24 شوال 1445 هـ   3 مئی 2024 عيسوى 7:19 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | قرآنی مضامین |  سورہ فاتحہ کے اہم مضامین کی تفسیر
2024-04-20   81

سورہ فاتحہ کے اہم مضامین کی تفسیر

سورہ فاتحہ کی تفسیر (۱) سورہ فاتحہ کے الفاظ و معانی آسان ہیں اور سمجھنے میں دقت نہیں آتی۔یہ سورہ آسان اور مختصر جملوں پر مشتمل ہے۔بعض سورتوں میں کچھ ایسے مطالب پائے جاتے ہیں جنہیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے مگر اس سورہ میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ہم اس مضمون میں اس سورہ مبارکہ کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ جانیں کہ اللہ تعالی اس سورہ کی آیات میں کیا فرما رہا ہے۔

سورہ فاتحہ کا شان نزول:مشہور نظریہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ فاتحہ قرآن مجید کی پانچویں نمبر پر نازل ہونے والی سورہ ہے۔ یہ علق، قلم،مزمل اور مدثر کے بعد نازل ہوئی ہے۔ایک قول یہ ہے کہ یہ دوسرے نمبر پر نازل ہوئی۔یہ بات متفق ہے کہ سورہ فاتحہ ان چھوٹی سورتوں میں سے ہے جو بالکل ابتدائے اسلام میں نازل ہوئیں۔اس کی تفسیر میں بھی اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔

قرآن مجید کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے یہ پہلی سورت ہے اور اس کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے۔ہم سب سے پہلے بسم اللہ کی تفسیر کرتے ہیں۔بسم اللہ سورہ علق اور بعد میں نازل ہونے والی تمام سورتوں کا جزء ہے ۔سورہ علق قرآن کی پہلی سورہ ہے جس کا آغاز بسم اللہ سے ہو رہا ہے اور بسم اللہ کے بعد آیا ہے:

﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ﴾ (2)  (اے رسول) پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے خلق کیا۔ہم یہاں بسم اللہ کے بارے میں بھی کچھ گفتگو کریں گے۔

سورہ حمد کی مختصر تفسیر:

سب سے پہلے ہم سورہ فاتحہ کا مختصرتعارف کراتے ہیں پھر ہم ہر جملے کی الگ الگ تفسیر بیان کریں گے تاکہ اس کے معانی کو جان سکیں اور اس میں موجود مفاہیم کے بارے میں محققین کے اقوال سے بھی استفادہ کریں۔

سورہ مبارکہ فاتحہ کو یہ امتیازی مقام حاصل ہے کہ اس میں مختصر انداز میں ان تمام امور کی وضاحت کی گئی ہے جن کا تعلق اللہ تعالی کی ذات سے ہے۔اس میں اللہ تعالی کی صفات ثبوتیہ اور سلبیہ پر بات ہے اور خدا کی عبودیت اور اس کےغیر کی عبودیت کی نفی کا حکم ہے۔حمد صرف اللہ تعالی کے لیے ہے،اسی کی حمد کی جاتی ہے کیونکہ انسان کو خدا نے پیدا کیا اور اسی طرح اس نے ہر اس نعمت کو پیدا کیا جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔اللہ ہی عالمین کا رب ہے،وہی انسان پر اس وقت رحم کرتا ہے جب انسان محتاج ہوتا ہے۔اللہ ہی قیامت کے دن کو برپا کرنے والا اور اس دن فیصلہ کرنے والا ہے۔اسی لیے ہر عقل مند انسان جس کو ہدایت نصیب ہوئی ہے اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے۔انسان اللہ سے ہی مدد مانگتا ہے اور اسی سے ہدایت کے راستے کو طلب کرتا ہے جس پر وہ اپنی ظاہری زندگی میں چلے اور آخرکار اللہ تک پہنچ جائے۔یہ سورہ دراصل مخلوق کی طرف اللہ کا مختصر مکتوب ہے۔

پہلی آیت:

یہ سورہ بھی بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے جیسے قرآن مجید کی پہلی سورہ یعنی سورہ علق بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی سورتوں میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ بسم اللہ سے شروع ہوتی ہیں۔اللہ نے اس آیت میں اس کی وضاحت کی ہے:

﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾(3)  (اے رسول) پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے خلق کیا۔

