معاد ۔ ۔ ۔ اثبات اور رد کے تناظر میں
دین کے منکرین کا اس پر زور ہے کہ زندگی ایک اتفاقی امر ہے، اس کا انجام فنا اور نابود ہونا ہے۔ وہ اپنے اس باطل نظریے کے اثبات میں ایسی چیزوں کے قائل ہوئے ہیں جو عقل کی نگاہ میں قابل بحث ہی نہیں۔ ان باطل و عاطل باتوں کو انسان کا ضمیر اور فطرت سلیمہ طرح طرح کی آیڈیالوجیوں میں مخلوط اور فکری آلودگیوں سے گندہ ہونے سے پہلے خود ہی رد کرتے ہیں۔ علاوہ اس کے دین پر عقیدہ رکھنے والے ثابت کرتے ہیں کہ زندگی کے مختلف مراحل ہیں ان میں سے ایک مرحلہ دنیوی زندگی کا ہے۔ اس مرحلہ کے بعد زندگی کا ایک مرحلہ آتا ہے جس کا سلسلہ معاد سے شروع ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے
((يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ)) (المجادلة ـ6)
ترجمہ: جس دن ان سب کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا تو انہیں بتائے گا جو انہوں نے کیا تھا اللہ تو اس پر حاوی ہے اور وہ اسے بھول گئے ہیں اور اللہ ہر چیز پر حاضر ہے ۔
ان دین داروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ معاد کے اثبات کے لئے وجدانی اور ضمیر کی طرف سے بھی دلائل موجود ہیں اور اجتماعی ادلہ بھی، یہ ایسی دلیلیں ہیں جو کاروان انسانیت کے سفر کے ساتھ ساتھ وجود میں آئی ہیں۔ یہ سب ادلہ ثابت کرتی ہیں کہ انسان اپنے آغاز سے لے کر اب تک ایک اور زندگی پر برابر اور غیر متزلزل ایمان رکھتا رہا ہے اور اس زندگی کا تعلق انسان کے جسم سے روح کے نکل جانے کے بعد سے ہے ۔ یہ ایمان کسی ایک خاص زمانے کے ساتھ محدود نہیں ہے کہ اس کو انسانی فکر کی ترقی کا نام دیا جائے یا اس کی مخالفت کی جائے اور اسے ایک رجعت پسند نظریہ کہہ کر رد کردیا جائے ، ایسا نہیں بلکہ معاد پر ایمان ایک راسخ و پختہ عقیدہ ہے جس کا قائل سب سے پہلا انسان ہوا اور آج علوم و فنون کا دعویدار انسان بھی اسی ایمان و عقیدہ پر یقین رکھتا ہے ۔
انجینئرنگ۔ آج انجینئرنگ نے آثار قدیمہ کی جستجو میں کھدائی کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ماضی کا انسان چاہے ابتدائی جیسے نینڈرتھل ہو یا تعلیم و تربیت یافتہ انسان جیسےکیلیٹس یونانی ، یا تہذیب و تمدن کا علمبردار انسان جو فکری اعتبار سے مختلف نظریات کا حامل ہے وہ بھی اپنے عقلی اور وجدانی ارادے ہی کی بناء پر کہتا ہے کہ یہ جہاں جس میں ہم رہ رہے ہیں اس کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے۔ اس طرح وہ بھی اخروی زندگی پر ایمان رکھتا ہے۔ پس جو کچھ میت کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے مثلا کچھ چیزیں یا زیورات یہ شاید اشارہ ہے اس کا کہ ان کے نزدیک یہ اشیاء اس مرنے والے کے لئے آیندہ زندگی کی ضروریات ہوں اور بعض نے شاید اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ایسا کرنا مناسب سمجھا ہوگا۔ بہر حال یہ ایک سادہ اور سطحی فکر ہے لیکن اس میں بھی ایک وجدانی سچائی پائی جاتی ہے ۔ ان کا یہ تصور بہت ہی سادہ اور مادی بحث کا حامل ہے۔ خاص طور سے وہ لوگ جو عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کے مردے اخروی زندگی میں بھی ایسی ہی چیزوں کے محتاج ہوں گے جن کے وہ دنیا میں محتاج ہوا کرتے تھے ۔ لیکن یہ اس بات کے لئے مانع نہیں بنتا کہ وہ اخروی زندگی پر بھی ایمان رکھتے ہوں اور وہ عدم نہیں ہے ۔
