واقعہ مباہلہ اور اس کی دلالت:
"مباہلہ" کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں جبکہ اصطلاح میں انکارِ حقیقت کرنے والوں کے خلاف نزول عذاب کی بد دعا کرنے کو کہتے ہے۔
اثبات ِ نبوت آیت مباہلہ کی روشنی میں :
آیت مباہلہ درحقیقت اثبات نبوت او رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر شک کرنے والوں کے لئے بہترین دلیل ہے۔ نصاریٰ نجران ان لوگوں میں سےتھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر یقین نہیں رکھتے تھے ، جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام جو اللہ تعالی کے نبی تھے ان کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اس عقیدے کی بنیاد پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صریح قرآنی آیات کے ذریعہ سے ان کے اس نظریہ کو باطل اور بے بنیاد قرار دے دیا ۔جیساکہ قرآن مجید کے سورہ مبارکہ اخلاص میں اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لئے نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ اللہ کسی کا بیٹا ہے۔
نص قرآنی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر یہ واضح کردیا کہ خدا کی ذات یکتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر وہ لوگ ایمان رکھتے تھے اور قران حکیم نے بھی بہت ساری جگہوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت کی گواہی دی ہے جیساکہ سورہ النجم میں اللہ تعالی فراتے ہیں: (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى)) (النجم-3-4-5)
وہ خواہش سے نہیں بولتا ۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔
((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ)) (الأنبياء-107)
اور اے رسول ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے
دس ہجری کو حضرت رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجراں کے نصاریٰ کو خط لکھا، جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نصاریٰ نجران حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے بارے میں بہت ہی متشدد اور سخت نظریہ رکھتے تھے۔ اس خط سے نصاریٰ نجران کو یہ علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظریہ ان کے عقیدے کے بلکل خلاف ہیں اور رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح اللہ کا بندہ ہے
نصاریٰ نجران کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ مسیح خدا کا بیٹا ہے کیونکہ مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے لئے یہ جواب کافی ہیں حضرت آدم جو کہ ابوالبشر تھے بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے ہیں جو کہ سب سے بڑا معجزہ تھا۔ ان کو کسی نے بھی اللہ کا بیٹا نہیں مانا تو حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ تصور کرسکتا ہے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطن مادر سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں عیسیٰ مسیح کو حضرت آدم کے ساتھ موازنہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بغیر باپ کے پیدا ہونا ایک معجزہ ہے اور اللہ تعالی کے نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس سے لوگ منحرف اور غلط راستے کی طرف نہیں جانا چاہئے ۔ کیونکہ اللہ خالق و مالک ہے کسی کو بغیر ماں باپ کے پیدا کرسکتا ہے۔ یعنی خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فورا ہوجاتا ہے۔
((إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ)) (يس-82)
جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے
حضرت رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے ان کو خط لکھتے ہوئے ان کے باطل عقیدہ کی طرف توجہ دالائی ، نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی، جو حقیقت کو جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہوے۔ نصاریٰ نجران کا یہ قافلہ جن میں کچھ ان کے سردار بھی تھے جن میں ، عاقب جس کا نام عبد المسیح تھا، سید جس کا نام ایہم تھا، ابو حارثہ بن علقمہ جو بکر بن وائل کا بھائی تھا اور بڑا سردار عاقب جو امیر قوم تھا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اور اسی کی رائے پر یہ لوگ مطمئن ہوجاتے تھے اور سید جو ان کا لاٹ پادری تھا اور مدرس اعلیٰ تھا یہ بنوبکر بن وائل کے عرب قبیلے میں سے تھا، لیکن نصرانی بن گیا تھا اور رومیوں کے ہاں اس کی بڑی آؤ بھگت تھی اس کے لیے انہوں نے بڑے بڑے گرجے بنا دیے تھے اور اس کے دین کی مضبوطی دیکھ کر اس کی بہت کچھ خاطر و مدارات اور خدمت و عزت کرتے رہتے تھے یہ شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صفت و شان سے واقف تھا اور آپ کی نبوت کا قائل تھا۔