بسم اللہ ادب کے مطابق ہے جو کسی بھی الہی پیغام سے پہلے ہونا چاہیے۔ویسے یہ بات اسلام سے پہلے بھیجے جانے والے مکاتیب میں بھی رائنج تھی کہ وہ لکھا کرتے تھے (بسمك اللهم)( 4)۔حضرت سلیمانؑ نے نبی اکرم سے سینکڑوں سال پہلے نو سو چودہ عیسوی میں یمن کی ملکہ سبا کو خط لکھا تھا قرآن مجید اس کی حکایت کرتے ہوئے کہتا ہے:

﴿إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ (5) یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے: خدائے رحمن رحیم کے نام سے

یہ خط بھی اللہ کے بابرکت نام سے بسم اللہ کے ذریعے سے شروع ہو رہا تھا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت قدیم رسم ہے کہ جب خط لکھا جاتا تھا تو اس کا آغاز اللہ کے نام سے کیا جاتا تھا۔انبیاءؑ کے خطوط بھی ایسے ہی ہیں۔پھر بعد میں مختلف اقوام اپنے اپنے خداوں کے نام سے شروع کرتے تھے۔

بسم اللہ میں اللہ کی توصیف اس کے لقب رحمن سے کی گئی ہے۔یہ وہ لقب ہے جو جنوبی اور غربی جزیرہ جسے یمن کہتے ہیں میں مرسوم تھا۔یہ لقب اس علاقے کے مکاتیب میں مرسوم تھا۔اس لقب کو اختیار کرنے کی دو وجوہات ہیں:

۱۔جزیرۃ العرب میں پائے جانے والے اس وہم کو دور کرنا کہ ایک سے زیادہ خدا ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ جزیرۃ العرب اور یمن کے درمیان موجود خدائے معبود کے بارے میں عصبیت کو دور کرنا تھا۔جزیرۃ العرب کے ہاں زمانہ قدیم سے اللہ سبحانہ و تعالی کے لیے لفظ جلالہ اللہ ہی مستعمل ہے۔ اہل یمن اللہ کے لیے لفظ رحمن استعمال کرتے ہیں۔یہاں ایک مغالطہ ہو سکتا تھا کہ اللہ اور رحمن دو الگ الگ خدا ہیں اور اس پر اہل جزیرہ اور اہل یمن میں بحث ہوتی، اللہ ہوتا تو اہل جزیرہ کہتے ہمارا خدا اور رحمن ہوتا تو اہل یمن کہتے ہمارا خدا ہے۔یہاں پر لفظ رحمن کو اللہ کے بعد ذکر کر کے اس وہم کو دور کر دیا گیا ہے۔(۶)

۲۔وہ صفت جس کے ذریعے اللہ سبحانہ نے خود کو پہچنوانا چاہے اور اس کا بطور لقب ذکر کیا  ہے۔یہ القاب ان صفات سے تعبیر ہوتے ہیں جن کے ذریعے اسماء شناخت پاتے ہیں۔جیسے نبی اکرم کے لیے امین کا لقب استعمال کیا جاتا ہے اور یہ لقب آپ کو زمانہ جاہلیت میں دیا گیا تھا،نبی اکرم کو اسلام میں بھی اس لقب سے یاد کیا گیا۔اسی طرح امیر المومنین کا لقب حضرت علیؑ کے لیے استعمال کیا گیا۔زین العابدین کا لقب آپؑ کے پوتے حضرت امام علی بن حسینؑ کے لیے استعمال کیا گیا۔رحمن کا لفظ رحمت سے ہے اور اس صفت میں مبالغے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے پسند فرمایا کہ وہ اپنے بندوں کے درمیان اس لقب سے پہچانا جائے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ﴾(7) اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔

اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی نے اپنی صفت رحمت کو اپنی شان کے مطابق عام صفت قرار دیا ہے۔اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت ملتی ہے۔ایک عام آدمی کی اللہ کی طرف محتاجی اس کی رحمت اور اس کی عنایت کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اللہ نے صفت رحمن کی تاکید صفت رحیم سے کی ہے کیونکہ لقب میں بعد وصفی ہے جو لقب بننے  کو کمزور کر دیتا ہے۔کبھی کبھی اس کی معنی وصفی پر دلالت فقط تلمیحا باقی ہوتی ہے اس پر تمرکز نہیں ہوتا۔بعض اوقات یہ معنی ہی پیش نظر نہیں رہتا۔اس لیے اللہ نے لفظ رحمن کے ساتھ اپنی رحمت کو بیان کرتے ہوئے لفظ رحیم کو بھی لایا تاکہ اس کے ذریعے سے اس صفت رحمت میں تاکید پیدا ہو۔ہر کلام سے پہلے اسے پڑھا جائے اور اس کے ذریعے آغاز کر کے اللہ سے رحم اور مدد طلب کی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے علاوہ بتوں سے رحمت مانگنے کی نفی کی  یونکہ یہ شرک ہےاس کےبارے میں آیت نازل ہوئی ہے۔

یہ بسم اللہ کی اجمالی تفسیر ہے،بسم اللہ تمام سور قرآنی کا جزء ہے اس میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورتیں باہم مشترک ہیں۔ ترتیب نزولی کے اعتبار سے سورہ حمد قرآن کی پہلی سورت نہیں ہے۔سورہ حمد میں یہ شک نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں بسم اللہ جزء سورہ ہے یا جزء سورہ نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں سورہ حمد کی آیات کی تعداد کو بتا دیا گیا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

﴿وَلَقَدْ آَتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآَنَ الْعَظِيمَ﴾ (8) اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔

بسم اللہ سورہ فاتحہ سے پہلے نماز میں پڑھی جاتی ہے اور نبی اکرم سے بھی منقول ہے۔ہم نے جس قول کو ترجیح دی ہے اس کے مطابق  الحمد دیگر تمام سورتوں کی طرح  جزء سورہ ہے۔دوسری چھوٹی سورتوں اور سورہ حمد میں موجود بسم اللہ میں فرق بس یہی ہے کہ یہاں بسم اللہ سورہ حمد کے مضامین میں داخل ہے۔

دوسری آیت:

یہ آیت مجیدہ اللہ کی بہترین حمد و ثنا بیان کرتی ہے۔یہ انسان کو اللہ تعالی کی حمد کی کا طریقہ بتاتی ہے۔ خدا کی تعریف کرتے ہوئے شروع کیا، وہ ذات پاک ہے،یہاں یہ بیان ہوا کہ اس کائنات میں کسی کو اللہ مانتے ہوئے جو تعریف کی جاتی ہے وہ صرف اور صرف خدا وند تعالی کے ساتھ خاص ہے۔یہاں سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ کہ وہ اللہ ایک ہے جس نے تمام محلوقات کو پیدا کیا ہےا ورتمام کے امور کو چلانے والا ہے۔تمام تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے انواع و اقسام کی مخلوقات کو پیدا کیا۔جو  بنانے والا اور  چلانے والا ہے۔اس نے کائنات کے قوانین کے درمیان مطابقت پیدا کی،آسمان اور زمین میں مطابقت ہے۔اسی طرح خود انسان کی تخلیق ایک شاہکار ہے جسے بہترین انداز میں پیدا کیا گیا۔اس نے انسان کو ایک معاشرے میں پیدا کیا جس میں اس کے رشتہ دار جیسے بچے،پوتے،پوتیاں اور دوست احباب ہوتے ہیں۔قوموں کے قوموں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں جو باہم مل جل کر مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے رہتے ہیں۔ساری کائنات میں ایک مطابقت ہے حیوانات،نباتات میں مطابقت ہے اور اللہ نے ان سب کو انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے۔اللہ تعالی کی اس عظیم تخلیق اور اس کی تدبیر امور پر حمد ہے۔ قرآن مجید کی چھوٹی بڑی تمام سورتوں کے مطالعے کے دوران یہ معنی واضح ہو جاتا ہے۔

