22 جمادي الاول 1446 هـ   24 نومبر 2024 عيسوى 10:09 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2023-02-20   1145

اسلام اور فقر و تنگدستی کی مشکل کا حل

اللہ نے انسان کو پیدا فرمایا اور باقی کائنات کی ہر چیز کو انسان کی خدمت اور بہتری کے لئے بنایا اور پھر اس کو ان تمام مخلوقات سے صحیح معنوں میں فائدہ حصل کرنے کا الہام فرمایا آپ نے مشاہدہ کیا کہ وہ زندگی کے ابتدائی لمحات میں ہی ماں کی چھاتی سے چمٹ جاتا ہے اور اس سے اپنے لئے رزق تلاش کرتا ہے اسی طرح اپنی باقی زندگی میں بھی (وہ جستجو کرتا رہتا ہے )

یہ کائنات اور اس میں جو کچھ بھی ہے وہ ہم انسانوں کےلئے مسخر کیا گیا ہے اس میں وہ تمام بھلائیاں موجود ہیں جو ایک انسان کی آرام دہ زندگی کے لئے کافی ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ غربت نام کی کوئی چیز مسلمانوں میں نہیں ہونی چاہئیے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قوانین میں پوری دنیا سے غربت کے خاتمہ  پر بہت زور دیا گیا ہے ان میں سے بعض کو بطور اختصار ذکر کرتے ہیں :

1: زکات کی ادائیگی پر تاکید

زکات کو فروع دین مین سے قرار دیا گیا ہے اور یہ اسکا چوتھا رکن ہے اور قرآن کی 29 سوروں میں  59 طرح سے اسکا ذکر کیا گیا اور روایات میں تقریبا دو ہزار کے قریب احادیث زکات کے متعلق ہیں اور لغت میں اسکی تعریف ترقی ،پاکیزگی اور صلاح کیساتھ کی گئی ہے اور اصطلاحی معنی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جیسا کہ شیخ اعظم انصاری ؒ نے اپنی کتاب میں فرمایا  کہ مخصوص شرائط کے ساتھ  مال سے  مخصوص مقدار نکالنا زکات کہاتا ہے ۔س

زکات دینے کے فوائد و آثار میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ رزق میں اضافہ کا سبب بنتی ہے زکات کی ادائیگی سے تنگدستی نہیں آتی ،زکات ثروت مندوں کا امتحان اور فقراء کی مدد کا نام ہے نیز زکات بخل کا علاج اور فقرو تنگدستی سے اعلان جنگ ہے ۔

2:خمس کی ادائیگی پر تاکید

خمس بھی فروع دین میں سے ہے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے اور قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے (انفال / 41)

یہ آیت ایک عمومی حکم کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خمس نکالنا ہر اس انسان پر واجب ہے جو جنگ کے علاوہ  کسی چیز سے غنیمت (نفع)حاصل کرے ۔

خمس کے قوانین ایک لطیف صورت کو منعکس کرتے ہیں جس سے اسلام کی مساوات کا دائرہ کار اور تمام مسلمانوں میں مشارکت کا اہتمام واضح ہوتا ہے (کیونکہ خمس کسی خاص طبقہ سے مخصوص نہیں بلکہ ہر انسان سے متعلق ہے جو بھی زندگی کے امور بالخصوص کسب معاش سے منفعت حاصل کرتا ہے  اس پر خمس کی ادائیگی لازم قرار پاتی ہے باقی تفصیلی احکا م کو فقہی کتب میں ملاحظہ کی جا سکتا ہے )

3: ماجی باہمی تعاون (تعامل اجتماعی )

یہ سماجی استحکام کا بہترین عنصر ہونے کیساتھ ساتھ غربت و افلاس کی دوسری کا بہترین سبب بھی ہے سماجی تعاون کا مطلب کے یہ کہ معاشرے کے لوگ باہمی تعاون سے سماجی مشکلات کی دوسری کے لئے ایک دوسرے سے تعاون اور یکجہتی کریں اور معاشرے کی عمومی صورتحال کو بدحالی سے محفوظ رکھیں ایسا کرنے سے ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے کہ اسکے کچھ سماجی فرائض و واجبات ہیں جن کو پورا کرنے کا وہ پابند ہے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ بندہ مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر سویا ہو اور اسکا پڑوسی بھوکا رہے ۔

یہ اور اس قسم کی دوسری احادیث ایک انصاف پسند انسان کو بے چین کر دیتی ہیں بلکہ اس طرف ہلکی سے توجہ ایک فطری معاملہ ہے جو انسان کو اس وقت تک سکون نہیں دیتا جب تک وہ اپنے ارد گرد لوگوں کو بھی ایسی ہی نعمتوں سے مستفید ہوتا نہ سیکھے (گویا انسان فطرت میں ہے کہ دوسرے انسان کو مصیبت و مشکل میں نہیں دیکھ سکتا اور اسکی دوری کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے اسی فطری تقاضے کے پیش نظر اسلام نے سماجی حقوق بتائے ہیں کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کرو اور برائی مین دوسروں کا ساتھ نہ دو )

