19 ذو القعدة 1446 هـ   17 مئی 2025 عيسوى 8:04 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-08-20   142

پریمیتھیوس اور شہری حقوق کا قانون

شیخ مقداد ربیعی

یونانی دیومالائی کہانیوں میں ہمیں پریمیتھیوس کی کہانی ملتی ہے جو کہ اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ انسان نے قدیم ایام سے ہی بزعم خود، خدا کو بے اختیار کرنے کی کوششیں کی ہیں، جب پریمیتھیوس نے خداؤں کی جنگ میں زیوس کے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو زیوس نے انہیں انسان بنانے کا حکم دیا ،جبکہ اس کے بھائی ابیمیتھیوس کو جانوروں کو بنانے کے کام سونپا ، ابیمیتھیوس نےاپنا کام بڑی سرعت اور تیزی سے انجام دیا ، یوں بہترین مواد جیسے تیز رفتاری، تیز نگاہ ، سننے کی بہترین صلاحیت، طاقت اور اس جیسی دیگر خصوصیات حیوانات کے حصے میں آئیں، جبکہ پریمیتھیوس کو انسان بنانے میں زیادہ وقت لگا جس کی وجہ سے انسان ان خصوصیات سے محروم رہ گئے ۔ انسان کو ان محرومیوں سے نکالنے کے لئے پریمیتھیوس نے زیوس کی رغبت کے خلاف ، انسانوں کو دیگر بہت سی خصوصیات دیگر خداؤں جیسے اولییمپ ہیفاستوس اور اثینا وغیرہ سے چوری کر کے دینے کا فیصلہ کیا ۔ یوں اس نے انسان کو فن معماری، فن کاریگری، معدینات نکالنے کا فن، علم نجوم، موسموں کا علم ، حروف اور ارقام کا علم وغیرہ عطا کئے ، اسی طرح اس نے انسانوں کو سکھایا کہ کیسے ابیمیتھیوس کے جانوروں کو انسان دوست بنایا جا سکتا ہے، اور ان کو سواری کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیسے سمندروں کو کسشتیوں کے ذریعے مسخر کیا جسکتا ہے ،اور کس طرح بیماریوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔

آج کے دور میں بھی بعض پڑھے لکھے لوگ پریمیتھیوس کا کردار ادا کر رہے ہیں ، کہ وہ خدا کی بعض صلاحیات کو چھین کر انسان کو دینا چاہتے ہیں ، اس بات کی واضح دلیل، بعض لوگوں کا ان قوانین کےلئے سر توڑ حمایت کرنا ہے کہ جن کے بارے میں تاریخ شاہد ہے کہ یہی قوانین لوگوں کی عائلی زندگی کی تباہی کا سبب بنے ہیں ۔ میں کسی مجوزہ قانون کی حمایت یا سابقہ قانون کی اہانت نہیں کر رہا ، اللہ کے فضل سے ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ، مجھے اس سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کہ لوگ کسی خاص قانون کو قبول کریں گے یا رد کریں گے ،یہ ہر معاشرے کا حسن ہے کہ اس میں لوگ اپنے مسائل پر اپنی رائے دیں اور دلچسپی کا اظہار کریں ،البتہ یہ اختلاف مناسب جگہ اور مناسب انداز میں ہو۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تمام آسمانی شریعتوں کے نزول کا سبب بھی لوگوں کا اختلاف ہی تھا ۔ دینی نصوص ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں انسانوں میں مکمل ہم آہنگی اور اتحاد موجود تھا جس کی وجہ سے کسی بھی تشریع یا قانون سازی کی ضرورت ہی نہیں تھی ، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کے درمیان اختلاف اور دوریاں پیدا ہونا شروع ہوا ،ایسی حالت میں اللہ تعالی کی رحمت اور آپ کی حکمت کا تقاضی تھا کہ رسولوں کو بھیجا جاتا اور کتابوں کو نازل کیا جاتا ۔ اسی لئے ارشاد رب العزت ہوا :

کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ مَا اخۡتَلَفَ فِیۡہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡہُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ۚ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ مِنَ الۡحَقِّ بِاِذۡنِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ۔ بقرہ 213

لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے

اس آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر المیزان کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔

بہر حال انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتابوں کا نزول لوگوں میں اختلاف کے بعد ہی شروع ہوا ۔ شریعت کا بنیادی مقصد لوگوں کے درمیان نزاع و اختلاف کو ایک تیسرے فریق کے ذریعے ختم کرنا ہے کہ جسے دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کسی قسم کا خاص تعلق نہ ہو ۔ اور ان صفات کا حامل تیسرا فریق  خالق کائنات کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ۔

