2 جمادي الثاني 1446 هـ   4 دسمبر 2024 عيسوى 11:38 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2023-01-14   776

سسلی.. یورپ میں اسلام کا موتی

سسلی ایک اطالوی جزیرہ ہے اور اس کا تلفظ ان کے ہاں(Sicilia (سسیلیا ہے، یہ بحیرہ روم کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، جس کے چاروں طرف بہت سے چھوٹے جزائر ہیں جنہیں ایولین جزائرکا نام دیا جاتا ہے۔سیاسی طور پرسسلی کو موجودہ اطالوی ریاست کے اندر خود مختاری حاصل ہے۔ اسے سرکاری طور پر سسلین خود مختار علاقہ کہا جاتا ہے۔ سسلی کا جغرافیائی محل وقوع بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر اس کا اہم سمندری تجارتی راستوں پر واقع ہونا ہےیہ بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہاں کا قدرتی حسن بھی اور وسائل بھی بے مثال ہیں یہی باتیں اسے قدیم یونان اور موجودہ یورپ کے نقشے پر سب سے خوبصورت شہر بنا دیتی ہیں۔

تاریخی طور پرسسلی ایک آزاد ملک تھا، اس کا علاقہ جنوبی اٹلی پر پالرمو سے لے کر آج کے مالٹا تک پھیلا ہوا تھا۔یہ ایک بڑی سلطنت بن گئی جس کا دارالحکومت نیپلز تھا اور اس میں اس کے آس پاس کے جزائر بھی اس میں شامل تھے، یہ ریاست ختم ہو گئی اور 1860 عیسوی میں موجودہ اٹلی کے ساتھ اس کا الحاق ہو گیا۔سسلی کا رقبہ (25,708) مربع کلومیٹر تھا اس کی آبادی (5,247,578) افراد پر مشتمل تھا۔

سسلی ایک طویل عرصے تک اسلامی حکومت کا حصہ رہا ہے، یعنی یہ اسلامی جغرافیہ کا حصہ تھا، اسی سے مسلمان یورپ کے دوسرے حصوں جن میں موجودہ روم اور جنوبی اٹلی تک پہنچے۔ سسلی میں مسلمانوں تقریباً (230) سال تک موجود رہے، اس دوران مسلمانوں نے یہاں کی شہری زندگی پر بہت زیادہ اثرات چھوڑے۔اسلام کے تہذیبی اثرات بھی بہت زیادہ ہیں یہاں  کی عام زندگی پر بھی اسلام کے اثرات ہیں۔یہ اثرات اب تک باقی ہیں جب کہ مسلمانوں وہاں سے نکلے صدیاں گزر چکی ہیں۔

سسلی میں اسلامی موجودگی کا آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔مسلمانوں نے افریقہ کو فتح کرکے سمندر کو عبور کیا اسپین اور اندلس میں موجود بازنطی حکومت کو شکست دی اور یہاں پر قبضہ کر لیا۔مسلمانوں نے موسی بن نصیر کی قیادت میں یہاں ایک بڑا بحری اڈا قائم کیا جہاں بحری جہاز تیار ہوتے تھے۔اس طرح اس وقت کی ایک بڑی بحری قوت بن گئے اور یہ سب ۸۴ ہجری جو ۷۰۳ میلادی بنتا ہے اس میں ہو رہا تھا۔اس بحری اڈے پر اس وقت سینکڑوں کشتیاں اور بحری جہاز موجود تھے۔۸۸ہجری یا ۷۰۷ میلادی میں اس علاقے کو رسمی طور پر اسلامی مملک کا حصہ بنا لیا گیا۔اس طرح اس کے بعد رومی اور بازنطی حملوں سے اس کا دفاع کیا گیا۔موسی بن نصیر کے بعد یہاں پر عبدالملک بن قطن فہری گورنر بنے۔انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ جزیرہ قوصرہ کو بھی فتح کر لی ااور اسے بھی مملکت اسلامی کا حصہ بنا لیایوںیہ پورا خطہ افریقہ یا تیونس کے ساتھ ضم کر لیا گیا۔

اس کے بعد ہارون رشید نے سسلی پر چڑھائی کی اور ابراہیم بن الغلب تمیمی یہاں کا حکمران بنا۔اس کے بعد تمیمی کی اولاد کو بربروں نے تسلیم کیا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آل ابراہیم میں بہت مدبر اور سوجھ بوجھ رکھنےو الے لوگ حکمران بنے۔

اس کے بعد مسلمانوں نے سسلی پر کئی حملے کیےان میں سب سے بڑا حملہ بہت ہی بہادر مسلمان سپہ سالار زيادة الله بن إبراهيم بن الأغلب نے کیا اس کا دور سنہ ۲۰۱ ہجری اور ۸۱۷ میلادی میں آیا ۔یہ بہت ہی زیرک،دور اندیش اور ایک ویژن رکھنے والے سپہ سالار تھے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس قوت اور طاقت بھی تھی۔اس نے زنج کو شکست دی اور یہ سسلی کے قری جزیرہ سارڈینیا تک پہنچ گیا۔اس وقت تک یہ جزیرہ بازنطی رومیوں کی ملکیت تھا اس لیے زیادۃ اللہ نے انہیں کئی بار شکست دی یہاں تک کہ سسلی اس کے دائرہ اختیار میں آ گیا۔

