فلسفہ اور اسلام میں عقلانی تعلیم ۔ ۔ ۔ تجزیہ و تحلیل
پہلی سیریز
مقدمہ :
جب افکار و نظریات متحرک ہوں، ان کے آپس میں ٹکراؤ ہو اور ایک دوسرے سے ملحق ہوجائیں تو اس سے نئے افکار وجود میں آتے ہیں اور نئے ابحاث کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ جب ہم اسلام کا مطالعہ محض ایک تہذیب کے لحاظ سے کرتے اور اس کے نقطہ نگاہ کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں نیز یہ بھی بتانے کی سعی کرتے ہیں کہ انسان کی سوچ و فکر پر اسلامی تہذیب بھی اثر انداز ہوتی ہے تو ہم ایک ایسے سلسلے کو پیش کرنے کی سعی و کوشش کرتے ہیں کہ جس کا ماحصل عقل و اسلام دونوں کا نتیجہ کہلاتا ہے۔ ہم اس کی جڑوں کے بیان سے ابتداء کرتے ہیں تاکہ معرفت کے اس سلسلے سے ایسے ثمرات چن سکیں جو ایک جانب عقلی تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ ہو اور دوسری جانب یکساں متوازن عقلانیت تک پہنچنے کا نقطہ آغاز ہو۔
مغربی فلسفہ میں عقلانی تعلیم اور اس کا جائزہ
عقلانی تعلیم کا نظریہ کوئی جدید بحث نہیں ہے بلکہ یونان کے قدیم فلسفہ میں بھی اس پر گفتگو ہوئی ہے لیکن اس میں جو سوالات اور نظریات پیش کئے گئے ان کے آپس میں فرق ضرور پایا جاتا ہے اس لئے کہ بعض فلسفی ایسے ہیں جو ایک دینی یا ماوراء طبیعی (میٹا فیزکس) محرک کے وجود کی ہداہت کے قائل ہوئے ہیں اور یہ وہی چیز ہے جو عقلی فلسفی سوچ کے تشکیل پانے کا سبب بنتی ہے ۔ جس کے اوپر اخلاقی رفتار کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان ہی فلسفیوں میں وہ بھی ہیں جو مذکورہ نظریے کے معتقد نہیں ہیں ،جیسے ارسطو (۳۸۳ ۔۔ ۳۲۲ ق۔م) وہ فلسفہ اخلاق کے لئے ہر قسم کی میٹافیزکس یا دینی بنیاد کو اساس نہیں مانتے ہیں ۔ جبکہ دوسری جانب سقراط (۴۶۹۔۔ ۳۹۹ ق ۔م) اور افلاطون (۴۲۷۔۔ ۳۹۹ ق ، م) ہیں جنہوں نے اپنے فلسفہ اخلاق کی بنیاد ہی میٹافیزکس کے اوپر قائم کی ہے ۔ البتہ ارسطو اور کانٹ کے درمیان جس نقطے میں فرق پایا جاتا ہے وہ نمونے اور تطبیق کا مقام ہے۔ کیونکہ ارسطو تطبیق کے دوران نظریہ میں تبدیل و تعدیل کے قائل ہیں جبکہ کانٹ کہتے ہیں کہ نظریہ ، تطبیق کی تنظیم اور اس کے محکم ومضبوط ہونے کا کردار ادا کرتا ہے ۔ اس پر تطبیق سے پہلے نظریہ اخلاق کی تاسیس ضروری ہوجاتی ہے۔ تاکہ ان مختلف نظریات نیز ان بنیادوں سے اٹھنے والے نظریات اور نمونوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ان مبانی کا تجزیہ و تحلیل کی جائے اور ان کے اوپر تنقیدی جائزہ بھی لیا جاسکے۔
۱۔ فلسفہ مثالیت (آئیڈیلسٹ) کے مبانی
