29 شوال 1446 هـ   28 اپریل 2025 عيسوى 8:21 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-08-10   525

مسیحی عقیدے کا ارتقاء (دوسری سے پانچویں صدی تک)

شيخ مقداد ربيعي

پہلی صدی میں ہی مسیحؑ کے دو بارہ آنے کا خیال پس منظر میں چلا گیا۔اسی صدی میں مسیح ؑ کے زیادہ تر شاگرد وفات پا چکے تھے اور مسیحیوں کی دوسری نسل آچکی تھی اور ان کا تعلق یروشلم سے باہر کے علاقوں سے تھا۔ انہیں حضرت مسیحؑ کے حالات اور تعلیمات کو جاننے کی اشد ضرورت تھی کہ انہوں نے کیسے زندگی گزاری تھی۔ان حالات میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ انہیں عہد نامے قدیم کے ساتھ ساتھ کسی نئی کتاب کی ضرورت تھی جو ان کی رہنمائی کرے۔مسیحیوں کے پاس سب سے قدیم انجیل مرقس کی انجیل ہے جو پنسٹھ یا ستر کے آس پاس انطاکیہ روم میں لکھی گئی۔ اسے یوحنا نے لکھا جو مرقس کے لقب سے مشہور ہے۔بطرس نے ان دونوں کو مسیحؑ کا شاگرد لکھا ہےاس نے مسیح کی پیدائش اور جوانی کا ذکر زیادہ اہتمام کے ساتھ نہیں کیا۔ اس میں حضرت مسیح ؑ کے متعلق تجسیم اور وجود ابدی کا عقیدہ بھی نہیں ملتا۔

ہم متی اور لوقا کی انجیل میں تجسیم کا عقیدہ بڑے واضح الفاظ میں دیکھ سکتے ہیں۔اسی طرح یسوع کی فطرت الہی ہے اور وہ نسل انسانی کو بچانے کے لیے آسمان سے نیچے آیا تھا۔ جہاں تک چوتھی انجیل (یوحنا کی انجیل) کا تعلق ہے، یہ پولس کے نظریے سے مطابقت رکھتی تھی جس کی وضاحت ہم نے دووسرے مضمون میں کی ہے، جس میں مسیح کلمہ (لوگوس) ہے جو جسم بن گیا اور ایک وقت کے لیے ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا جلال دیکھا، ایک بیٹے کا جلال جو باپ کی طرف سے آیا ہے۔" یوحنا 1:14۔ چوتھی انجیل پولس کی اس سوچ میں پیروی کرتی ہے کہ مسیح ذاتی طور پر خدا کی طرف سے آیا ہےاور وہ وہی ہے جس نے دنیا کو تخلیق کیا۔

بعد میں قائم ہونے والی مسیحی کونسلوں نے آباء و اجداد  کی متعدد تصانیف کو رد کر دیا، جیسے کلیمنٹ آف روم، ہرماس آف روم، برنباس کے خط کے مصنفین اور بارہ رسولوں کی تعلیمات اس ارتقاء میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انسانی شخصیت اور اپنے رب کی عبادت کو واضح الفاظ میں بیان کیا یہ باتیں اس وقت سرکاری طور پر رائنج پولس کی تعلیمات کے خلاف تھیں ۔

عیسائیت کا دفاع کرنے والی کتابیں بھی ایک مخصوص فلسفیانہ زبان رکھتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتابیں روم کے شہنشاہوں اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی طرف بھیجی گئی تھیں اور یہ بڑے دانشوراور استاد تھے۔ اس کے نتیجے میں ان میں سے کچھ نے عیسائیت اختیار کی۔ ان لوگوں کے ہاتھوں، عیسائیت نے یونانی فلسفہ، خاص طور پر افلاطونیت اور سٹوکزم کا لباس پہن لیا۔ قدیم عبرانی طرز کو ترک کر دیا گیا۔ عیسائیت کی آفاقیت کے اظہار کے لیے انہوں نے جو لفظ استعمال کیا وہ تھا "کیتھولک ازم،" یعنی آفاقیت، جس نے بعد میں دوسری صدی کے وسط کے بعد عیسائیت کی مذہبی تشکیل کی۔

