عثمان بن حنیف ۔ ۔ ۔ جوعہد پر ثابت قدم رہے
نام عثمان بن حنیف بن واھب بن العکیم بن ثعلبۃ بن الحارث بن مجدعۃ بن عمرو بن حنش بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن الاوس (کہ جن کی جانب قبائل اوس کے نام پلٹتے ہیں ۔) کنیت ابو عمرو ، قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے ہیں انصاری اور اولین مسلمانوں میں سے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کے بزرگ اور متقی صحابہ میں سے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ احد سے لے کر سارے غزوات میں شرکت کی ہے ۔ اسی طرح سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ بھی اپنے عہد کو خوب نبھایا ہے ۔ بلکہ عثمان بن حنیف تو ان میں سے ہیں جنہوں نے ابوبکر کی خلافت کا یہ کہہ کر انکار کردیا کہ رسول اکرم ﷺ کی خلافت آنحضرت ﷺ کے اہل بیت علیھم السلام میں ہی ہے ، اور یہ امام علی علیہ السلام کی ذات میں معین ہوتی ہے ۔ اس طرح سے عثمان نے سقیفہ میں جو منصوبہ کیا گیا اور اس کے ساتھ جو حالات پیدا کئے گئے ان سب پر اعتراض کیا ۔ بلکہ نبی اکرم ﷺ کی سیاسی خلافت کے بارے میں جس منصوبے کے تحت ابو بکر کو خلیفہ بنایا گیا اس پر اعتراض کرنے والوں میں وہ سر فہرست افراد میں سے تھے ۔ انہوں نے بالکل برملا طور پر رسول خدا ﷺ کے اس فرمان سے استدلال کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا " میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے ستاروں کے مانند ہیں ۔ پس تم اپنے آپ کو ان پر مقدم نہ کرو بلکہ اہل بیت کو آگے رکھو ۔ اس لئے کہ وہی میرے بعد سرپرست ہیں ۔ ایسے میں حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا : اے اللہ کے رسول ! آپ کے کون سے اہل بیت ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : علی اور ان کی اولاد طاھرین ۔ " یوں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے ۔ پس اے ابو بکر تم اول انکار کرنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ولا تخونوا اللہ والرسول و تخونوا اماناتکم و انتم تعلمون ۔ اور اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو۔
جب عثمان کے حق میں عراقیوں اور صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے عثمان کے عادل ہونے کی گواہی دی تو عمر نے اپنے دور خلافت میں ان کو عراق کا گورنر مقرر کیا .
عثمان بعثت نبی اکرم ﷺ سے پہلے پیدا ہوئے عثمان کے مواقف واضح اور صریح تھے۔ خاص طور سے وہ نبی اکرم ﷺ کی وصیتوں پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ آپ اہل مدینہ میں سابقین فی الاسلام تھے۔ عثمان بن حنیف امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اصحاب میں شرطۃ الخمیس میں سے تھے۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے ان کو بصرے کا والی مقرر فرمایا ۔ آپ کا جنگ نہروان و صفین اور جمل میں اہم کردار رہا ہے ۔ یہاں تک کہ آپ کا اس جنگ میں یہ قول مشہور ہوا کہ: انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔ رب کعبہ کی قسم اسلام کی چکی گھوم رہی ہے۔
عثمان بن حنیف امیر مؤمنین علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے ان کو بیعت کے بعد بصرہ کی گورنری کے لئے انتخاب فرمایا اور بصرہ کے نظم و نسق سنبھالنے کی ذمہ داری ان کو سونپ دی۔ آپ ۳۵ ہجری کے اواخر ذیحجہ تک بصرہ کی گورنری پر فائز رہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبد اللہ بن عامر بن کریز کے بعد یعنی ۳۶ ہجری کے اواخر تک بصرہ کے گورنر رہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک قابل، لائق اور جو ذمہ داری سونپ دی جائے اس کو اچھے انداز سے نبھانے والے انسان تھے۔ اس لئے گورنری کے لئے اہل آدمی تھے۔ کیونکہ صدر اسلام میں جہاد کے معاملے میں آپ کا کردار بڑا شاندار رہا تھا۔ چنانچہ فتنہ ناکثین کو ناکام کرنے میں بھی آپ نے ان کا خوب مقابلہ کیا۔ جنہوں نے امام علی علیہ السلام سے اپنا عہد اور بیعت توڑ دی اور آپ کے خلاف میدان جنگ میں آئے تو عثمان بن حنیف نے ان کا مقابلہ کیا۔ جب ناکثین نے بصرہ کا محاصرہ کیا اور آپ کو ہتھیار ڈال کر شہر سے خارج ہونے کے لئے کہا تو آپ نے ان کا مقابلہ کیا اور شہر کا دفاع کیا ،ان کے ساتھ کوئی صلح نہیں کی ۔اس پر ناکثین نے آپ پر حملہ کیا ، ان کی داڑھی نوچی اور ان کو سخت مارا۔ اس ظلم کےبارے میں خود امام علیہ السلام نے فرمایا: عثمان جب تم مجھ سے رخصت ہوگئے تھے تو ایک بوڑھے شخص تھے اور جب واپس میرے پاس آئے ہو تو بغیر داڑھی کے ایک جوان!