فلسفے کا یہ نظریہ " فلسفہ افلاطون " کے ثمرات میں سے ہے کہ جس میں افلاطون "عالم مثل" کے قائل ہوئے۔ ان کے بعد جرمن کا مشہور فلسفی امانوئل کانٹ (Amuneel Kant۱۷۲۴ ۔ ۱۸۰۴ م) نے اس کو مزید وسعت دی ۔ کیونکہ کانٹ "عقل عملی" کے اوپر "عالم مثل" کے اثر انداز ہونے کا قائل تھا۔ انہوں نے اس پر تاکید کی کہ میٹافیزکس کے بغیر فلسفہ اخلاق کی بنیاد رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ان کا فلسفہ ، "اخلاقی میٹا فیزکس" کہلاتا ہے ۔ کانٹ اس پر ایمان رکھتا ہے کہ خیر مطلق کی مبدئیت کے بغیر تعلیم کے نتائج کا استخراج اور ان کا حصول ممکن نہیں ہے اور وہ مبدأ خیر مطلق ، اللہ ہے ۔ کانٹ اپنے مدعا کے اثبات میں ان مؤمنوں کے وجود کا حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے اپنے اختیار سے ایک عزت و عظمت والی زندگی تک پہنچنے کے لئے سختیاں برداشت کیں ۔ کیونکہ وہ ادراک کرتے تھے کہ کمال مطلق، وجود رکھتا ہے اسی لئے وہ اس کی جانب حرکت کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اس کمال مطلق تک رسائی اور وصول ، اخلاق کے لازمی قاعدے پر عمل کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے ۔ کیونکہ روح جب سفر کرے گی تو اس کی بازگشت اللہ کی جانب ہی ہوگی جس کے نتیجے میں اپنےاس کمال تک پہنچ جائے گی جس کے لئے اسے خلق کیا گیا ہے اور اسے عالم حس میں زحمت اٹھانے کے لئے بھیجا گیا ہے ۔
اس نظریہ کے اہم مبانی میں یہ ہے کہ وجود کو کلی طور پر ان کی وضع کی ہوئی اصطلاح کے مطابق اسی عام نظریے کی جانب پلٹایا جائے اور اسی معنی میں ہی اس کی حقیقت جدا ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی آئیڈیالوجی ہے جس کی بنیاد عقل اور اس کی حاکمیت پر رکھی گئی ہے۔ اس میں روح پر عقیدہ رکھا گیا ہے اور مادہ کے کردار کو کم سمجھا گیا ہے۔ اس نظریہ کے پیروکار یہ اتفاق رکھتے ہیں کہ اشیاء کا وجود ان قوتوں کا فرع ہے جو اس کو درک کرتی ہیں اور عالم مثل اور عالم افکار میں وجود ، کے بغیر عالم حس میں ان کا موجود ہونا محال ہے ۔ چنانچہ علامہ مصباح یزدی نے ان کے اس نظریے کی وضاحت مختلف فلسفی آئیڈیالوجیز کے تقابلی جائزے میں کی ہے۔ اس فلسفہ کے واضح ترین نمونے بارکلی، کانٹ، ڈکارت اور ہیگل کا فلسفہ ہے۔ ان کے فلسفی نظریات رفتہ رفتہ مختلف فلسفی مکاتب کی شکل اختیار کرنے لگے۔ جیسے فلسفہ ذاتیہ ، نفسیات، تنقیدی فلسف، فلسفہ مطلق اوراس کی دوسری شکلیں مانند فلسفہ بقائیت جس کا روح کی بقاء پر اعتقاد ہے۔ جبکہ سکولر فلسفہ کی تعلیمات جس کو صنعتی انقلاب نے دوسرے فلسفوں سے جدا کردیا ہے اس میں میٹا فیزکس اور بقاء روح جیسے فلسفوں کا انکار ہے اور سکولر فلسفہ مذکورہ فلسفوں کو رد کرتا ہے اسی طرح مارکسیزم بھی اس کا مخالف ہے ۔ بہر حال فلسفہ مثل کی اہم بنیادیں درجہ ذیل ہیں :
۱۔ اللہ یا (عقل مطلق) ان فلسفیوں کی تعبیر کے مطابق وہی حقیقت اور افکار کا خالق ہے اور وہی معرفت کی اساس ہے ۔
