معاد عقل کے میزان میں
اگر ہم حکم اور موقف میں منصف ہوں تو ہمارے لئے اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ ہم کہیں کہ "معاد " یا "روز آخرت" ان مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں انسانی عقل انکار و اثبات میں مساوی ہے۔ اس وجہ سے کہ جب ہم اس طرح کے مسائل پر دین کے ان مبانی سے جدا کر کے غور کریں کہ جن پر دین قائم ہے تو پھر عقل معاد کی نہ نفی کرتی ہے اور نہ اثبات ۔ اس لئے کہ مسئلہ معاد ان مسائل میں سے ہے جن میں عقلی اعتبار سے تسلیم کرنا متوقف ہے کہ پہلے اس وجود کے خالق کے وجود پر ایمان اور تسلیم ہو۔ پس مدعا کو قبول کرنا ایک مرحلہ متأخر ہے وجود مدعی کے تسلیم سے یعنی پہلے وجود مدعی کو تسلیم کیا جائے تاکہ مدعا کو مانا جاسکے ۔
بلکہ دین کے بہت سارے مسائل جن پر دین اسلام مشتمل ہے ان سب کی یہی حالت ہے کہ ان کو پہلے سے کچھ مقدمات کو تسلیم اور ان کا سہارا لئے بغیر عقل کے ذریعے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا اور اس کی بازگشت دو اساسی امور کی طرف ہوتی ہے :
پہلا امر :
یقینا اسلام ایک منظم ضابطہ ہے کہ اس کے مسائل اور احکام ایک دوسرے سے مربوط اور بعض احکام بعض دوسرے احکام کے لئے محور اور مدار بنتے ہیں۔ اور جو نئے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں تو وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں انہی منظومات اور مرتکزات سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ لہذا کسی بھی فرعی مسئلے کو اس سے مربوط مسئلے سے جوڑے اور اس کے اثابت کی حیثیت کو بھی دیکھے بغیر اثبات نہیں کیا جاسکتا اور جب اس مسئلے کی اصل کو تسلیم کیا گیا تو تب عقل اس متفرعہ مسئلے کو قبول اور اس کا اثبات کرسکتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم عام طور پر اس قاعدہ عقلیہ کو سنتے ہیں " پہلے عرش (کاغذ ) تاکہ اس پر تصویر کھینچی جاسکے۔ لہذا جب تک کاغذ فراہم نہیں ہوتا اس سے پہلے تصویر کھینچنے کے بارے میں کہنا معقول نہیں ہے۔
دوسرا امر:
یہ کہ دین کے وہ امور جو آخرت اور اس سے متعلق ہیں وہ ادراک عقلی کے دائرے سے ہی خارج ہیں ۔ ان کو عقل نہ قبول کرسکتی ہے اور نہ انکار ۔ کیونکہ عقل اپنی مرضی سے اس کا فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ بلکہ اس سے پہلے کچھ مقدمات کے قبول کرنے کی محتاج ہے۔ جب ان مقدمات کو عقل تسلیم کرتی ہے تو اب باری آتی ہے ان مسلمات سے استخراج شدہ مسائل کو بھی مان لے۔ یا پھر اس مسئلے پر بناء رکھ کر دوسرے کسی مسئلے کو ثابت کرے۔ لہذا جب ان مقدمات سے اخذ شدہ مسئلے اور جس مسئلے پر بحث مقصود ہے ان دوںوں کے درمیان جب ملازمہ قائم ہوتا ہے تو اب عقل کے لئے اس پر اپنا حکم لگانا ممکن ہوتا ہے ۔
پس عقل اس مرحلے میں جب مسائل اولیہ کو تسلیم کرتی ہے تو تب حکم لگاتی ہے اور صاحب عقل کو ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ ایک اصلی اور بنیادی مسئلے کو ماننے کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے متفرعہ مسائل کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئیے ۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان ملازمہ قائم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ جب پہلے اور بنیادی مسئلے کو تسلیم کیا جائے تو ضروری ہے کہ دوسرے کو بھی مان لیا جائے ۔ پس اگر یہ تسلیم کیا گیا کہ حقیقت میں ایک ایسا وجود ہے جس کا نام "روز آخرت " ہے تو اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ وہاں حساب و کتاب بھی ہے اور ثواب و عقاب اور جنت اور دوزخ بھی ہے ۔ البتہ یہ ان امور میں سے ہیں جن تک عقل کو رسائی حاصل نہیں ۔ لہذا عقل ان امور کو ان سے پہلے کچھ مسلمہ مقدمات کو تسلیم کئے بغیر ثابت نہیں کرسکتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ چونکہ عقل ان امور کو خود مستقل طور پر ثابت نہیں کرسکتی لہذا عقل اصل "معاد " کے انکار کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عقل جس طرح سے ثابت نہیں کرسکتی اسی طرح سے اس کی نفی بھی نہیں کرسکتی ۔ بلکہ یہاں ایک اور حکم عقل آتا ہے جو اس حیات خالدہ اور روز آخرت کے وجود کو ثابت کرتا ہے اور یہ " لزوم دفع ضرر محتمل "کے تحت ہے ۔ یعنی عقل کہتی ہے کہ اگر کہیں نقصان کا احتما ل ہوتا ہے تو اس کو برطرف کرنا عقلا لازمی ہے ۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ اگر بالفرض یہ بات سچ ہو اور حقیقت میں قیامت ہے تو انکار کرنے کی صورت میں ایک ایسا نقصان ہوتا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ۔ لہذا عقل حکم کرتی ہے کہ اس کو مانا جائے اور احتیاطا بھی اس عقیدے کے مطابق زندگی بسر کی جائے ۔ یہ وہ چیز ہے جس کو ہم احتیاط عقلائی کا نام دیتے ہیں اور اس احتیاط کی روشنی میں لازمی ہوتا ہے کہ روز قیامت کا انکار نہ کیا جائے بلکہ ایک ایسے دن کے وجود کو مان لیا جانا چاہئیے ۔ تاکہ اس ناقابل ازالہ نقصان میں انسان نہ پڑے اور ہر اس ضرر (نقصان ) سے بچے جس کے بارے میں عقل احتمال دے رہی ہے جس سے بچنا عقلا ضروری ہے ۔
پس جب ہم "روزآخرت " کے امور و مسائل پر غور کرتے ہیں کہ جس دن انسان نے دنیا میں اچھے یا برے اعمال میں سے جو کچھ بھی کیا ہوگا اس سب کا باریک حساب و کتاب ہوگا اور اس حساب کا نتیجہ ایک عظیم فائدہ ہے جس کے برابر دنیا کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا یا ایک ایسا گھاٹا ہے جس کے مقابلے میں ہر دنیوی نقصان ہیچ کہلاتا ہے ،اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ نوع انسانیت ایک بڑے احتمالی ضرر کے آگے کھڑی ہے اور ایسے ہی اس کے سامنے ایک عظیم منفعت بھی ہے۔ اب جب یہ احتمالات عقل کے سامنے آتے ہیں تو کم سے کم عقل یہ حکم لگا تی ہے کہ اس ضرر اور اس منفعت کے سامنے لاپروا نہ رہے بلکہ لازمی ہے کہ مذکورہ احتمال عقلی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو نقصان سے بچنے کا اقدام کرے ۔ یوں اس حتمال عقلی سے بھی "معاد " ثابت ہوتا ہے ۔
بلکہ عقل جس چیز کے لازمی اور ضروری ہونے کا حکم کرتی ہے اس کا درجہ اسی حساب سے زیداہ ہوجاتا ہے جتنا محتمل اور ضرر شدید ہو، اس حساب سے روز آخرت کے ضرر کو پرکھا جائے تو یہ ایسا خطرناک نقصان ہے جس کا ازالہ اور اس سے بچنا ممکن نہیں، اسی طرح سے روز آخرت کے منفعت اور فائدے کو دیکھا جائے تو یہ بھی اتنا بڑا فائدہ ہے جس کا نعم البدل ممکن نہیں تو ایسے احتمال عقلی کی صورت میں عقل کے حکم لزومی کا درجہ بھی زیادہ ہوجاتا ہے ۔ لہذا دیکھا جائے تو ضرر اور منفعت کی نسبت اور وہ حکم لزومی جس کے تحت عقل احتیاط کو واجب کردیتی ہے کے درمیان تناسب برعکس ہوجاتا ہے۔ پس اگر ہم فرض کریں کہ ضرر کو دور کرنے اور منفعت کو حاصل کرنے میں عقلا حرکت کرنے کا لازمی ہونے کی نسبت ۱ ۰/۰ ہو تو یہ اس نسبت کی یہ مقدار وہ کمترین حد ہے جس کے تحت مقام ادعا میں اس کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور اتنے کم درجے کے دعوا کو بھی سنا جانا چاہئے اور یہ ضرر میں پڑنے کے احتمال کے کشف ہوتے ہی حاصل ہوتا ہے، یہ ادنی نسبت جیسے جیسے ضرر محتمل کا درجہ اور حجم بڑھتا جائے گا اسی لحاظ سے اس کی نسبت بھی مرتفع ہوتی جائے گی یعنی بڑھتی جائے گی ۔ اور یہ جیسے جیسے ضرر کے احتمالات کی ارزش بڑھے گی یا اس میں مزید شدت آئے گی اسی حساب سے احتمال کی نسبت بھی قوت پکڑے گی یہاں تک کہ یہ نسبت ۱ ۰/۰ سے بڑھ کر ۱۰۰ ۰/۰ یعنی سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ یوں ایسے احتمالی نقصان اور ضرر کا دفع کرنا بھی عقلا ضروری ہوجائے گا۔
یہ بیان جس کی ہم نے وضاحت کی یہ وہی چیز ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالی نے روز آخرت سے متعلق بعض قرآنی آیات میں ارشاد فرمایا ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کاسامنا ہر وہ شخص کرے گا جو معاد کا انکار کرتا ہے اور وہ اپنے انکار و استکبار اور اس قسم کے مدعیات کی بحث و تحقیق نہ کرنے کے نتیجے میں قیامت کے دن شدید عقاب میں مبتلا ہوجائے گا اور وہ اپنا سب سے بڑا نقصان کرے گا ۔ ہم یہاں ان چند آیات کا ذکر کرتے ہیں جن میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے :
((يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ))(الأنعام ـ130 )
ترجمہ : اے گروہ جنات و انسان کیا تمہاری طرف تم ہی میں کے نہیں آئے جو تمہارے سامنے میر ی آیتیں بیان کرتے تھے اور تمہیں اس دن کے درپیش ہونے سے ڈراتے تھے انہوں نے کہا کہ بیشک ہم اپنے خلاف گواہ ہیں اور انہیں دنیوی زندگی نے فریب میں مبتلا کردیا تھا اور اب انہوں نے اپنے خلاف گواہی دی ہے کہ بیشک وہ کافر تھے ۔
ارشاد رب العزت ہوتا ہے : ((وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاؤُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ))(الزمرـ71-72)
ترجمہ: اور لے جائے گئے وہ جنہوں نے کفر اختیار کیا تھا دوزخ کی طرف گروہ در گروہ یہاں تک کہ جب وہاں آئے تو اس کے دروازے کھل گئے اور ان سے اس کے محافظوں نے کہا کہ کیا نہیں آئے تمہارے پاس کچھ پیغمبر تم میں کے جو تمہیں پڑھ کر سنائیں تمہارے پرورردگار کی آیتیں اور تمہیں ڈرائیں تمہارے اس دن کے سامنے آنے سے انہوں نے کہا کیوں نہیں مگر کافروں پر قدرت کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ کہا گیاکہ داخل ہو دوذخ کے دروازوں میں وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہتے ہوئے کتنا برا ٹھکانہ ہے گھمنڈ کرنے والوں کا۔
پس یہاں روز قیامت کا بیان اللہ تعالی نے فرمایا ہے اور اس کی پیروی میں فرشتوں نے یاد کیا ہے کہ قیامت کے دن ان انسانوں اور جنات سے خطاب کر کے پوچھا جائے گا کہ اے جن و انس کیا تمہارے پاس اللہ کی جانب سے فرستادے نہیں آئے جنہون نے تم کو اس دن کے متعلق بتایا ؟ کیا تم کو رسولوں نے آج کے دن سے متعلق دعوؤں کی تلاوت نہیں کی جس کا سامنا تم نے کیا ہے ؟ اور کیا یہاں کی زندگی اور اس راستے کا نہیں بتادیا گیا جس سے آج روبرو ہوگئے ہو؟