مروی ہے کہ امام علی علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی کہ طلحہ اور زبیر نے بصرہ پر چڑھائی کی ہے اور حکیم بن جبلہ اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگوں کو بھی قتل کیا ہے نیز عثمان بن حنیف کو زد و کوب کیا ہے، بصرہ میں بیت المال کے نگہبانوں کو بھی مارا ہے تو امام علیہ السلام نے عثمان بن حنیف کے بارے میں فرمایا، کہ مجھ تک ایک دردناک اور بڑی بری خبر آئی ہے کہ طلحۃ و زبیر بصرہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے میرے عامل پر حمل کیا اسے سخت مار کر چھوڑ دیا ہے کہ نہیں معلوم، وہ زندہ ہے یا مردہ! اور اسی طرح ان دونوں نے خدا کے نیک بندے حکیم بن جبلۃ اور ان کے ساتھ نیک مسلمانوں کی ایک تعداد کو بھی قتل کیا ہے، انہوں نے اللہ سے اس حال میں ملاقات کی ہے کہ اپنی بیعت کا حق ادا کیا ،اپنے حق پر قائم رہ کر چلے گئے ، طلحہ و زبیر نےمسلمانوں کے بیت المال کے خزانہ داروں کو قتل کیا ان کو بری طرح سے دھوکہ دے کر قتل کیا ہے۔
ابن حنیف امیرالمؤمنین علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے بصرہ میں رہے اور وفات تک اپنے امام کے ساتھ کئے عہد کی وفا میں ہر مشکل اور دشواری کو خندہ پیشانی سے تحمل کیا۔ یہاں تک کہ ۴۱ ہجری یا اس کے قریب میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کے جنازے کو شہر کوفہ منتقل کردیا گیا ۔
ثمان بن حنیف کا ایک وفادار بھائی بھی تھا جن کا نام سہل بن حنیف تھا وہ بھی رسول اکرم ﷺ کے صحابی تھے ۔ انہوں نے بھی بیعت عقبہ میں شرکت کی ہے اور رسول خدا ﷺ کے ساتھ بعض جنگوں میں بھی شریک رہے ہیں ۔ سہل ایک ماہر تیر انداز تھا ۔ ان کی فرط شجاعت کا نمونہ یہ ہےکہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ کی بیعت ہی شہادت کی بنیاد پر کی ۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو سنا اور آپ ﷺ سے روایات بھی نقل کیں ۔ سہل بن حنیف ایک ثقہ اور عادل صحابی تھے ، انہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا بھی ساتھ دیا ، بلکہ ان کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ امام علی علیہ السلام نے ان کی تکفین کی اور نماز جنازہ پڑھی۔ عثمان بن حنیف کا ایک اور بھائی بھی تھا جن کا نام عباد بن حنیف تھا ۔
اولاد:
عثمان بن حنیف کے چند بیٹے تھے ، جن کے نام عبد اللہ بن عثمان ، حارثۃ بن عثمان ، البراء بن عثمان اور محمد بن عثمان ہیں ۔ وہ ثقہ راویوں میں سے تھے ، علاوہ اس کے وہ سب مخلص انصار میں سے تھے ۔ عثمان بن حنیف کی ایک ہی بیٹی تھی جن کا نام ام السہل تھا ۔