عیسائی گروہوں کا ظہور

ہم نے ایک اور مقالے میں بیان کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کی پیشین گوئی کے وقت بحیرہ روم کے اردگرد ایسے فلسفے پھیل چکے تھے جن میں دیوتاؤں کے اوتار کے ذریعے انسان کی لافانییت کو تلاش کیا جاتا تھا۔ اس کا پولس نے خوب فائدہ اٹھایا اور دعویٰ کیا کہ یہ یسوع میں پورا ہو گیا ہے۔ لہٰذا غیر یہودیوں کی طرف سے یسوع کو قبول کرنا ان کی شخصیت میں مطلوبہ لافانیت کے پہلو کا ہونا تھا۔ یہودیوں کے مطابق وہ متوقع مسیحا تھے۔ جب عیسائیت کو فلسفہ کے ساتھ ملایا گیا تو ایک مکمل الہیات سامنے آئی جس نے مذہب اور فلسفہ کو متحد کر دیا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا، جیسا کہ پہلے عیسائی رہنماؤں نےحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انسانی شخصیت اور الہٰی شخصیت کے درمیان توازن برقرار رکھا تھا، یہ ایسا معاملہ جس میں اختلاف جاری رہے۔ مسیحیت کو موجود شکل اختیار کرنے میں کئی صدیاں لگیں۔

قدیم زمانے سے کیتھولک چرچ سے وابستہ پادری مسیح کی بشری شخصیت کی نفی کرتے آئے ہیں اس میں دو مذاہب گنوسٹک اور مارسیونائٹ پیش پیش رہے ہیں۔ گنوسٹک بنیادی طورپر باطنیت پر یقین رکھنےو الےلوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نور محض ہے اور اس کی معرفت حاصل کی نہیں جا سکتی۔

روحانی مخلوق نے اسے گھیرا ہوا ہے،یسوع اسی سے ہے جو ہمدرد،شفیق اور رحم کرنے والا ہے۔ یہوواہ عبرانیوں اور عہد نامہ قدیم کا الہ ہے۔ جس نے انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ناپاک مادی دنیا بنائی،جب مہربان یسوع نے دیکھا کہ غریب و مسکین لوگوں پر زندگی تنگ ہو گئی ہے،اس وقت وہ انسانی لباس میں زمین پر اتر آیا۔ یہ ایک حقیقی جسمانی جسم نہیں تھا، بلکہ محض ایک انسانی جسم کی شکل تھی اور اس نے لوگوں کو دکھایا کہ کس طرح اپنی روحوں کو نجس مادی اجسام کی غلاظت سے بچانا ہے اور ہمیشہ کے لیے کامیاب ہونا ہے،زہد اور حکمت کو حاصل کرنے کا طریقہ بتایا۔

اسی وجہ سے یہوہ جو یہودیوں کا خدا ہے اس کی عبادت سے انکار کیا جاتا ہے،اسی طرح عہد نامہ قدیم کو رد کیا جا تا ہے کہ یسوع حقیقی معنوں میں پیدا نہیں ہوا او رنہ ہی اسے اذیت دی گئی،نہ وہ مرا ہے اور ہماری بحث اس موضوع سے خاص رہتی ہے کہ قیامت کا تعلق روحوں سے ہے جسموں سے نہیں ہے۔

گونوسٹک کی دعوت کو روم میں بہت زیادہ مقبولیت ملی اس میں مرقیون نامی شخص کی دعوت نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔وہ ان کے ساتھ عہد نامہ قدیم کو نہ ماننے کے عقیدے میں متفق تھا اور اسی طرح باقی امور دعوت میں بھی متفق تھا۔اس کے نظریات میں شدت پسندی پائی جاتی ہےاس کی وجہ سے وہ کسی خاص مکتب سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔اس نے چرچ آف روم سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا الگ گروپ بنا لیا تھا۔اس نے اپنے گروپ کے لیے ایک خاص مقدس کتاب لکھنے کی بھی کوشش کی،یہ دراصل پولس اور لوقا کی تحریروں کا مجموعہ تھی۔اس نے یہودیوں کے خدا یہوواہ کے ساتھ مسیحؑ کے تعلق سے متعلق تمام اقتباسات کو حذف کر دیا تھا۔