جس طرح سے بعض میٹریالست جن کی روح وجدان سے خالی ہوتی ہے وہ عدم کو ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی باتوں پر اعتبار کرتے اور ایسی چیزوں کے قائل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کانگو کے لوگ معتقد تھے کہ اپنے فوت شدہ بادشاہ کی روح کے انس کو باقی رکھنے کے لئے اس کے ساتھ بارہ لڑکیوں کو دفن کیا جائے اور اس طرح ان کی تنہائی کو دور کیا جائے ۔ جبکہ جزیرہ فجی کے باشندے اپنے مردوں کے ساتھ ماہیگیری اور زراعت کے آلات بھی دفن کرتے تھے یہ سوچ کر کہ وہ اپنی اس دوسری زندگی میں ان آلات کے محتاج ہوجائیں گے ۔ ایسے ہی اہل یونان اپنے مردوں کی اخروی زندگی کے وجود پر یقین رکھتے تھے ۔اس وجہ سے وہ بھی ضرور اپنے مردوں کے ساتھ اس کی کچھ چیزیں خصوصا کھانے کی چیزیں دفن کیا کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ عمرانیات کے وہ دانشور جو مادی ہیں اور وہ اس کے سوا کسی چیز کو نہیں مانتے جو ان کی آنکھوں کو نظر نہ آتا ہو۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ انسان کا وجدان اور اس کی فطرت سلیمہ حکم کرتی ہے کہ وہ آج کے دن کے علاوہ آیندہ دور کے ایک دن کا انتظار کرے۔ یہ وہی عقیدہ ہے کہ دنیوی زندگی کے علاوہ ایک اور زندگی بھی ہے ۔ یہ ابتدائی عقیدتی ڈھانچے ہیں جن کو دین نے سکھایا ہے۔ دین کوئی سا بھی ہو جس کے وہ معتقد ہوئے اور مذکورہ افعال و گفتار کی وجہ سے اس طرح وہ ایک دفعہ پھر تضاد کے جال میں پھنس گئے۔ اس لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی اخروی حیات کا عقیدہ رکھتا ہو وہی کسی دین سے منتسب ہوتا ہو ۔ بلکہ ان میں سے غالبا اکثر کو وجدان نے اخروی زندگی کا الہام کیا اس کے بعد وہ اہل دین میں سے ہوگئے۔ یعنی وہ ایک اور وجود کے معتقد ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو فنا نہیں۔ یہی وجدانی الہام ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی بڑی قوت کے ہونے پر بھی ایمان رکھیں جو ان کے دنیوی اور اخروی تمام موجودات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جو ان پر لازم کرتی ہے کہ وہ اس عظیم قدرت و طاقت کے بارے میں پوری توجہ سے غور و فکر اور بحث کریں ۔
ایک شخص کا اخروی زندگی کے بارے میں عقیدہ عادات اور تقلید کی بنیاد پر بھی ہوسکتا ہے، البتہ یہ ایک اور چیز ہے جو کہ ایک کمزور عقیدہ ہے ۔ اس قسم کے امور کے باطل ہونے کا اثبات اس پر متوقف ہے کہ اتنے طویل عرصے سے جاری وساری عادات و تقالید کے باطل ہونے کو ثابت کیا جائے اور یہ ناممکن سی بات ہے کہ گزشتہ لاکھوں نسلوں اور سالوں کا علم کسی کو ہو، اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ خاص طور سے کہ انسان کی عادات اور سماجی تقالید بھی ایک جیسی نہیں رہتیں بلکہ مسلسل اور ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں۔ البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ پر ہے کہ عادات و تقالید میں اصل اور قاعدہ یہ ہےکہ اگر کسی چیز کو عقل و وجدان ثابت نہیں کرتے تو اس کو عادات و تقالید سے ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ انسان کو حیات اخروی کو سمجھنے کے بارے میں جو کچھ وجدان نے ثابت کیا ہے اس میں بھی خرافات اور افسانے داخل ہوئے ہیں ۔ پس ضروری ہے کہ وہ دین کو اختیار کریں اور اپنی منزل کو پانے کے لئے اللہ کی طرف آئیں ۔
لیکن یہ دلیل نہیں بنتی کہ آدمی اپنے آیندہ کی ایک نئی زندگی کے وجود کا انکار کرے جو اس دنیوی اخروی سے بالکل جدا ہو وہاں کا سرمایہ حیات ہی علیحدہ ہو۔ لہذا یہ ایمان ہی ہے جو ان بدلتے سماجی اور اجتماعی قوانین کے باوجود انسان کے لئے معاد اور حیات اخروی کو ثابت کرتاہے ۔ یوں آدمی معاد کے ایک سادہ مفہوم کے تصور سے ہی ایک ثابت حقیقت کی جانب منتقل ہوتا ہے جس پر جدید سائنس یقین رکھتی ہے۔ اس کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ دانشوروں نے تسلیم کیا ہے کہ انسان کی یادداشت اس کے مرنے کے بعد بھی تر وتازہ رہتی ہے۔ لیکن وہ فی الوقت کارکردگی کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اب چونکہ اخروی زندگی کا وجود ثابت ہوا تو آخر کار وہ اس کا نام رکھنے کے بھی سختی سے قائل ہوئے کہ موت کے بعد انسان کی روح ہے اور وزن اور جگہ کی بھی ضرورت ہے تو اس کے ٹھکانے کا نام ہونا چاہئیے ۔ اگرچہ یہ بہت ہی چھوٹی ہے لیکن جگہ اور ٹھکانہ کی محتاج تو ہے ۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ یہ روح معدوم نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے ۔ جن کے فہم سے انسان کے علمی وسائل عاجز ہیں اور معرفت کے اسلوب اس کا نام رکھنے سے قاصر ہیں ۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ)) (العنكبوت ـ64)،
ترجمہ: اور یہ دنیوی زندگی نہیں ہے مگر تماشا اور کھیل اور یقینا آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے کاش وہ جانیں ۔
((إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ))
غافر اگرچہ کہ اخروی زندگی سے متعلق خرافات کا بھی ایک تسلسل پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ایمان کی بداہت میں ہی دنیوی زندگی کے علاوہ ایک اخروی زندگی کا وجود چھپا ہوا ہے ۔ البتہ یہ اخروی حیات حق ہے کہ جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ خاص طور سے انسان کا وجدان اپنے بشری طویل سفر میں اس حقیقت ثابت پر ایمان لاچکا ہے۔ اگرچہ انسان کو اس کے تصور کرتے اور سمجھتے وقت اشتباہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا تصور مشکل اور مبھم ہے۔
لیکن انسان جب اتنے طویل عرصے سے غور و فکر کا سفر طے کرتا ہے تو یہ فکری سفر اس کو تاکید کرتا ہے کہ آخرت کی زندگی بھی ایک وجدانی فکر ہے اس کے سمجھنے کے لئے عقل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ پس یوں کہا جائے کہ اخروی زندگی کا نظریہ بھی انسانی نفس کی گہرائیوں میں فطری طور پر ڈالا گیا ہے ۔لہذا جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ بہت کم ہیں ان کی بازگشت منفی تعلیم اور پروپیگینڈے پر ہوتی ہے ۔ لہذا یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک اخروی زندگی کے وجود انسان میں اللہ کی ان عظیم قوتوں میں سے ایک الہام شدہ فکر ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالی نے خلق اورابداع کرتے وقت اس کے اندر ودیعت کررکھی ہے اور جو چیز ادراک باطنی ہوتی ہے اس کو عقلی لحاظ سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسے تخریبی اور سطحی انداز سے سوچنا صحیح نہیں ہے ۔
اسی کی جانب قرآن کریم بھی ہدایت فرماتا ہے ((وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ)) (الأنعام ـ39ـ32). ترجمہ : اور یقینا آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟
یہاں ایک اور استدلال منطقی بھی ہے وہ یہ کہ جس کی روشنی میں انسان پر ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دنیوی زندگی کے علاوہ ایک اخروی زندگی کے وجود کا بھی قائل ہوجائے اور وہ استدلال مبتنی ہے ہمارے ایک ایسے گہرے فطری شعور پر جو کہتا ہے کہ " عدالت " ضروری ہے اور جوفکری قوتیں اور صلاحیتیں خدا نے ہمارے لئے عطا کی ہیں ان کی بدولت ہم پر لازم ہوتا ہے کہ ہم اس اخروی زندگی کے بارے میں تحقیق کریں ۔
((تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ)) (القصص ـ83)
ترجمہ : وہ آخرت کا گھر اسے ہم قرار دیتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو زمین میں دوسروں پر چھانے کی خواہش کرتے ہیں اور نہ فساد ، اور انجام کی بہتری پرہیز گاروں کے لئے ہے ۔
بہر حال اس وسیع و عریض کائنات کا وجود بغیر کسی غرض و غایت کے ہو اسے عقل تسلیم نہیں کرتی ۔ پس وہ قوانین جو ایٹم کی اتنی چھوٹی جسامت کے باوجود اس کی حرکت کو ایک حیرت انگیز منظم ترتیب کے ساتھ کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ نیز اس کے ساتھ ایک اور ہندسی حرکت بھی ہے جو افلاک کو اور کہکشاؤں کو ان کے مدار کے اندر ہی حرکت میں رکھتی ہے ۔ یہ ایک اور دلیل ہے جو ہمیں بتادیتی ہے کہ اس کائنات کی تخلیق میں ایک لطیف غایت ہے جس کی جانب یہ سارا نظام پوری باریکی اور دقت کے ساتھ متحرک ہے۔ مزید یہ کہ مخلوقات کی لامتناہی تعداد ہے جن کو ایک احیاء کرنے والا وجود ہی ان کے آپس میں منظم کرتا ہے ۔ اور یہ بہترین دلیل ہے کہ اس عظیم انجینیئر کی انجینئیرنگ بھی عظیم ہے ۔ یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا ایسا نظام اور انسان کو خلق کرنا عبث اور فضول ہوسکتا ہے اسے عقل کسی صورت قبول نہیں کرتی ۔
