جوانانِ جنت کے سردار حضرت امام حسین علیہ السلام
جوانان َ جنت کے سردار، حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت 3 شعبان المعظم، سنہ 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔آپ کی والدہ ماجدہ سیدۃالنساء العالمین، بضعۃ الرسولؐ حضرت فاطمۃ الزہرا(س) ہیں، اور آپ کے والد گرامی فاتح خیبر، ناصر اسلام، دامادِ رسول ؐ حضرت علی ؑ ہیں، جب آپ کی ولادت باسعادت کی خبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی گئی تو آپ ؐنے انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت امام حسین ؑ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر اپنا لعاب دہن بطور پہلی خوراک امام ؑ کے منہ میں ڈالا، اور نومولود کا نام ’’حسین ‘‘ تجویز کیا اور فرمایا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی ہارون ؑ کے دو بیٹے تھے ان کے نام ’’شبر اور شبیر‘‘ تھے میں ان کے ناموں پر اپنے نواسوں کے نام رکھتا ہوں۔
شبر کا عربی میں ترجمہ حسن ہے جو امام حسن ؑ کا نام رکھا گیا اور شبیر کا ترجمہ حسین ہے اسی لیے آپ کا نام حسین ؑ رکھا گیا اور علماء نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ نام عرب میں پہلے نہ تھے، سب سے پہلے یہ نام امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کے لیے رکھے گئے۔ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین ؑ کا عقیقہ خود کیا اور ایک مینڈھا بطور عقیقہ ذبح کیا اور ولادت باسعادت کے ساتویں روز آپ ؐ نے امام حسین ؑ کے بال منڈوائے اور بالوں کے برابر چاندی راہ خدا میں صدقہ کر دی۔
آپ ؑ کی ذات خاندان اہلبیت ؑ کی نمایاں ذات ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مطالبہ مودت کیا ہے:’’آپ ؐ کہہ دیجئے میں اس پر (تبلیغ رسالت پر) کوئی سوال اجر نہیں کرتا مگر یہ کہ میرے قریبی لوگوں سے مودت کرو۔‘‘ اس آیت مبارکہ کی رو سے اہلبیت رسولؐ کی ’’مودت‘‘ جو کہ محبت سے بھی بہت بلند درجے کا تعلق ہے اس کا تقاضا پروردگار نے بطور اجر رسالت کیا ہے اور اسی کو امام شافعی نے کیا خوب بیان فرمایا ہے:
’’اے اہلبیتِ رسول خدا آپ ؑ کی محبت خدا کے نازل کردہ قرآن کے حکم سے فرض ہے اور آپ ؑ کی قدر و عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ جو آپ ؑ پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
دنیا بھر کے مسلمان دن میں پانچ بار جب بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہوتے ہیں تو عظمتِ اہلبیتِ رسول ؐ کا اعلان اپنی زبانوں سے ان پر درود پڑھ کر کر رہے ہوتے ہیں، حضرت امام حسین ؑ کی پرورش رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی، آپ ؐ حضرت امام حسین ؑ سے بے انتہا محبت کرتے تھے جس کے مظاہر سیرت نبی ؐ میں دیکھنے کو ملتے ہیں اگر عید کے دن فرمائش کر دی کہ نانا جان ہماری سواری کہاں ہے؟ مدینہ کے دوسرے بچوں کی سواریاں ہیں وہ ان پر سوار ہوں گے ہم کس سواری پر سوار ہوں گے، تو رحمت دو جہاں آقائے نامدار ؐ نے فرمایا کہ ان کی سواریاں معمولی قیمت کی سواریاں ہیں آپ کی سواری میں خود بنتا ہوں، نواسوں کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور مدینہ کی گلیوں کی سیر کرا رہے ہیں اسی دوران سامنے سے حضرت عمر کا گزر ہوتا ہے اس منظر کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ’’ آپ کی سواری سب سے اچھی ہے‘‘ تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ یا عمر؛ یہ کیوں نہیں کہتے کہ’’ سوار بھی بہت اچھے ہیں۔‘‘