چوتھی صدر میں ۱۵۰ سے ۱۷۵ میلادی میں کیتھولک کلیسا نے ایمان کی تصدیق کا  عمل شروع کیا اسے بپتسمہ کے دوران انجام دیا جاتا تھا۔مسیحی مذہب کی فطرت کو گنوسٹیزم اور مارکسیونزم سے  علیحدگی کے لیے، اس نے کہا: "میں خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں، یسوع مسیح، اس کے اکلوتے بیٹے، ہمارے رب پر، جو روح القدس اور کنواری مریم سے پیدا ہوا اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ جو پونٹیئس پیلاطس کے دور حکومت میں مصلوب ہوا، تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا، وہ آسمان پر چڑھ گیا اور باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا تھا، جہاں سے وہ زندوں اور مردوں کا انصاف کرنے آئے گا۔ میں روح القدس، مقدس کلیسیا، گناہوں کی معافی اور جسم کے جی اٹھنے پر یقین رکھتا ہوں۔" اس شہادت نے دونوں مکاتب فکر کے تمام سابقہ عقائد کو رد کر دیا۔

کلیسیا نے بھی سنجیدگی سے کوشش کی کہ اس کی طرف سے  تیار کیے گئے مقدس متون کی تصدیق کی جائےاور یہ دوسری صدی عیسوی کے آخر میں حالات کے پیش نظر ایسا  کرنا ضروری تھا۔

ظلم و ستم  کے بعد فتح

لوگوں نے بڑی تعداد میں نئے مذہب یعنی مسیحیت کو قبول کیا مگر رومی حکومت اس مذہب کی مخالف رہی، اس مخالفت کی وجہ سے قدیم مذہب چھایا رہا۔ حکومت نے مسیحیت کو اس لیے مسترد کیا کیونکہ مسیحیت میں رواداری بہت زیادہ تھی اور اس میں تشدد کو بڑی شدت سے مسترد کیا جاتا تھا۔ رومی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ اگر ایسا پرامن مذہب اس کی زمینوں پر پھیل گیا تو آہستہ آہستہ حملہ آور اس کی زمینیں ہتھیا لیں گے۔ ڈینیوب اور رائن اور اس کے وحشی ساتھی سلطنت پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے، شہنشاہ مارکس اوریلیس نے اپنے دور حکومت (161-180)  میں حملوں کے لیے تیار کیا تھا تاکہ مسیحیوں پر حملہ کریں۔اس کے بعد بھی بادشاہوں نے اس تیاری کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ شہنشاہ ڈیکس کے پاس پہنچا یہ ۲۵۰ میلادی تھا۔جب اس نے دیکھا کہ یہ  دفاع میں کوتاہی کرتے ہیں اور ان میں بہت زیادہ بے حسی ہے تو اس نے انہیں سزا دینے کا فیصلہ کیا کہ ایک گروہ کو قتل کر دیا جائے۔یہ لازمی قرار دیا گیا کہ ہر شہری بادشاہ کی تصویر کے سامنے قربانی پیش کرے گا اور اس کی تصدیق رومی سپاہی کے ذریعے کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے روم اور انطاکیہ کے بہت سے بشپ مارے گئے، اور بہت سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک گروہ نے مارے جانے کے خوف سے ہتھیار ڈال دیے۔جن لوگوں نے یہ قربانی کی وہ سخت گیر وں اور انتہا پسندوں کی طرف سے مرتد قرار دیے گئے،اس ظلم و جبر کے ختم ہو جانے کے بعد ان کی توبہ کو بھی قبول نہیں کیا گیا۔ شہنشاہ والیرین کے دور میں، ظلم و ستم کی کارروائیوں کو درندگی کے ساتھ دوبارہ شروع کیا گیا، چرچ کی جائیداد ضبط کر لی گئی، اور بہت سے بشپ اور پادریوں کو قتل کر دیا گیا۔ پھر آخری ظلم 303 AD میں ڈیوکلیٹن کے دور میں شروع ہوا، اس نے تمام گرجا گھروں کو تباہ کرنے، عیسائی مقدس کتابوں کو جلانے اور بشپ اور ان کے نیچے کے پادریوں کو اس وقت تک تشدد کا نشانہ بنانے کا حکم دیا جب تک کہ وہ اس کی  تصویر  پر قربانی نہ کریں۔

اس کے بعد، ڈیوکلیٹن کو بادشاہت سے سبکدوش کر دیا گیا اس نے اپنے ساتھ لڑتے ہوئے چار قیصر چھوڑے اور قسطنطین نے آخر کار دوسرے مخالفین کو شکست دی اور 323 عیسوی میں وہ سلطنت کا واحد حکمران بن گیا۔

