

نظریات کی تقدیس اور دین داروں پر غلط الزام ؟
شیخ مقداد ربیعی
دینی و مذہبی ذہنیت رکھنے والوں پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ دینی نصوص اور مقدس کتابوں میں موجود افکار و نظریات کو بلا سمجھے اور بغیر کسی غور و فکر کے قبول کر لیتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ غیب پر ایمان کے نظرئے کا دفاع کرنا اور اس کی تشریح کرنا ہی ان کا کام ہے ، اس کے علاوہ ان کا کام یہ بھی ہے کہ اس نظریہ غیب کو اس طرح پیش کیا جائے کہ اس میں بہترین انتظام اور عاقلانہ تدبیر نظر آئے۔ تو اس کے مقابلے میں ایک اور نظریہ ہے جسے علمی و تحلیلی نظریہ کہا جاتا ہے کہ جس میں اس رائج نطریہ غیب پر مسلسل نقد و تبصرے ہوتے ہیں، اس سلسلے میں صادق جلال العظم کی کتاب" نقد الفکرا لدینی " قابل مطالعہ ہے ۔
ان لوگوں کے نزدیک امت اسلامیہ کی تنزلی اور بد حالی در اصل اسی طرز تفکر کی وجہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے افکار و نظریات کو تقدیس کا لباس پہنا دیتے ہیں ،اور ان افکار ونظریات سے آگے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔ جبکہ اس کے برعکس آزاد فکری نظام میں کسی شئی یا نظرئے کو مقدس نہیں سمجھا جاتا بلکہ پوری دیانت اور کوشش سے حقیقت کو تلاش کرنے کی جانب سفر کرتے ہیں۔
کیا افکار و نظریات کو مقدس سمجھنا اھل دین کے ساتھ خاص ہے ؟
یعنی کیا یہ کام صرف اھل دین ہی کرتے ہیں ؟
یہ بات واضح ہے کہ اس دعوے کے حامل لوگوں نے قداست اور تقدیس کو اس کے لغوی اور اصطلاحی معانی سے ہٹا کر اسے فکری جمود کے مترادف قرار دیا ہے۔ مگر اس میں سب سے زیادہ قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ انہوں نے اس نظریے کو صرف اہل دین کے سر تھونپ دیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں سب شامل ہیں، خواہ وہ دین دار ہوں یا ملحد۔ انسان کے سلوک میں جلدی یقین کرنا اور شدت سے کسی نظریے کا دفاع کرنے کی وجہ صرف تقدیس ہی نہیں ہے۔ بعض اوقات ملحد بھی اسی طرح شدت پسند ہوتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کو نقد و تبصرے کے لیے پیش نہیں کرتا۔ عام طور پر دیندار لوگ زیادہ وسیع الذہن اور دوسروں کو قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں قول باری تعالیٰ ہے.: (وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ (10) وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (11) كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ (12) لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ (13) وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ (14) لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ)، الحجر10 ـ 15:
اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی گزشتہ قوموں میں رسول بھیجے ہیں۔اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو۔ اسی طرح ہم اس ذکر کو مجرموں کے دلوں میں سے گزارتے ہیں۔ کہ وہ اس رسول پر ایمان نہیں لائیں گے، پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے۔ اور اگر ہم ان پرآسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ روز روشن میں اس پر چڑھتے چلے جائیں۔ تو یہی کہیں گے: ہماری آنکھوں کو یقینا مدہوش کیا گیا بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے.(سورۃ الحجر: 10-15) ،پس سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بھی زیادہ کوئی تحجر اور عناد ہو سکتی ہے ؟
بلکہ بعض ملحدین کو تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے افکار کو باقاعدہ ایک مکمل دین کی شکل دینے کے خواہاں ہیں۔ لہذا، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افکار و نظریات کی تقدیس کی یہ حالت ہر دین میں اور ہر طبقہ فکر میں موجود ہے۔ آج کے دور کے ایک اہم جمہوری مفکر اور لبرلزم کے داعی، وینسینٹ بیون، جو سابق وزیر تعلیم و تربیت فرانس ہیں، اپنی کتاب "الثورة الفرنسية لم تنته" (فرینچ انقلاب ختم ہونے والا نہیں) کے صفحہ 149 پر انکشاف کرتے ہیں کہ کمیونزم کو اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک جدید دین کی شدید ضرورت ہے۔ نئے عقیدے کے ساتھ نیا دین، نیا نظام، اور نئی عبادت تاکہ ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لایا جا سکے جو قدیم معاشرے کی جگہ لے سکے۔ اسی کتاب کے صفحہ 162 پر وہ لکھتے ہیں کہ "تاکہ لبرلزم ہی کے اندر لوگوں کو وہ دین مل جائے جس کے لیے مفکرین نے انقلاب فرانس سے لے کر اب تک کوششیں کی ہیں
