2 جمادي الثاني 1446 هـ   4 دسمبر 2024 عيسوى 11:29 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2020-06-08   3191

قومِ تُبّع اور ان کا بادشاہ

ہم قرآن کریم میں مذکور قصوں پر گفتگو کررہے تھے، ان میں انبیاء علیہم السلام کے قصے بھی ہیں جو رہتی دنیا تک ہر آنے والی نسل کے لیے قابل ہدایت اور درس عبرت ہیں، اور خاص طور پر قرآنی قصوں کے اسلوب  ِبیان قارئین کے دل و دماغ کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے، کیونکہ یہ قصے جہاں انسان کے لیے خاصی دلچسپی کا سامان ہوتے ہیں وہیں یہ انسان کے دل پر بہت سارے پیغام اوراثرات نقش کر دیتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا سابقہ اقوام کے قصص و واقعات بیان کیے ہیں جن میں جہاں لوگوں کے لئے نصائح اور ہدایت کا پہلو ہے وہاں ان میں خوف اور گزشتہ امتوں پر نازل ہونے والے عذاب کا تذکرہ ہے، تاکہ لوگ ان سے عبرت و نصیحت حاصل کریں۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: 

(ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْقُرَىٰ نَقُصُّهُ عَلَيْكَ ۖ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ) (هود ـ100)،یہ ہیں ان بستیوں کے حالات جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں ان میں سے بعض کھڑی ہیں اور بعض کی جڑیں کٹ چکی ہیں ۔

(وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ) (الأعراف ـ176)

اور اگر ہم چاہتے تو ان آیات کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اب آپ کو زمین بوس کردیا اور اپنی نفسی خواش کا تابعدار بن گیا تھا لہذا اس کی مثال اس کتے کے سی ہوگیی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکاۓ رکھے یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجیے کہ شاید وہ فکر کریں ۔

(نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ (4) إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ )(يوسف ـ3 ـ4).

ہم اس قران کو آپ  کی طرف وحی کر کے آپ سے بہترین قصہ بیان کرنا چاہتے ہیں اور آپ اس سے پہلے ان واقعات سے بے خبر تھے۔  جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے بابا میں نے خواب میں گیارہ ستاروں کو دیکھا ہے اور سورج اور چاند کو میں دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔

قرآن کریم  میں  حضرت عیسی  علیہ السلام ، حضرت موسی علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام ، حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام  و  دیگر انبیاء  علیھم السلام کے کہانیاں بھی ہیں۔

(إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا (163) َرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا (164) رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا(165)(النساء ـ 163 ـ165)

"اے رسول ہم نے اپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور انکے بعد نبیوں کی طرف بھیجی ور جس طرح ہم نے ابرہیم اسمایل اسحاق ،یعقوب اور اولاد یعقوب عیسی ،ایوب ،یونس ،وھرون ،وسلیمان کی طرف وحی بھیجی اورداؤد کو ہم نے زبور دی "

"ان رسولوں پر وحی بھیجی جن کے حالات کا ذکر ہم پہلے آپ سے کرچکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کے حالات کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسی سے خوب باتیں کی ہیں"

(یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے"

اور یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم میں صرف انبیاء کے قصے  ہی نہیں  بلکہ  سابقہ امتوں   کے حالات و واقعات بھی مذکور ہیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

(تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ )(الأعراف ـ 101)

یہ وہ بستیاں ہیں جن کے حالات ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور ان کے پیغمبر واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے لیکن جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے وہ اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ تھے، اللہ اس طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔

اصحاب کہف کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: (حْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى)(الكهف ـ13)

ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں وہ کیے نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لیے آۓ تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی ،

قران مجید میں قوم "تبّع " کا قصہ دو مرتبہ    ذکر ہوا ہے، پہلا سورہ دخان میں جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:   (أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ) (الدخان ـ 27)

کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا ،تبع، کی قوم اور ان سے پہلے کے لوگ؟؟ انہیں ہم نے ہلاک کیا کیونکہ وہ سب مجرم تھے۔

اور دوسری بار سورہ  ق میں ذکر ہوا ہے: (كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ (12) وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ (13) وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ) (ق ـ 12 ـ14)

ان سے پہلے نوح کی قوم اور اصحاب الرس اور ثمود نے تکذیب کی ہے۔  اور عاد اور فرعون اور برادران لوط نے بھی۔۔   اور ایکہ والے اور تبع کی قوم نے بھی، سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب (ان پر) لازم ہو گیا۔

سر زمينِ يمن جزيرۃالعرب ميں واقع ہے اور اس كا شمار دنيا كى ايسى آباد اور بابركت زمينوں ميں ہوتا ہے، جو ماضى ميں درخشندہ تمدن كى حامل تھي، اس سر زمين  کے بادشاہوں کا ایک عمومی نام "تبّع" تھا  ان بادشاہوں میں حمیر، سبا، حضرموت اور یمنت زیادہ معروف تھے اور تبع اس لئے کہا جاتا تھا کہ لوگ ان بادشاہوں کی پیروی کرتے تھے۔

بعض مورخین کے نزدیک کیونکہ یہ قوم اپنے بادشاہوں کی پیروی کرتے تھے اور بادِشاہت کا سلسلہ تقریبا ساڑھے سات سو سال یا ہزار سال تک یکے بعد دیگرے جاری رہا اس لئے ان کو تبّع کہا جاتا ہے جس طرح ايران کے بادشاہوں کو کسرى، ترک سلاطين کو خاقان، مصر کے بادشاہون کو فرعون اور روم کے شہنشاہوں کو قيصر کہا جاتا تھا۔

بعض کا نظریہ ہے کہ ان بادشاہوں کی طاقت اور ان کے اثرو رسوخ کی وجہ سے لوگ ان کی پیروی کرنے پر مجبور تھے،   پیروی کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوتا تھا۔

کچھ مورخین کا خیال ہے کہ  "تبع  " سایے  کی پیروی کرنے کو کہا جاتا ہے اس لئے   ان بادشاہوں کی حکومت زمین کے اتنے وسیع  حصہ میں پھیلی  ہوئی تھی کہ جہاں جہاں سورج کی کرنیں پڑتی تھی وہاں تک انکی حکومت ہوتی تھی۔  اور لوگ ان کے حکم کی  تعمیل کے پابند ہوتے تھے  چاہئے یمن کے جس  حصہ سے ان کا تعلق ہو۔

ان بادشاہوں نے طویل عرصے تک تسلسل کے ساتھ حکومت کی جس میں انہوں نے قانوں اور گڈ گورننس کے زریعے  اکمیٹیاں تشکیل دیں، اور اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اپنی حکومت کو جغرافیائی سطح پر  وسعت دی اور کہا جاتا ہے کہ ان  کی حکومت سر زمین عراق اور مکہ و  مدینہ سمیت  ہندوستان اور چاینہ تک وسیع ہوچکی تھی۔

ان بادشاہوں نے خانہ کعبہ کو گرانے کا مذموم ارادہ بھی کیا تھا مگر بادشاہ اچانک بیمار پڑھ گیا جس کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے برے ارادے سے باز آیا بلکہ اس برے خیال کو ترک کرتے ہوئے  خانہ خدا پر نئی چادر (رداء یمانی) چڑھائی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے ان تمام باتوں سے کعبے کی عظمت واضح ہوجاتی ہے۔

ہم بات کررہے تھے قرآن کریم کے ا وصاف حسنہ  کی، بالخصوص قرآنی کہانیوں کی،قران  کریم میں حضرت موسی کی کہانی میں جس بادشاہ کا ذکر ملتا  ہے اس بادشاہ کا نام تو فرعون ہے مگر یہاں لفظ ،تبع، سے مراد کوئی  اور بادشاہ ہے جس کا نام تاریخ میں آسعد ابالکرب الحمیری ذکر ہوا ہے تاریخی شواہد کے مطابق یہ بادشاہ نیک صفت اور منصف مزاج  ہونے کے ساتھ توحید پرست بھی تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت محمدﷺ نے اس بادشاہ پر لعن طعن کرنےسے منع فرمایا کیونکہ یہ بادشاہ مکہ مدینہ کے قرب جوار میں رہایش پزیر اس لیے ہوا تھاچونکہ گزشتہ نبیوں سے اور مقدس کتابوں سے آخری نبی المرسل کی آمد کی بشارت ان کو ملی ہوئی تھی اس لیے وہ آخری نبی کے انتظار میں  مکہ کے اطراف میں بیٹھے ہوے تھے ۔ اس بات کی تائید  امام جعفر صادق علیہ السلام بھی فرناتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تبع نے قبیلہ اوس اور خزرج سے کہا کہ  تم یہاں اس طرح سے رہو کہ اگر وہ نبی آجائے اور تم لوگ اس نبی کو پالو  تو اس کی خدمت کرو اور ان کے ساتھ نکلو"

اس بادشاہ کے بارے میں یہ نقل ہوا ہے کہ  یہ  حضرت محمدﷺ کی آمد سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں قصیدہ پڑھا کرتا تھا  اس لیے حضرت محمدﷺ نے  فرمایا کہ اسعد حمیری کو سب و شتم نہ کیا کرو  کیونکہ یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے خانہ خدا پر چادر چڑھائی" یہاں قرآن کریم کا خطاب قومِ تبع  سے ہے اور ان آیات میں قومِ تبع کی مذمت کی گئی ہے  ہیں جو کافر تھے جس طرح قوم لوط اور قوم ہود   کافر ہوگئی تھی کیونکہ وہ لوگ نبیِ خدا کے منکر تھے پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسعد حمیری مومن تھا ۔

اس قوم کے برے اعمال کا گواہ خود قرآن مجید ہے:

(كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ (12) وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ (13) وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ  (15) أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ(15))(ق ـ 12 ـ15)

سب سے پہلے نوح کی قوم اور اصحاب الرس اور ثمود نے تکذیب کی ہے اور عاد اور فرعون اور برادران لوط نے بھی۔ اور ایک والے اور تبع کی قوم نے بھی سب نے رسولوں کوجھٹلایی تو میرا عذاب ان پر لازم ہوگیا، آخری سطور میں ذکر شدہ ایات ان سرکش قوموں کے متعلق گواہی دے رہی ہیں

 

عبدالحسن سلمان الشمری

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018