میثم تمار۔ امتحانات وآزمایشات کے علوم کا عارف
آپ کا پورا نام ابوسالم میثم بن یحییٰ الاسدی ہے، عراق کے شہر نہروان کی حدود میں پیدا ہوئے اور شہر کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ کھجور فروخت کرتے تھے اس لئے وہ "تمار" کے لقب سے مشہور تھے ۔ پہلی ہجری کو نہروان کے ایک قریے میں پیدا ہوئے، اس لئے تاابعین کے طبقہ اولیٰ میں شمار ہوتے ہیں ۔ آپ کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے صحابی ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا اور اس ولایت و محبت میں بالکل ثابت قدم رہے نیز دونوں امام یعنی امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی بھی برابر نصرت کرتے رہے۔ آپ نے نہروان میں شرطۃ الخمیس میں رہ کر خوارج کے خلاف جنگ لڑی ۔
میثم بنو اسد کی ایک عورت کے غلام تھے ، امیر المؤمنین علیہ السلام نے آزاد کرنے کے لئے خریدا اور خرید نے کے بعد پوچھا کہ:" تیرا کیا نام ہے ؟" میثم نے عرض کیا:" سالم ۔" ایسے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس سے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے کہ تمہارے والدین نے تمہارا عجمی نام میثم رکھا ہے۔ میثم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے اور اے امیر المؤمنین آپ نے بھی سچ فرمایا۔ اللہ کی قسم میرا یہی نام ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: پلٹ جاؤ اسی نام کی طرف جو رسول اللہ ﷺ نے رکھا ہے اور سالم نام کو چھوڑ دو۔ اس پر میثم نے اپنے پہلے نام کو اختیار کیا اور ابو سالم کنیت قرار دیا۔ اس کے بعد میثم امام علی علیہ السلام کے ساتھ ایسے جڑا رہا جیسے سایہ نیز امام کے پیچھے ایسے چپک کے چلتے تھے جیسے دودھ چھڑایا ہوا بچہ ماں کے ساتھ چپک کے چلتا ہے۔ اس طرح سے ایسے علوم و معارف امام سے سیکھ لئے جن کو سوائے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حواریوں کے کوئی اور نہیں سیکھ سکتا۔ اس طرح سے ایسی صلاحیت و قابلیت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں پوشیدہ اسرار اور غیبی اخبار سے بھی آگاہی حاصل کی۔
ازدواج :
میثم تمار نے کوفے میں بنو اسد کی ایک عورت سے شادی کی ۔ ان سے ایک بیٹا (شعیب ) پیدا ہوا جو امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے بنا۔ ان کا ایک اور بیٹا ہوا جس کا نام صالح تھا۔ وہ امام باقر اور امام صادق علیھما السلام دونوں اماموں کے اصحاب میں سے قرار پایا۔ اسی طرح ایک بیٹا جن کا نام عمران تھا وہ امام زین العابدین اور امام صادق علیھما السلام کے اصحاب میں سے بنا۔ میثم تمار ایک شعلہ بیاں خطیب اور بلیغ مقرر تھے۔ بلکہ آپ کو تفسیر قرآن مییں بھی مہارت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ آپ نے ابن عباس سے کہا: تم تفسیر قرآن کے بارے میں جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو اس لئے کہ میں نے اس کی تنزیل امیرامؤمنین کو سنائی ہے اور انہوں نے مجھے تاویل کا علم سکھایا ہے۔"