ایک اور کتاب "جمہور کا دین : لبرلز کا ایمان " جسے فرڈینانڈ بیوسن نے تحریر کی ،اس میں کاتب لبرلزم کی حقیقت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں " یہ صرف دین کو سیاست سے جدا کرنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ خود دین کے خلاف ایک انقلاب ہے، خدا اور مسیح جیسے مفاہیم کے خلاف ، کلیسا کی ہر قسم کی سلطنت کے خلاف ، بلکہ یہ در اصل ایک "انسانی دین" کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کا نام ہے ۔
اسی تناظر میں، 18 جنوری 2015 کو، کلود بارٹولون، جو اُس وقت نیشنل پارٹی کے سربراہ تھے، نے "Grand Jury RTL/LCI/Le Figaro" جیسی کمیٹیوں کے سامنے یہ کہا "دیکھیں کہ کیتھولک مذہب کو اس بات پر قائل ہونے میں کتنا وقت لگا کہ جب کیتھولک مذھب کے پیشوا لوگوں کو اس بات پر قائل کر رہے تھے کہ یہ خدا ہے اور خدا کا کوئی دین ہے ، وہاں لوگوں کو یہ بات بتائی جارہی تھی کہ اس خدائی دین سے بھی بڑا دین ے کہ جس کا نام ہے لبرل جمہوری دین"
ان شخصیات کے یہ صریح بیانات اس بات پر بہترین انداز سے روشنی ڈال رہی ہیں کہ فرنچ جمہوریت اپنے آپ کو ایک متبادل دین کے طور پر پیش کر رہی ہے جو کہ لوگوں پر اپنے اقدار اور تعلیمات کو لاگو کر رہی ہے اس بات سے قطع نظر کہ لوگوں کے عقائد کیا ہیں، اسی ہی تناظر میں بارتولون مزید لکھتے ہیں کہ " جمہوریت کو بھی جمہوری عبادات و مناسبات کی ضرورت ہے، حقیقی دین کے طور پر جمہوریت کے لئے مختلف مناسبات کی ضرورت ہے کہ جن کے ذریعہ یہ اپنے آپ کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کرسکے ۔
درجہ بالا تصریحات ہمیں مارسیل ڈی کورٹ کے اس بہترین تجزئے کی یاد دلاتے ہیں جو اس نے اپنی کتاب Itineraries میں تحریر کی ہیں جو کہ 1963 میں شائع ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ
انسان کی اجتماعی نفسیات ہی ایسی ہے کہ وہ صرف اسی نظام میں ترقی کر سکتی اور ثمر آور ہو سکتی ہے کہ جس میں اس کے دونوں جہات یعنی روحی اور جسمانی ضرویات ایک دوسرے کے لئے ممد و مددگار ثابت ہو سکے ، جبکہ ایسا کرتے ہوئے وہ دونوں اپنی اپنی استقلالیت کو محفوط رکھ سکے۔ لہذا ایک ایسے سکیولر معاشرے کا وجود کہ جو خدا کا اعلانیہ یا ضمنا اقرار نہ کرتا ہو اس وقت تک مکن نہیں ہے جب تک وہ معاشرہ لوگوں کی نفسیات پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کرے اور جب تک وہ اپنے سیاسی عقائد کا رخ دین کی طرف نہ موڑ دے "الكتاب الأسود للإلحاد" لويس ميشيل پلان.
پس معاملہ صرف دیندار لوگوں کا نہیں ہے ، اور جب دیندار لوگوں سے خاص نہیں ہے تو یقنینا دین سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ، بلکہ اس مسئلے کی بنیاد – جیسا کہ آگے اس کی وضاحت آئے گی - ایک خاص نفسیاتی کیفیت ہے کہ جس کا دین نے بھر پور اور شدید مقابلہ کیا ہے ۔
انسان کو تنقید برداشت کرنے سے کون سی چیز روکتی ہے ؟
افکار کی تقدیس اس معنی میں کہ ان افکار کو تنقید کے دائرے سے باہر سمجھنا کہ جس کا نتیجہ جمود اور ذہنی پسماندگی ہے ، ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے کہ جس کے اپنے خاص اسباب ہیں، ہم اس مقالے میں ان اسباب کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ در اصل یہی نفسیاتی حالت ہے کہ جو دین سمیت ہر چیز کو اپنی راہ میں استعمال کرتی ہے ،تاکہ انسان زیادہ سے زیادہ اپنی ذات میں بند ہوتا جائے، پس ہمیں اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے انسانی نفسیات کی گہرائیوں تک جانا ہوگا ، صرف سطح پر موجود صورت حال کا جائزہ لینا کافی نہیں ہے ۔
وہ کون سے اسباب ہیں کہ جو انسان کو تنقید قبول کرنے سے مانع بنتے ہیں ؟۔
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان محرکات کے بارے میں جانیں کہ جو انسان کے نفسیاتی جہات کو تعین کرتی ہیں، کہ جنہیں ںض قرآن کریم نے ھوائے النفس یعنی خواہشات نفاسانی سے تعبیر کی ہے : (أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ)، کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے (اپنے) علم کی بنیاد پر اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے؟ پس اللہ کے بعد اب اسے کون ہدایت دے گا؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟(الجاثية: 23.)
اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں کہ انسانی نفس میں دو قوتیں برسر پیکار ہیں ، ایک جانب عقل اور علم تو دوسری جانب خواہشات اور جہل۔ علم و عقل کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے، جو وہ اپنے مؤمن بندوں میں سے جسے چاہے عطا فرماتا ہے ،جبکہ جہل اور خواہشات نفسانی انسان کے اپنے ذات کےساتھ ارتباط اوراپنے آپ سے محبت کی بناء پر وجود میں آتی ہیں۔ محبت انسان پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی قوت ہے ،پس جب انسان کے اندر ایسی صفات موجود ہیں کہ جو خواہشات نفسانی کی تکمیل کے ساتھ ساز گار ہیں تو نفس میں اتنی وسعت آجاتی ہے کہ وہ تمام طاقتوں کو اپنی مرضی کی راہ میں مسخر کر لیتی ہے ، حتی کہ دین کوبھی اپنی مرضی کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ پس وہ اپنی خواہشات سے مناسبت رکھنے والے نظریات کو اس قدر مقدس بنا دیتی ہے کہ اسے ہر قسم کی تنقید سے بالاتر اور تجزیہ و تحلیل سے ماوراء بنا دیتی ہے کہ گویا وہ نظریات مسلم ہوں جن میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہ ہو .
پس اس معنی میں تقدیس خواہشات نفسانی اور حب الذات کا نتیجہ ہے ،اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اگرچہ متدین لوگ ہی یہ کام کیوں نہ کرے ، جس طرح کوئی دیندار شخص
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے مزاج کو اس کے ایمان کے درجے کو سمجھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،پس جس قدر اس کا نفس رزائل سے پاک ہوگا وہ اتنا ہی اچھے کاموں کی جانب راغب ہوگا، ایسے انسان کی زندگی میں در اصل علم اور عقل کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ لیکن جن کا باطن خراب ہو اور رزائل سے ان کا باطن آلودہ ہوگیا ہو تو وہ برائی اور گناہوں کی جانب زیادہ رغبت رکھتا ہے، اسی بات کی تصدیق قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے(وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ) اور پاکیزہ زمین اپنا سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکالتی ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروںکے لیے اپنی آیات کو مختلف اندا ز میں بیان کرتے ہیں۔(الأعراف: 58)
پس انسان کا کردار اور اس کے افعال در اصل اس کی ذات اور حقیقت کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں، اسی تعلق اور رشتے کی وجہ سے ہی انسان کی سوچ اس کی ذات کا ایک جزء شمار ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی سوچ کا بھی اس طرح دفاع کرتا ہے کہ جس طرح وہ اپنی ذات کا دفاع کرتا ہے ۔ پس جو سوچ اور فکر انسان کی ذات کے ساتھ ہمآھنگ ہو یا اس کی ذاتی مصلحت کو پورا کرتی ہو وہ بہت حد تک انسان کی ذات اور شناخت کا حصہ بن جاتی ہے ، اس کے مقابلے میں وہ دوسروں کی سوچ و فکرکو بھی طبیعی انداز سے لیتا ہے جب وہ ان کی مصلحت سے ہم آھنگ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ چیزوں کو قبول یا رد کرنے کا اصل معیار انسان کی ذات ہے۔ اسی لئے انسان طبیعتا اپنی تعریف اور مدح کو پسند کرتا ہے جبکہ مذمت اور تنقیص کو ناپسند کرتا ہے۔ یہاں سے ہمیں اس خاص روئے کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ کیوں عام طور پر لوگ ان خطیبوں کو سننا پسند کرتے ہیں کہ جو انکی پسند کے مطابق تنقید یا تعریف کرتے ہیں، کیونکہ جب سوچ اور فکر ذآت کا حصہ بن جائے تو اس سوچ کی تعریف اپنی تعریف اور اس کی مذمت اپنی مذمت شمار ہونے لگتی ہے ، اس صورت حال میں انسان اس سوچ یا نظرئے پر کسی قسم کی تنقید اس لئے برداشت نہیں کرتا کہ وہ اس تنقید کو خود اس کی ذات پر تنقید سمجھ لیتا ہے، اور انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے اپنی ذآت کا دفاع کرنے والا واقع ہوا ہے ۔ یوں وہ اپنی سوچ اور فکر کا دفاع کرتا ہے اس کے لئے لڑنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔اور کسی انسان کے لئے مخالف سوچ کو قبول کرنا اور اس کا احترام کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے کہ جب تک وہ سوچ اور فکرکو انسان کی ذات سے ہٹ کر ایک صفت کے طور پر قبول نہ کرے ، اور اس حد تک شعور بہت کم لوگوں میں موجود ہے ۔