۲۔ عالم حس یا حواس کے ماوراء ایک حقیقت وجود رکھتی ہے جس کو عالم افکار یا عالم مثل کہا جاتا ہے ۔ یہ عالم عبارت ہے ایسے مثل اور نمونوں سے جو دائمی اور غیر متغیر ہیں اور یہ مادی کائنات میں رونما ہونے والے تمام حوادث و موجودات کی اصل ہیں ۔
۳۔ عالم مادہ میں جسم و بدن کے ساکن ہونے سے پہلے "عالم مثل" میں نفس مدرکہ وجود رکھتا ہے
۴۔ تعلیم ایک دائمی عمل ہے اور نصاب یا اسلوب انسان کی حریت سے متعلق قدیم یونان کے مفاہیم سے لیا گیا ہے ۔
۵۔ عقل مقدم اور یہ اس کا مقام و مرتبہ ہے جبکہ حواس کی اہمیت نہیں اور یہ کہ عقل کے عمل اور روح کی ترقی کو مرکزیت حاصل ہے ۔
۶۔ انسان کی طبیعت ، اس کی فکر اور مثالیات کے ادراک کی قوت اور ایک حکیم انسان بنانے کی طرف توجہ دینا ۔
۷۔ انسان کے متعلق تصور کی بنیاد پر "عالم مثل" کا فلسفہ دو مکاتب میں تقسیم ہوگیا ہے ۔ پہلا مکتب کہتا ہے کہ انسان مرکب ہے جسم اور عقل سے اور یہ عقل اس میں بڑی اہم ہے ۔ لہذا اس کی تعلیم وتربیت ضروری ہے ۔ دوسرا مکتب کہتا ہے کہ انسان مرکب ہے عقل اور جسم سے اور اس میں روح بڑی اہم ہے اس لئے روح کے لئے تعلیم و تھذیب ضروری ہے ۔
۲۔ حقیقت پسندانہ فلسفہ
عالم حقیقی مادی ، ارسطو کے فرضیہ کا نقطہ آغاز ہے اور اسی پر اس کے تعلیمی فلسفے کی عمارت کھڑی ہے جو کہ میٹافیزکس سے جدا ہے۔ اس میں ایک جزئی فعل اور اس کے تحقق خارجی کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ لیکن اس کے کلی پہلو کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ ارسطو کی پیروی کرتے ہوئے بہت ساروں نے اللہ ، آزادی ، اختیار اور خلود نفس کے درمیان فرق کیا ۔ وہ افکار و خیالات کے فطری ہونے اور ان میں تکامل و ارتقاء کے قائل ہوئے ۔ نیز انہوں نے عقل کی نسبت حواس کو زیادہ اہمیت دی ۔ یہ فلسفہ ارسطو سے شروع ہوا اور تھامس ایکیناس کے ہاتھوں پروان چڑھتے ہوئے فرانسس بیکن ، جان لاک، ملٹن اور رچرڈ، مولکاسٹر، مایکل ڈی مونٹی ، برانڈ رسل ، الفریڈ نورٹ اور وائٹ ہیڈ کے زمانے میں اس فلسفے کو بڑی رونق اور پذیرائی حاصل ہوئی ۔ یہ فلسفہ دو بنیادی اہداف کو لیکر آگے بڑھا جو ثقافتی میراث کو پروان چڑھانے میں تعلیم و تربیت کے کردار پر زور دیتا ہے نیز اجتماعی ارزشوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ان کو نافذ رکھنے کی تاکید کرتا ہے ۔ جبکہ دوسرا ہدف یہ ہےکہ عقلی تربیت کرنے کے ساتھ نفس و جسم کی صحت سے بھی غفلت نہ بھرتی جائے اور ایسے ہی پیشہ ورانہ مہارتوں اور مختلف سرگرمیوں کو بھی بروئے کار لایا جائے ۔ واقعیت پسندی کے اس فلسفے کو رومن چرچ کی پشت پناہی میں بڑی رونق ملی اور یہی سے یہ فلسفہ پھیلا ۔ اس کے ساتھ یہ فلسفہ تین مکاتب فکر میں تقسیم ہوا ۔ جس کے نتیجے میں متعدد مبانی وجود میں آئے :