اسی طرح میثم تمار رسول خدا ﷺ کی احادیث روایت کرنے میں سچے اور متقی ہونے میں ممتاز تھے اسی طرح امام علی علیہ السلام کی احادیث کی روایت کرنے میں سچے اور متقی راوی تھے۔ میثم کی فراست اور صفائے باطنی تھی کہ انہوں نے امیرالمؤنین علیہ السلام جو کچھ سیکھا اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس اہل ہوئے کہ آپ کو امتحانات و آزمایشات کا علم آیا۔ اس بارے میں ان سےایک روایت کی جاتی ہے کہ ایک دن میثم گھوڑے پر سوار جارہے تھے کہ سامنے حبیب بن مظاہر اپنے قبیلہ بنو اسد کی ایک محفل میں تھے ۔ دونوں کے آپس میں باتیں شروع ہوئیں یہاں تک کہ دونوں کے گھوڑوں کی گردنیں ان کے درمیان ٹکرانے لگیں ۔ایسےمیں حبیب نے میثم رضوان اللہ علیھما سے کہا:" ایس لگتا ہے کہ میں ایک گنجے بوڑھے آدمی سے مل رہا ہوں جس کا پیٹ بڑا ہے اور دار الرزق میں تربوز بیچتا ہے ، جن کو اپنے نبی کے اہل بیت کی محبت میں صولی پر چڑھایا گیا ہے اور ان کے پیٹ کو لکڑی سے چاک کردیا گیا ہے۔" یہ سن کر میثم تمار نے حبیب بن مظاہر سے کہا:" اور میں بھی ایک ایسے مرد سے ملاقات کر رہا ہوں کہ جس کی دو ہتھکڑیاں ہیں ، وہ اپنے نبی کی بیٹی کے فرزند کی نصرت کے لئے نکلے گا اور ماردیا جائے گا ۔ کوفے میں اس کا سر لایا جائے گا۔" اس گفتگو کے بعد دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ البتہ اس کے بعد دونوں نے اس بات کو مخفی رکھا۔ جس پر اہل مجلس ان دونوں کو جھوٹے سمجھنے لگے اور کہا:" ہم نے ان دونوں سے بڑھ کر کسی کو جھوٹا نہیں دیکھا ۔ " اتنے میں رشید ہجری رضوان اللہ تعالی علیہ ان دونوں کی تلاش میں اس مجلس میں آئے اور ان پوچھا تو ان کو جواب دیا گیا کہ وہ آپس میں باتیں کرنے کے بعد الگ ہوگئے ۔ رشید ہجری نے ان لوگوں سے کہا:" اللہ میثم پر رحم فرمائے وہ بھول گئے کہ:" اور جو شخص اس سر کو لےکر آئے گا اس کو سو درہم انعام بھی دیا جائے گا ۔" یہ کہہ کر رشید بھی وہاں سے چلا گیا ۔ یہ سن کر اہل مجلس نے کہا یہ تو ان دونوں سے بھی بڑا جھوٹا ہے۔ بس زیادہ وقت اور زمانہ نہیں گزرا تھا کہ میثم کو عمرو بن حریث کےگھرکے پاس صولی دی گئی اورادھر حبیب بن مظاہر کا سر بھی لایا گیا جن کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہید کردیا گیا تھا ۔
دوسرے پہلو سے، تمار اپنے صدق قول اور اس کے بر ملا اظہار سے پہچانے جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ اہل بیت علیھم السلام کے فضائل کا براڈکاسٹر شمار ہونے لگے۔ اس کے ساتھ یہ سلسلہ بھی تھا کہ آپ بنو امیہ کو رسوا بھی کرتے تھے خاص طور سے معاویہ اور جو اس کے پیچھے چلنے والے ان کی تو خوب مذمت کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہوئی کہ آپ کو صولی پر چڑھا دیا گیا ۔ اس لئے کہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ اہل بیت علیھم السلام کے فضائل بیان کرتے اور بنو امیہ پر لعن طعن کرتے جس پر پولیس نے ابن زیاد ظالم کے پاس شکایت کی اور کہا کہ تمار اموی دربار کو بے نقاب کرتا ہے ان کی برائی کرتا ہے۔ اس پر ابن زیاد نے حکم دیا کہ میثم تمار کو لگام دیا جائے۔ یہ سب سے پہلے انسان ہیں جن کو اسلام میں لگام دیا گیا۔ مزید ستم یہ ہے کہ ان کو صولی پر چڑھا کر قتل کردیا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسا امیرمؤمنین علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ :" اللہ کی قسم میثم تمہارے دونوں ہاتھ، پاؤں اور زبان کاٹ دئے جائیں گے، اور اس کھجور کو بھی کاٹ دیا جاائے گا جو کناسہ ہے پھر اس کے چار ٹکڑے کئے جائیں گے ، پھر آپ کو اس کے چوتھائی پر مصلوب کیاجائے گا اور حجر بن عدی کو ایک چوتھائی پر ایسے ہی محمد بن اکثم کو چوتھائی پر۔ اور خالد بن مسعود ایک چوتھائی پر۔ میثم تمار نے کہا :" مجھے اپنے تئیں شک ہوا ور میں نے اپنے آ پ سے کہا :" یہ تو علی نے غیب کی خبر دی ! اس لئے میں نے عرض کی :" یا امیرالمؤمنین کیا یہ واقع ہوجائے گا؟ امیر المؤمنین نے فرمایا: رب کعبہ کی قسم کہ ایسا ہوکر رہے گا۔ یہ تو اس کا نبی ﷺ کے ساتھ وعدہ ہے ۔
بلکہ امام علیہ السلام نے میثم تمار کو وہ درخت بھی دکھلادیا جس پر ان کو صولی دی جائے گی۔ اس کے بعد میثم اس درخت کے پاس آکر نماز بھی پڑھا کرتے اور کہتے تھے:" اس کھجورکے درخت کو مبارک ہو ، میں تمہارے لئے پیدا ہوا اور تم نے میرے لئے نشو نما پائی۔" یہاں تک کہ ایک دن عمرو بن حریث سے کہا ": میں تمہارا ہمسایہ ہونے والا ہوں پس تم مجھ ہمسائے کا حق ادا کرنا۔ یہ سن کر عمرو نے کہا :" کیا آپ ابن مسعود یا ابن حکیم کا گھر خریدنا چاہتے ہیں ؟ یہاں تک کہ میثم کی شہادت ہوئی تب سب نے جان لیا کہ میثم کا مقصد کیا تھا ۔
چنانچہ یہ روایت بھی کی جاتی ہے کہ میثم نے اسی سال حج کے لئے مکہ مکرمہ کا سفر کیا جس سال امام حسین علیہ السلام مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا کے لئے خارج ہوئے تھے ۔ میثم تمار ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا کی خدمت میں گئے اور اپنا تعارف بتادیا۔ ایسے میں ام سلمہ نے میثم سے کہا:" اللہ کی قسم میں رسول اللہ ﷺ کو سنتی تھی کہ وہ آپ کو یاد کرتے اور آپ کے بارے میں آدھی رات کو علی علیہ السلام سے وصیت کرتے تھے۔ " میثم نے ام سلمہ سے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے گھر میں ہوں گے ۔ میثم نے کہا :" ان کو خبر دیں کہ میں ان کو سلام کرنا چاہتا ہوں اور ہم تو انشاء اللہ عالمین کے پروردگار کی ملاقات کو جانے والے ہیں۔ ام سلمہ نے امام حسین علیہ السلام کو بلایا اوران کی ریش کے لئے خوشبو دے دی۔ میثم نے کہا:" کیا آپ اس داڑھی کو رنگ دیں گی ؟ یہ تو لہو کے خضاب سے رنگین ہوگی۔ " ام سلمہ نے کہا:" میں نے حسین علیہ السلام کو دیکھا کہ اکثر تمہیں یاد فرماتے تھے۔ " میثم نے کہا:" میں بھی ان کو بہت یاد کرتا ہوں اور میں جلدی میں ہوں ، مجھے اور ان کے بارے میں ایک ہی چیزکا فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس تک پہنچنا ضروری ہے۔ " جب میثم وہاں سے خارج ہوئے تو ابن عباس کو بیٹھا ہوا پایا۔ ابن عباس سے کہا:" ابن عباس ! تم تفسیر قرآن کے بارے جو پوچھنا چاہتے ہو مجھ سے پوچھ لو ، اس لئے کہ میں نے امیر المؤمنین علیہ السلام کو تنزیل سنائی اور انہوں نے مجھے قرآن کی تاویل کی تعلیم دی ہے۔ ایسے میں ابن عباس نے دوات اور کاغذ طلب کیا ، اور لکھنے کے لئے تیار ہوگئے، اتنے میں میثم نے ان سے کہا :" ابن عباس آپ کا کیا حال ہوگا جب تم مجھے نو نو کے ساتھ مصلوب دیکھو گے کہ ان میں سے سب سے چھوٹا لکڑی کا ہوگا اور اسے پاک کرنے والے کے قریب لایا جائے گا؟ ابن عباس نے کہا:" کیا یہ بھی واقع ہوجائے گا؟ اس کے ساتھ ابن عباس نے لکھا ہوا جلادیا۔ ایسے میں میثم نے کہا :" رک جا، جو کچھ مجھ سے سنو اسے محفوظ کرو اگر وہ حق ہو تو رکھ لینا ، اور اگر وہ باطل ہو تو جلادینا۔"
روایت ہے کہ عبید اللہ بن زیاد کوفہ داخل ہوا اور کناسہ کے پاس والے درخت کو دیکھا اور اس سے فال لیا اس نے حکم دیا کہ اسے کاٹ دیا جائے، اس کے بعد چنانچہ بڑھئیوں میں سے ایک ترکھان نے اسے خریدا اور پھر اس کے چار ٹکڑے کردئے۔ میثم نے اپنے بیٹے صالح کو حکم دیا کہ وہ لوہے کی ایک کیل لے لے اور اسے اس کے ایک ٹکڑے پر میثم کا نام نقش کرے اور اس کے تنے پر ٹھوک دے ۔ زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ لوگ میثم کےپاس جمع ہوئے اور کہا کہ وہ بھی مارکیٹ کے عامل کے خلاف اٹھے اور اس کو معزول کرانے اور اس کی جگہ دوسرے کے تقرر میں ان کاساتھ دے۔ میثم تمار نے اٹھ کر ان کے درمیان خطاب کیا اور سب کو تعجب میں ڈال دیا سوائے ابن حریث کے جس کو ابن زیاد نے یہ کہہ کر لازم کردیا:" یہ میثم تمار جھوٹا ہے اس کا مولا علی بن ابیطالب بھی جھوٹا ہے ۔" ابن زیاد نے میثم تمار سے کہا کہ وہ امام علی علیہ السلام سے بیزاری اختیار کرے اور ان کی برائی کرے ۔ یا یہ کہ اس کے دونوں ہاتھ پاؤں کاٹ دئے جائیں گے پھر اس کے بعد صولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ یہ سن کر تمار رو پڑے ۔ یہ دیکھ کر ابن زیاد نے مذاق اڑایا اور کہا :" تم صرف بات کرنے پر روئے ابھی تو تم کو سزا بھی نہیں دی ہے" میثم تمار نے جواب دیا:" اللہ کی قسم میں تمہاری بات پر رویا ہوں اور نہ سزا کا سن کر رویا ہوں ۔ میں تو اس شک پر رویا ہوں جو اس وقت پیدا ہوا تھا جس دن میرے آقا و مولا نے اس کے بارے میں خبر دی تھی۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہا کہ تم نے سچ کہا، اور یہ کہ اللہ کی قسم کہ تمہارے دونوں ہاتھ ، پاؤں اور زبان کاٹ دئے جائے گے اور تم کو صولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ " میثم تمار نے کہا کہ میرا امام علی علیہ السلام نے اس کی خبر دی ہے کہ مجھے سرکش کمینہ بدکارہ کنیز کا بیٹا عبید اللہ ابن زیاد قتل کرے گا۔ یہ سن کر ابن زیاد غصے سے پھول گیا اور کہا:" اللہ کی قسم میں تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دوں گا لیکن تمہاری زبان قطع نہیں کروں گا تاکہ تم اور تمہارے مولا کو جھوٹے ثابت کروں۔ اس کے ساتھ حکم دیا، جس پر تمار کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئے گئے۔ پھر کہا کہ اس کو ایسے چھوڑ دیا جائے۔ لیکن عمرو بن حریث نے جب دیکھا کہ میثم تمار لوگوں کو امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے فضائل بیان کر رہے ہیں تو جلدی میں گیا اور دوبارہ ابن زیاد کو یہ کہہ کر اکسایا:" اللہ امیر کا بھلا کرے۔ جلدی کریں اور اس (میثم تمار ) کی جانب کسی کو بھیج دیں کہ اس کی زبان کاٹ دے ، مجھے اس بات کا امن نہیں ہے کہ وہ اہل کوفہ کے دلوں کو بدل دے گا اور وہ تمہارے خلاف خروج کریں گے۔ ابن زیاد نے نگہبانوں کی طرف رخ کیا اور کہا :" جاؤ اور تمار کی زبان قطع کرو۔ " ایک نگہبان آیا اور اس نے میثم سے کہا:" اے میثم ! اپنی زبان باہر نکالو ، امیر نےحکم دیا ہے کہ تیری زبان کاٹ دوں ۔" تمار نے اس سے کہا :" کیا وہ بدکارہ کا بیٹا یہ گمان نہیں کر رہا تھا کہ وہ میں اور میرے مولا کو جھٹلادے گا ؟ یہ لو میری زبان " نگہبان نے تمار کی زبان کاٹ دی ، ایک گھنٹے تک ان کا خون بہتا رہا پھر شہید ہوگئے ۔ حکم دیا گیا کہ ان کو مصلوب کیا جائے تو ان کو صولی پر چڑھا دیا گیا ۔
اتنے میں ان کے فرزند صالح نے کہا:" اس کے بعد کئی دن گزر گئے کہ تمار کو اسی ایک چوتھائی پر صولی لگائی گئی جس پر میں نے کیل ٹھونک دی تھی۔ ا س طرح تمار ۲۲ ذیحج ۶۰ ہجری کو امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہچنے سے کچھ دن پہلے شہید ہوئے۔ اور شہر کوفہ میں اسی جگہ دفن ہوئے جہاں پر آج ان کی قبر ہے ۔
وہ عظیم اقوال جو میثم تمار کے بارے میں ائمہ اہل بیت علیھم السلام سے صادر ہوئے درجہ ذیل ہیں:
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا :" میثم تیرا کیا حال ہوگا جب بنو امیہ سے ملحق ناجایز باپ کا بیٹا عبید اللہ بن زیاد تم سے کہے کہ مجھ سے بیزاری اختیار کرو ؟" تو میثم تمار نے کہا:" اے امیرالمؤمنین ! اللہ کی قسم میں آپ سے ہرگز بیزاری اختیار نہیں کروں گا ۔ امام نے فرمایا :" تو پھر تم کو قتل کر دیا جائے گا اور صولی پر چڑھا دیا جائے گا ۔ (تمار ) میں نے کہا:" میں صبر کروں گا اور اللہ کی راہ میں یہ قلیل ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :"تو اے میثم ! تم میرے درجے میں میرے ساتھ ہو۔ "
امام باقر علیہ السلام نے میثم کے بیٹے صالح سے فرمایا:" میں تم اور تمہارے باپ دونوں کو بہت دوست رکھتا ہوں ۔"
امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا:" جب قیامت کا دن ہوگا تو منادی ندا دے گا ۔ کہاں ہیں اللہ کے رسول محمد بن عبد اللہ ﷺ کے حواری ؟ کہاں ہیں جنہوں نے اپنا عہد نہیں توڑا اور اس پر قائم رہے؟
اتنے میں سلمان، مقداد اور ابوذر کھڑے ہوجائیں گے۔ پھر منادی ندا دے گا:" کہاں ہیں محمد بن عبداللہ رسول اللہ ﷺ کے وصی علی بن ابیطالب علیہ السلام کے حواری ؟ ایسے میں۔ اور میثم بن یحییٰ تمار کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ وہ حواری ہیں جو تابعین میں اول سابقین، اول المقربین اور اول حواریین ہیں۔