

پاپائیت کا عروج اور کیتھولک چرچ
شیخ مقداد ربیعی
وقت کےساتھ ساتھ کئی عوامل یکجا ہوئے اور انہوں نے قسطنطنیہ کے کلیسا اوریہاں کی مذہبی قیادت کو عروج پر پہنچایا۔پہلے تو مرکز قسطنطنیہ میں تھا پھر یہ مرکز روم منتقل ہو گیا۔ اس عروج کے وقت معاشرے میں جاری فرقہ ورانہ ابحاث میں چرچ کی فتح اور بہت سے دیگر عوامل شامل ہیں۔بڑے بڑے مسیحی بشپس اور لکھاریوں کا مسلسل چرچ کی حمایت میں لکھنا بھی شامل ہے۔ یہاں رسولوں پر ایمان کی گواہی نے بھی اہم کردار اداکیا اس نظریہ کے مطابق جنہوں نے ایسا نہ کیا وہ بدعتی بن گئے۔یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ بائبل مقدس کے عہد نامہ جدید کو معاشرے میں رائنج کرنے بہت کوششیں کی گئیں۔ایرینایوس نے مغربی، شمالی افریقہ اور مشرقی گرجا گھروں میں رائنج کیا اس کا اس میں بہت اہم کردار تھا جس سے قسطنطنیہ کے چرچ کو مرکزیت ملی۔اس لیے کہ یہاں سے عیسائت کے درمیان اتحاد کی ایک تحریک کا آغاز ہوا۔
پوپ لیو (440-461) نے اس مرکزیت کی بھرپور تائید کی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ سینٹ پیٹر رسولوں (مسیح کے شاگردوں) میں پہلے نمبر پر تھے، لہذا چرچ آف سینٹ پیٹر کو دنیا بھر کے گرجا گھروں کی قیادت کرنی چاہیے۔ اس نے ایک بہت بڑا دعوی یہ بھی کیا کہ قدیم مقدس مخطوطات کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ بطرس کے تمام جائز قانونی اختیارات اس کے جانشین کو منتقل ہوگئے ہیں جو کیتھولک چرچ کے پوپ ہیں اور اس طرح ان کی خلافت خلافتِ رسولی ہے۔
یہ تصور نیا نہیں ہے اسے کلیمنٹ رومی نے بہت پہلے پیش کیا تھا،لیکن اس کا ماننا تھا کہ تمام کے تمام بشپ ہی رسولوں کے جانشین ہیں۔ لیکن پوپ لیو نے اسے بطرس کے چرچ سے خاص قرار دے دیا کیونکہ وہ تمام رسولوں میں پہلا خلیفہ تھا۔ پوپ لیو کی مسلسل دعوت کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب روم جرمنوں سے شکست کھا گیا،اگرچہ وہ آرین فرقےسے تعلق رکھتے تھے کیتھولک چرچ نے اسے ہمیشہ ایک بدعتی فرقے کے طور پر دیکھا اور اس کی مذمت کی۔اس سب کے باوجود انہوں نے چرچ کے ساتھ احترام کے پیش آیا،،ان کے چرچز کی توڑ پھوڑ نہیں کی، نہ ہی انہیں لوٹا گیا حالانکہ جرمنوں نے دوسرے پورے شہر میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی تھی۔
رہبانیت کا ظہور
گونوسٹک ازم اور ماریکونزم جیسے باطنی عقائد کے ظہور نے (جس کا تفصیل سے ایک مقالہ میں ذکر ہو چکا ہے) رہبانیت کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس میں ترک دنیا اور سماج و معاشرے سے دوری کا تقاضا کیا جاتا ہے پیٹر سے یہی الفاظ انجیل میں وارد ہوئے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بہتر ہے کہ کنوارےپن کا انتخاب کریں اور جنسی تعلقات سے پرہیز کریں۔ اسلامی نقطہ نظر سےکچھ نصوص یہ بتاتی ہیں کہ عیسائی دنیا میں رہبانیت کا ظہور جرمنوں کی فوجی ناکامیوں کا نتیجہ تھا، جس نے ان میں سے کچھ کو پیچھے ہٹنے اور نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کا انتظار کرنے کے لیے کہا۔ یہ نقل کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا:کیا تمہیں معلوم ہے کہ بنی اسرائیل میں رہبانیت کیسے آئی؟عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حضرت عیسیؑ کے بعد ظالموں نے ان کے ماننے والوں کو اللہ کی نافرمانی پر مجبور کیا،اہل ایمان غضب ناک ہوئے اور انہوں نے ان سے جنگ کی،اہل ایمان تین بار ان سے جنگ ہار گئے،ان میں بہت تھوڑے لوگ باقی بچے۔ یہ لوگ اکٹھے ہوئے اور فیصلہ کیا کہ ہم منتشر ہو جاتے ہیں اس وقت تک کہ جب خدا اس نبی کو بھیجے جس کا حضرت عیسیؑ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ پہاڑوں میں بکھر گئے کچھ نے رہبانیت اختیار کی کچھ دین پر قائم رہے اور کچھ نے کفر کیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہوکہ میری امت کے لیے رہبانیت کیا ہے؟عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہجرت، جہاد، نماز، روزہ، حج اور عمرہ۔
یہ بہت زیادہ قدیم زمانے کی بات نہیں ہے رومی شہناہ Decius نے 249 سے 251 تک حکومت کی ہے۔وہ حضرت مسیحؑ کے ماننے والوں کا سخت مخالفت اور ان کی دشمنی کے لیے جانا جاتا ہے۔اس کے علاوہ جو یہ روایت کیا جاتا ہے کہ رہبانیت کا آغاز تیسری صدی سے ہوا یہ بھی اس کے متنافی نہیں ہے۔اس روایت کے مطابق مصر کے شہر کورما میں اس کے پہلے مروج "انتونیئس دی گریٹ" تھا۔اس کے ہاتھوں رہبانیت کا آغاز ہوا مگر اس پر زیادہ عمل نہیں ہو سکا۔ یہ اپنے گاوں میں اس پر عمل کرنے میں ناکام رہا پھر اس نے گاؤن چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور صحرا کی طرف نکل گیا۔اس کی پیروی میں لوگ معاشرے سے الگ تھلک ہو کر رہنے لگے اس سے معاشرے میں انہیں خاص مقام حاصل ہو جاتا تھا ،جس سے وہ لطف اندوز ہوتے تھے۔رہبانیت کی وجہ اور مقصد مختلف ہو سکتا ہے مگر دونوں کی تاریخیں بہت ملتی جلتی ہیں۔ رہبانیت اختیار کرنےوالوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل تھی جو اپنے رہنما "انتونیئس دی گریٹ" کے چلے جانے سے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔پچمیئس کا تعلق جنوبی مصر سے تھا جب اس نے ان کی اس حالت کو دیکھا تو اس نے ان راہبوں کے لیے خانقاہیں بنا دیں اور ان کی زندگی میں ذرا آسانیاں پیدا کر دیں۔ان کے لیے کام اور مراقبے میں ایک نظم قائم کیا۔
آہستہ آہستہ رہبانیت کی یہ تحریک شام اور ترکی میں پھیل گئی کچھ غاروں میں رہنے لگے،کچھ نے صحرائی جگہوں پر رہائش اختیار کی،کچھ نے تباہ شدہ شہروں کے کھنڈرات کو ٹھکانہ بنایا اور پہاڑی چوٹیوں پر رہنے لگے۔
یہ سب کچھ مشرق میں ہو رہا تھا،جہاں تک مغرب کا تعلق ہے، یہاں رہبانیت بہت بعد میں آئی ہے۔ یہ اس وقت تک مغرب میں نہیں پھیلی جب تک جرمنی نے حملہ نہیں کر دیا۔اس حملے نے مسیحی دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی، ان تبدیلیوں میں سے بعض بہت کمزور تبدیلیاں تھیں۔ اس کا یورپ میں پھیلاو کافی سستی کا شکار تھا یہاں تک کہ ساتویں صدی میں ایک تحریک "آرگنائزیشن آف سینٹ بینیڈکٹ" نمودار ہوئی۔اس تحریک کے لوگ کھیتوں میں اپنے ہاتھوں سے مشقت کرتے تھے،انہیں سیکھنے کی بہت زیادہ لگن تھی،یہ لوگ طویل عبادات انجام دیتےتھے اور بھرپور زندگی گزارتے تھے۔
رہبانیت اور اسلامی تعلیمات
قرآن کریم کی متعدد آیات میں رہبانیت کا ذکر آیا ہے:
(ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ)، الحديد: 27