ا) ۔ پہلا نظریہ ، یہ تھا کہ عقل و مادہ دونوں اللہ کے مخلوق ہیں اور یہ دونوں ایک منظم کام کرتے ہیں ۔
ب) ۔ دوسرا نظریہ کہتا ہے کہ کوئی ضروری نہیں کہ کائنات کی یہ تفسیر کی جائے کہ یہ اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ اور کائنات ایک دوسرے سے بالکل علیٰحدہ ہیں
ج) ۔ یہ سب نظریات اس پر متفق ہیں کہ وجود حقیقی یہی مادی وجود ہے ۔ لیکن انہوں نے اس موجود کے وجود میں آنے کے سرچشمہ میں اختلاف کیا ہے۔
د) ۔ ان فلسفوں میں ان قدرتی اصول و قوانین کے کشف کرنے کی جانب اہمیت دی گئی جو مادہ اور نامیاتی مخلوقات پر حکومت کرتے ہیں ۔اسی طرح مظاہر وجود اور سائنسی اور انسانی مواد و مظاہر کے درمیان سازگاری کو بھی کشف کرنے کی جانب اہمیت دی گئی ۔
۳۔ (عملی فلسفہ ) فلسفہ پراگماٹیزم
اس فلسفے کی جڑیں ہیراکلائٹس کی طرف پلٹتی ہیں جن کے توسط سے اضداد کا فلسفہ وجود میں آیا اور مارکسی جدلیاتی افکار ظاہر ہوئے ۔ پراگماٹیک فلسفیوں میں سرفہرست فلسفی چارلس بیرسی ہیں اور وہی اصطلاح پراگماٹیک کے واضع ہیں ۔ اسی طرح ان کے ساتھ جان ڈولم جیمز بھی ہیں ۔ یہ فلسفہ چارلس ڈارون کے مدون فلسفے پر تکیہ کرتا ہے ۔ اس فلسفے کے بنیادی نظریات درجہ ذیل ہیں :
ا) ۔ یہ عقیدہ ہے کہ طبیعت میں مسلسل تغیر و تبدل جاری ہے اور انسان کی خدمت کے لئے طبیعت کو مسخر کرنے کی کوشش جاری رہنی چاہئے ۔
ب) ۔ افکار، عمل کے تابع ہیں اور ان کا صحیح ہونا عملی تطبیق کی کامیابی پر منحصر ہے ۔
ج)۔ عقل کی حیثیت اور اس کا وجود اس کے مخ اور اس کی کارکردگی کے سوا نہیں ہے۔
د) ۔ اقدار و ارزشوں کا وجود انسانوں کو نفع پہنچانے کے مرہون ہے اور جب ان سے انسان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے تو ان کا وجود بھی نہیں رہتا۔
ھ) ۔ ثقافت و آرٹ،اخلاق اور حقائق سب نسبی امور ہیں جو زمان و مکان کے لحاظ سے تبدیل ہوتے ہیں ۔
و) ۔ یہ فلسفہ اسلوب کے بجائے طریقہ تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے اور شاگرد کی دلچسپی کے گرد گھومتا ہے ۔
ز) ۔ استاد کا کردار یہ ہے کہ وہ شاگرد کو دلچسپی کے ساتھ کام کرنے کی مشق کرائے اور تجربہ کے ذریعے اس کو مہارت سکھائے۔
فلسفہ پراگماٹیک میں انسان اپنی دنیا کو بیالوجیکل اجتماعی فعالیت کے ذریعے بناتا ہے اور اپنے مسلسل معلومات کو منظم کرتا رہتا ہے پراگماٹیک فلسفے کے قدیمی اور جدید اسکول اب بھی سرگرم عمل ہیں ۔
۴۔ مغربی فلسفوں پر تنقید
ا) فلسفہ مثالیت اور واقعیت پر تنقید
