سیئول میں تکبیر کی صدائیں
۱۹۵۰ء میں جنوبی اور شمالی کوریا میں جنگ کے فورا بعد مسلمان تاجر بڑی تعداد میں کوریا پہنچے۔اسی طرح بہت سے مسلمان ممالک کے فوجی اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل تھے۔ ان تاجروں اور مسلمان فوجیوں نے مل کر ۱۹۵۶ء میں کوریا کی پہلی مسجد بنائی۔یہ مسجد سیئول جو کہ جنوبی کوریا کا دار الحکومت ہے اس میں بنائی گئی۔یہ مسجد ان تاجروں اور فوجیوں کی اسلام سے محبت کی عکاس ہے کہ ان لوگوں نے وطن سے دور ایک نئی سرزمین پر اسلامی ثقافت کی بنیاد رکھی ۔
اقوام متحدہ میں شامل ان فوجیوں کے اعلی کردار اور ان تاجروں کی امن پسندی،انسان دوستی اور ایمانداری کی وجہ سے بہت سے کوریائی باشندوں نے اسلام قبول کیا۔اس میں زیادہ تروہ لوگ تھے جو کسی مذہب کے بھی پابند نہیں تھے۔اس تحریک کے نتیجے میں تقریبا پانچ ہزار کوریائی باشندوں نے اسلام قبول کیا۔مسلمانوں نے وہاں وحدت مسلمین کوریا کے نام سے ایک تنظیم بھی تشکیل دی۔ مسلمان تین کورین علاقوں میں بستے ہیں: سیئول ، بوسن اور گوانجو ، تقریبا 35000 کورین اس وقت مسلمان ہیں اور ایک بڑی تعداد ان طلاب اور تاجروں کی بھی ہے جو تجارت اور تعلیم کے لیے کوریا منتقل ہوئے ہیں۔
1967 میں کوریا کی وزارت ہدایت نے کورین اسلامک یونین کو تسلیم کیا ، اور کوریا کے اس وقت کے صدر نے مسجد اور اسلامی مرکز کی تعمیر کے لئے سیول کے مرکزی علاقے میں زمین کا ایک پلاٹ عطیہ کیا تھا ، اس منصوبے کا سنگ بنیاد 1971 میں رکھا گیا تھا ، اور اس منصوبے کو 1974 کے اوائل میں مکمل کیا گیا تھا جس میں اسلامی اور عرب ممالک کے وفود نے شرکت کی تھی۔
سیئول میں اسلامی شناخت کے لیے ، "جنوبی کوریا میں مسلم اقلیتوں کی کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا ۔جس کے ساتھ ہی مسجد کا مکمل انتظام بھی مسلمان انتظامیہ نے سنھبال لیا ۔ اسی مسجد میں عربی زبان کے انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح ۱۹۷۶ء میں جنوبی کوریا میں پہلی اسلامی چیریٹی ایسوسی ایشن کےقیام سے ہوا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے لیے نئی مساجد کا قیام عمل میں لایا جا سکتے ۔اس سے پہلے جنوبی کوریا میں ایک ہی مسجد تھی انہوں نے مسجد بوسن کی بنیاد رکھی،بچوں کا ایک ہسپتال،ایک جامعہ اور ایک اسلامی سکول کی بنیاد بھی رکھی گئی۔