شہنشاہ کانسٹنٹائن نے عیسائیت اختیار کی،اس نے چرچ کی جائیدادوں کو واپس کر دیا۔وہ عیسائیت کا پکا پیرکار تھا اس نے ان فرقوں سے جنگ کی جنہیں چرچ نے بدعتی قرار دیا تھا۔اس نے ریاست میں اتور کے دن چھٹی کا سرکاری اعلان کیا،اس کے جانشین بھی عیسائت کو فروغ دیتے رہے ۳۸۳ میں انہوں نے عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا۔

نیکیا کونسل:

مسیحیت میں عقیدہ کی تفصیلات کا اختلاف بڑھتا گیا،مسیح کی شخصیت،باپ اورروح القدس کا تعلق دو بڑے اختلافی موضوعات تھے۔یہ معاملہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب آئرس نامی مسیحی رہنما نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ اسکندریہ کے بشپ سے مسیح ؑ کی ابدی زندگی کے متعلق اختلاف کیا۔آئرس کہتا تھا کہ مسیح ایک محدود وجود ہے، وہ عدم سے پیدا ہوا ہے اور اس کی طبیعت اللہ کی طبیعت سے مختلف ہے۔بشپ کا عقیدہ یہ تھا کہ مسیح مقام ابدیت پر فائز ہے  اور وہ مخلوق نہیں ہے۔یہ اپنی ذات و طبیعت میں اللہ کے  مشابہ ہے(استغفراللہ،اللہ اس سے بلند ہے)بشپ اور آئرس کے درمیان صلح کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔۳۲۵ عیسوی میں قسنطنطین نے اس مسئلہ پر کلیساوں کی عالمی کونسل میں معاملہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔تقریباً تین سو بااختیار بشپس، جن میں سے زیادہ تر مشرق سے تعلق رکھتے تھے، باسفورس کے قریب نیکیا شہر میں ملے،اس کانفرنس کا نام "عقیدہ کی گواہی" رکھا گیااس میں لکھا مندرجہ ذیل فیصلہ ہوا:

"ہم ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں، قادر مطلق باپ، تمام ظاہری اور پوشیدہ چیزوں کا خالق ،وہ ایک ہی رب ،ابن اللہ،جو باپ سے پیدا ہوا،یہ اپنے باپ کا اکیلا بیٹا ہے۔یہ اللہ سے اللہ ہے،نور سے نور ہے،حقیقی اللہ سے حقیقی اللہ ہے۔یہ خود باپ کے جوہر سے ہے،خداوند جس کے ذریعے آسمان و زمین کی تمام چیزیں پیدا کیں۔ہماری خاطر اور ہماری نجات کی خاطر وہ زمین پر جسمانی صورت میں اترا اور انسان بن گیا تکالیف کو برداشت کیا۔وہ تیسرے دن جاگا،آسمان پر چلا گیا،وہ زندوں اور مردوں پر حکومت کرنے آیا۔ہم روح القدس پر یقین رکھتے ہیں۔"اس کے بعد انہوں نے ان لوگوں پر لعنت بھیجی جنہوں نے یسوع کے جوہر کو خدا کے جوہر سے مختلف کہا تھایا جنہوں نے یہ کہا تھا کہ وہ عدم سے وجود میں آیا۔یہ سب آئرس کے پیروکاروں کی طرف واضح اشارہ تھا۔یہ فیصلہ مسیحی عقائد کی تشریح میں تاریخی حیثیت کا حامل ہے جس نے کئی نسلوں تک مسیحیت کی رہنمائی کی،یہاں تک کہ کلیسا نے اسے غلطی سے پاک قرار دے دیا۔

اسکندریہ کے قبطی چرچ کا اختلاف:

یسوع کی الہی طبیعت کے مسیحی تصور کے بارے میں مسیحیوں کے ہاں بہت فکری اختلافات ہیں۔نیکیا کی کونسل کا فیصلہ گزر چکا جس میں انہو ں نے کہا کہ بیٹا "یسوع" اور لفظ "لوگوس" باپ "خدا" کے برابر تھے۔مسیح خدا سے کم نہیں ہے۔اس میں اس بات کی تفصیل نہیں دی گئی کہ الہی فطرت کو مسیح کی فطرت کے ساتھ کیسے جوڑا گیا؟! یہ مسیحی علم کلام کے گھنجلک ترین مسائل میں سے ہے۔مسیح کی الوہیت کی بحث کے بعد اختلاف مسیح کی تصویر کشی پر آگیا۔اس میں یہ بحث کی گئی کہ کیا وہ ہماری طرح انسان ہے یا اس کا جسم فقط ایک خول ہے جس سے انسانیت کا اظہار ہوتا ہے،یعنی حقیقی جسم نہیں ہے؟

ایک گروہ نے کہا کہ مسیح کی بشری طبعیت کا وجود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اللہ کی طبیعت سے متباین اور علیحدہ ہو۔یہاں سے مسیح ؑ کی انسانی اور الہی شخصیت کو بیان کرنا علمی طور پر مشکل ہو گیا۔اس کا حل یہ کیا گیا کہ الہی فطرت اس کی بشری فطرت میں مل جاتی ہے۔اس تفسیر کو کیتھولک چرچ نے قبول کر لیا۔

انطاکیہ کے بشپ نے کہا کہ مسیح مکمل طور پر انسانی طبیعت رکھتا ہے،ان کے پاس دوسرے انسانوں کی طرح عقل اور ارادے کی آزادی ہے۔اس میں لوگوس( روح القدس) بستا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان عبادت گاہ میں ہوتا ہےاس طرح کہ مسیح وہی چاہتا ہے جو روح القدس چاہتا ہے،اس میں مکمل معنی میں وحدت پائی جاتی ہے۔نیسٹوریس نے قسطنطنیہ کے راہبوں کو شدید غصے میں مبتلا کر دیا جب اس نے کہا کہ مریم عذراء ؑ کسی خدا سے حاملہ نہیں ہوئی بلکہ بلکہ اسے ایک انسان نے حاملہ کیا جو اللہ کا بنایا ذریعہ تھا۔

431 میں، ایک جنرل کونسل بلائی گئی، جس میں نیسٹوریس کو اس کے عہدے سے ہٹا کر جلاوطن کر دیا گیا، تاہم، یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ، لہذا سال 451 میں کلیسیڈن شہر میں ایک کلیسیائی کونسل کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔اس میں کیتھولک چرچ کے نقطہ نظر کے مطابق مسیح کی انسانی فطرت اور اس کی الہی فطرت کے درمیان تعلق کی تعریف، جو کہ مندرجہ ذیل ہے:"ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مقدس آباء و اجداد کی پیروی کرتے ہیں،ہم سب متفقہ طور پر اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ بے شک اپنی ذات میں ایک ہی بیٹا ہمارا رب یسوع مسیح تھاوہ ایک ہی وقت میں مکمل الہ ہے،اپنے الہ ہونے میں کامل ہے اور اپنے باپ کے ساتھ ایک ہی جوہر میں شریک ہے۔وہ گناہوں کے علاوہ ہم جیسا ہے (یعنی وہ گناہ نہیں کرتا)اس کی الوہیت کی بات ہے تو وہ اپنے باپ کا بیٹا ہے جو زمانوں سے پہلے باپ سے پیدا ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ جو باتیں اس کے بشر ہونے سے متعلق ہیں ہماری رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ آخری زمانے میں مریم عذراء ؑ سے پیدا ہوئے،وہ خدا کی ماں ہیں،مسیح اپنی ذات میں ایک ہے،وہ بیٹا اور خدا ہے،وہ تنہا مولود ہے جو دو طبیعتوں سے مل کر بنا اور بغیر کسی خلط کے ایسا ہوا،اتحاد کی وجہ سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔ہر طبیعت کی خصوصیات محفوظ رہتی ہیں اور ایک شخص میں آ جاتی ہیں۔۔۔الی آخر"

قسطنطنیہ کے کلیسیا کا خیال تھا کہ خدا کی فطرت یسوع کی فطرت سے مختلف ہے۔ سکندریہ کے چرچ نے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔وہ یہ کہتے تھے کہ (العیاذ باللہ ) اللہ اور یسوع ایک ہی طبیعت سے ہیں۔اس کی وجہ سے، وہ "جیکوبائٹس" کہلاتے ہیں۔ ان سے قبطی کلیسا بنا ،جو آج مصر، ایتھوپیا، شام اور آرمینیا میں موجود ہے اور آج تک یہ اختلاف جاری ہے۔