یہی وجہ ہے کہ  قانون ، شہری حقوق کا قانون یا اس قسم کے قوانین (جو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں )سامنے آتا ہے تو کبھی مرد اور عورت کا اختلاف سامنے آتا ہے تو کبھی دینی فکر رکھنے والوں اور نہ رکھنے والوں میں اختلاف سامنے آتا ہے ۔ ہر گروہ کا یہی خیال ہے کہ ان کی بات مانی جانی چاہئے ،ایسے میں ایک بالکل غیر جانبدارانسانی گروہ کا ملنا ممکن نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ہم  ایک تیسرے جنس کے وجود کے قائل ہو جائیں ،

سوال یہ ہے کہ قانون سازی کااختیار کس کو حاصل ہے ؟ 

ایک نہایت اہم سوال جو یہ عام طور پر پوچھا جاتا ہے ،اور اس مقالے میں ہمارا مقصد بھی اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے ، وہ سوال یہ ہے کہ حق کا مطلب کیا ہے ؟ حقوق کا منشاء و مبداء کیا ہے ؟ کیونکہ ہر انسان اس بات کو قبول کرتا ہے کہ ہمارے لئے اور اور ہمارے اوپر کچھ حقوق ہیں ، طول تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا کہ جس میں کسی معاشرے کے لوگوں نے آپس میں حقوق کے ہونے کا انکار کیا ہو۔ مثلا باب کا حق بیٹے کے اوپر ، مالک کا حق اپنے مال پر، میاں بیوی کے حقوق وغیرہ، جو بھی انسان کسی معاشرے میں زندگی کر رہا ہو اسے کچھ حقوق کا اقرار کرنا پڑتا ہے ،اس میں کوئی اختلاف ممکن ہی نہیں ہے ۔ لیکن جو بات اہم ہے نیز جس بات میں اختلاف ہوا ہے وہ یہ ہے کہ حقوق کا فلسفہ ،حقوق کا معیار اور ملاک کیا ہے ؟ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کسی بھیہ شخص کا کسی دوسرے شخص پر کوئی حق ثابت ہونے کا معیار و میزان کیا ہے ؟ ایسا کیوں ہے کہ بیٹے پر باپ کا حق یہ بنا کہبیٹا باپ کی اطاعت کرے اور اس کا احترام کرے ؟

سائنسی مسائل میں تجربہ معیار و میزان قرار پاتا ہے ۔ مثلا جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پانی 100 ڈگری درجہ حرارت  پر ابلنے لگتا ہے تو اس کی بات کی سچائی جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ تھوڑا سا پانی لیا جائے اور اسے اسی درجہ حرارت تک گرم کیا جائے، پتہ چل جائے گا کہ بات درست ہے یا نہیں ہے ۔

مگر حقوق اور اقدار کے معاملے میں ایسا نہیں ہے ، پس کسی شخص کو دوسرے پر کوئی حق کس بنیاد پر دیا جاتا ہے ؟

اس سوال کا جواب تین مکاتب فکر کے ہاں مختلف ہے ۔

پہلا مکتب فکر:اس مکتب فکر کے مطابق حق کا ضابطہ و معیار طبیعت ہے ، جب کسی شئی کی طبیعت کسی دوسری شئی کا تقاضی کرے تو یہ دوسری شئی اس پہلی شئی کا حق کہلاتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم کہتے ہیں کہ زندہ رہنا ، کھانے پینے کی اشیاء کا حصول اور اپنی زندگی کا دفاع وغیرہ انسان کا حق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت ہی انسان کو یہ سب حقوق دیتی ہے کہ کیونکہ کھانے پینے اور اپنی زندگی کا دفاع انسان کا حق تسلیم نہ کیا جائے تو انسان کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ دراصل ہمارے اس قول کی بنیاد بھی ہے، جسے ہم عام طور پر استعمال کرتے ہیں کہ "یہ انسان کا طبیعی حق ہے"

لیکن یہ بات اگر درست ہوئی تو بھی یہ تمام زندہ موجودات کے ایک مشترکہ حق کی حد تک درست ہے ۔ لیکن ان حقوق کی حد کیا ہے؟ تو ہم دیکھتے ہیں کہ طبیعت انسانی اس حد کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ مکتبہ فکر اس بات کو تو ثابت کرتا ہے کہ زندہ رہنا انسان کا طبیعی حق ہے مگر وہ اس وقت کیا کہے گا کہ جب کسی کا زندہ رہنا کسی دوسرے کے زندہ رہنے کے ساتھ ٹکرا جائے ، مثلا ایک آدمی کا زندہ رہنا دیگر بہت سے لوگوں کی موت کا سبب بنتا ہے ، تو کیا س صورت میں اس آدمی کا حق حیات ساقط ہوگا؟ اسی طرح جب انسان کی طبیعت نے غذا کا تقاضا کی غذا انسانی حق شمار ہوئی مگر کیا کسی بھی طرح کی غذا اس کا حق ہے ، خواہ وہ کسی اور کی ملکیت ہی کیوں نہ ہو ؟ پس نظریہ طبیعت اگرچہ بعض بنیادی حقوق کا منشاء و مدرک بتانے میں کامیاب تو ہوا مگر وہ ان حقوق کی حدود کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔

دوسری مشکل یہ ہے کہ بعض حقوق واضح ہوتے ہیں مگر اکثر حقوق اس قدر واضح بھی نہیں ہوتے کہ ہر شخص ان کو سمجھ سکے۔ بلکہ ان حقوق کے معاملے میں طبیعت انسانی فوری طور پر کسی فیصلے پر نہیں پہچ سکتی ۔

مثال کے طور پر انسان کی طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ زمین کے نیچے موجود قدرتی ذخائرجیسے تیل گیس اور پانی وغیرہ سے استفادہ کیا جائے، تو گویا یہ انسان کا حق ہو گا ، مگر اس حق کی حد کہاں تک ہے ؟ کیا ہم آنے والی نسلوں کا کوئی خیال رکھے بغیر ان ذخائر سے جس طرح چاہے استفادہ کر سکتے ہیں ؟

اسی قسم کی اشکالات کی وجہ سے آج کے دور میں حقوق کے بارے میں رائے دینے والوں میں سے کوئی بھی اس نظرئے کو قبول کرتا دکھائی نہیں دیتا ۔

دوسرا نکتہ نظر: مدرسہ وضعیہ : یہ مکتبہ فکرفلسفہ حقوق کے میدان میں بہت اہمیت کا حامل ہے، حقوق کے منشاءو مآخذ کے بارے میں سوال کا جواب اسی مکتبہ فکر کی طرف سے دیا گیا ہے جو کہ آج کی دنیا میں رائج ہے۔ وہ جواب یہ ہے کہ :حقوق کا منشاء لوگوں کے درمیان ایک اتفاقی معاہدے سے عبارت ہے ، پس کسی بھی شخص یا گروہ کے لئے کسی حق کا ثابت ہونا یا نہ ہونا اس بات پر متوقف ہے کہ معاشرے نے اس حق کو قبول کیا ہے یا نہیں کیا ؟ پس اگر معاشرے کی غالب اکثریت کسی چیز کو شوہر کا حق مانے تو وہ حق شوہر کے لئے ثابت ہو جائے گا ، اسی طرح اگر بیوی کے لئے معاشرے کی اکثریت کسی چیز کو حق سمجھے تو وہ حق بیوی کے لئے ثابت ہوجاتا ہے ۔ پھر اس حق کے باقی رہنے کا معیار بھی معاشرے کے لوگوں کی نظر میں باقی رہنا ہے ، پس جب لوگوں کی اکثریت اسے حق نہ سمجھے تو وہ حق نہیں رہے گا ۔

مگر یہ نظریہ بھی پیچیدہ اعتراضات کے زد پر ہے ، مثلا معاشرے کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ کسی چیز کو حق قرار دے اور فرد پر اپنے اس فیصلے کو مسلط کرے ؟ اکثریت کی بات کو تسلیم کرنا اقلیت پر لازم کیوں ہے ؟ مثلا معاشرے کی اکثیرت جبری فوجی خدمت کو ضروری قرار دے جبکہ اقلیت اسے غیر ضروری قراردے تو ایسی حالت میں اکثریت ہی کی بات کے قابل قبول ہونے کی وجہ کیا ہے؟

پس کوئی قاعدہ ،کوئی قانون، اور کوئی اصول ہونا چاہئے کہ جس کی وجہ سے معاشرے کی اکثریت کو قانون بنانے اور فیصلے کرنے کا حق حاصل ہو جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اسی معیار کو تسلیم کیا جائے کہ معاشرے کی اکثریت جسے حق سمجھے وہ حق کہلائے گا ، تو پھر ہمارے پاس کوئی بھی حق ثابت و مسلم نہیں رہے گا ۔ اسی طرح اس معاشرے کے باہر سے کوئی بھی تنظیم یا حکومت اس معاشرے کے لئے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ،کیونکہ حق کا معیار اسی معاشرے کی اکثریت کا قبول کرنا ہے، پس بعض ملکوں اور تنظیموں کی طرف سے خاص قسم کے قوانین دیگر معاشروں پر نافذ کرنے کی جو کو ششیں کی جاتی ہیں وہ بالکل غلط اور بے معنی ہیں ۔

البتہ اس بات کی طرف توجہ رہے کہ یہ بات ہم من باب الجدل کہہ رہے ہیں ورنہ اس مقالے میں آگے ہم واضح کریں گے کہ اسلام کا نقطہ نظر حقوق کے بارے میں وضعیون کے نظرئے سے یکسر مختلف ہے ۔

