حضرت عمار بن یاسر ؓجنہیں ایک باغی گروہ نے شہید کیا
عظیم صحابی عمار بن یاسر بن عامر بن مالک الانسی المدھجی ؓ مکہ مکرمہ میں عام الفیل والے سال پیدا ہوئے، پیغمبر اکرم محمدﷺکی ولادت کا سال بھی یہی ہے۔ حضرت عمارؓ نبی اکرمﷺ کے ہم عمر تھے۔ ان کے والد یاسر بن عامر یمن سے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اپنے چوتھے بھائی کی تلاش میں مکہ آئے تھے، ان کے بھائی واپس یمن چلے گئے مگر یاسر ؓ مکہ میں مقیم رہے۔یہاں انہوں نے ابو حذیفہ بن المغیرہ بن مخزوم کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ابوحذیفہ نے اپنی ایک کنیز کے ساتھ ان کی شادی کرا دی۔اس کنیز کا نام سمیہ بنت خیاط ؓتھا ان سے حضرت عمار ؓ پیدا ہوئے۔یوں عمارؓ بنی مخزوم کے مولی بن گئے۔
حضرت عمارؓ ان لوگوں میں سے تھے جو ابتدائی زمانے میں ہی پہلے اسلام لانے والوں میں شامل تھے۔آپ حضرت صہیبؓ بن سنان کے ساتھ ایک ہی وقت میں دار ارقم میں اسلام لائے۔اس وقت مسلمانوں کی تعداد تیس کے قریب تھی۔آپؓ کے اسلام لانے کی برکت سے اللہ نے آپ کے والدین کو بھی اسلام کی توفیق دی۔آپ کے والدین مشرکین کے ظلم و ستم کو صبر سے برداشت کرتے رہے اور شہید کر دیے گئے۔
صبر عمارؓ
جب کفار کو حضرت عمارؓ کے اسلام لانے کا علم ہوا تو ان لوگوں نے آپ پر بہت زیادہ تشدد کیااس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت عمارؓ مکہ میں بہت ہی کمزور تھے آپ کا یہاں کوئی قبیلہ نہیں تھاجو آپ کا اس ظلم و بربریت سے دفاع کرتا۔آپ کو حضرت بلال بن رباحؓ کے ساتھ گرم طوق پہنایا جاتا۔آپ کو مکہ کی شدید گرمی میں ریت پر لٹا دیا جاتا، آپ پر گرم پتھر رکھے جاتے تھے اور آپ نے ظلم و ستم سے تنگ آ کر کفار کے بتوں کا ذکر بھلائی کے ساتھ کر دیا او رآپ ﷺ سے عدم تعلق کا اعلان کیا ۔جب حضرت عمارؓ کو چھوڑ دیا گیا تو آپ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے اور شرمندہ ہوئے۔آپﷺ نے دریافت کیا اس کی وجہ کیا تھی؟تو حضرت عمارؓ نے جواب دیا اس کے پیچھے ان کے شر سے بچنا تھا،خدا کی قسم میں نے آپ ﷺ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی آپﷺ سے دور ہوا ۔میں نے ان کے خداوں کا ذکر اچھائی سےکر دیا ہے؟آپﷺ نے پوچھا تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو؟حضرت عمارؓ نے کہا میں اپنے دل کو ایمان پر مطمئن پاتا ہوں۔آپﷺ نے ارشاد فرمایااگر دوبارہ ویسی ہی صورتحال ہو تو تم دوبارہ ایسے ہی کرنا۔اس کے بعد قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:
((مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ))(النحل-106)
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
ایک بار نبی اکرمﷺ کاگزر ایسی جگہ سے ہوا جہاں حضرت عمارؓ،آپ کی والدہ اور آپ کے والد محترم کو اذیتیں دی جا رہی تھیں آپﷺ اذیت کو روک نہیں سکتے تھے،آپ نے فرمایا صبر اے یاسرؓ کی اولاد صبر کرو ،تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔اسی طرح فرمایا اے اللہ آل یاسرؓ کی مغفرت فرما اور تو نے ایسا کر دیا ہے۔
ہجرت
حضرت عمار بن یاسرؓ کی حبشہ ہجرت کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ آپ نے یثرب کی طرف ہجرت کی۔یہ بات روایات میں آئی ہے کہ جب نبی اکرمﷺ یثرب پہنچے تو اس وقت دوپہر کا وقت تھااس وقت حضرت عمارؓ نے کہا کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جس کے سائے میں آپ بات کریں اور جس میں آپ نماز ادا کریں ۔اس کے بعد آپ نے کچھ لوگ جمع کیے اور اسلام کی پہلی مسجد بنائی جسے مسجد قبا کہاجاتا ہے۔
جب نبی اکرم ﷺ یثرب پہنچ گئے تو آپ نے مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اس میں آپ نے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کا بھائی بنایا۔
حضرت عمارؓ نے تمام جنگوں اور دفاعی غزوات میں شرکت کی،ان جنگوں میں آپ نے بہادری کے جوہر دکھائے،آپ نے نبی اکرمﷺ کا بہترین انداز میں دفاع کیا۔اسی طرح نبی اکرمﷺ کے بعد ہونے والی جنگوں میں بھی آپ شریک رہے۔
