قرآنی آیات کے اختلاف کے نتیجے میں اسلامی عقیدہ کے تضاد کا شبھہ اور جواب
مخالف نظریہ رکھنے والوں سے مکالمہ کرنا کوئی معیوب کام نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی اچھا اور پسندیدہ عمل ہے کہ جو مخالف رائے رکھتا ہے اس سے مکالمہ کیا جائے۔ جبکہ معیوب کام یہ ہے کہ دوسروں کی رائےاور نظریات کو نظرانداز کرکے اپنے نظریے اور بات کو حرف آخر سمجھنے کی کوشش کرے۔ بڑے بڑے علماو صاحبان فضل و حکمت تو اس بات کے قائل ہیں کہ دوسروں کے نظریے، فکر اور سوچ کو اولین فرصت میں رد کرنا،نہایت کم سمجھنا اصل و حقیقت میں خود اپنے نظریات کی بنیاد کمزور ہونے اور بے جان موقف ہونے کی علامت ہے ۔دوسروں کے نظریات کوبھی اہمیت دیتے ہوئے بات کرنی چاہیے اس سے نہ صرف اپنے نظریات کی بنیاد بھی پختہ ہوتی ہے بلکہ علم و فکر میں وسعت آسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا گروہ جن کے ساتھ ہم زندگی بسر کر رہے ہیں ہم دیکھیں گے کہ وہ بھی بیدار ہوں گے وہ اپنی دلیلوں میں موجود کمزوریوں سے آگاہ ہوں گے۔اس طرح کے مباحثوں اور مکالموں میں کامیابی اور فتح ہی ایک بڑا مقصد رکھا جاتا ہے ہم اسی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسی کے بارے میں سنتے ہیں۔دراصل مکالمہ کا بڑا مقصد کسی بھی انسان کی آراء کی بنیادوں کو جاننا ہوتا ہے۔مکالمے اور بحث کے نتیجے میں حقیقت تک پہنچنا بڑا مقصد ہوتا ہے۔ہم یہاں پر ایک ایسے ہی شبہ کا ذکر کریں گے جو ہمارے مقالے کے عنوان کا مصداق ہے۔
شبہ کی تفصیلات :
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے جس کی بنیاد قرآن مجید ہے جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے کہ واجب الوجود کے لیے صفات جیسے سمیع،بصیر،عالم ،خالق،حی،کریم اور مرید وغیرہ ہیں۔واجب الوجود کے لیے کسی بھی صفت کے ہونے پر ادلہ اور براہین قائم کی ہیں اور ان کے ذریعے واجب الوجود کو پہچانا گیا ہے۔واجب الوجود کی صفات کو کئی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے جیسے ذاتیہ،فعلیہ،جمالیہ،جلالیہ اور حقیقیہ و اضافیہ وغیرہ اور اس پر نص کے ذریعے یہ ادلہ قائم کی ہیں قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے:
((...إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور))(لقمانـ23).
یقینا اللہ ہر وہ بات خوب جانتا ہے جو سینوں میں ہے۔
((...وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا))(الأحزاب ـ27)
اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔
((...إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ))(لقمان ـ28)
یقینا اللہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
ان آیات کی بنیاد پر واجب الوجود کے لیے صفت ثابت ہو جاتی ہے۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صاحب صفت کوئی شئ ہو کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ کوئی صفت عدم سے متصف نہیں ہوسکتی۔ اگر شئ نہ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صفت عدم اور نہ ہونے پر عارض ہو جائے؟ اس پر اضافہ یہ کہ صفت کا کسی پر آ جانا یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ کوئی چیز ہے کہ جو شئ کی صلاحیت رکھتی ہے اس پر یہ صفت عارض ہوتی ہے ہمارے مورد بحث میں وہ موصوف ہو گا۔
اسی وقت مسلمانوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ واجب الوجود (اللہ) سے شئییت کی نفی کی جاتی ہے اور اس پر قرآن مجید کی بعض محکم آیات دلالت کرتی ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((...لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ))(الشورى ـ11)
اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اس آیت مجیدہ میں واضح طور پر واجب الوجود یعنی اللہ کے لیے ہر طرح کی مثلیت کی نفی کی گئی ہے کہ اس کی طرح کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی ہے۔ ہر وہ چیز شئ ہے یا جس میں شئیت پائی جاتی ہے اس کی اللہ سے نفی ضروری ہے۔یہ بات عقل قبول کرتی ہے چاہیے یہ مفہوم اولی کے طور پر قبول کرے یا مفہوم ثانی کے طورپر قبول کرے۔