اس کائنات کی تخلیق اور اس میں موجود دقیق نظام دیکھ کر انسان اللہ کی حمد و ثناء کرتا ہے۔کبھی کبھی کچھ لوگوں کے لیے چیزوں کو مزید واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس میں ان لوگوں کے لیے اس کائنات کی وسعتوں اور اس میں موجود پیچیدہ نظاموں کو تفصیل سے بیان کرنا پڑتا ہے اور یہ وضاحت کے ساتھ بتانا پڑتا ہے کہ اس پیچیدہ نظام کو چلانے کے لیے ایک حکمت والے صاحب اختیار کی ضرورت ہے قرآن مجید کی بہت سی آیات اس کی وضاحت کرتی ہیں۔خدا کی تخلیقات،اس کی تخلیق میں پائی جانے والی خوبصورتیاں اور اس کی تخلیقات کا باہم مربوط ہونا یہ سب اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس خالق و مالک کی حمد کی جائے۔جب کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے مثلا ہم کہتے ہیں کہ یہ باغ کتنا خوبصورت ہے ؟یہ چیز کس قدر تعجب آور ہے؟یہ چیز کتنی زبردست ہے ؟اور یہ آسمان کس قدر وسعت رکھتے ہیں؟ تو یہ سب اللہ کی تعریف کے زمرے میں آتا ہے۔ہم کسی چیز کی بڑھائی،اس کی وسعت،یا انسان کی قدرت،قابلیت سے جانتے ہیں وہ قابلیت  جس سے وہ قسم قسم دریافتیں کرتا ہے یا چیزیں ایجاد کرتا ہے،مسائل کا حل نکالتا ہے،فکر کرتا ہے،ہر وہ عمل جس کے ذریعے سے انسان کسی مدح کرتا ہے در حقیقت یہ مدح اللہ کی طرف پلٹتی ہے۔بہت سے لوگ کائنات کی پیچیدہ مخلوقات کو جانتے ہیں اس پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کے بنانے اور چلانے والی کی طرف توجہ نہیں کرتے اللہ کا شکرہے اور وہ پاک ذات ہے۔

الحمد کے بعد اللہ تعالی نے عالمین کو اپنی ربوبیت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اور رب العالمین ہونے کا ذکر کیا ہےیہ رب العالمین اللہ سبحانہ و تعالی ہے۔

تخلیق کائنات:

عام طور پر لوگ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اور جزیرہ عرب میں بھی ایسا ہی تھا باوجود شرک کرنے کہ وہ کائنات کو اللہ ہی کی تخلیق مانتے تھے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ﴾(9) اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے،

ربوبیت کا مقام:یہ دراصل مخلوق کے امور کو منظم کرنے،ان کی ضروریات کو پورا کرنے،ان کے معاملات کو سدھارنےکوکہتے ہیں۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں چیز کا رب ہے تو اس کا مطلب ہوتاہے کہ وہ اس چیز کا مالک ہے مثلا جب رب الغنم یعنی بھیڑوں کا رب کہا جاتا ہے تو  یہ ان بھیڑوں کے چرانے والےاور دیکھ بھال کرنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے ہم چرواہا بھی کہتے ہیں جو انہیں چرانے کے لیے لے جاتا ہے۔ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ رب اس چیز کا مالک اور اس سے متعلق ہے۔

اسی لیے عام سادہ لوح لوگ طبیعتا ایسے کو رب بنا لیتے جو ان کے جذبات کے قریب ہوتا ہے ،ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ توحید کے نام شروع ہونے والے مذاہب  میں شرک در آتا ہے۔بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان میں شرک غالب آ جاتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کو آہستہ آہستہ بھلا دیا جاتا ہے۔اس کی وجہ  یہی ہوتی ہے کہ وہ معمولی حیثیت والا شبیہ کی صورت میں ہوتا ہے جسے یہ اللہ قرار دے رہے ہوتے ہیں۔یہ لوگ اس ظاہری وجود کے پیچھے کسی خدا کے قائل نہیں ہوتے ۔اس تمایل بشری سے بہت سے الہی ادیان کے ماننے والے گمراہ ہوئے جیسے حضرت مسیح ؑ کے ماننے والے اسی طرح سے گمراہ ہوئے۔

بعض اوقات کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ معمولی اختیارات والا ادنی رب ہے اور بڑا رب عرش پر ہے اور بڑا رب اللہ سبحانہ و تعالی ہے اور بڑا خدا انسانوں اور زمین سے کوئی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ یہ ان کے قریب نہیں ہے۔وہ خدا مثلا ملائیکہ کےقریب ہے جو آسمان سے تعلق رکھتے ہیں۔انسان کو ایک ایسے رب کی ضرورت ہے جو اس کی دیکھ بھال کرے اور اس کی ضروریات کو پورا کرے۔اس حقیقی اللہ کے بارے میں ایسے عقائد نظریات رکھنے کی وجہ سے لوگ اس وہم میں پڑتے ہیں کہ دوسرے خدا کی بحث کریں۔