4: صدقہ دینا

یہ ان مستحب اعمال میں سے ہے جس پر اسلام نے بہت ابھارا ہے یہ فقراء کے حقوق کو متضمن ہے  یہ بیک وقت پورے معاشرے کو فائدہ پہنچاتا ہے اور وقت بدل جاتا ہے ایک شخص جو اب تک صدقہ لیتا رہا پھر وہ معاشرے میں اس سنت کو آگے چکاتا ہے اور کود دوسروں کو صدقہ دینے کا اہل ہو جاتا ہے نیز صدقہ دینا رزق کے اضافہ کا ایک غیبی عامل ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک صدقہ دینے والے کے رزق میں کثرت کا سبب ہوتا ہے لہذا تم صدقہ دیا کرو اللہ تم پر رحم کرئے ۔

4: بیت المال (محکمہ اوقاف )

اسلام جن تعلیمات کو لایا یہ انکی سب سے شاندار تصویر کشی ہے جو سرمایہ کو کسی شخصی ملکیت کے بغیر جمع کرتے ہیں اور اس سے معاشرے کے ضرورت مند اور محتاج لوگوں نیز یتیم مسکینوں اور بیواؤں ،مریضوں اور بوڑھوں کی مدد کرتے ہیں ۔اور رسول اللہ ﷺ سے حدیث میں یہی ملتا ہے کہ اصل سرمایہ محفوظ رکھوں اور اسکے ثمر اور نفع سے دوسروں کو سیراب کرو

اگر دولت مند اور صاحب حیثیت لوگ اس سنت پر عمل کریں تو ہمیں معاشرے میں اس طرح کی غربت کا عروج کہیں دیکھنے کو بھی نہ ملے ۔

5: حق ملکیت

یعنی زمین اور اسکے وسائل معدنیات اور قدرتی مواد اور اس پر موجود پتھر درخت اور دیگر چیزیں یہ روئے زمین کے ہر انسان کے فائدہ کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں ان سب میں اسکا حق موجود ہے  اور کسی دوسرے کا حق نہیں بنتا کہ اس سے یہ چھین لے یہ کسی صورت بھی جائز نہیں ہے ۔ جہاں تک ریاست کی بات ہے تو وہ فقط نگران ہے اسکا کوئی خاص تعلق نہیں ہے قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہی ہے  اور رسول اللہ کا فرمان موجود ہے فرمایا  کہ زمین اللہ کی ہے اورجو اس زمین کو آباد کرئے  اسکی ہے ۔

اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ؛ جو شجر کاری کرے اور ایسی زمین کو آباد کرئے (زندہ کرئے ) جس کو پہلے کسی نے نہیں کیا  وہ جو مردہ زمین کو زندہ کرئے وہ اسکی کے لئے ہو گی یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے ۔

6: سود کا حرام ہونا

سود کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے کہ اللہ سود کو ناپائیدار اور خیرات کو بابرکت بنا دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا (البقرہ /276) سود ان حرام معاملات میں سے ہے جو امیروں کو مزید  امیر اور غریبوں کو مزید غریب بنا دیتا ہے  غریب انسان جب معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے تو قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے پھر قرضے کی واپسی میں دشواری کیساتھ اسکا سود ادا کرتے کرتے مزید مقروض ہو جاتا ہے اور کبھی سوداگر اور تجارتی طبقہ سود کی وجہ سے فقراء کی صف میں  آ کھڑا ہوتا ہے  ایک تاجر اپنے کاروبا رکو وسیع کرنے کے لئے سودی قرض لیتا ہے تو کاروبار میں نقصان کی صورت میں وہ مزید مقروض اور بدحال ہو جاتا ہے جس کے سبب وہ اپنی مصنوعات کی قدر کھٹاتا ہے اور مزدور کی اجرت کم کر دیتا ہے اور یہ چیز پھر معاشرے میں غربت کے نفاذ کا سبب بنتی ہے۔اور دوسری جانب یہ سود خوروں کو بیکار بنا دیتا ہے جس سے وہ فقط   بیٹھ کر سود کے زریعہ اپنے کاروبار کے تناسب کو بڑھاتے رہتے ہیں ۔

یہ اور اس طرح کے دیگر اسباب کسی بھی معاشرے کو غربت سے دوچار کرتے ہیں چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی  اور بصد افسوس کے غربت کی دوری کے الہامی قوانین کی رعایت نہ کرنے کے سبب ہم مختلف معاشروں کو اس دلدل میں گھرا ہوا دیکھ رہے ہیں  حالانکہ اسلامی قوانین کو غربت سے نجات کی ضمانت دیتے ہیں ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018