مذکورہ تینوں تعلیمی فلسفوں کے درمیان کشمکش و نزاع جاری رہا ان میں سے ہر ایک اپنے فلسفے کا دفاع کرتا اور اپنے مدمقابل کے فلسفہ کو لغو اور باطل سمجھتا ۔ جان ڈیوی نے مثالیت اور واقعیت دوںوں قسم کے فلسفوں کو یہ کہہ کر فلسفے کے میدان سے خارج کردیا کہ ان دونوں میں عام اور معمول کی تقلیدی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے جس سے تعلیمی مہارت و آگاہی حاصل نہیں ہوتی ۔ اس کا زمانہ بھی صرف ماضی کی حد تک تھا جو گزر چکا ہے ۔ نیز تعلیم کا مذکورہ نظام عقل اور جسمانی مہارت میں بھی جدائی ڈالتا ہے جو کہ تعلیم کے بدترین اقسام میں شمار ہوتا ہے ۔ فلسفہ مثالیت پر اعتراضات ہوئے ان کو بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظام تعلیم، انسانوں کو سست اور جسم کو غیر فعال بنا دیتا ہے ۔ نیز یہ نظام چونکہ مہارت سے دور کرتا ہے جس کے نتیجے میں ایسے نظام تعلیم خود فلسفے کے جمود و زوال کا باعث بنتے ہیں نیز یہ غیر جمہوری بھی ہے اور اس میں فکر و تطبیق کے درمیان تناقض پایا جاتا ہے ۔ یہ نظام تعلیم فرد اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بھی بنتا ہے کیونکہ اس نظام میں صرف اشرافیہ پر توجہ رکھی جاتی ہے ۔ نیز اس فلسفےمیں ماضی پر جمود اختیار کرنا اور اسی کی عطا پر رہنا اس کے دائمی اور لازمی ہونے کی صفت قرار دی گئی ہے۔
وہ اعتراضات جو فلسفہ واقعیت پر ہوتےہیں وہ یہ ہیں کہ یہ فلسفہ فردی نظریات سے متأثر ہے اور یہ کہ اس میں اداروں کے چند اشرافیہ کو تیار کرنے پر توجہ دی جاتی ہے ۔اس میں کوئی جمہوری لائحہ عمل یا منصوبہ بندی کو پیش نہیں کیا جاتا اس فلسفے کے مفاہیم بھی ثبات نہیں رکھتے ۔ نیز اس میں جسمانی تربیت کے علاوہ عقلی تعلیم پر توجہ مرکوز بھی نہیں کی جاتی ، اسی طرح سیکھنےوالے کی ضرورت اور ماحولیاتی ضروریات کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے ۔
)ب) جدید فلسفوں پر تنقید
فلسفہ مثالیت ( آئیڈیلسٹ) کے پیروکاروں نے ان کےمخالفین کی جانب سے ہونے والے حملوں کا جواب دیا اور اس سلسلے میں Hermann harlerhorn۱۹۱۰ نے ایک کتاب بھی شائع کی اور اس میں John Dewey کو جواب دیا ہے۔ ان کی ایک اور کتاب بھی ہے جس کا نام " فلسفۃ التربیۃ " ہے جو 1927 کو منظر عام آگئی ہے۔ اس جنگ میں مثالیت (آئیڈیلسٹ) کے حامی نمائندوں نے حصہ لیا اور فریڈکبری نے بھی ایک کتاب تالیف کی جس میں انہوں نے واضح طور پر واقعیت کے پراگماٹیک پر فوقیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح الفرڈ نارتھ واٹھیڈ نے بھی ایک کتاب تحریر کی جس کا نام "اہداف التربیۃ" رکھا اور اسے ۱۹۲۹ میں شایع کیا جس میں فلسفہ پراگماٹیک پر تنقید کی ہے ۔ فلسفہ پراگماٹیک پر ہونے والے مشہور اعتراضات درجہ ذیل ہیں :
