فرانس مذہب سے کیوں لڑتا ہے؟
شیخ مقداد ربيعی
حالیہ دنوں میں فرانس کی جانب سے مسیحیت کی توہین کے معاملے پر ایک ہنگامہ برپا ہوا ہے، اس کی وجہ فرانس میں مسیحت اکثریت میں ہے،۔ فرانسیسی ادارہ برائے شماریات کےایک اندازے کے مطابق 65% فرانسیسیوں کا عقیدہ مسیحیت ہے، جن میں 61% کیتھولک اور 4% پروٹسٹنٹ ہیں۔ میں نے مناسب سمجھا کہ ایسے سوال کا جواب دیا جائے جو بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ فرانس کی حکومت آخر مذہب کے خلاف کیوں ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ انتہا پسند کیوں ہے؟ یہاں مذہبی شعائر کی ادائیگی کو عوامی مقامات پر منع کیا جاتا ہے، حجاب ممنوع ہے، دینداروں کو اہم عہدوں پر فائز ہونے سے روکا جاتا ہے، اور سیکولر افراد کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے، اور اس کے علاوہ بہت سارے اقدامات اور بھی ہیں جو کسی بھی دین کے خلاف ہیں۔
لہذا میں نے چاہا کہ اپنے قاری کو بعض مفکرین کے جوابات پیش کروں، اور میں خاص طور پر فرانسیسی مفکرین کو منتخب کروں، کیونکہ (گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں کہ گھر میں کیا ہے)، اور ان کے جوابات کا خلاصہ یہ ہے کہ فرانس نے اپنے مشہور انقلاب کے ذریعے جو جمہوریت حاصل کی، اس نے سیکولرازم کو اپنے لیے دین کے طور پر اپنایا۔ اب یہی سیکولرازم وہاں ایک مذہب بن چکا ہے، جس کے اپنے عقائد اور رسومات ہیں۔ جیسے اس کے پادری اور مبلغین بھی ہیں، جو ہر دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے خلاف لڑنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔
آپ حیران نہ ہوں! کیونکہ دین ، جیسا کہ علامہ طباطبائی ؒ نے اس کی تعریف کی ہے، ان احکامات کا نام ہے جو کائنات کو سمجھنے کی کوشش سے انسان کے فہم میں پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دین انسان کے اس طریقے اور راستے (یعنی شریعت) کا نام ہے جو کائنات کے بارے میں اسکی نظر(عقیدے)پر مبنی ہے۔ پس اس لحاظ سے اور اس معنی میں ملحد بھی متدین کہلاتا ہے کیونکہ ملحد کی بھی کائنات کے حوالے سے کوئی نظریہ(عقیدہ) ہے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر ہر انسان (مؤمن ہو یا ملحد) اپنی زندگی میں ایک خاص راستے کا انتخاب کرتا ہے۔
چرچ اور تمام ادیان کے خلاف لڑنے کی بنیاد پر قائم ہونے والے انقلاب فرانس کے حامیوں نے 'سیکولرازم' کو بطور مذہب اپنایا اور اس کی بنیاد پر اپنی شریعت قائم کی۔ یہ باتیں میں اپنی طرف سے سوچے سمجھے بغیر نہیں کر رہا ، بلکہ اس بات کی تصدیق ماضی اور حال کے بڑے فرانسیسی مفکرین نے کی ہے۔ میں آپ کو ایک معاصر فلسفی 'لوئیس میشیل بلاین' کی کتاب” الكتاب الأسود للإلحاد “((Black book of atheism 2023سے اقتباس پیش کرتا ہوں، جہاں انہوں نے کہا: 'ایک عجیب تناقض ہم دیکھتے ہیں کہ فکری اور سیاسی نظام جو روایتی عقائد کی پابندیوں سے آزادی کا دعویٰ کرتا تھا، ایک اور جال میں پھنس گیا ہے، یعنی روایتی مذاہب کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُرکرنے کے لئے "متبادل مذاہب" تخلیق کرنا پڑ رہے ہیں۔ مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی بجائے انہوں نے ایک چمکدار سیکولر لباس میں اسی نظام کے اصولوں پر نئے نظام قائم کیے ہیں جن سے وہ لڑتے رہے تھے۔