اس مضمون کی تائید امام علی بن ابی طالب ؑ کا یہ قول بھی کرتا ہے:
"وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ الإِخْلاصُ لَهُ، وَكَمَالُ الإِخْلاصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ أَنَّهَا غَيْرُ الْمَوْصُوفِ، وَشَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوفٍ أَنَّهُ غَيْرُ الصِّفَة"
توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد بر ذات صفات کی نفی ہے' کہ صفت کا مفہوم خود ہی گواہ ہے کہ وہ موصوف سے الگ کوئی شے ہے اورموصوف کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ صفت سے جدا گانہ کوئی ذات ہے۔
اس بات پر زور دیا گیا کہ توحید کا اعلی ترین مرتبہ جس سے توحید مکمل ہوتی ہے وہ واجب الوجود یعنی اللہ کے لیے اخلاص کا عقیدہ رکھنا ہے اور اللہ کے لیے اعلی مرتبہ اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفت کی نفی کی جائے۔اس بات کو واضح کیا ہے کہ صفت حقیقت میں موصوف سے مختلف ہوتی ہے۔
اس بنیاد پر ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ واجب الوجود یعنی اللہ کے لیے صفات ثابت کی جا رہی ہیں اور اس پر نص قرآنی ہے بلکہ اس پر دلیلیں اور براہین پیش کیے جا رہے ہیں۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تماثل کی نفی کی جا رہی ہے کہ اللہ اور جو اس کے لیے فرض کیا جا سکتا ہے اس کے لیے شئ فرض نہیں کر سکتے اور اس پر بھی قرآنی دلیل دی جا رہی ہے۔اس کو ہم ایک منظم قیاس کی شکل میں پیش کر سکتے ہیں:
پہلا قیاس :
ہر وہ صفت جو قرآن میں واجب الوجود یعنی اللہ کے لیے ثابت کی گئی ہے ہر مسلمان کے لیے ماننا ضروری ہے۔
یہ صفت قرآن سے ثابت ہے۔
پس خدا کے لیےصفت کا قول ماننا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
دوسرا قیاس :
ہر صفت شئی ہے
ہر شئی کی اللہ کی ذات سے نفی کی گئی ہے
پس صفت اللہ کی ذات سے منفی ہے۔
تیسرا قیاس:
ہر وہ چیز جس کی مثلیت کی نفی واجب اور مصادیق شئی قرآن میں آئی ہے اس کی نفی ہر مسلمان پر لازم ہے۔
واجب الوجود اور مصادیق شئی کی نفی قرآن سے ثابت ہے۔
پس مثلیت کی نفی واجب الوجود اور مصادیق شئی میں ہر مسلمان پر لازم ہے۔
اس کی بنیاد پر واجب الوجود یعنی اللہ کے لیے قرآن میں صفت کا ثابت ہونا یہ ثابت کرے گا کہ ہم واجب الوجود کے لے صفت کا اعتقاد رکھیں، یہ پہلے قیاس کا نتیجہ ہے۔اسی طرح قرآن نے کسی بھی قسم کی مثلیت کی نفی کی ہے یہ قرآن سے ثابت ہے اسی طرح مصداق شئی کی بھی دوسرے قیاس میں نفی کی گئی ہے ۔یہاں سے دونوں قیاسوں کے نتائج کے درمیان تناقض واضح ہو جاتا ہے اور ان کے زعم میں یہ قرآنی آیات کے درمیان تنا قض ہے۔
ہم اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
سب سے پہلے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس مغالطے کی بنیاد ایک اور مغالطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مثلیت اور شئی کو ایک معنی میں سمجھا گیا ہے۔صاحب شبہ نے مفہوم مثلیت کو مفہوم شئی کی جگہ رکھا ہے اور اس کے برعکس بھی کیا ہے بلکہ ہر دو کو قیاسوں میں ایک سا قرار دیا ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہے۔
ہم پہلے قیاس کانتیجہ اس کے مقدمات کی روشنی میں درست مانتے ہیں اسی طرح ہم تیسرے قیاس کانتیجہ اور اس کے مقدمات کو درست مانتے ہیں۔ لیکن دوسرے قیاس کا کبری رد کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے تیسرے قیاس کا جو کبر ی بنایا ہے (الشيئة منفية عن واجب الوجود) شئی کو واجب الوجود سے نفی کیا ہے اس کو ثابت کرنا دلیل کا محتاج ہے۔انہوں نے جو آیت اس کے لیے پیش کی ہے :
((...لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ))(الشورى ـ11)
اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اس سے ان کا دعوی ثابت نہیں ہوتا بلکہ جو زیادہ سے زیادہ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ واجب الوجود مولی اور مصادیق شئی میں نفی ثابت ہوتی ہے، عین شئ سے نفی ثابت نہیں ہوتی۔اس طرح جو آیت ثابت کر رہی ہے وہ ان کے دعوی سے مختلف ہے جو انہوں نے دوسرے قیاس کے کبری میں ثابت کیا ہے۔
دوسرا: شبہ کا شکار لوگ اس سے قطع نظر کہ انہوں نے قیاس کے مقدمات میں کیا کیا ہے ؟ وہ خود ان آیات جو صفت کو ثابت کر رہی ہیں اور وہ آیت جو مماثلت کی نفی کر رہی ہے واجب الوجود اور کسی بھی شئی کے لیے فرض کیے گئے مصادیق کے درمیان تناقض کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے جس شبہ کو بنانے کی کوشش کی ہے اس کا حل ممکن ہے اور دوسرا اس کا رد بھی ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:
((...لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ))(الشورى ـ11)
اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
یہ آیت ذات واجب سے شئی ہونے کی نفی نہیں کرتی کہ ہمارے خلاف ان کا کبری درست بن سکا۔ اس آیت مجیدہ میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ واجب الوجود اور مخلوقات میں سے شئی کے دیگر مصادیق کے درمیان مثلیت کی نفی ہے۔واضح معنی میں اس آیت میں مثلیت واجب الوجود اور باقی ممکن الوجود کے شئی کے جو مصادیق ہیں ان کے درمیان مثلیت کی نفی ہے۔
اب آیت کریمہ کی طرف آتے ہیں :
((...لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ))(الشورى ـ11)
اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اس آیت میں نفی کے لیے لفظ "لیس "استعمال ہوا ہے یہ صرف مثلیت سے متعلق ہے یہ مفردِ شئ سے متعلق نہیں ہے۔دوسری طرف جو چیز واجب الوجود سے منفی ہو رہی ہے جو ضمیر متصل سے سمجھی جا رہی ہے وہ مثلیت ہے شئی نہیں ہے اگر اللہ تعالی سے شئی ہونے کی نفی ہو رہی ہوتی تو آیت اس طرح سے ہوتی: "أنّ الله ليس بشيء" اس طرح کا قول معنی میں عدم محض کے برابر ہے اس طرح واجب الوجود کے عدم کا امکان پیدا ہو جائے گا۔
یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ واجب الوجود سے شئی کی نفی نہ کرنا اس کا لازمہ یہ ہو گا کہ واجب الوجود اور ممکن الوجود کے درمیان مثلیت کے نہ ہونے کا اقرار کیا جائے۔اس وقت لازمی طور پر شئی ہونے میں واجب الوجود(اللہ) ممکن الوجود (مخلوق) کے ساتھ شریک ہو جائے گا یہی اس جگہ ہمارا مطلوب تھا۔
جواب:مفہوم شئی دراصل مفہوم ذات کے برابر ہےاگرچہ وضع میں لحاظ کے اعتبار سے ہر دو میں اختلاف موجود ہے اور ہر دو کا ایک خاص استعمال ہے۔مفہوم ذات وہ حقیقت ہے جو وجود کی کسی قسم سے تحقق پاتی ہے اور یہ عوارض اور صفات کا محل قرار پاتی ہے۔اسی طرح شئی کا اطلاق اور اس سے مراد ہر وہ حقیقت ہے جو کسی بھی طرح سے وجود سے متصف ہو سکے یہ ضروری نہیں کہ وہ اعراض و صفات کے لیے مستقر اور محل بن رہی ہو یا نہ بن رہی ہو۔اس بنیاد پر واجب الوجود اور ممکن الوجود میں اشتراک شئی ہونے میں ہے یہ وہی اشتراک ہے جو جو واجب الوجود اور ممکن الوجود کا شئی میں ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ یہ واضح ہے کہ مفہوم ذات حقیقت شئی کے مفہوم کی طرح ہے اس اختلاف کے ساتھ کہ ان میں وضع او راستعمال میں فرق ہے۔اس تحلیل کے بعد یہ دونوں وجود الشئ کے معنی میں ہیں اس سے زیادہ نہیں ہیں ان کے درمیان لحاظات میں فرق ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس شبہ کو مفہوم مثلیت اور مفہوم شئ میں فرق کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے اسی طرح ان دونوں کے درمیان معنی کا فرق بھی موجود ہے۔اسی طرح دوسرے قیاس کا دوسرا مقدمہ غلط ثابت کر کے بھی اسے حل کیا ہے کیونکہ انہوں نے شئی کو مثلیت کے مترادف قرار دیا ہے اور یہ واضح طور پر حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ واضح ہے کلی مختلف ہے جس سے دونوں کے معانی مختلف ہو جائیں گے۔