تیسرا مکتبہ فکر :اسلامی نقطہ نظر : اسلام کا نظریہ حقوق در اصل نظریہ توحید کے زیر سایہ پروان چڑھتا ہے، اس کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے مخلوقات کو کسی خاص مقصد اور ہدف کے لئے خلق کیا ہے ۔ وہ ہدف ہر مخلوق کا اپنے مقصد وجود کے کمال کو پہنچناہے۔ مثلا انسان ایک خاص مقصد کے لئے خلق کئے گئے ہیں ،وہ مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا اور اس کے صفات سے اپنے آپ کو قریب تر کرنا ہے ،اس مقصد تک پہچنے کے لئے کچھ لوازمات کی ضرورت ہے ، یہاں سے خدا وند متعال کی رحمت، حکمت اور اس کا عدل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ  وہ اس لوازمات تک پہنچنے کے لئے لازمی قوانین بنائیں اور انسان کو اس گایت تک پہچنے کا راستہ ہموار کرے ۔

دوسری جانب چونکہ تمام مخلوقات میں اور عالم کی تخلیق کا انسان کے لئے ہوئی ہے۔ پس انسان کی زندگی کو محفوظ بنانے کےلئے بعض اوقات دیگر جانداروں کی زندگی قربان کرنی پرتی ہے، جیسے حیوانات اور نباتا ت، زمین پر رہنے کا حق انسان کو دیگر جانداروں کی نسبت زیادہ حاصل ہے ، لیکن یہ سب کچھ ایسے قوانین و حدود کے اندر رہتے ہوئے انسان کو حاصل ہے کہ جن کو شریعت محمدی نے کھل کر بیان کیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام قانون سازی کے مسئلے کو خدا وند متعال کی ذات والا صفات سے مختص سمجھتا ہے۔ اسے کسی دوسرے کے حوالے کرنے کو ممکن ہی نہیں سمجھتا ، کیونکہ خدا ہی وہ واحد ذات ہے کہ جسے اپنی مخلوقات کی ضروریات اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حدود کی حقیقتا پہچان رکھتی ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے اللہ ہی اس کائنات کا مالک ہے اسی وجہ سے اس کائنات پر تصرف کا حق بھی ذات کو حاصل ہے ۔

لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کوئی بھی قانون سازی ہو اسے غرض خلقت انسان سے ہمآھنگ ہونا چاہئے، اور یہ کہ قانون سازی صرف اور صرف اللہ کی ذات کا حق ہے۔ جس میں کسی کو بھی مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ 

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا

اور کسی مؤمن اور مومنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔ احزاب 36

روشن فکر اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ دین اور دینی اداروں کو محدود کرنے کی دعوت دینے والوں کی آواز پر نا سمجھی میں لبیک نہ کہہ رہے ہوں ۔کیونکہ یہ سب اسی پرانی دشمنی اور قدیم جنگ کا حصہ ہے جسے لبرلز نے 18ویں صدی سے چھیڑ رکھی ہے ۔ اس وقت کے فرینچ انقلاب کی قیادت کے بیانات کو توجہ سے سنین کہ وہ کیا کہتے ہیں ،

رینہ فیفیانی 1863-1925 پوری بے شرمی اور جسارت کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہے "یقینا ہم انسانوں کے ضمیر سے ایمان کو نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ہم نے آسمانی روشنی کو اس طرح خاموش کر دیا ہے کہ وہ اب دوبارہ روشن نہ ہوگی ،یہی ہمارا کام ہے ،یہی ہماری عظیم ابقلابی اقدام ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آسمان بالکل اندیھرا ہو اور وہاں کی ہر روشنی بجھ جائے ۔ (بلیک بک ، لویس میشیل پلان ص49)

فرنچ حکومت کے ایک وزیر نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر پوری سراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ " جمہور کا قانون خدا کے قانون سے زیادہ طاقتور ہے۔  (نفس مصدر)

ایک اور کتاب میں فرینیڈ بویسن یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ " لبرلزم صرف دین کو حکومت سے الگ کرنا نہیں ہے ،بلکہ یہ خود دین کے خلاف ایک انقلاب ہے، یہ خدا اور مسیح نیز کلیسا کی ہر قسم کی سلطنت کے خلاف ایک ابقلاب ہے ، یہ در اصل انسانی دین کی طرف دعوت کا نام ہے، اس طریقے سے کہ انسان ہی خدا ہو ،اور دین ہر قسم کے عقائد و سلطنت سے آزاد ہو ، یہ روھانی مفاہیم کی تشکیل نو کی تحریک ہے تاکہ یہ تمام مفاہیم انسان اور معاشرے کی خدمت میں استعمال ہوں نہ کہ دینی بادشاہت یا منجمد عقائد کی خدمت میں ۔" نفس المصدر'

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018