یہاں اللہ سبحانہ و تعالی اور فرشتوں نے منکرین معاد کے عذاب میں مبتلا ہونے کے استحقاق پر استدلال کیا ہے کہ آج کے دن کے حوالے سے جو دعوا اور اعلان کیا گیا تھا وہ پورا ہوگیا ہے لیکن اس پر اللہ سبحانہ نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ مزید سوال کی شکل میں اقرار لیا تاکہ ان کے عذر کو بھی ختم کیا جائے کہ یہ دعوا ان تک پہنچا اور ان کو اس دن کے بارے میں بتایا گیا لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا یہ کہہ کر کہ ان کی عقل نے قبول نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے یہاں اللہ تعالی کا بھی آیات میں خطاب ہے اور فرشتوں کا بھی ان سے خطاب کا ذکر ہے اور یوں ان بنیادی حقایق کو بتایا گیا ہے جن پر مسئلہ "معاد" متفرع ہے، کہ یہ وہ بنیادی مسئلے ہیں جن کے تسلیم کرنے پر عقل حکم کرتی ہے کہ ان بنیادی مسئلوں سے نکلنے والے مسائل کو بھی عقلی طور پر قبول کرنا ضروری ہے ۔ جس کو ہم نے اپنی گفتگو کے آغاز میں واضح کیا ہے ۔ اسی طرح ان منکرین کو آیات میں "انذار " کا جو خطاب کیا گیا ہے یہ بھی اس وقت صحیح ہوتا ہے کہ جب اس سے پہلے قیامت میں ایک عظیم فائدے اور اسی طرح ایک بڑے گھاٹے کے احتمال کا بار بار بتادیا گیا ہو۔ پس اللہ سبحانہ وتعالی اور فرشتوں کا عذاب پانے والوں پر "انذار " کے ذریعے دلیل قائم کرنا اسی احتمال کی ارزش اور قدر کے بڑھنے کی ایک دلالت اور اس میں ایک اشارہ ہے جس کو ہم نے ذکر کیا ہے۔ پس اللہ سبحانہ و تعالی اور فرشتے دوںوں منکرین سے خطاب کرتے ہیں کہ تم کو رسولوں نےانذار کیا اور اس پر تمہارا اس دن کے بارے میں جو احتمال تھا وہ یقین کے درجے پر پہنچا لیکن اگر تم تکبر کرنے والے نہ کہلائے تو اس احتمال سے تجاہل کیا اور جان بوجھ کر اس عقلی احتمال کی ارزش کی پروا نہیں کی ۔
جو کچھ پہلے گذر گیا اس سب سے خلاصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے کہ ابتدائی قدم مین عقل کے لئے ممکن نہیں ہے کہ "روز معاد" کے سچ ہونے کو ثابت کرے ، خاص طور سے جب یہ مسئلہ عقل کی رسائی سے بھی باہر ہو ۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ جب تک اس کے انکار کی ٹھوس دلیل نہ ہوعقل اس دن کے وجود کی نفی بھی نہیں کرسکتی ۔ بلکہ عقل صاحب عقل پر یہ حکم لگاتی ہے کہ وہ ضرر محتمل سے بچنے کا اقدام کرے اور اس ضروری حکم کی نسبت عقل ان چیزوں پرمتوقف ہے جن کے توسط سے ضرر محتمل کی ارزش بڑھ جاتی ہے۔
لہذا، جب بندوں تک روز معاد کے وجود کا صرف دعوا ہی پہنچے تو ایسے میں انسان ازلحاظ عقل دو چیزوں کا سامنا کرتا ہے : ایک یہ کہ وہ روز اخرت کے وجود کو ہی نہ مانے جس کے نتیجے میں وہ پھر یا ثواب و عقاب کو بھی نہیں مانے گا۔ یا اس میں وہ خاموش رہے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ روز معاد کے وجود کی تصدیق کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ثواب و عقاب کو بھی مانتا ہے ۔ پس بالفرض اگر روز آخرت کا وجود واقعی ہو تو انکار کرنے والا تو ہلاک ہوگیا اور ایمان رکھنے والا نجات پاگیا ۔ خاص طور پر جب وہ اس کے مطابق عمل کرے جس کی وجہ سے اس کو نجات ملتی ہے ۔ لیکن بالفرض اگر واقعا روز معاد نہ ہو تو منکر بھی نجات پاتا ہے اور مؤمن بھی نجات پاتا ہے۔ پس ایسے امور جن کا تعلق انسانوں کی اصل تقدیر سے ہے ان میں ایک تندرست شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح سے سوچے تاکہ وہ اپنے آپ سے ضرر کو دور کرکے منفعت کو حاصل کرنے کے ان ضروری اصولوں پر عمل کرسکے جس کا فیصلہ اس کی عقل سلیم کرتی ہے ۔