جب ان لوگوں کی ملاقات رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت احسن طریقے سے ان کے ساتھ گفتگو فرمائی جس کا قرآن کریم حکم دیتا ہے۔
(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)) (النحل-125
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
نصاریٰ نجران بہت ہی مغرور اور متکبر تھے اس لئے ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور کہنے لگے کہ ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے۔خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کر جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔ ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتفاق نہیں کریں گے، لیکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سن لیا: "فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
وعدے کے مطابق روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم خداوندی کے مطابق امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے گھر تشریف لے گئے، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جو جوانانِ جنت کے سردار اور اہل بہت اطہار میں سے ہیں ساتھ لیا۔ اور "من نسائنا" کی روشنی میں ام الائیمہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جو تمام خواتین کے سردار ہیں کو اور "أنفسنا" کی روشنی میں امام علی علیہ السلام کو لیکر مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے۔
جب نصاریٰ نے ان ہستیوں کو میدان کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو ان کے سربراہ ابو حارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں، جو محمد (ص) کے ساتھ آئے ہیں۔؟ جواب ملا کہ: یہ رسول اللہ اور ان کے اہل بیت علیھم السلام ہیں
((نَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا)) (الأحزاب-33)
اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
جب بڑے پادری ابو حارثہ کی نظریں پنجتن پاک: پر پڑی تو کہنے لگا: افسوس اگر ان ہستیوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اسی لمحے میں ہم اس صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے۔ دوسرے نے کہا؛تو پھراس سے بچنے کےلئے کیا کرنا چاہئے؟ جواب ملا اس(پیغمبر خداﷺ) کےساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حق کو باطل پر فتح ہوئی ۔
آیت مباھلہ کی دلالت:
1۔ آیت مباھلہ میں غور و فکر کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عیسیٰ اللہ کا بندہ ہے۔ اور دلیل حسی و قرآنی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ثابت ہوجاتی ہے، جس کے ساتھ تمام مشککین کے اقوال بھی باطل قرار دیا جاتا ہے۔
2۔ آیت مباھلہ صراط مستقیم کے متلاشی افراد کو ہدایت کا راستہ دیکھاتی ہے:
(اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صراط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) (الفاتحة-6-7)
ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما۔ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا، جن پر نہ غضب کیا گیا نہ ہی (وہ) گمراہ ہونے والے ہیں۔
صراط مستقیم محمدوآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہے۔ کیونکہ مباھلہ کے دن نصاریٰ نجران کے ساتھ مباھلہ کے لئے اللہ کے حکم سے محمد و آل محمد تشریف لےکئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روحانی اور معنوی طور پر محمد و آل محمد اللہ کے قریب ہیں۔ یہ مقام و منزلت انہیں اطاعت خداوندی کی وجہ سے ملی ہے۔
3۔ آیت مبارکہ سے امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آل میں سے ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک دلیل قاطع ہے جو اس حقیقت کو نہیں مانتے۔
4۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نفس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقرب تریں فرد ہے۔ اور یہ دلیل ہے کہ ان دونوں کا جوہر ایک ہے البتہ وظائف دونوں کا مختلف ہے ۔یعنی ایک نبی ہے تو دوسرا وصی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیادہ قریب ہے۔
5۔ نصارٰٰ نجران مباھلہ سے مصالحت کی طرف ائے ۔اور انہوں نے رسول اللہ صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری نبی ہونے کو تسلیم کیا۔ یہ ہر ان لوگوں کے لئے دلیل ہے جو رسول اللہ کی نبوت میں شک کرتے ہیں۔
6۔ مباھلہ کوئی فردی یاشخصی نہیں تھا یا کسی دنیوی مفاد کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ خالصتا خدا کے لئے تھا۔ جو کہ حق کو ثابت کرنے کےلئے تھا اور باطل کو رد کرنا تھا۔ اس لئے اللہ نے حق اور اہل حق کو کامیابی عطا فرمائی۔