2 جمادي الثاني 1446 هـ   4 دسمبر 2024 عيسوى 11:37 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2022-06-26   1801

حضرت سلیمان ؑ کا قصہ

قرآنی قصے اس حوالے سے دیگرقصوں سے ممتاز ہیں کہ یہ بڑے شفاف انداز میں واقعیت و حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ پہلی اقوام نے ان قصوں میں تحریف کر دی تھی قرآن نے بڑی خوبصورتی سے ان کی تصحیح بھی کر دی ہے۔ اسی طرح قرآنی قصے قابل اعتبار ہیں اور ہر مومن ان کے ایک ایک جملے پر یقین رکھتا ہے۔اس طرح انبیاء کی زندگیوں سے استفادہ کی راہ نکلتی ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قرآن نے ان قصوں کے منتخب حصوں کو ذکر کیا ہے جن میں ہدایت و رہنمائی کا سامان موجود ہے اور ان کے ذریعے تبلیغ اور دعوت کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے قصے نہیں ہیں جو بادشاہ اپنی حکومت و ریاست کے بارے میں لکھواتے ہیں کیونکہ ان میں ایک تو حقیقت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور دوسرا ان میں ہدایت و رہنمائی موجود نہیں ہوتی۔ بادشاہوں کے قصے سیاسی و اجتماعی وجوہات کی بنیاد پر لکھوائے جاتے ہیں اس طرح ان میں بہت سی غیر حقیقی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جو عام انداز میں انبیاء اور صالحین کے قصے دیگر ذرائع سے نقل ہوئے ہیں ان میں تحریف ممکن ہے۔ قرآن نے ان واقعات کو انہی مسائل سے بچانے کے لیے بیان کر دیا ہے۔ قرآن نے ان واقعات کو منطقی انداز میں حقیقت کے دائرے میں بیان کیا ہے۔ قرآن نے صحیح و غلط کے درمیان خط کھینچ دیا ہے۔ قرآنی قصوں میں انسان کے لیے عبرت حاصل کرنے کا پورا سامان فراہم کر دیا گیا ہے۔

ہم یہاں پر حضرت سلیمان ؑ کی بات کریں گے اس میں ہم ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور مشکلات کو جانیں گے۔ آپ کی سلطنت عدل و انصاف پر قائم تھی یہ بادشاہوں کے لیے نمونہ ہے جو حق سے بھٹک جاتے ہیں اور ظلم و ستم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر حضرت سلیمان ؑ کی حکومت پر اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ قرآن نے ان کے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں اور نبی کسی بھی طرح کا ظلم نہیں کرتا۔ آپ کے زمانے میں جو بڑے فتنے آئے ان میں سے ایک آپ کی کرسی پر میت کا رکھنا ہے۔

حضرت سلیمانؑ حضرت داود ؑ کے فرزند تھے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

((وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ  نِعْمَ الْعَبْدُ  إِنَّهُ أَوَّابٌ))(سورة ص ـ30)

اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا جو بہترین بندے اور (اللہ کی طرف) خوب رجوع کرنے والے تھے۔

اس طرح آپ خاندان نبوت میں پیدا ہوئے اور آپ کی پرورش بھی خاندان نبوت میں ہوئی جہاں وحی نازل ہوتی تھی۔ آپ نے حکمت اپنے والد سے حاصل کی اسی طرح آپ نے حسن اخلاق والد سے پایا اور باقی وہبی علوم پائے۔ وہبی علم اللہ کی نعمت ہے اور اسے ملتا ہے جو اس کا مستحق ہوتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ آپ کو اواب کا لقب دیا گیا ۔اواب کے معنی عبادت کو اس کی اعلی ممکنہ شکل میں انجام دینا ہیں اسی طرح اس چیز کو ناپسند کرنا  جو اللہ کو ناپسندہواور ہر اس چیز کو انجام دینا جو اللہ کو پسند ہو اس طرح وہ عبد صالح قرار پائے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

((نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ))

اور (اللہ کی طرف) خوب رجوع کرنے والے تھے۔

آپ نے ہر چیزمیں اپنے والد سے وراثت پائی اللہ نے آپ کو نبوت سے نوازا ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ  وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ  إِنَّ هذا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ))(سورة النمل ـ 16)

اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔

اللہ تعالی نے آپ کو کچھ خصوصی ولایت بھی عطا کی تھی جیسے آپ کا پرندو پر حکومت کرنا اور ان کی زبانوں کو سمجھنا۔ آپ کو جو چیز والد سے وراثت میں ملی وہ فقط مال و دولت نہیں تھی بلکہ آپ بادشاہت،علم اور نبوت میں بھی وارث بنے۔

