عراق، انقلابِ حسینی کا نقطہ آغاز۔۔۔ امام حسین علیہ السلام کا اپنی جاودانہ تحریک کے لیے عراق کو اختیار کرنے کی وجوہات کا مطالعہ۔
بانی انقلاب امام حسین علیہ السلام اور ان کے لافانی انقلاب کے بارے میں گفتگو ہمیشہ سے مؤرخین، مصنفین اور میڈیا سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ عسکری قائدین کی بھی دلچسپی کا موضوع رہی ہے۔ اس کی وجہ اس تحریک کے مختلف پہلو اور اس کے اندر پائی جانے والی بصیرت ہے، جس سے ہمارے اس زمانے کے جدید نظریات اور تحریکیں عاری ہیں، چاہے یہ فوجی اور تکنیکی سطح پر ہوں یا ادبی اور میڈیا کی سطح پر اور بھلے یہ تحریکیں اور نظریات اس تحریک سے زمانی لحاط سے مقدم ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا کیسے نہ ہو جبکہ اس تحریک کے خدوخال ابھارنےاور قیادت کرنے والی شخصیت امام حسین علیہ السلام کی ہے، جو بقائے محمدیؐ اور تسلسل علویؑ ہیں۔ اگرچہ اس ابدی اور جاودانہ تحریک کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود کچھ سوالات ایسے بھی ہیں جو ذہن میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں، اگرچہ ان کے کچھ ماورائی قسم کے جوابات بھی دیے گئے ہیں پھر بھی انہیں جواب کی تلاش رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سائل حسینی عقل میں غور و فکر کا ادراک نہیں رکھتا جو عقول بشری کی وارث اور میراث نبویؐ کی ترجمان ہے۔ ان سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ امامؑ نے اپنی تحریک کے میدان کے طور پر دوسرے شہروں اور خطوں کی بجائے عراق ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ خصوصاً اپنے جدؐ کے شہر اور وحی کی نزول گاہ مکۃالمکرمہ جو کعبہ شریف کی وجہ سے تکریم کا حامل ہے اور اس کے علاوہ مدینہ منورہ جس میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذات آرام فرما ہے، کی بجائے امامؑ کا عراق کو اختیار کرنا ان تمام تصورات اور شاید ہیجانات کا احاطہ کیے ہوئے جن سے امامؑ کی سوچ اور فکر واضح ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے بعض افرادکی طرف سے ان کے فوری اور محدود خیالات کی بنا پر امامؑ کی اس رائے کے بارے میں کی جانے والی قیاس آرائیوں کا تذکرہ کافی ہے۔
امام حسینؑ کے اپنی تحریک کے لیے عراق کو انتخاب کرنے کے عوامل کے بارے میں وسیع معلومات اوراس مرحلے پر تاریخ کے ذریعے معلوم ہونے والے دیگر قرائن کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ امامؑ کا عراق کو اختیار کرنا ان اسباب میں سے کسی ایک سبب سے خالی نہیں ہے بلکہ شاید تمام اسباب یہی ہیں۔
۱۔ امام حسینؑ کا عراق کو اختیار کرنے کا ارادہ اس لیے تھا تا کہ آپ اس وسیع عوامی حمایت سے استفادہ کریں جو امام علیؑ اپنے زمانے میں آمادہ کر چکے تھے، اس سے پہلے کہ طاغوتی طاقتیں اس جمعیت سے سوءاستفادہ کریں اور علویؑ بنیادوں پر استوار عوامی اعتقادات و نظریات کو تبدیل کر دیں۔ یہ ایسی جمعیت تھی جو علویؑ راستے کو اسلام محمدیؐ کی تکمیل سمجھتی تھی۔ اس بنا پر ایک ایسے ماحول میں امام حسینؑ کی شہادت جو ان کے والد کے طریق کار کا وفادار تھا اور اس تحریک کے سائے میں امام حسینؑ کا اپنی شہادت سے فائدہ اٹھانا اسے ہر زمان و مکان سے ہم آہنگ کر دیتا ہے، خصوصاً ان کا شریف خون،جس کے بارے میں آپ جانتے تھے کہ وہ حتماً عراق کی سر زمین پر بہایا جائے گا، ظالموں کے خلاف اٹھنے والی تحریک کا نقطہءآغاز ہوگا، چاہے وہ ظالم کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی مقام پر ہوں۔ اس بنا پر عراق حسینی تحریک اور اس سے مشابہ دوسری تحریکوں کے لیے درکار عوامی حمایت کے حوالے سے ایک زرخیز خطہ تھا۔ یہاں عوامی حمایت سے ہماری مراد افرادی قوت ہے۔
2۔مردم شناسی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اگر امام حسینؑ عراق کے علاوہ اپنی تحریک کےلیے کسی اور شہر کا انتخاب کرتے تو عوامی حمایت اور افرادی قوت کے لحاظ سے یہ اقدام ان کی تحریک کو ضعیف کر دیتا کیونکہ دوسرے شہر زیادہ تر بنو امیہ کے زیر تسلط بلکہ ان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور یہ چیز امام حسینؑ کی تحریک کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام کر دیتی، جس کے نتیجے میں امام حسینؑ کا ان شہروں میں پناہ لینا ان کے باشندوں کی طرف سے منفی نظروں سے دیکھا جاتا اور وہ کم سےکم بھی یہی سوچتے کہ امامؑ محاذ آرائی سے فرار کر گئے ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے ایسا گمان کیا بھی۔ جب امامؑ اس تحریک اور اس کے ذریعے شہادت کے حوالے سے ارادہ کر رہے تھے تو کچھ لوگوں نے امامؑ کے اس اقدام کو مادیت اور مفادات پرستی سے تعبیر کیا کیونکہ اس تحریک سےایک ایسی چنگاری پیدا ہوئی جس سے مستقبل میں کسی بھی قسم کے ظلم کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو شعلہ ور کیا اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اس مرحلے پرعراقیوں اور شامیوں کے درمیان کئی بڑی جنگیں دیکھنے میں آئیں۔اگرچہ ان میں سے اکثر جنگیں اتنی زیادہ شدید نہیں تھیں سوائے امام علیؑ کی بنو امیہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں کے۔یہ جنگیں امام علیؑ کے پیروکاروں اور حاکم شام معاویہ اور اس کے بعد اس کے بیٹے یزید کے پیروکاروں کے درمیان نظریاتی جنگیں تھیں اور طبیعی طور پر عراق کے لوگ دوسرے لوگوں کی نسبت حسینیؑ تحریک اور اس کے قائد امام حسینؑ کو زیادہ قبول کرنے والے تھے اور انہی عوامی جذبات سے امامؑ نے استفادہ کیا جو اسلام کو مسخ کرنے کے لیے بنائے گئے شامی منصوبوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی تھا۔بالخصوص ان منصوبوں کا اصلی مرکز وہی اموی جڑ اوراس کا پہلا پودا تھا جس کی وجہ شہرت ہی خاندان پیغمبرؐ سے دشمنی اور کینہ تھا۔اس کے ساتھ ساتھ بزنطینی رہنما بھی ان منصوبوں کے پیچھے تھے جیسا کہ سرجون رومی جو غیر مسلموں کے لیے کسی بڑے مذہبی ادارے کے قیام پر یقین نہ رکھنے والوں کی نمائندگی کرتا تھا۔
3۔ اسلامی صوبوں کی توسیع اور ان کے علاقوں کی وسعت کی وجہ سے انہیں اموی بربریت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، سوائے ان حالات کے جو امام علی علیہ السلام کے زمانے میں عراق میں پیش آ چکے تھے جنہوں نے امام علی علیہ السلام کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنا لیں کیونکہ امامؑ نے انہیں اپنی محبت میں شدید اور مخلص پایا تھا۔ اسی طرح امام حسن علیہ السلام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی پیش آیا جب وہ حملہ آوروں کے حملے سے محفوظ رہنے کے لیے مدائن میں پناہ گزین ہوئے۔ ان سب واقعات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عراقی ظلم و زیادتی سے شدید نفرت کرنے والے تھے اور وہ اس وقت قبیلہ بنو امیہ کے خلاف اپنے انقلاب کے ایماندار ترین انقلابی تھے۔ یہ ایک اور سبب ہے جو امام علیہ السلام کو اپنی تحریک کے لیے اس شہر کے انتخاب پر ابھارتا ہے۔ بالخصوص آپؑ اپنی تحریک کے حوالے سے دوسرے شہروں کی نبضیں دیکھ چکے تھے کیونکہ امام حسینؑ کا مقصد اپنے نانا رسول اللہؐ کی امت کی اصلاح تھا اس لیے کہ وہ امت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی تھی جہاں اس کی اصلاح لازم ہو چکی تھی۔لیکن اس وقت فقط عراقی تھے جنہوں نے امامؑ کو خطوط لکھے اور نصرت کا وعدہ کیا۔ اس چیز نے امامؑ کے لیے ضروری قرار دیا تھا کہ وہ ان کی اس دعوت کا مثبت جواب دیں کیونکہ باقی شہر بنی امیہ کا دم بھرتے تھے، یا تو لالچ کی وجہ سے یاجبر اور زبردستی نے ان کے ارادے سلب کر لیے تھے اور یا پھر تحریک اور اصلاح کے معاملے میں ان کا ایمان کمزور تھا۔جو بھی ہو ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ امامؑ کا عراق اور اس کے عوام کو اپنی تحریک کے لیے منتخب کرنا کسی اضطراری حالت میں نہ تھا جس کی طرف کسی ضرورت نے امامؑ کو مجبور کر دیا ہو بلکہ یہ شعوری اور دانش مندانہ فیصلہ تھا بالخصوص امامؑ اپنے باباؑ اورجدؐ کی طرف سے ورثے میں ملنے والے علم کی وجہ سے لوگوں اور معاشروں کی طبیعتوں سے دوسروں کی نسبت زیادہ آشنا تھے اس کے ساتھ ساتھ آپؑ کا ورع و تقویٰ آپؑ سے اس چیز کا تقاضا کر رہا تھا کہ آپؑ اپنی تحریک اور انقلاب کے لیے ٹھوس راستوں کا انتخاب کریں اور اپنی کامیابی کے حالات کو پوری دقّت اور توجہ کے ساتھ جاری رکھیں۔ اس کے علاوہ امامؑ کی عصمت انہیں اس چیز کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ وہ اپنی تحریک کو شعلہ ور کرنے کے لیے کوئی ایسا چھوٹا یا بڑا قدم اٹھائیں جس سے معصوم لوگوں کا خون بہے اور آپؑ انہیں اپنی تحریک کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کریں۔ یہ امر امامؑ کے اس انتخاب کو ایک ذمہ دارانہ اور عمیق دلائل پر استوار انتخاب قرار دیتا ہے۔ ان دلائل کا مشاہدہ ہم آج تک اس بات میں کر رہے ہیں جسے آج ہم ایک جذبے کے طور پر دیکھتے ہیں جو عراقی اپنے قائد امام حسینؑؑ کو پیش کرتے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ اس المناک واقعہ کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں۔