10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 10:44 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2019-02-25   717

حقیقی انقلاب

دعوت اسلامی کے ۴ یا ۵ سال گزرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو  حق کی جانب بلانا شروع کریں، یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوئی اب فرد کے بجائے گروہی تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ازلی دشمن مزید سیخ پا ہونے لگے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ انقلاب مزید قوی تر ہوتا گیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جیسا کہ مورخین نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر کھڑے ہوکر قریش  سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے: اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑی کے عقب سے تمہارے دشمن صبح یا شام کے وقت تم پر حملہ آور ہونے والے ہیں تو کیا تم لوگ میری بات کی تصدیق کروگے؟ اس پر لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا: کیوں نہیں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کریں گے، کیونکہ ہم نے کبھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: میں تمہیں آنے والے دردناک عذاب کے  بارے میں تنبیہ کرتا ہوںَ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اعلان کے کچھ لمحے بعد، ابولہب نے  اپنی سابقہ روش کے مطابق کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تردید کی ، اور کہنے لگا: (نعوذ باللہ) تو تباہ ہوجائے، کیا ہم سب کو آج کے دن اسی مقصد کے لیے بلایا تھا؟

ابو لہب کے اس متعصبانہ اور دشمنی پر مبنی رویہ کے اظہار کے بعد یہ آیت نازل ہوئی:(تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ(سورہ لہب: ۱) ہلاکت میں جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو جائے۔

قریش کے نقطہ نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ اعلان در حقیقت ایک انقلاب حقیقی کی شروعات تھی، جس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام سرکش اور ظالم لوگوں کو چیلینج کیا، اور اسی اعلان  کی وجہ سے اس عرصہ میں بہت سارے عرب اور غیر عرب لوگوں نے دین مقدس اسلام  قبول کیا۔ کفار قریش یہ برداشت نہ کرسکے، اور زیادہ شدت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت شروع کردی، اور مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کیں، اور اس دعوت کو مزید آگے پھیلنے سے روکنے اورختم کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ سختیاں شروع کیں۔ مسلمانوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو قریش کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں اور یہ کہ ان کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے گزارش کی کہ اب  مکہ رہنے کے لیے مناسب نہیں اور اور ہمیں کسی اور شہر کی طرف ہجرت کرنی چاہیے، اور انہوں نے یثرب (جسے آج کل مدینہ منورہ کہا جاتا ہے) کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت طلب کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے عظیم مصلحت کی خاطر ہجرت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ قریش کے خوف کی وجہ سے مسلمانوں  نے ان کو مطلع کئے بغیر نہایت ہی خاموشی اورچھپ کر مکہ چھوڑا اور مدینہ کی طرف نکل پڑے، جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مکہ میں ہی تشریف فرما رہے اور وحی الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔ قریش کو ابتداء میں مسلمانوں کی ہجرت کا علم نہ ہوسکا، لیکن بعد میں  جب ان کو علم ہوا تو انہوں نے مسلمانوں کو ہجرت سے روکنے لیے مختلف قسم کی اذیتیں اورمہاجرین کو واپس مکہ بلانے کے لیے طرح طرح کے دھوکے دینا شروع کئیے، تاکہ مکہ کا امن محفوظ اور برقراررہے چونکہ اس امن کی بقاء میں قریش کے سرداروں کا اپنا مفاد مضمر تھا۔

انقلاب

انقلاب

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018