مسلمانوں نے سب سےپہلے یہاں کے زراعت کے نظام میں بہت زیادہ اصلاحات کیں اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ بہت ہی کم عرصے میں اس کی زرعی پیداوار بہت زیادہ بڑھ گئی۔مسلمانوں نے یہاں سے جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا بڑی بڑی زمینیں واپس لے کر چھوٹی چھوٹی زمینیں لوگوں میں تقسیم کر دیں۔اس سے زراعت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے آبپاشی کے نظام کو بھی نئے سرے سے منظم کیا۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے نئی فصلوں کو متعارف کرایا اور زراعت کے جدید طریقے بھی متعارف کرائے۔ لیموں، نارنگی، سرکنڈے، چاول، کھجور کے درخت، کپاس اور پیپرس جیسے فروٹ اور فصلیں ہونے لگیں۔سسلی میں ایسے زرعی طریقے تیار ہو گئے جو ان کے ماحول کے مطابق تھے۔اس فن میں اتنی ترقی ہوئی کہ آج بھی کتب میں پیاز اگانے کا سسلی کا طریقہ ملتا ہے اسی طرح کپاس اگانے کا سسلی کا طریقہ ملتا ہے  اور اسی طرح میٹھے انگور اور ان سے رس نکالنے کے سسلی کے طریقے ملتے ہیں۔ان سب کا کتب میں آنا یہ بتاتا ہے کہ وہاں زراعت نے کافی ترقی کر لی تھی۔

مسلمانوں کے عہد میں تجارت نے بھی ترقی کی ،یہاں ابن حوقل آیا جو ایک مسلمان تاجر تھا اس نےسسلی میں قیام کیا اور ایک مدت تک یہیں رہا ۔اس نے یہاں پر ایک بڑا بازار قائم کیاجس میں تیس سو تجارتی مراکز تھے اس کے ساتھ ساتھ غسل خانے تھے۔اس کے مساجد یا مہمان خانے بنانے کا تذکرہ نہیں ملتا۔

جب تک مسلمان سسلی میں موجود رہے یہ سسلی کی خوشحالی کا دور تھااس میں سب سے سنہرا دور فاطمی خلیفہ الحسن بن علی بن ابی الحسین الکلبی کے زمانے کو قرار دیا جاتا ہے۔یہ ۳۳۶ ہجری کا زمانہ تھا جس میں اس کی سسلی پر حکومت تھی۔یہ بہت اچھی سیرت و کردار کا مالک،اعلی نظم و نسق قائم کرنے والا،عدل و انصاف سے ملک چلانے والا اور غیر مسلموں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنےو الا حکمران تھا۔اس کی انہی خصوصیات کی وجہ سے اہل سسلی اس سے محبت کرتےتھے جب اس کا انتقال ہوا اہل سسلی نے باقاعدہ غم منایا۔وہ پانچ سال تک سسلی میں رہا۔اس کے بعد پچانوے سال تک کلبیین میں سے دس حکمرانوں نے یہاں حکومت کی۔ان کے دور میں سسلی نے بہت زیادہ ترقی کی یہ ترقی صرف شہری زندگی تک محدود نہیں تھی بلکہ سائنس اور ادب میں بھی ترقی تھی۔جب اہل روما اور اٹلی اس وقت ان چیزوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔

اسلامی حکمرانی کے تحت، سسلی نے ایک عظیم تہذیبی نشاۃ ثانیہ کا مشاہدہ کیا، خاص طور پر ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں۔مشہور سیاح ابن حوقل جو کہ جغرافیائی انسائیکلوپیڈیا "صورت الارد" کے لکھنے والے ہیں انہوں نے چوتھی صدی ہجری میں سسلی کے دورے کے دوران اس وقت کے سسلی کے سماجی اور شہری حالات، خاص طور پر پالرمو شہر کے سماجی اور شہری حالات کی ایک وسیع تصویر پیش کی۔ جس میں انہوں نے مساجد اور اساتذہ کی بڑی تعداد کو دیکھا۔یہ مساجد اور مدارس کی موجودگی شاندار تھی جو اہل سسلی کی اپنے اساتذہ سے محبت کی علامت تھی۔یہ اساتذہ عام لوگ نہیں تھے بلکہ بڑے عادل فقہا اور بزرگ تھے جو فیصلے کرتے تھے۔یہاں بڑے بڑے خطیب ،علما اور ادیب تھے۔ ابن حوقل کہتے ہیں شاید یہ تعظیم اور مساجد کی تعمیر میں مبالغہ آرائی اس وجہ سے تھی کہ یہ جزیرہ بازنطینی پڑوسیوں، اطالویوں اور دیگر مخالف عیسائی قوتوں کے ساتھ مستقل تصادم کا ایک مرکز تھا۔جزیرے کے لوگ اسلامی ثقافتی نشاۃ ثانیہ کے دلدادہ تھےاور اپنے مذہب اور شریعت کی پیروی کرتے تھے اور یہ چیزیں انہوں نے مسجد اور استاد کے ذریعے ملی تھیں۔

تقریباً ایک صدی بعد کلبیوں نے سسلی پر حکومت کی،اس کے بعد سسلی میں افراتفری، انقلاب اور تشدد داخل ہوا۔یہ سب اس کے گورنروں کی کمزوری کی وجہ سے ہوااور بہت سی بغاوتیں کھڑی ہو گئی بہت سے لوگ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔اس افرا تفری میں بازنطیوں نے فائدہ اٹھایا انہوں نے لوٹ مار کی ۔مسلمان حکمران آپس میں الجھے ہوئے تھے اس لیے اہل سسلی نے اپنی طاقت کھو دی مسلمان جو وسطی اور جنوبی اٹلی کے کچھ حصے پر ہی حکومت کر رہے تھے۔رومیوں اور تارمنوں جمع ہوئے اور انہوں نے اس افراتفری کا پورا فائدہ اٹھا ۴۴۴ ہجری ۱۰۵۳ میلادی میں وہ سسلی میں آسانی سے داخل ہو گئے اور یوں ڈھائی صدیوں تک قائم رہنے والی عظیم الشان مسلمان سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018