آپ ؐ کو امام حسین ؑ سے بے حد محبت تھی، ایک روز آپ ؐ نماز پڑھا رہے تھے، امام حسین ؑ کے بچپن کا عالم تھا، جونہی آپ ؐ سجدے میں گئے،امام حسین ؑ جناب رسول اعظم ؐ کی پشتِ مبارک پر سوار ہو گئے، تاریخ میں ملتا ہے کہ آپ ؐ نے سجدے کو طول دے دیا اور جب تک امام حسین ؑ آپ کی پشت مبارک پر رہے آپ ؐ نے سجدہ سے سر نہیں اٹھایا۔ اسی طرح ایک بار سرور کونین ؐ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اتنے میں امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ مسجد میں داخل ہوئے، سرخ اور سبز رنگ کا نیا لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں، انتہائی بچپنے کا عالم ہے، جب چلتے ہیں تو لڑکھڑا جاتے ہیں جب آپ ؐ نے لڑکھڑانے کا یہ منظر منبر سے دیکھا قریب تھا کہ بچے گر جائیں، آپ ؐ فوراً منبر سے اترے اور نواسوں کو اٹھا لیا اور منبر پر اپنے پاس بٹھایا اور ارشاد فرمایا، ’’خداوندعالم نے سچ فرمایا ہے کہ مال اور اولاد میں آزمائش ہے۔‘‘
اسی تربیت رسول ؐ کا نتیجہ تھا کہ حضرت امام حسین ؑ خْلق اور خَلق دونوں میں آپ ؐ سے مشابہت رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آپ ؑ سے شدید محبت کرتے، آپ ؐکی رحلت کے بعد ان کو جب بھی حضرت نبی اعظم ؐ کی یاد آتی تھی تو حسن ؑ و حسین ؑ کو دیکھتے تھے۔ آپ ؐ کے بہت سے فرامین کتب احادیث میں موجود ہیں جو آپ ؐ نے اپنے نواسوں کی شان میں ارشاد فرمائے ہیں، آپ ؐ کا مشہور فرمان ہے،’’ حسن ؑ و حسین ؑ جوانان جنت کے سردار ہیں‘‘، اور یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جنت میں داخل ہونے والے تمام لوگ جوان ہوں گے یعنی جو بچے اور بوڑھے فوت ہوئے ہیں ان کو بھی جوانی واپس لوٹا دی جائے گی جب تمام اہل جنت جوان ہوں گے تو تمام جوانوں کے سردار رسول مکرم ؐ کے نواسے ہیں۔
کہیں فرمایا،’’ حسن ؑ اور حسین ؑ دنیا میں میرے دو پھول ہیں، یعنی گلشن رسالت کے پھول امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ ہیں اور اسی طرح آپ ؐ کا ارشاد ہے کہ میرے نواسے حسن ؑ اور حسین ؑ سردار ہیں قیام کریں یا بیٹھ جائیں۔ اور اگر آپ ؑ کی ذاتی سیرت و کردار کا مطالعہ کیا جائے تو آپ خدا کی عبادت کے دلدادہ، غریبوں اور مسکینوں کے مددگار، مسافروں کو زاد راہ فراہم کرنے والے، قائم اللیل اور صائم النہار تھے، ایک فصیح و بلیغ مقرر، دنیا میں ہدایت کو بانٹنے اور گمراہی کا قلعہ قمع کرنے والے، میدان جنگ میں ڈٹ جانے والے شجاع، ہر بے کس و بے سہارا فقیر کا سہارا، اسلام اور مسلمانوں کا درد رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔
آپ ؑ کی فصاحت و بلاغت کے متعلق محمد بن طلحہ شافعیؓ تحریر فرماتے ہیں امام حسین ؑ اپنے دور کے سب بولنے والوں سے سب سے زیادہ فصیح اللسان تھے، فصاحت آپ کی فرمانبردار لونڈی اور بلاغت مطیع امر کنیز تھی اور ایسا کیوں نہ ہو آپ کی تربیت سرور انبیاء ؐ نے فرمائی، جن کا ارشاد ہے کہ میں ’’افصح العرب‘‘ ہوں اور آپ کے والد گرامی حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے کہ مفکرین کو یہ کہنا پڑا’’تحت کلام الخالق، فوق کلام المخلوق‘‘ کہ’’ خالق کے کلام سے کم درجہ ہے مگر مخلوق کے کلام سے بلند ہے‘‘ آپ ؑ کی سخاوت بھی مشہور ہے کہ آپ نے کئی غلاموں اور لونڈیوں کو راہ خدا میں آزاد کیا، آپ مسافروں کو مہمان رکھتے اور فقیروں اور مسکینوں کے لیے آپ کا دسترخوان ہر وقت بچھا رہتا، آپ دشمنوں اور اذیت پہنچانے والوں کو بھی جلدی معاف کر دیتے، بدلہ کی مطلقاً خواہش نہ رکھتے، یہی وجہ ہے کہ دس محرم کی صبح کو جب آپ کا راستہ روکنے والا حر ؑ آپ کے پاس آیا اور معافی کا طلبگار ہوا تو آپ نے فوراً معاف کر دیا۔ خدا سے دعا ہے کہ ہمیں آپ کی سیرت پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین