کیا خدا کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے؟
علم کلام میں عقاید کے بارے میں بحث ہوتی ہے اس طرح علم کلام وہ علم ہے جس میں اسلامی عقائد سے بحث کی جاتی ہے اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس پر اعتقاد رکھنا اور ایمان لانا ضروری ہے۔ اس میں وہ نظریات سکھائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر دینی عقائد کو ثابت کیا جاتا ہے یا یہ وہ علم ہے جس میں اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور اس کے ممکن احوال کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔اس طرح کہ علم کلام میں اللہ کی صفات کمالیہ اور صفات جمالیہ پر بحث کی جاتی ہے۔اس علم میں سب سے پہلے بہت ہی دقیق اور حکمت والی دلیلوں سے اللہ کے وجود کی معرفت کے ضروری ہونے کو ثابت کیا جاتا ہے اور پھر اللہ کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔
اس علم کے اہم مباحث میں سے یہ ہے کہ ان دلیلوں کو بیان کیا جائے جو خالق کے وجود کو ثابت کریں کہ وہ اس کائنات کے بنانے والا ہے۔ایسا خاص ادلہ کے ساتھ ممکن ہے جو بہترین انداز میں پیش کی گئی ہوں ہم یہاں پر چند کو ذکر کریں گے۔
پہلی دلیل:انسان کی فطرت سلیمہ اس کا تقاضا کرتی ہے:
انسان کی فطرت سلیمہ جس پر وہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کا تقاضا کرتی ہے اور فطرت وہ عقل ہے جو خواہشات سے داغدار نہ ہو،اسی طرح اس یہ سب سے پہلے انسان کو اپنے وجود کے سبب پر غور کا کہتی ہے اور پھر خالق پر وجود پر غور کا حکم دیتی ہے۔کچھ ایسے امور ہیں جن کی طرف ہر صاحب عقل کی سوچ جاتی ہے اور کوئی صاحب عقل ان کا انکار نہیں کر سکتا بالخصوص وہ سوالات انسانی نفس میں موجود ہوں تو وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان سوالات پر غور و فکر کیا جائے اور تحقیق کر کے ان کو حل کیا جائے۔
ان سوالات پر غور و فکر کر کے ان کے جوابات کو تلاش کرنا ہی در اصل خالق،مخلوق اور زندگی کی معرفت حاصل کرنا ہے۔
دوسری دلیل: یقینی اور محتمل نقصان سے بچنا:
عقل کسی بھی نقصان سے بچنے کا حکم دیتی ہے اگرچہ اس کا فقط احتمال ہی کیوں نا ہو۔اگر وہ نقصان ایسا ہو جس کے بارے میں مصلحین کی بڑی تعداد،فلاسفہ اور اہل عقل فضلاء کی بڑی تعداد نے بھی کہا ہو تو عقل اس سے بچنے کا کہتی ہے۔اسی طرح ایک بڑی حقیقت کے طور پر سامنے ہو جیسے اللہ تعالی کا وجود جو اس کائنات کا خالق ہےاس کو ماننے اور نہ ماننے کے اثرات بہت زیادہ ہوں۔ لوگوں کو اس خالق پر ایمان لانے کی دعوت دینا،اس کی اطاعت کرنا،اس کے احکامات کو ماننا اور اس کی مخالفت سے بچنا چاہیے۔اسی طرح کچھ اثرات اور بھی ہیں جیسے یہ عقیدہ کہ اگر خالق نہیں ہے تو انسان کی زندگی مرنے ختم ہو جائے گی مگر یہ زندگی کا اختتام نہیں ہے اللہ کے ہاں ایک اور زندگی ہے اور اس زندگی کی مثال ایک پل جیسی ہے جس کے ذریعے سے انسان ایک اور ابدی زندگی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے انسان جس عالم میں منتقل ہوتا ہے وہ عالم آخرت ہے۔اس آخرت کی زندگی کا دارو مدار اس دنیا کی زندگی میں کیے گئے اعمال پر ہے۔
یہ واضح ہے کہ ان امور کے بارے میں سب سے پہلے انسان کی فطری عقل بحث کرتی ہے یہ انسان کے لیے غور و فکر اور تدبر کا مقام بھی ہے جب انسان کے سامنے کچھ سوالات جیسے خود انسان کی تخلیق کا سوال وغیرہ آتا ہے تو عقل سوچتی اور غور و فکر کرتی ہے۔
انسان کی عقل ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرتی جن میں نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہو۔اس خوف کا احتمال حقائق میں غور و فکر کا نتیجہ ہے،ضرر کا خوف ہی اس باعث بنا ہے کہ انسان غور و فکر کرے اور سوچے جبکہ یہ نقصان کا اندیشہ تواتر کے ساتھ ایسے لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو صاحبان عقل و دین ہیں اگرچہ اس نقصان کا احتمال ضعیف ہی کیوں نہ ہوتا اہل عقل کو اس سے بچنا چاہیے تھا۔
