10 محرم 1447 هـ   6 جولائی 2025 عيسوى 2:47 pm کربلا
موجودہ پروگرام
آج کے دن یعنی 10 محرم الحرام سنہ 61ھ کویزیدی فوج نے نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحابِ باوفا کو کربلا میں شہید کیا گیا۔
مین مینو

2022-02-15   1506

مذہب فطری جذبہ یا بعد کی فکر کا نتیجہ

سائل پوچھتا ہےکہ کیا دین اور تدیّن انسانی فطرت کا حصہ ہیں، یا یہ انسان پر بعد میں طاری ہونے والی عارضی حالتیں ہیں؟ کیا یہ محض اس کے تصور اور طرزِ عمل پر لاحق ہونے والے خارجی اثرات ہیں؟یہ ایک نہایت اہم اور بنیادی سوال ہے، جو مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طبقات کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو مذہب سے دور ہیں، ان کا اصرار ہے کہ دین محض ایک فکری کاوش کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق، سب سے پہلے انسان کسی خاص حالت یا تجربے سے گزرتا ہے، جس سے ایک فکری تحریک جنم لیتی ہے۔ یہی فکر رفتہ رفتہ اس کی عادت، رویّے اور طرزِ حیات میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور یہی دین کہلاتا ہے۔اس نقطۂ نظر کے مطابق، دین اور تدیّن فطری جذبات نہیں بلکہ بعد میں انسان پر طاری ہونے والے اثرات اور رجحانات ہیں، جو اس کی شخصیت اور طرزِ فکر کو متاثر کرتے ہیں۔جبکہ دیندار انسان دین کو ایک فطری کیفیت سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ دین اور تدیّن زمانۂ قدیم سے انسان کے ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دین اور تدیّن انسان کی ابتدائی تاریخ کی جڑوں میں پیوست ہیں۔ دینداروں کا ماننا ہے کہ انسان کا اولین وجود بھی متدیّن تھا، اور وہ دین کا پابند اس وقت سے ہے جب ابھی مذہب کی مخالفت پر مبنی نظریات وجود میں نہیں آئے تھے۔

یہ تصور اس بات کی نفی کرتا ہے کہ تدیّن محض کسی وقتی کیفیت یا بیرونی حالات   جیسے خوف، تنہائی یا دیگر نفسیاتی دباؤ  کا نتیجہ ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دین انسان کے فکر و عمل کا ایک لازمی حصہ ہے، ایک ایسی گہری حقیقت جو انسانی فطرت میں پیوست ہے۔ دین اور انسان کا وجود ایک ایسے جوڑے کی مانند ہے جو ازل سے ساتھ ساتھ ہیں اور ابد تک ایک ساتھ رہیں گے۔ اس کی سب سے روشن دلیل یہ ہے کہ تاریخِ انسانی کے ہر دور میں حتیٰ کہ ابتدائی انسان کے دور میں بھی تدیّن کی کوئی نہ کوئی شکل موجود رہی ہے۔

یہی تدیّن کا تسلسل اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ انسان کی فطرت کا جزوِ لازم ہے، خواہ وہ پہلا انسان ہو یا آخری۔ کوئی اور نظریہ اس فطری حقیقت کو ختم نہیں کر سکتا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت نے ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں تدیّن کو تھامے رکھا ہے، خواہ اس کے مظاہر مختلف ہوں، لیکن مجموعی طور پر انسان دین کی ضرورت اور ایک اعلیٰ و برتر طاقت - جو نہ انسان ہے اور نہ فطرت - کی موجودگی کو ناگزیر سمجھتا آیا ہے، جو اس پوری کائنات کا نظام چلا رہی ہے۔یہ سارا استدلال ہمیں ایک اور نتیجے تک پہنچاتا ہے: اور وہ یہ کہ "لا دینیت" (بے دینی) درحقیقت انسان کی ایک غیر فطری اور غیر متوازن حالت ہے، جبکہ دین ہی انسان کی وہ اصل حالت ہے جو ابتدا سے اس کے ساتھ رہی ہے۔ حتیٰ کہ آج کا جدید انسان، جو فطرت کو مسخر کر چکا ہے، اور جس نے بے شمار خطرات پر قابو پا لیا ہے، وہ بھی اس احساس سے خالی نہیں کہ وہ ایک عظیم ہستی کے سامنے محض ایک چھوٹا سا وجود ہے - ایک ایسا وجود جو واجب الوجود کے مقابلے میں اپنی حد پہچانتا ہے۔

دین اور تدین کی ضرورت اور اس کے فطری ہونے کی بات شروع کرنے سے پہلے وہ دین جو فطری اور ضروری ہے اور جو ہمیشہ انسانی شعور کے ساتھ لازم و ملزوم رہتا ہے اس کے اور وہ دین جو ظاہری رسم و رواج اور موروثیت پر قائم ہے اس کے درمیان فرق جاننا بہت ضروری ہے۔یہ بات بہت اہم ہے کہ اس فرق کو سمجھ لیا جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دین جو غلط رسم و رواج پر قائم ہے ایسی رسوم اور رواج جو اس کی تعلیم نہیں بلکہ اس کے پیروکاروں نے خود سے گھڑ لی ہیں اس پر خود اصلی مذہب کو پرکھنا کسی بھی طرح درست نہ ہو گا۔یہ بات اس وقت بالخصوص درست نہیں ہو گی جب کچھ لو گ ان ظاہری رسومات کو دیکھ کر دین کو مکمل طور پر رد کرنے کی کوشش کریں گے۔ہماری اس بحث کا مقصد دین کے نام پر قائم رسومات کا دفاع کرنا نہیں ہے کیونکہ دین کے نام پر قائم بہت سی رسومات لوک کہانیوں کی پیدا وار ہیں،اسی طرح بہت سی انسانوں نے خود سے گھڑ لی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا درست ہونا ضروری نہیں ہے۔ہماری بحث اصلی اور خالص دین سے ہے وہ دین جو انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلق کے نتیجے میں معرض وجود میں آتا ہے جس کے ذریعے انسان ایک اخلاقی نظام تشکیل دیتا ہے ،انسان کے رویے تبدیلی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس کا پورا نظام زندگی ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔

اسی طرح دین کو رسوم و رواج سے الگ کرنا یا دین کو اور اس کی روحانی حالت کو الگ کرنا جوہر مذہب کے خلاف ہے ۔ہم یہاں پر مذہب اور اس کے ان پہلوں پر گفتگو کرنا نہیں ہے ہم یہاں پر خود دین کو بیان کر رہے ہیں وہ دین جو لا دین مثلا الحاد کے مقابلے میں ہے۔

دین سے ہماری مراد وہ شعور ہے جو انسان کے ساتھ ہی فطری طور پر پیدا ہوتا ہے جو انسان کو یہ بتاتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور ایک دن اسے اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔اس خالق کے وجود کی نشانیاں اتنی زیادہ ہیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا ۔اس کے لیے یہی کافی ہے کہ انسان اس خالق کی طرف اس وقت بھی محتاج تھا جب انسان خوف،رغبت اور ضرورت جیسی حالتوں سے بھی آشنا نہیں تھا۔ہماری مراد اصلی دین ہے وہ دین جو انسان کی فطرت میں ہے ایک بار یہ ہے کہ ان کا تعلق ان رسومات اور شعائر سے ہوتا ہےمثلا لوگ حجر اسود کے چومنے کو دوسرے ستاروں کی طرح پوجنے کا گمان کرتے ہیں۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین سے تعلق انسان کا فطری جذبہ ہے اس لیے یہ ہمارے خلاف نہیں ہمارے حق میں دلیل ہے۔انسان کا ایسی اشیاء کی عبادت کی طرف متوجہ ہو جانا بحث اور فکر کا متقاضی ہے کہ انسان خالق کو چھوڑ کر ادھر کیوں چلا جاتا ہے اور ایسا غلط ہے۔وہ چیز جو انسان کو اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی طرف لے جاری ہے وہ انسان کی فطرت سلیمہ کے خلاف جذبہ ہے۔اصلی دین وہ ہے جو انبیاءؑ لے کر آئے اور صالحین کا طریقہ ہے اس کے مطابق دینداری کو اختیار کیا جائے اس سے ہٹ کر جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے درست نہیں کچھ لوگ تحقیق کے لیے دوسرے طریقوں کو اختیار کرتے ہیں تاکہ نجات کے راستے کو واضح کر سکیں جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے ستاروں اور سورج کو رب قرار دیا یہ فقط ہمیں حقیقت تک پہنچانے کے لیے تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

((وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (75) فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ(76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ(77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ(78) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ(79) وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ (80))(سورة الأنعام:75ـ80)

اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔ ۷۶۔چنانچہ جب ابراہیم پر رات کی تاریکی چھائی تو ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہنے لگے: میں غروب ہو جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ۷۷۔پھر جب چمکتا چاند دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے اور جب چاند چھپ گیا تو بولے: اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔ ۷۸۔پھر جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو بولے:یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے:اے میری قوم! جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔ ۷۹۔ میں نے تو اپنا رخ پوری یکسوئی سے اس ذات کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ ۸۰ ۔ اور ابراہیم کی قوم نے ان سے بحث کی تو انہوں نے کہا:کیا تم مجھ سے اس اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہو جس نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے؟ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو ان سے مجھے کوئی خوف نہیں مگر یہ کہ میرا رب کوئی امر چاہے، میرے رب کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، کیا تم سوچتے نہیں ہو؟

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کوئی ریاضی کے مسئلے کی طرح نہیں ہے کہ جسے آسانی سے سمجھ لیا جائے اور نہ ہی یہ کیمسٹری کی طرح ہے کہ جیسا مواد ڈالا جائے ویسا ہی نتیجہ مل سکے۔مذہب ایک شعور کا نام ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔اس لیے مذہب کے بارے میں بات فقط آزادی اور تحقیق کے ساتھ ہی کی جا سکتی ہے جسے قرآن تدبر سے تعبیر کرتا ہے اور تدبر انسان کو حقیقت تک پہنچا دیتا ہے عام انسان پر اس کی کچھ کلیات ہی واضح ہوتی ہیں دین مکمل طور پر انبیاءؑ اور صالحین پر ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کی معرفت حقیقی ہے انہی کےذریعے خاص ہے اور دوسروں کو انہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔انسان  اپنے رب کو کتنا چاہتا ہے اور اس کی عقیدت کتنی ہے ؟اس کا پتہ اس کی ان کوششوں سے چلتا ہے جو وہ رب کے راستے میں انجام دیتا ہےرب کا ادراک انسان کی کوشش پر منحصر ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ((يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ))(سورة الانشقاق ـ 6)

اے انسان! تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، پھر اس سے ملنے والا ہے۔

اللہ کی معرفت اور اس کا ادراک اس کا عام معنی انسان کی عقل میں پہلے دن سے ہوتا ہے جب وہ اس دنیا میں آتا ہے۔اسی طرح یہ انسان کے وجدان میں بھی موجود ہوتاہے اگر انسان کی عقل میں یہ جذبہ پہلے دن سے نہ ہوتا تو انسان اسے پوری زندگی نہ پا سکتاقرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ((فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ))(سورة الرومـ30)

پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اللہ پر ایمان لانا اور دیندار ہونا وہ جذبہ ہے جس کی طرف انسان کی فطرت رہنمائی کرتی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدم مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (172) أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ))(سورة الأعراف :172 ـ 173)

۱۷۱۔اور (یہ بات بھی یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح اٹھایا گویا وہ سائبان ہو اور انہیں یہ گمان تھا کہ وہ ان پر گرنے ہی والا ہے (ہم نے ان سے کہا) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے پوری قوت کے ساتھ اس سے متمسک رہو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید کہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔ ۱۷۲۔ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دین ایک فطری جذبہ ہے انسان کو اگر بغیر کسی رہنمائی کے چھوڑ دیا جائے تو بھی وہ اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور کچھ افکار اور تصورات کو طاری کر لیتا ہے۔دین کےیہ معنی کہ انسان اللہ پر ایمان لائے اور ایک خالق و موجود کا قائل ہو یہ ایک فطری جذبہ ہے جو انسان نفس میں موجود ہے البتہ دین کے شعائر اور اس کے مصادیق ہر دین میں الگ الگ ہیں۔ یہ کون بتائے گا کہ ان میں سے کون سا دین سچ ہے اور کونسا سچ نہیں اور من گھڑت ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018