پھر ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے اور ان سب کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور انہیں ہم نے انجیل دی اور جنہوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دیا اور رہبانیت (ترک دنیا) کو تو انہوں نے خود ایجاد کیا، ہم نے تو ان پر رہبانیت کو واجب نہیں کیا تھا سوائے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے، لیکن انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی، پس ان میں سے جنہوں نے ایمان قبول کیا ہم نے ان کا اجر انہیں دیا اور ان میں بہت سے لوگ فاسق ہیں۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رہبانیت اللہ کا نازل کردہ طریقہ نہیں ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس میں کچھ لوگوں نے اچھی اور درست نیت کے ساتھ اچھے مقاصد کے لیے اس کا آغاز کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہت سی غلط چیزیں شامل ہو گئیں جس سے یہ مقاصد سے دور ہو گئی اور آلودگی کا شکار ہو گئی۔ اس کی بہتر نگہداشت نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کا خیال رکھا گیا۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کو اختیار کرنے والوں کی اکثریت فاسق ہو کر بھٹک گئی۔
اگرچہ رہبانیت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے، سنت پرستی اور لذتوں سے دور رہنا چاہتی تھی لیکن معاشرے کے مسائل سے نمٹنے کےلئے اس کا طریقہ الگ تھلگ رہنے کا اور منفی خصوصیات کا حامل تھا۔اس میں کیا خوبی ہے کہ انسان کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان سے راہ فرار اختیار کرے۔ ایک شخص کی روحانی طاقت تو وہی ہے جس کے ذریعے وہ فتنوں کا سامنا کرتا ہے،اسی کی طاقت سے یہ اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر لیتا ہے۔تقوی اللہ تعالی کا خوف اور اس کی خشیت پر مشتمل ہے۔اس میں اس کے احکام کی تعمیل کی جاتی ہے اور محرماتِ الہی سے بچنا ہوتا ہے۔ تنہائی اور آبادیوں سے دوری انسان میں نفسیاتی قوت کو پروان نہیں چڑھاتی،شادی کا ترک کرنا انسانی فطرکو پامال کرنا ہے جس سے بہت سی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ سب کچھ رہبانیت اختیار کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے مطالعےسے معلوم ہو جاتا ہے کہ خانقاہوں میں بہت بڑے بڑے سیکینڈل ہوئے ہیں۔ ول ڈیورنٹ نے انہیں بے حیائی، عصمت فروشی کے گھر، باطنی عبادت گزاروں، دنیا داروں اور جاہلوں کے جمع ہونے کے مراکز کے طور پر بیان کیا ہے۔ بہترین مشروبات خانقاہوں میں پائے جاتے۔ (دیکھیں تہذیب کی کہانی، جلد 13، صفحہ 443۔)
آپ وقتا فوقتا پرانے اور نئے جنسی سکینڈلز کے بارے میں سنتے رہتے ہوں گے جو ہماری بات کی تائید کرتے ہیں۔ پادریوں اور راہبوں نے گرجا گھروں اور خانقاہوں میں بچوں کے خلاف بہت سے جرائم کیے ہیں۔
اسلام کا موقف یہ ہے کہ اس طرح کی راہبانیت قابل قبول نہیں ہے،ہم یہاں پر عثمان بن مطعون کا قصہ نقل کرتے ہیں جو اپنے والد کی وفات کے بعد ان کے غم میں گھر سے باہر نہیں نکل رہا تھا۔ وہ عبادت میں ہی مصروف ہوگیا اور ہر طرح کے کام کاج کو چھوڑ دیا اس نے مسجد کو ہی اپنا گھر بنا لیا۔۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر ملی آپ نے اسے بلایا اور کہا اے عثمان اللہ نے ہمارے لیے رہبانیت کو لازم قرار نہیں دیا گیا۔میری امت کی رہبانیت جہاد ہے۔(الأنوار، ج 70، ص 114 باب النهي عن الرهبانية، حديث 1)