اللہ تعالی نے حضرت سلیمانؑ کو بے شمار نعمتوں سے نوازا اس کے باوجود حضرت سلیمانؑ دیگر انبیاء ؑ اور اوصیاءؑ کی طرح ابتلاءاور آزمائشوں میں مبتلا ہوئے۔ اللہ تعالی اپنے انبیاء اور اولیاء پر آزمائشیں نازل کرتا ہے اور ان کے نتیجے میں انہیں موجودہ درجات سے بڑے درجات دیتا ہے۔اس طرح اللہ کے ہاں ان کی شان و منزلت بڑھ جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انبیاء اور اوصیاء پر نازل ہونے والی مشکلات دیگر لوگوں کے لیے سبق لیے ہوتی ہیں کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں۔ سب سے بڑی آزمائش جس میں اللہ تعالی نے حضرت سلیمانؑ کو مبتلا کیا وہ ان کی کرسی پر میت کا رکھا جانا تھا۔قرآن مجید میں ارشاد باری ہوتا ہے:

((وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا على كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ))(سورة ص ـ 34)

اور ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کے تخت پر ایک جسد ڈال دیا پھر انہوں نے (اپنے رب کی طرف) رجوع کیا۔

یہ حضرت سلیمانؑ کا سخت امتحان تھا اس سے لوگ حضرت سلیمانؑ کی نبوت میں شک کرنے لگے اور ان سے روگردانی کرنے لگےبلکہ  انہوں نے ان کی نسبت ایسی باتوں کی طرف دینی شروع کر دی جو آپ میں نہیں تھیں۔یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ امت کے لیے بھی بڑی آزمائش تھی۔

امام جعفرصادقؑ سے مروی ہے آپ نے فرمایا:جب حضرت سلیمان ؑ کا بیٹا پیدا ہونے والا تھا اس وقت جن اور شیاطین ایک دوسرے سے کہنے لگے اگر یہ زندہ رہا تو ہمیں اسی طرح رکھے گا جیسے ان کے والد نے ابتلاء میں رکھا،حضرت سلیمانؑ کو ان کے بچے کےلیے خطرہ محسوس ہوا تو آپ نے اسے بادلوں میں پالا( آپ نے اس کی بہت حفاظت کی) مگر آپ نے اسے اپنے کرسی پر مردہ پایا۔یہ ایک تنبیہ تھی کہ کوئی چیز اللہ کے فیصلے سے نہیں بچا سکتی اور آپ کی شیاطین سے یوں خوف کرنے کی وجہ سے بازپرس کی گئی۔ خصوصا آپ نے اپنے بھرے دربار میں یہ بات کی تھی کہ میں آج اپنی سو بیویون کے ساتھ ہمبستری کروں گا تاکہ اس سے سو بیٹے پیدا ہوں اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں۔آپ کی گفتگو بچوں سے محبت کی وجہ سے تھی اور آپ یہ سب کا سب اللہ کی عطا اور اسی کی مدد سے چاہتے تھے۔آپ کی ذات گرامی اس سے بلند ہے کہ آپ دنیاوی لالچ میں ایسا کرتے۔ لوگ اسے سمجھنے میں ناکام رہے اسی کلام کی کمی کی وجہ سے اللہ تعالی سے آپ نے مغفرت طلب کی اور دعا کی کہ وہ نعمتوں کو جاری رکھے جیسے اس نےآپ کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا تھا،شیاطین کو شکست دی تھی اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

 ((قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (35) فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ (36) وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ (37) وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (38) هَٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (39) وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ(40))(سورة ص ـ 35 ـ40)

کہا: میرے رب! مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کے شایان شان نہ ہو، یقینا تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔ ۳۶۔ پھر ہم نے ہوا کو ان کے لیے مسخر کر دیا، جدھر وہ جانا چاہتے ان کے حکم سے نرمی کے ساتھ اسی طرف چل پڑتی تھی۔ ۳۷۔ اور ہر قسم کے معمار اور غوطہ خور شیاطین کو بھی (مسخر کیا)۔ ۳۸۔ اور دوسروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ۳۹۔ یہ ہماری عنایت ہے جس پر چاہو احسان کرو اور جس کو چاہو روک دو، اس کا کوئی حساب نہیں ہو گا۔ ۴۰۔ اور ان کے لیے ہمارے ہاں یقینا قرب اور نیک انجام ہے۔

انہی وجوہات کی بنیاد پر آپ  کو عبد صالح اور مومن حق کا خطاب ملا کیونکہ آپ نے ان مصیبتوں پر صبر کیا جن میں آپ مبتلا ہوئے تھے

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018