آئیے جمہوری نظام کو ایک واضح مثال کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ جمہوریت بنیادی طور پر ایک سیکولر مذہب ہے جس کی اپنی مخصوص رسومات، عبادات، اور داستانیں ہیں، اگرچہ یہ مختلف نئی شکلیں اور مختلف اصطلاحات اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس کے پاس داستانوں کی ایک بنیاد ہے جو اس کی تشکیل اور تاریخ کے بارے میں بتاتی ہے، اور اس کے سیکولر علمبردار لوگ جو اس نظام کو تقدس دیتے ہیں اور اس کی عظمت و برتری کا دعویٰ رکھتے ہیں، اور اس کے مبلغین جو دنیا بھر میں 'جمہوری انجیل' کو پھیلاتے ہیں، محض یہ بتانے کے لئے کہ یہی (جمہوری نظام) تمام انسانی مشکلات کا حل رکھتا ہے۔ اس نظام کے اپنے اصول اور عقائد بھی ہیں جو مطلق سچائی سمجھے جاتے ہیں اور جن پر بحث یا شک نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ ، یہ نظام اپنے ہی اصولوں سے انحراف کرنے والی بدعتیں پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس کے پاس مقدس متون بھی ہیں جو قومی تقریبات میں پڑھے جاتے ہیں، اور اس کیوہ تعلیمات بھی ہیں جو مدارس میں حفظ کی جاتی ہیں اور نئی نسلوں کے ذہنوں میں بٹھائی جاتی ہیں۔
یہ نظام ہر جگہ اپنی دعوت کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اور ایک ایسےدن کا خواب دیکھتا ہے جب پوری دنیا اس کے اصولوں اور اقدار کی پیروی کرے گی۔یہ نظام جو دوسروں کے معاملات سے چشم پوشی اور فکری آزادی کے اصولوں کی وکالت کا دعویٰ بھی کرتا ہے، لیکن اپنے ان بنیادی اصولوں کو بھلا کر کئی دہائیوں تک اس نے اپنے اصولوں کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے شدت سے حملے کیے۔ مثال کے طور پر، آپ کو یاد دہانی کرائیں کہ فرانسیسی سیکولرازم، ابتدائی طور پر صرف ایک سیاسی آلہ تھا جو چرچ اور کیتھولک اثر و رسوخ کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال ہوتا تھا، حالانکہ فرانسیسی عوام کی اکثریت مذہبی تھی۔
انقلابِ فرانس کے دوران ہونے والے واقعات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے، مونسینئر 'جرار ڈیفنز' اپنی کتاب 'سیکولرازم، قومی مذہب؟' میں وضاحت کرتے ہیں کہ کنیسا اور اس کے تسلط کا انکار کرنے کے فورا بعد جمہوریت نے اپنی بقاء کی خاطرخود کو کچھ بنیادی اصولوں کا محتاج پایا۔ چنانچہ تمام دلوں کو جوڑنے اور عوامی صفوں کو یکجا کرنے والے کسی دین کے نہ ہونے کے سبب جمہوریت کے قوانین محض وقتی معاہدات کی حد تک رہ گئے اور اسطرح سیاسی اقتدار باقی رکھنے اور نظم و نسق قائم رکھنے کے لئے جبر و استبداد اور طاقت کا استعمال ہی واحد طریقہ رہ گیا۔
ہم اسے "رابسبییرRobespierre "کے ہاں کنیسا کی حکومت' میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں انہوں نےعزت دار اور اونچے طبقے کے لوگوں کے ذریعے سیاست کی بنیادیں مستحکم کرنے کی کوشش کی، اور روایتی مذہبی رسومات کی تقلید کرتے ہوئے عظیم سیکولر مذہبی رسومات قائم کیں، تاکہ انقلاب کی کامیابیوں پر مبنی ایک نئی جمہوریت بنائی جا سکے۔ یہ عمل اس امر کی دلیل ہے کہ وہ سیاسی نظام جو سیکولرازم کا دعویٰ کرتا ہے، وہ بھی آخر کاردینی مقدسات ہی کو قانونی حیثیت اور سماجی اتحاد کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں، اگرچہ یہ مقدسات نت نئی شکلیں ہی کیوں نہ اختیار کرتے رہیں۔
چند سال پہلے، "لوئس انٹوائن ڈی سینٹ جسٹ( (Louis Antoine de Saint-Just، 1793)، جو روبسپیئر (Robespierre )کا زبردست حامی تھا، نے کہا: "جمہوریت اپنی مخالفت کرنے والی ہر چیز کو مکمل تباہ کرنے کا نام ہے۔" یہ جمہوریت کے بارے میں تحمل اور چشم پوشی سے کام لینے والوں کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔
اس سیاق و سباق میں، ہمیں "لیون گامبیٹا"(Léon Gambetta1882) اور اس کے مشہور نعرے کو یاد کرنا چاہیے جو اس نے 4 مئی 1877 کو قومی اسمبلی میں لگایا تھا: کہ "اکلیروسیت (مسیحی رسومات)،ہی دشمن ہے"۔ یہی جملہ ہماری ثقافت کی بنیادوں کو تیزی سے کمزور کرنے والے واقعات میں سے ایک تھا۔
آخر میں، کہا جا سکتا ہے کہ سیکولرازم، دیگر فکری نظاموں کی طرح، ایک نئے دین میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کی اپنے رسومات، عبادات، اور داستانیں ہوتی ہیں۔ اور جب ایسا ہوتا ہے، تو یہ فکری آزادی اور تحمل فلسفہ ہونےکا دعویٰ رکھنے کے باوجود اپنی اصلی روح کھو دیتی ہے اور ایک جابرانہ نظریے میں بدل جاتی ہے اور جن مذاہب سے اختلاف کا دعویٰ کرتی تھی انہی کی طرح ایک جابر انہ مذہب بن کر رہ جاتی ہے۔