انسان کی اپنی ذات سے محبت کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بعض شخصیات کی تقدیس کا قائل ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ وہ شخصیت انسان کی شناخت کا حصہ بن گئی ہوتی ہے ، اس لئے اس کا دفاع کرنا در اصل انسان کا اپنا دفاع کرنا ہے ۔اس بات کی طرف قرآن مجید نے ہمیں بہت سی آیات میں توجہ دلائی ہے: (وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا) اور وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ الأحزاب: 67. اسی طرح دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہوا : (وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ). اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیںکہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آباء و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو(لبقرة: 170.)
اسی طرح اگر ہم تعصب اور انحراف کی جڑوں کو تلاش کریں تو ہم اسے بھی خواہشات نفسانی ہی سے جڑی ہوئی پاتے ہیں ،یہاں سے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قرآن مجید نے خواہشات نفسانی کو فکری انحراف کا بہت بڑا سبب کیوں قرار دیا ہے: (إن يتبعون إلا الظن وما تهوى الأنفس)یہ لوگ صرف گمان اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں (النجم: 23) وقال:(فلا تتبعوا الهوى أن تعدلوا) لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو۔ (النساء: 135.) اور فرمایا: (فاحكم بين الناس بالحق ولا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل الله) اور خواہش کی پیروی نہ کریں، وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی (ص/ 26).: (ومن أضل ممن اتبع هواه بغير هدى من الله) اور اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا؟۔ ( القصص/ 50)
ہم اپنی بات کا ان الفاظ کے ساتھ خلاصہ پیش کرتے ہیں کہ فکری جمود اور عقائد کی تقدیس ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جس کا تعقل و تفکر سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اور نفس انسانی اپنی خواہشات کی راہ میں ہر چیز کو استعمال کر سکتی ہے حتی کہ دین کو بھی ، پس اگر نفس کسی کے دین کو اپنی خواہش کے لئے استعمال کرے تو دین کی ملامت نہیں کی جائے گی ، جس طرح یورپ میں پہلے کلیسا نے دین کو اپنی خواہشات کے لئے استعمال کیا اور دین کو راہنوں اور کاہنوں کے مفاد کا ذریعہ بنا دیا گیا ۔ یہ از خود ایک قابل مذمت عمل ہے اگرچہ مسلمانوں کے درمیان ہی کیوں نہ ہو ، مسلمانوں کے نزدیک مقدس خدا کی ذات ہے کہ جو مطلق کمال ہے ، اس کی مخلوقات میں سے جو جس قدر اس ذات کے قریب تر ہوجائے اسی مقدار میں وہ مقدس اور محترم قرار پاتا جاتا ہے ، پس ہمارے نزدیک تقدس طہارت و کمال کا نام ہے جبکہ جو شخص دین کو اپنی ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے وہ خباثت میں غڑق انسان ہے
اگر ہم قرآن مجید کی جانب نظر کریں کو یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن ایک بنیادی نقظے کی جانب بہت زور دیتا ہے کہ گویا یہی قرآن کی تمام آیات کا مرکز و محور قرار پاتا ہے ،اور وہ ہے عقل ، تعقل ، تفکر ، تدبر وغیرہ ، ان کا ذکر قرآن کے سینکڑوں آیات میں ہوا ہے ۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قرآن نے نزدیک عقل اور تعقل کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ جس کے بغیر دینی شناخت اور معرفت مکمل ہو ہی نہیں سکتی، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے عقائد اور معارف دین میں تقلید کو حرام قرار دیا ہے ۔ لہذا ہر مکلف پر واجب ہے کہ وہ اپنے عقائد کو خود ہی سمجھیں جو کہ عقل کے لئے قابل قبول دلائل و حجت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