روح القدس کا قرآنی نظریہ:

قرآن کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ روح سے مراد مبدا زندگی ہے۔وہ مستقل موجود ہے،یہ ملائیکہ کی جنس سے نہیں ہے،اس پر قرآنی آیات موجود ہیں۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ)، المعارج: 4

۴۔ ملائکہ اور روح اس کی طرف اوپر چڑھتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

سورہ قدر میں ارشاد باری ہوتا ہے:

(تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ)، القدر: 4

۴۔ فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔

یہاں عطف سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں مختلف ہیں۔

روح القدس کا تعلق امر و ملکوت سے ہے عالم خلق و مادہ سے نہیں ہے۔ہر مادی وجود دو طرح کا ہوتا ہے،ہم دیکھتے ہیں کچھ وہ ہیں جن کے معلوم ظاہری اسباب ہوتے ہیں۔دوسرا وہ ہیں کہ جنہیں اللہ تعالی کی طرف سے وجود ملا ہوتا ہے۔پہلے کو عالم خلق کہتے ہیں اور دوسرے کو عالم امر وملکوت کہتے ہیں۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(۔۔۔ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ)، الأعراف: 54

آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

عالم امر اللہ کا حکم ہےوہ ممکن کو وجود عطا کرنا ہے۔یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا)، الأسراء: 85

۸۵۔ اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: روح میرے رب کے امر سے متعلق (ایک راز) ہے اور تمہیں تو بہت کم علم دیا گیا ہے۔

اسی لیے یہ عالم امر میں سے ہے۔قرآن نے امر سے مراد کی بھی وضاحت کی ہے،ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ. فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ)، يس: 82 ـ 83

۸۲۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔۸۳۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔

یعنی ملکوت ایک وجود ہے اور اللہ کا یکبارگی فیض ہے،اس فیض کا تعلق ظاہری اسباب سے نہیں ہوتا،اسی لیے قرآن حضرت عیسیؑ کو روح اللہ ،کلمۃ اللہ کہتے ہیں کیونکہ آپ کی تخلیق بغیر باپ کے ہوئی تھی یعنی ظاہری اسباب سے نہیں ہوئی تھی۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ )، النساء: 171

بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا ۔

ہم قرآن مجید میں یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے روح کے لفظ کو بغیر کسی تقیید کے استعمال کیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ)

۴۔ فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔

دوسرا لفظ روح تقیید کے ساتھ استعمال ہوتا ہے:

وہ روح بھی ہے جو انسانی زندگی کا مبداء ہے جیسے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ﴿۷﴾ ۔۔۔ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ  ﴿۹﴾ ) السجدہ

اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔پھر اسے معتدل بنایا اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا ۔

روح کے ذریعے اللہ کی مدد مومنین کو پہنچتی ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

(أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ )، المجادلة: 22

 یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو ثبت کر دیا ہے اور اس نے اپنی طرف سے ایک روح سے ان کی تائید کی ہے ۔

روح،عام انسانی روح اشرف،اعلی اور قوی مرتبہ رکھتی ہے اللہ تعالی کےا س فرمان سے اسی کا پتہ چلتاہے:

(أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)، الأنعام: 122

۱۲۲۔ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی بخشی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو؟ یوں کافروں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔

مومن نورانی زندگی گزارتا ہے اور نورانی زندگی اس کی روح کا اثر ہوتی ہے جبکہ کافر مردوں کی زندگی گزارتا ہے بے شک اس میں وہ روح ہوتی ہے جس کے ساتھ انسانی جسم زندہ رہتے ہیں۔مومن جیسی روح کافر کے پاس نہیں ہوتی۔

وہ روح جس کے ذریعے فرشتے نصرت کرتے ہیں جیسے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا)، مريم: 17

 پھر انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا پس ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا، پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ)، الشعراء: 194

۱۹۳۔ جسے روح الامین نے اتارا،۱۹۴۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ،

ایک روح وہ بھی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کی مدد کی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ)، البقرة: 87

اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو نمایاں نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید کی ۔