اس میں اس بات کی رہنمائی ملتی ہے کہ مادی اور اجتماعی زندگی کو ترک کرنا اور اپنے کاموں کو چھوڑ دینا ایک ناپسندیدہ اور منفی طریقہ ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم مثبت طرز عمل اختیار کریں۔اور مثبت طریقہ یہ ہے کہ جہاد کا راستہ اختیار کیا جائے، اسی کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رہنمائی کی ہے اور اسی کے فضائل صحابہ کی ایک جماعت سے بیان کیے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام میں رہبانیت کی ہر صورت میں نفی فرما دی ہے۔
سینٹ آگسٹین
ہمیں آگسٹین کی تاریخ سے صرف اس لیے دلچسپی ہے کہ اس سے مسیحیت کے کئی پہلووں کی وضاحت ہوتی ہے اور انہیں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ نوپلاٹونزم سے لے کر مانیکی ازم اور پھر عیسائیت تک کے تجربات کا ان پر ایک بڑا اثر ہوا، وہ اپنے صوفی تجربے اور اپنے نوپلاٹونک فلسفے کو اورعیسائی تثلیث کو، ایک نیا تصور دینے کے قابل ہوئے یعنی تثلیت کے عقیدہ کی بنیادیں یہیں پر ہیں۔ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پچھلے ماہرینِ الہٰیات کا خیال تھا کہ تین مفروضے (باپ، بیٹا اور روح القدس) آزاد ہستاں ہیں، اور یہ کہ باپ نے بیٹے، روح، اور روح القدس پر سبقت حاصل کی اور یہ کہ روح القدس صرف باپ کی طرف سے نکلا ہے۔آگسٹین کا خیال تھا کہ تینوں برابر ہیں اور ایک دوسرے سے برتری نہیں رکھتے، اس نے لکھا: اس تثلیث میں بہت بڑی مساوات ہے باپ الوہیت کے لحاظ سے بیٹے سے بڑا نہیں ہے۔ درحقیقت، باپ اور بیٹا روح القدس سے بڑے نہیں ہیں۔
وہ صرف باپ کی طرف سے روح القدس کے پیدا ہونے کے معاملے پر ان سے اختلاف کرتا تھا، اس نے بیٹے کی طرف سے بھی روح القدس کے پیدا ہونے میں ان سے اختلاف کیا اور کہا: "یہ صرف باپ سے نہیں بلکہ بیٹے سے بھی پیدا نہیں ہوا۔"
آگسٹین نے مسیحیت میں ایک خطرناک چیز کا اضافہ کیا تھا، اور وہ یہ تھا کہ اس نے مسیحی نظریہ تثلیث کو جدید افلاطونی فلسفے کے مطابق ڈھالا۔ تینوں مفروضوں کی ایک ہی حقیقت ہیں،یہ تین الگ الگ مستقل وجود نہیں ہیں۔ آگسٹین سے پہلے مسیحیوں کی یہی رائے تھی کہ تینوں مستقل الگ الگ ذاتیں ہیں۔
اس کی رائے یہ ہے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس کی وحدت ایسے ہی ہے جیسے عاشق،معشوق اور عشق کی طرح ہے،یہ ایک ہی حقیقت ہے۔جب ہم ایک زاویہ سے دیکھیں تو ہم تین الگ الگ مفاہیم سے ایک مفہوم اخذ کرتے ہیں،جیسے ارادہ، تذکر اور فہم و ارادہ یہ ان کے نزدیک تین الگ مفاہیم ہیں جو ایک حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔وہ کہتا ہے:"پس امور تذکر،فہم اور ارادہ یہ تین چیزیں ہیں مگر یہ ایک ہی زندگی ہے،تین عقلیں نہیں ہیں ایک ہی عقل ہے،پس معلوم ہو گیا کہ یہ تین الگ الگ جوہر نہیں ہیں بلکے ایک ہی جوہر ہے"