نتیجہ یہ کہ حکمت و عقل سے یہی جواب ملتا ہے کہ اس کائنات کے عبث خلق ہونے کی کوئی گنجایش نہیں ہے بلکہ یہ ساری چیزیں ایک حکیم تدبیر کرنے والے کی تدبیر ہی کے ذریعے سے چل رہی ہیں۔ چونکہ ایک حکیم ذات نے یہ سارا نظام خلق کیا ہے اور اسے عبث خلق نہیں کیا ہے اس کا ایک ہدف اور غایت ہے اور یہ حیات اخروی اس لئے ہے کہ جس نے ہم پر ظلم و ستم کیا ہے اور جب ہمیں وضع شدہ قوانین کے ذریعے اپنے حقوق نہیں ملتے تو ہم اسے ایک اور دن پر رکھتے ہیں جس میں ہمارا حق ضرور مل کر رہے گا اور وہ دن ہے روز معاد، ہمیں اس کی حقیقت پر مکمل ایمان ہے اور یقینا یہ دن رونما ہوکر رہے گا۔ اس لئے کہ قرآن کا اعلان ہے :
((يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)) (التغابن ـ19)، ((رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَنِ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا (37) يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا (38) ذلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا (39) إِنَّا أَنْذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابا (40) (النبأ ـ37 ـ40).
ترجمہ: جس دن تمہیں اکٹھا کرے گا اس دن کے لئے جو اکٹھا کرنے کے لئے ہے وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں نقصان اٹھانے کا اور جو اللہ پر ایمان لائے اورنیک اعمال کرے وہ اس کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرے گا۔اور اسے داخل کرے گا ان بہشتوں میں جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ (التغابن /۹)
ترجمہ: وہ جو آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک ہے جس کی ہیبت سے بات کرنے تک کی انہیں قدرت نہیں ہے ۔ جس دن فرشتے اور روح صف باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے وہ بات نہیں کریں گے مگر وہ جسے خدائے رحمٰن کی اجازت ہو اور ٹھیک بات کہے ۔ وہ دن بالکل حقیقت ہے تو جو چاہے اپنے پروردگار کی جانب پلٹنے کا سامان کر رکھے ۔ ہم نے تمہیں ڈرا دیا اس قریبی عتاب سے جس دن آدمی دیکھے گا کہ اس کے ہاتھوں سے کیا کیا ہوا اور کافر کہے گا کہ اے کاش میں خاک ہوتا۔ (النبأ، ۳۷۔۔۴۰)
پس قیامت پر ہمارا ایمان اگرچہ کہ یہ فطری اور وجدانی ہے لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کو علم و منطق دونوں ثابت کرتے ہیں ۔ یہ بالکل وہی چیز ہے جس کو یورپ کا محقق نورمان اور نسان بطور خلاصہ کیا ہے اور کہا ہے کہ : کسی بھی قسم کا شک اور تردید زندگی جاوید کے یقینی اور ثابت ہونے کو متزلزل نہیں کرسکتے ، اس لئے کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا پختہ یقین ہے کہ روز معاد قابل شک و تردید نہیں ہے بہر حال ، ایک اور زندگی یعنی معاد کے ایما ن کو اگرچہ برہان ریاضی ثابت نہیں کرتا لیکن انسان کا وجدان اور باطنی الہام دونوں اس کو اس طرح سے ثابت کرتے ہیں کہ اس میں کسی بھی شک کا محل باقی نہیں رہتا اور یہ کہ ایک دائمی زندگی کے بارے میں ایمان انسانی فہم کے اصولوں میں سے ایک اصل بن جاتا ہے اور یہ دین کے اصول میں سے ایک اصل تو ہے ہی ۔ اور یہ وہ اصل ہے جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی اور اس کی یاد دہانی کرائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
((وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ)) (البقرة ـ48)
ترجمہ: اور اس دن سے بچنے کا سامان کرو جب نہ کوئی دوسرے کو فائدہ پہنچا سکے گا اور نہ کسی کی سفارش قبول ہوگی اور نہ کسی کا کوئی معاوضہ لیا جائے گا ،اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی ۔