج جان بوجھ کر بھوک، جبری مشقت، پھانسی، تشدد، عصمت دری، سزاؤں کے ذریعے تولیدی حقوق سے انکار، جبری اسقاط حمل، اور شیر خواروں کو  قتل کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔

اس وقت 80,000 سے 120,000 کے درمیان سیاسی قیدی سیاسی قیدیوں کے لیے چار بڑے  کیمپوں میں زیر حراست ہیں۔

چین

جب عوامی جمہوریہ چین بن رہا تھا تو یہ اعلان کیا گیا کہ کیمونسٹ اور الحاد کے باوجود وہ اپنے شہریوں کو مذہبی عمل کی آزادی کی ضمانت دے گا۔ لیکن یہ وعدے جلد ہی غلط ثابت ہوئے: کچھ ہی عرصے میں، غیر ملکی پادریوں کو نکال دیا گیا، زیادہ تر مقامی لوگوں کو قید کر دیا گیا، اور عبادت گاہیں بند کر دی گئیں۔

1966 اور 1976 کے درمیان ثقافتی انقلاب آیا، جس کے دوران دسیوں ملین لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا (اموت کی تعداد 20 ملین سے زیادہ ہونے کا تخمینہ ہے)۔اس سے چین میں مذاہب کے لیے ایک نئے تاریک دور کا آغاز ہوا: روایتی ثقافت  و اقدار کو تباہ کیا گیا، عبادت گاہوں کو ڈھایا گیا اور بہت سےاہل ایمان  اور پادریوں کی گرفتاری ہوئی، بہت سوں کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اوربہت سے قتل ہوئے۔

ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ اویغور مسلمان حراستی کیمپوں میں ہیں جو کل  پرامن قید شہریوں کے 10 فیصد کے برابر ہیں۔ آج  یہ لوگ چین کے بدنام زمانہ حراستی کیمپوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، جنہیں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے"ری ایجوکیشن کیمپ" کہا جاتا ہے۔ ایسے دسیوں ہزار دوسرے لوگ  ہیں جنہیں بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے موت یا عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

اگرچہ اویغور آبادی والا سنکیانگ خطہ پہلے ہی جبر کا شکار تھا اور چینی ریاست  نے  الحاد کے نام پر نگرانی میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ موجودہ وحشیانہ کریک ڈاؤن نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے  بعد ایک خوفناک اور زیادہ منظم شکل اختیار کر لی ہے۔ چینی حکومت نے اس عالمی استحصالی  مہم "دہشت گردی سے لڑنے" کے بہانے اپنے وحشیانہ جبر کا جواز پیش کرنے اور ایغوروں کے خلاف اپنی مہم کو تیز کرنے کے لیے استعمال کیا۔جنہیں چینی ریاست  "سیکیورٹی خطرے" کے طور پر دیکھتی ہے۔

 یہ صرف مذہبی جبر تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کے خلاف ایک جامع جنگ میں بدل گیا ہے، کیونکہ ایغوروں کے اسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش میں ہزاروں مساجد کو تباہ کر دیا گیا اور مذہبی کتابیں ضبط کر لی گئیں۔

ایتھوپیا کا سرخ انقلاب

ایتھوپیا کا انقلاب جس نے 1974 میں شہنشاہ ہیل سیلسی کا تختہ الٹ دیا، یہ ملک کو ایک نئے، کمیونسٹ دور میں لے آیا۔ نئے رہنما، مینگیسٹو، انقلاب کے رہنما بنے، جسے "ڈیرگ" (ایتھوپیا کی عارضی فوجی حکومت) کی حمایت حاصل  تھی کا عرفی نام "ریڈ نیگاشے" رکھا گیا (لفظ نیگاشے ایتھوپیا کا ایک عظیم لقب ہے، جو بادشاہ کے برابر ہے اور سرخ رنگ کا نام ہے۔ گرے ہوئے خون اور کمیونزم کے رنگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں)۔ اس نے جلد ہی ایتھوپیا کو کمیونسٹ ریاست قرار دیا اور الحاد کے حق میں مذہب پر پابندی لگا دی۔ "انقلاب کے دشمنوں" کے خلاف تشدد کا آغاز ہوا ۔یہ ایک انتہائی علامتی عمل سے ہوا: اس نے 14 اپریل 1977 کو اپنی تقریر کے دوران زمین پر سرخ مائع کی بوتلیں توڑ دیں۔ یہ "سرخ دہشت گردی" کا جنم تھا۔

1994 اور 2006 کے درمیان افریقی نیورمبرگ  ٹربونل  کے  مطابق، ایتھوپیا میں "ریڈ ٹیرر" نے 1975 سے لے کر اب تک ایک ملین سے زیادہ افراد کے قتل عام کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018