عقل کا کام ہے وہ کبھی بھی ان مقامات کو ایسے ہی نہیں چھوڑتی جہاں سے اسے نقصان کا اندیشہ ہو وہ غور و فکر کرتی ہے اوربڑی دقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔عقل جانچ پڑتال کر کے اس کے درست و غلط ہونے کو پرکھتی ہے اس وقت تک سعی کو جاری رکھتی ہے جب تک اسے دلیل میسر نہ آجائے اور صحیح غلط کا پتہ نہ چل جائے۔عقل و منطق کا یہ تقاضا ہے کہ انسان احتمال کی تحقیق کرے یہ احتمال کس کی طرف سے آیا ہے اسے نظرانداز نہ کرے خود احتمال کی تحقیق کرے مثلا ایک بچہ بھی کہے تو بھی غور کرے۔جب بچوں کی بات کو عقل نظر انداز نہیں کرتی جن کا زندگی کا تجربہ نہیں ہوتا تو انبیاء، مرسلین ،حکماء، مصلحین،فلاسفہ اور اہل عقل و منطق کی بات کو عقل کیسے نظر انداز کر سکتی ہے؟اگر ان سب کی آواز پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا تو عقل سے انحراف ہے اور اپنی تقدیر کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔
تیسری دلیل:نعمت دینے والے کا شکریہ ضروری ہے:
ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے خالق اور اپنے بنانے والے کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں۔ یہ ایک اخلاقی اور ادبی مسئلہ ہے یہ عقیدتی مسئلہ بعد میں بنتا ہے۔خالق نے انسان کو اتنی نعمتیں دی ہیں کہ وہ ان کو شمار نہیں کر سکتا اور ہر طرف سے نعمتوں میں گھرا ہوا ہے۔اس کی نعمتوں کا سلسلہ انسان کی زندگی سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔کسی بھی ضمیر کا مالک انسان ہو وہ ان نعمتوں کا انکار نہیں کر سکتا۔ہر صاحب عقل کی سوچ و فکر یہ کہتی ہے کہ ایسی ڈھیروں نعمتیں دینے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور جب تک ہم اس نعمتیں عطا کرنے والے کو پہچان نہیں لیں گے اس وقت تک ہم اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔اس طرح ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ان نعمتوں کے خالق کی معرفت حاصل کریں جو اللہ تعالی ہے اور ہر خیر کی بنیاد وہی ہے۔وہی علم و مرتبہ کی بنیاد ہے اور سب سے پہلا علم خالق کی معرفت ہی ہے اور پھر یہ جانا جائے کہ اس خالق کے احکامات کیا ہیں؟ وہ کن چیزوں کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے؟اس کو وظائف اور تکالیف شرعیہ کا نام دیا جاتاہے ان میں سے کچھ ایسے اخلاقی احکام ہیں جن کا تعلق اجتماعی حقوق سے ہے جیسے یہ جاننا کہ وہ کونسے حقوق ہیں جو ہم نے ادا کرنے ہیں اور کون سے حقوق و واجبات ہیں۔نبی انسانیت حضرت محمد ﷺ سے مروی ہےایک اعرابی کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاجس نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا مجھے غرائب علم کی تعلیم دیں؟ کیا تم نے اصل علم کو حاصل کر لیا ہے کہ تم غرائب علم کا سوال کر رہے ہو؟ اعرابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول اصل علم کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی اس طرح معرفت حاصل کرنا جیسا اس کی معرفت حاصل کرنے کا حق ہے۔اعرابی نے پوچھا اللہ کی ایسی معرفت جس میں حق معرفت ادا ہو جائے وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:اس کو کسی مخلوق جیسا یا مخلوق کی شبیہ جیسا نہ جاننا اور اسے واحد و یکتا قرار دینا،وہ ظاہر و باطن ہے ،وہ اول آخر ہے ،اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے،اس کی نظیر کوئی نہیں اور یہ اللہ کا حق معرفت ہے۔