جہاں تک انسان کے بارے میں اس کا نظریہ ہے، وہ بھی اپنے پیشروؤں سے مختلف تھا۔ اور اس کا یہ ماننا تھا کہ اس نظریہ میں اس کے تجربات،اس کی جوانی میں جنسی رغبت کا بڑا کردار ہے۔ کہ انسان اپنی ذات میں برا ہے۔ انسان انفرادی کوششوں سے اپنی ذات میں موجود برائیوں کو دور نہیں کرسکتا۔اس کی نجات اللہ کی رحمت پر موقوف ہے،یہ اللہ کی محبت ہے، یہ محبت انسان کو عبادت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اسی کو وہ (اولیاء کی استقامت) کہتا ہے۔اس رحمت کے بغیر انسان لعنت کا حقدار ہے اور رحمت کے قریب بھی نہیں آسکتا۔
آگسٹین کے مطابق، چرچ واحد ادارہ ہے جسے اللہ تعالی نے مقدس رسومات کی ادائیگی کےلیے بنایا ہے جس سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔ایسا صرف چرچ میں ہوتا ہے،چرچ سے باہر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔
چرچ کی تقسیم
اسلام کے ظہور اور مسلمانوں کی فتوحات سے ریاست کی توسیع نے رومی سلطنت کی کمزوری میں نمایاں کردار ادا کیا، ایسے وقت میں جب اسے شمال میں بڑے حملوں کا خطرہ تھا۔مسلمان شام، فلسطین، ایشیا مائنر، شمالی افریقہ اور اسپین کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اگر فرانس میں چارلس مارٹل کا دفاع نہ ہوتا تو مسلمان پورے یورپ کو فتح کر لیتے۔
مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے رومی صفوں کو متحد کرنے کی اپنی کوشش میں شہنشاہ لیو III نے گرجا گھروں میں مجسموں اور پینٹنگز کی کافرانہ تعظیم کے حوالے سے کچھ عیسائی گروہوں کے مطالبات کا جواب دیا، اس لیے اس نے 726 میں ان کے استعمال پر پابندی لگانے کا حکم دیا۔ اس پر روم میں پوپ گریگوری II کو غصہ آگیا۔ اس نے چرچزکی کونسل طلب کرکے جواب دیا ،جس میں مجسموں اور تصاویر کو تباہ کرنے سے منع کیا گیا تھا، اس نے شہنشاہ کو پوپ کے اختیار سے سسلی اور جنوب مشرقی اٹلی پر قبضہ کرنے پر اکسایا۔ جس سے پوپ اور حملہ آور آمنے سامنے آگئے پوپ نے چارلس مارٹل سے مدد طلب کی، لیکن اس کی موت نے پوپ کو فتح سے روک دیا۔ اس مشن کو اس کے بیٹے "پیپن دی شارٹ" نے انجام دیا ۔جس نے شمال میں خود سروں کو زیر کیا۔ اور الپس کے پار چرچ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے مغربی یورپ کے دروازے کھول دیے۔
پیپین دی شارٹ کے بعد اس کے بیٹے شارلیمین نے ایک وسیع ریاست قائم کی جس میں مغربی یورپ کے تمام ممالک (فرانس، اسپین، بیلجیم، نیدرلینڈز، جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور اٹلی) شامل تھے۔لیو III کو کرسمس 800 پر شارلیمین کو مقدس رومن شہنشاہ کے طور پر تاج پہنانے پر مجبور کیا گیا۔ جس کا عملی طور پر مطلب سلطنت کی دو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم تھا۔
قسطنطنیہ اور روم کے چرچ کے درمیان صرف تصویر سازی کا ہی فکری اختلاف نہیں تھا بلکہ ایک اور شدید اختلاف یہ بھی تھا کہ آگسٹین روم کے چرچ نے اس بات کو بھی ہدف تنقید بنایا کہ آگسٹین نے یہ عقیدہ رکھا ہے کہ وہ بیٹے سے ہے یعنی جس طرح سے روح القدس باپ سے ہے اسی طرح وہ بیٹے سے بھی ہے،یہ بحث اوپر تفصیل سے گزر گئی کہ اس کی وجہ کیا تھی؟ مشرقی چرچ نے اس کا انکار کر دیا۔۸۷۶ میں قسطنطنیہ میں ایک کلیسیائی کونسل کا انعقاد کیا گیا اس کونسل میں پوپ نے ایمان میں گواہی میں اس اضافے کی مذمت کی۔ جس چیز نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا اور دونوں گرجا گھروں کے درمیان فاصلہ پیدا کیا وہ وہی تھا جو 1054 میں ہوا، جب روم کے چرچ نے کلیسائے قسطنطنیہ کے سرپرست کو محروم کر دیا اور اس نے جواب میں اس پر لعنت بھیجی۔