۱۔ ترقی پسند پراگماٹیک مقصدیت کا محتاج ہے اس لئے کہ اس میں نوجوانوں کی خواہشات اور ان کی اجتماعی سرگرمیوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔ اس فلسفے میں کیفیت کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ عقلی اور اکیڈمک راستے کے مطالعے کو نظرانداز کیا گیا ہے ۔ اس میں استاد ایک ایسی مشق کا میدان میں تبدیل ہوجاتا ہے جو سرکس کے ساتھ شباہت رکھتا ہے کہ جس میں نوجوان اپنے لیڈر کی تقلید کرتے ہیں
۲۔ جدید ترقی پسند فلسفے ڈگریاں رکھنے والے افراد کے لئے زیادہ موقع فراہم کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اگرچہ ان سے جو حاصل ہوتا ہے اس میں کوئی فوقیت نہیں پائی جاتی ہے ۔
۳۔ حقیقت، ترقی پسند فکر میں انسان کی ساختہ ہے لہذا اس کو کشف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ مہارت اور مشق پر منحصر ہوتی ہے ۔
۴۔ مفہوم عقل ، فکر و عقلانیت سے تنزل کر کے تدبیر معاش کے لئے ہوشیاری اور چالاکی کی سطح پر آگیا ہے ۔
۵۔ اس فلسفے میں اخلاقی اور جمالیاتی ارزشیں نسبی اور غیر صادق ہونے کی حد تک گر گئیں ۔
۶۔ اس فلسفے میں استاد کے کردار کو تنگ نظری سے دیکھا گیا ہے ۔ اس کو صرف رہنمائی کی حد تک رکھا گیا ہے ۔ جبکہ بچے کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے ۔
ج)۔ خلاصہ اور نتیجہ
اکثر جدید مغربی فلسفے انسانی بنیادوں کی تنظیم میں نقص رکھتے ہیں ۔ اسی طرح روحی اور مادی پہلوؤں میں بھی انسانوں کی احتیاجات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں ۔ جیسے فلسفہ مثالیت (آئیڈیلسٹ ) کو دیکھئے کہ یہ فلسفہ مادے کا انکار کرتا ہے اور یہ روحی یعنی علوی اور واقعی ضرویات پر اکتفاء کرتا ہے جو معنوی حاجت کو پورا کرنے اور اس کے بدلے مادی احتیاج کے ارادہ کرنے سے نکال دیتا ہے ۔ پراگماٹیک فلسفہ زمان و مکان کے لحاظ سے دو طرح کے نظریات میں منقلب اور متزلزل ہوجاتا ہے۔
اس لئے یہ فلسفے نوع انسانی کے بقاء کی جانب کچھ آگے بڑھے ۔لیکن یہ فلسفے انسان کی اس نوعی ترقی پر توجہ نہ دے سکے جو انسان کا کمال تھا کہ جس مقصد کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا ۔ان فلسفوں کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ اس میں تعلیم و تطبیق کے ذرایع پر توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ ان میں صرف عقل و حواس کے منھاج پر اکتفاء کیا گیا ہے ۔ ان فلسفوں میں وحی کا کردار ناپید ہے جس کی وجہ سے ان فلسفوں کے نتائج مکھی کے پر کی جیسی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہذا انسان کے متعلق ان کی قدر وارزش مشوش ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ حواس کے لئے تو ممکن نہیں کہ وہ عالم غیب تک رسائی حاصل کرکے وہاں کی خبریں لاسکیں ۔اسی طرح جو کچھ نفس کے اندر ہے اس تک بھی حواس پہنچنے سے قاصر ہیں۔