1880 میں، فرانس نے مذہب مخالف اقدامات کی ایک سیریز کا سامنا کیا، جہاں اتوار کی تعطیل ختم کر دی گئی، عوامی مقامات پر مذہبی علامات پر پابندی عائد کی گئی، اور قوانین سیکولر لوگوں کو زیادہ ترجیح دینے لگے۔ حتیٰ کہ تعلیم بھی اس مہم سے محفوظ نہیں رہی؛اس سلسلے میں جہاں جمہوری اسکول قائم کیے گئے تاکہ طلباء کو مذہبی رہنماؤں کے اثر سے الگ رکھا جا سکے، حتی کہ عیسائی تعلیم کو ابتدائی اسکولوں میں ختم کر دیا گیا، اور اساتذہ کو مذہبی رہنماؤں کے خلاف تربیت دی گئی۔
"جول فیری" (1893Jules François Camille Ferry)جیسے کچھ سیاستدانوں نے مذہب اور بادشاہت کے خلاف کھل کر اپنی مخالفت کا اعلان کیا، جبکہ وزیر مملکت برائے تعلیم "فنسنت بیلون" نے ان اقدامات کو "نئے جنم" اور "نیئےچرچ" کے طور پر بیان کیا، جو نئے مذہبی رہنما اور نئے قوانین کے ساتھ متعارف کرایا گیاتھا۔
یہ مذہب مخالف مہم آیئندہ برسوں میں بھی جاری رہی، جہاں طلاق کے قوانین کو دوبارہ بحال کیا گیا، مذہبی اجتماعات پر ٹیکس عائد کیا گیا، حتی کہ فوج نے ان اجتماعات کو طاقت کے ذریعے کچل دیا، جس کے نتیجے میں بہت سے مذہبی لوگ ہلاک ہو گئے۔
اور بعض سیکولر سیاستدانوں نے ان اقدامات پر جشن منایا، جیساکہ "رینی فیفیانی"(René Viviani1925) نے بیان دیا کہ انہوں نے"انسانی ضمیر کو ایمان سے دور پہنچادیا ہے۔" اور"آسمان کی روشنیوں کو ایسا بجھا دیا ہے کہ اب دوبارہ نہیں جلیں گی"۔ مگر ان جابرانہ اقدامات پر کچھ مفکرین نے تنقید بھی کی، جیسے "ایڈورڈ برتھ" (Edward Blyth1873)نے "مخالف مذہبی جذبات" کی وجہ سے "بے دینوں کی آزادی کی خاطر وحشیانہ شرانگیزی" کی مذمت کی۔
یہاں تک کہ خواتین بھی اس حملے سے محفوظ نہ رہ سکیں؛ سیاستدانوں نے انہیں ووٹ کا حق دینے کی بھی مخالفت کی، اور اس کی دلیل دی گئی کہ خواتین مذہبی رہنماؤں کے اثر میں آکر جمہوریت کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
ان حادثات کے دوران ، پوپ لیو XIII (م1903)نے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی اور ایک پاپائی منشور جاری کیا جس میں جمہوری نظام کو قبول کرنے کی دعوت دی اور کیتھولکس کو موجودہ اقتدار کا احترام کرنے کی ترغیب دی۔ مگر، یہ کوششیں مذہب مخالف جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
کئی دہائیوں تک بعض سیاستدانوں نے مذہب کے خلاف اپنی دشمنیوں کو جاری رکھا۔ چنانچہ ایک بڑے وزیر نے کہا کہ "جمہوریت کا قانون خداؤں کے قانون سے زیادہ طاقتور ہے»۔ اسی طرح ایک مصنف "آلان فینکیلکراوٹ"(Alain Finkielkraut ) نے اشارہ دیا کہ فرانس واحد مغربی ملک ہے جو حجاب کو ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے اور اسکولوں میں اس پر پابندی عائد کرتا ہے۔
دور حاضر بھی کچھ ترقی پسند جماعتیں ایسی فکری مہم چلاتی ہیں جو طویل عرصے سے "عوام کا افیون" کہلاتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو آج بھی "ہلکی" منشیات کے قانونی ہونے کے حق میں بھی آخر تک لڑتے ہیں۔
لیون کے آرچ بشپ، "مونسیور ڈی جریمای"، نے اس بات پر اپنی تشویش ظاہر کی کہ سیکولرازم ریاست کو غیرجانبداری سے ایک ایسے الحاد میں بدل رہا ہے جوبالآخر ریاست کا مذہب بن جاتا ہے۔
آخر میں، یہ تاریخی تجزیہ سیکولرازم کی نوعیت کے بارے میں کچھ سوالات اٹھاتا ہے کہ: کیا یہ واقعی ایک فلسفہ ہے جو فکری آزادی اور تحمل و برداشت کی وکالت کرتا ہے اور صرف مذہب کو سیاست سے علیحدہ کرتا ہے، یا یہ کسی ایسےنئے دین میں تبدیل ہو چکا ہے جس کی اپنی مخصوص رسومات، عبادات، اور داستانیں ہیں؟ اور کیا کچھ سیکولر لوگوں کی طرف سے فروغ پانے والا الحاد صرف ایک فلسفہ ہے، یا اس کے اندر بھی مذہبی دعوے شامل ہیں؟