اس کے بعد سے، کیتھولک چرچ کے دونون فرقے رسمی اتحاد برقرار رکھے ہوئے ہیں ہر ایک اپنے الگ الگ راستے پر چل رہی ہے۔یہ اتحاد بھی 1204 میں "گڈ فرائیڈے" والے دن ختم ہو گیا تھا۔ جب عیسائی فوج صلیبی جنگوں کےلیے اپنے راستے پر تھی۔ اس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اسے بری طریقے سے لوٹ لیا اور یہ تباہ و برباد ہو گیا۔
قرون وسطی کا چرچ (سنہری دور)
پوپ کے اقتدار کی توسیع مسلسل ہوتی رہی یہاں تک کہ اس کا ٹکراو یورپ کے سب سے بڑا بادشاہ سے ہو گیا۔ یہ تصادم اس وقت ہوا جب دو شخصیات منظر عام پر آئیں۔ جب 1073 میں گریگوری ( VII) نے پوپ کا منصب سنبھالا اور ہنری چہارم جرمنی کا تخت نشین ہوا۔ پوپ ہنری چہارم نے حکم دیا کہ بشپ اپنے عہدوں کو خود ہی منتخب نہیں کرسکیں گے،یہ معاملہ پوپ کے خصوصی اختیارات سے متعلق تھا۔ شہنشاہ نے اپنےمشیروں،وزیروں اور بشپوں کے ساتھ ملکر ایک کونسل کے انعقاد کیا،اس میں اس نے پوپ کے اختیار کو مسترد کر دیا۔ ہنری کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب پوپ نے ہنرچہارم کو ہی تسلیم نہ کرنے اور اسے بادشاہت سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔اس نے جرمنی اور اٹلی کو رعایا کی وفاداری کو بھی مشکوک کر دیا۔اس نے اشرافیہ کو مجبور کیا کہ وہ پوپ سے معافی مانگے، اسے ایک سال کا وقت دیا کہ وہ برطرفی سے چھٹکارا پا لے بصورت دیگر اسے تخت سے ہٹا دیا جائے گا۔
ہنری سردیوں کے درمیان الپس پار کر کے کاسوکا پہنچا اور پوپ کے محل کی طرف گیا جہاں وہ محل کے سامنے ایک چوک کےد رمیان ننگے پاوں،سفید لباس پہنے برف پر کھڑے ہو کر توبہ کی درخواست کرتا رہا۔پوپ نے بدلہ لے لیا اور پھر ملاقات کی درخواست قبول کر کے اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے چرچ سے آزاد کر دیا۔
ہنری بھولا نہیں تھا کہ پوپ نے اس کے ساتھ کیا کیا، اس نے اسے ایک نئے تنازعے میں پھنسایا، اس کی وجہ سے ہنری کو دوبارہ چرچ سے خارج کر دیا گیا، اس لیے اس نے روم کی طرف مارچ کیا، پوپ کو وہاں سے نکال دیااور اس کی جگہ پر دوسرے کو تعینات کر دیا۔
سو سال کے بعد، پوپ انوسنٹ- III (1193-1216) کی آمد کے ساتھ ہی پوپ کا عہدہ اپنے بام عروج پر پہنچ گیا۔جس نے اوٹو III کو ایسے وقت میں جرمنی کا شہنشاہ مقرر کیا جب یہ تباہی کا شکار تھا، اور بہت سے لوگ اس کے تخت کا مطالبہ کر رہے تھے۔اس نے پورے فرانس کو "کلیسیائی پابندی" کے تحت رکھا، یعنی تمام مذہبی رسومات اور ان کی ممانعت پر عمل در آمد کرایا جاتا تھا۔ جب بادشاہ نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا، تو بادشاہ نے عوامی دباؤ میں چرچ کے حکم کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ جب انگلستان کے بادشاہ اور رچرڈ دی لائن ہارٹ کے بھائی "جان" نے آرک بشپ کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار زبردستی منتخب کرنے کی کوشش کی۔ اس نے پورے انگلینڈ کو "کلیسیائی قرنطینہ" میں ڈال دیا ۔جب بادشاہ نے اس کی مزاحمت کی تو اس نے اسے تخت سے محروم کر دیا۔ اس نے عہدہ خالی قرار دیااور اسے نظم و ضبط میں لانے کے لیے ایک فوجی مہم تیار کی۔ "جان" نے ہتھیار ڈال دیے اور انگلستان کو پوپ کی جاگیردارانہ ملکیت قرار دیا گیا۔ جس سے پوپ فیوڈل ٹیکس کی صورت میں سالانہ اچھے خاصے مال کا حقدار تھا۔ پوپ انوسنٹ III نے یہ بتا دیا کہ وہ بادشاہ گر ہے جسے چاہے بادشاہت سے ہٹا دے اور جسے چاہے بادشاہت دے دے۔
تھامس ایکیناس
اندلس کے زوال کے بعد یہودی پورے یورپ میں پھیل گئے یوں عربوں اورمسلمانوں کی تحقیقات کا ترجمہ بڑےپیمانے پر ہونے لگا۔اس نے مذہبی عقائد پر فلسفیانہ اثرات ڈالے اس کے کافی شواہد ہیں۔اس کےذریعے ہی اہل یورپ یونانی فلسطفی متون سمجھنے کے قابل ہوئے بالخصوص ارسطو کے فلسفے کو خاص مقام ملا۔ہم اس معاملے میں تھامس ایکیناس کا ذکر کریں گا اس کا بڑا کام یہ ہے کہ اس نے عقل و وحی کوباہم ملانے کی بات کی ہے۔اس کے ذریعے اس نے ارسطو اور مسیحؑ کو باہم قریب لانے کی کوشش کی ہے۔اس نے کہا کہ عقیدہ کو ثابت کرنے کے لیے عقلی دلیل کافی ہے اور پھر اس کی وضاحت کے لیے وحی آتی ہے۔اس لیے اس ایمان کی اہمیت زیادہ ہے جس کی بنیاد وحی پر ہوتی ہے۔یہ بات پیش نظر رہے کہ عقل کے بغیر بات نہیں بنتی ہے کوئی ایسا عقیدہ یا ایمان قابل قبول نہیں ہے جس کی بنیاد عقل کے خلاف ہو۔
کونی کے ہاتھوں، عیسائیت نے ایک نیا روپ اختیار کیا جس کی خصوصیت عقلیت کی تھی۔اس کی کتابیں مخالف اقوام کے خلاف عقیدتی دفاع کا ذریعہ بن گئیں یہ رومن کیتھولک چرچ کی قیمتی کتابیں ، گائیڈز اور تدریسی نصاب بن گئیں۔
ارسطو کے "پیریپیٹیٹک" فلسفے پر اس کے اطلاق کے نتائج میں سے اس کا یہ قول ہے کہ انسان ایک جسم اور ایک روح ہے۔ فلسفیانہ الفاظ میں، "مادہ اور شکل"، ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔جسم "مادہ" روح کے بغیر نہیں رہ سکتا، اور روح جسم کے ساتھ اپنے اتحاد کے بغیر مکمل اور طاقت سے عمل میں نہیں آسکتی ہے۔اس لیے مسیحی جسم کے جی اٹھنے پر زور دیتے ہیں۔
اس نے ارسطو کے "مادے اور شکل کے اتحاد" کے نظریہ کو عیسائی مذہبی رسومات پر بھی لاگو کیا، خاص طور پر ان کا یہ عقیدہ کہ ماس میں روٹی کھانے اور شراب پینے سے عیسائیوں کے جسم کو مسیح کے جسم کے ساتھ مل کر ایک الہی جسم میں بدل جاتا ہے، اسی وجہ سے بائبل کا متن کہتا ہے: "اور جب وہ کھا رہے تھے، یسوع نے روٹی لی اور برکت دی اور اس نے اسے توڑا اور شاگردوں کو دیا اور کہا، "لو، کھاؤ، یہ میرا جسم ہے۔" (متی 26:26)
یہ عبارت دوسری انجیلوں میں بھی ملتی ہے، جیسے مرقس کی انجیل (14:22-24) اور انجیل لوقا (22:19-20)، اور پولس کے کرنتھیوں کے نام پہلے خط (11:23-25) میں بھی ہے۔ . یہ واقعہ عیسائی روایت میں "آخری عشائیہ" یا "ماس" کے نام سے جانا جاتا ہے، اور یوکرسٹ کے ادارے کو نشان زد کرتا ہے۔
ہر رسم میں دو عناصر ہوتے ہیں، مادہ (پانی، روٹی، شراب، تیل) اور رسمی (موسم کی خاص شکل) اور ان کے ملاپ سے اثر (برکت) حاصل ہوتی ہے۔ (الہی عنصر) اور غیر فعال (انسانی) عنصراور خاص حالات کا مجموعہ، مافوق الفطرت فضل الہی عنصر سے انسان میں منتقل ہوتا ہے، اور وہ خدا کے ساتھ مل جاتا ہے!!