حضرت عمارؓ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی کیونکہ آپ خلافت کا حقدار حضرت علی ؑ کو سمجھتے تھے۔آپ نے جنگ یمامہ میں شرکت کی،اس میں آپ نے شدید لڑائی کی ،اس معرکہ میں آپ کا کان کٹ گیا مگر پھر بھی آپ نے لڑائی جاری رکھی۔
حضرت عمارؓ اور عثمان کے تعلقات
حضرت عمارؓ نے عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مسلمانوں کے خزانے کا زبردست دفاع کیا اور اس وجہ سے انہیں سخت ترین اذیتیں دی گئیں۔روایت ہے کہ عثمان نے ارقم بن عبداللہ کے پاس جو بیت المال کے خزانچی تھا بندہ بھیجا اور اس سے کہا: ’’مجھے ایک لاکھ درہم ادا کرو۔‘‘ ارقم نے کہا: مجھے تحریرا یہ لکھ دو تاکہ مسلمانوں کے لیے موجود رہے۔'' عثمان نے کہا: ''تمہیں کیا ہو؟ اور یہ کیا ہے؟ تمہاری اتنی حیثیت نہیں ہے،تم میرے خزانچی ہو۔ جب ارقم نے یہ سنا تو باہر نکل کر لوگوں کے پاس گئے اور ان سے کہا: اوہ لوگو، اپنے مال کا خیال رکھو، کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ میں تمہارا خزانچی ہوں، لیکن میں آج تک نہیں جانتا تھا کہ میں عثمان کا خزانچی تھا۔اس کے بعد ارقم اپنے گھر چلےگئے۔جب عثمان نے یہ سنا تو لوگوں کے ساتھ مسجد میں آیا اور کہا ابو بکر بنی تمیم کو ترجیح دیتے تھے اسی طرح عمر بنو عدی کو ترجیح دیتے تھے اور خدا کی قسم میں بنو امیہ کو سب پر ترجیح دیتا ہوں۔اگر میں جنت کے دروازے پر بیٹھا ہوں اور اس بات پر قادر ہوں کہ انہیں جنت میں لے جاوں تو میں لے جاوں گا۔سن لو یہ ہمارا مال ہے ،جب ہمیں اس کی ضرورت ہو گی ہم ضرور لیں گے اگرچہ اس کے لیے ہمیں زبردستی ہی کیوں نہ کرنا پڑی۔اس کی یہ بات سن کر حضرت عمار بن یاسر ؓ کھڑے ہوئے اور کہا یہ مجھ پر زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔عثمان نے کہا: " تم یہاں ہو!" پھر منبر سے اترے اور اپنے پاؤں سے اس پر قدم رکھنے لگے (یعنی اسے لاتیں مارنے لگے) یہاں تک کہ عمار رضی اللہ عنہ بیہوش گئے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر لے گئیں وہیں پر بے ہوش رہے اور ظہرین کی نماز کے بعد سے مغرب تک یہی حالت رہی۔جب کچھ ٹھیک ہوئے تو کہا الحمد للہ ماضی میں بھی مجھے اسلام لانے پر اذیت دی گئی اور اب جو کچھ میرے ساتھ ہوا اس میں میرے اور عثمان کے درمیان انصاف کرنے والا عادل اللہ ہو گا۔
حضرت عمار بن یاسر ؓ کے بارے میں حدیث نبوی ﷺ
نبی اکرمﷺسے یہ متواتر حدیث ہے آپ ﷺنے فرمایا عمار ؓکو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ حدیث مسلم امہ میں مشہور و معروف تھی حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ نے صفین اور جمل دیکھی میں مگر تلوار نہیں اٹھائی وہ دیکھتے رہے کہ اس حدیث نبوی ﷺکی روشنی میں عمارؓ کو کون سا گروہ قتل کرتا ہے؟ تاکہ اس سے باغی گروہ کا پتہ چل جائے۔حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے کانوں سے یہ حدیث سنی ہوئی تھی۔آپ یونہی رہے اور پھر وہ وقت آیا کہ حضرت عمارؓ کو معاویہ کے لشکر نے شہید کر دیا۔اس واقعہ کے بعد انہوں نے کہا تھا میرے لیے گمراہی واضح ہو گئی،اس کے بعد اٹھے اپنی تلوار اٹھائی اور حضرت علیؑ کی معیت میں معاویہ سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
حضرت عمارؓ کی شہادت
جب حضرت عمار ؓ شہید ہو گئے،آپ کی نماز جنازہ حضرت علی ؑ نے پڑھی،آپ کو غسل و کفن نہیں دیا گیا بلکہ شہادت والے کپڑوں میں دفن کیا گیا۔جب آپ شہید ہوئے اس وقت آپ کی عمر مبارک تراسی سال تھی۔اللہ حضرت عمارؓ پر رحم فرمائے آپ ایمان میں مضبوط اور شرافت کی اعلی منزل پر تھے۔آپ نے اسلام کے لیے بہت زیادہ تکالیف برداشت کیں۔آپ اسلام کی ابتدائی دعوت سے نبی اکرمﷺکے ساتھ تھے۔آپ سابقین اولین اور جنگ بدر لڑنے والوں میں سے تھے۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کی جنت مشتاق ہے۔نبی اکرمﷺنے آپ کے بارے میں فرمایا عمارؓ پکے ایمان سے بھرا ہوا ہے۔