ان آیات مجیدہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ روح اللہ کی مخلوق ہے جو فرشتوں سے افضل ہے۔یہ عالم ملکوت(عالم الامر) کی مخلوق ہے۔اس کے بھی کئی مرتبے ہیں،ہر مرتبے والے کا خاص اثر ہے۔ایک مرتبہ انسان کو اس کی زندگی میں دیا جاتا ہے۔ایک مرتبہ وہ ہے جس کے ذریعے سے مومنین گناہوں سے بچتے ہیں ۔ایک مرتبہ وہ ہے جو فرشتوں اور انبیاء کو حاصل ہے جس کے ذریعے سے وہ ہر قسم کے چھوٹے اور بڑے گناہ سے بچتے ہیں۔

اس بات کو ائمہ اہلبیتؑ نے واضح اور صریح الفاظ میں بیان کیا ہے۔کلینیؒ نے صحیح سند کے ساتھ محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن حماد بن عيسى عن إبراهيم بن عمر اليماني، عن جابر الجعفي سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابوعبداللہ نے فرمایا:اے جابر ،اللہ تعالی نے مخلوق کی تین قسمیں بنائی ہیں،اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 (وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً ﴿۷﴾ فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿۸﴾ وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿۹﴾ وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ﴿۱۰﴾ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ﴿۱۱﴾) سورہ واقعہ ۷ ۔۱۱

اور تم تین گروہوں میں بٹ جاؤ گے۔ ۸۔ رہے داہنے ہاتھ والے تو داہنے ہاتھ والوں کا کیا کہنا۔ ۹۔ اور رہے بائیں ہاتھ والے تو بائیں ہاتھ والوں کا کیا پوچھنا۔ ۱۰۔ اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں۔ ۱۱۔ یہی وہ مقرب لوگ ہیں۔

سابقون سے مراد اللہ کے رسول ہیں،یہ اللہ کی مخلوق میں اس کے خاص لوگ ہیں۔ان میں سے پانچ ایسے ہیں جن کی اللہ نے روح القدس کے ذریعے تائید کی اس کے ذریعے وہ خدا کی اطاعت کے قابل ہوئے۔اللہ نے ان کی روح الشہوہ کے ذریعے تائید کی اس کے ذریعے یہ خواہشات میں اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور نافرمانی کو ناپسند کرتے ہیں۔اللہ نے ان میں روح مدرج قرار دی جس کے ذریعے لوگ ان کے پاس آتے اور جاتے ہیں ۔اللہ نے مومنین میں اصحاب میمنہ قرار دیے ہیں جو روح  ایمان ہیں،اس کے ذریعے یہ لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ان میں روح قوت قرار دی ہے جس کے ذریعے یہ اللہ کی اطاعت پر قدرت رکھتے ہیں۔

اس حدیث مبارک میں روح القدس کو دوسری ارواح سے الگ طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ یہ ان سے پاکیزہ اور طاہر ہوتی ہے،اس میں تقدس کا اضافہ کیا ہے یعنی طہارت کا اضافہ کیا ہے۔انبیاءؑ میں ارواح کے پانچ مراتب ہوتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ روحوں کے کئی مراتب ہیں۔انبیاءؑ ان پانچ مراتب کے حامل ہوتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک الگ مستقل روح نہیں ہوتی،جو اعلی ترین ربتے پر ہو وہ کم ترکا حامل ہوتا ہی ہے۔

اس طرح مومن کے چار مراتب ہیں۔

مومن کی روح اللہ کی نافرمانی کے وقت اس سے دور ہو جاتی ہے۔کلینیؒ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہےعن علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عن داود وہ کہتے ہیں میں نے ابوعبداللہ ؑ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس قول کے بارے میں سوال کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم    فرماتے ہیں:جب انسان زنا کرتا ہے تو روح ایمان اس سے جدا ہو جاتی ہے؟اس پر آپؑ نے فرمایا :اس کی مثال اللہ تعالی کے اس قول کی طرح ہے: (وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ)البقرہ:۲۶۷، (اور اس میں سے ردی چیز دینے کا قصد ہی نہ کرو۔) پھر فرمایا: اس کے علاوہ اللہ تعالی کا یہ قول بھی ہے: (وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ) المجادلہ ۲۲ (اور اس نے اپنی طرف سے ایک روح سے ان کی تائید کی ہے۔) یہی وہ روح ہے جسے الگ کیا جاتا ہے"۔

الكافي: ج2، ص284

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018