اس آیت مجیدہ میں رب العالمین سے مراد ہر ایک لیے موجود اس رحمت الہی کی تاکید کرنا ہے کہ رب ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے اور کی کفالت کرنے والا ہے جیسے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾ (10)  اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

اتنے قریب خدا کی موجودگی میں لوگ اِدھر ادھر کیوں جاتے ہیں؟مصنوئی خداوں کو کیوں تراشتے ہیں؟کیوں اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں؟یہاں وضاحت کر دی کہ اللہ تمام عالمین کا رب ہےصرف فرشتوں کا رب نہیں ہے۔بعض عربوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ صرف فرشتوں کا رب ہے اور وہ اپنی محدود فکر کی بنیاد پر فرشتوں کو رحمن کی بیٹیاں کہا کرتے تھے کیونکہ وہ آسمان میں ہوتے ہیں۔اللہ تعالی ان کے اس غلط عقیدہ کے بطلان کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ﴾ (11) اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ شفاعت کا کچھ اختیار نہیں رکھتے سوائے ان کے جو علم رکھتے ہوئے حق کی گواہی دیں۔

وہ سمجھتے تھے کہ اللہ صرف آسمان والوں کا خدا ہے اور انسانون کا خدا نہیں ہے اس لیے اللہ تعالی نے اپنا تعارف رب العالمین کے ذریعے کرایا کہ اللہ زمین و آسمان ہر جگہ کا رب ہے۔

تیسری آیت:

اس آیت میں اللہ تعالی نے رب العالمین کے بعد ا س کی تاکید رحمن اور رحیم سے کی ہے کیونکہ انسان کمزور ہے اور ہر طرح سے محتاج ہے اور اس کے دشمن بھی بہت زیادہ خطرات ہیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی کے تمام امور میں اللہ تعالی کی رحمت کا محتاج ہے۔وہ پروردگار اپنی رحمت کی وجہ سے عطاوں کے در کھول دیتا ہے۔اللہ تعالی کی مخلوق کے لیے روبوبیت ہے یہ رحمت،نرمی اور فروانی کی ہے۔یہ معنی انسان کے دل میں امید پیدا کرتے ہوئے اس رب کی طرف لے جائے گا کیونکہ  انسان ایک خیال رکھنے والے،ہمدرداورلطف والے کی تلاش میں ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالی نے پہلے  بسم اللہ میں بھی اپنی ان دونوں صفات حمیدہ کا تذکرہ کر دیا ہے دو مختصر آیات کے بعد پھر ان کا تذکرہ کر دیا ہے بسم اللہ میں ان کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا۔بسم اللہ ایک ادب کے طور ہر گفتگو سے پہلے رائنج ہو گئی تھی۔یہاں دوبارہ ان دو صفات کا ذکر کر کے اس پہلے والے کی بھی تاکید کر دی گئی ہے۔اس کی ربوبیت جو رحمت کے ساتھ ہے اور اس رحمت کی مزید تاکید بھی موجود ہے اور اس کا تقاضا للہ کا کریم لقط رحمن بھی کرتا ہے۔

چوتھی آیت:

چوتھی آیت مالک یوم الدین ہے۔یہاں روز قیامت میں اللہ کی حکمرانی کا ذکر کیا ہے دنیا میں بہت سی اقوام اس پر ایمان نہیں لاتی تھیں جیسے عام عرب جو مکہ اور جزیرہ عربیہ میں موجود تھے۔یہ لوگ موت کے ذریعے انسان کو ختم ہوتے دیکھتے تھے۔وہ زندگی کے لیے خدا سے امید رکھتے ہیں۔ یہ آیت قیامت کے یقینی الوقوع ہونے کے بارے میں بات کرتی ہے اس کا لحن کلام کچھ یوں ہے جیسے قیامت اتنی یقینی ہے جیسے اس دن کے وجود کی خبر کے بعد نازل ہوئی ہو۔اس سے پہلے سورہ علق میں یہی آ گیا ہے۔

﴿إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى﴾ (12) یقینا آپ کے رب کی طرف ہی پلٹنا ہے۔

یہ بات سورہ قلم،مزمل، اور مدثر میں آئی ہے۔تیسویں پارے کے مختصر سوروں میں آئی ہے۔ انتیسویں پارے تباک۔۔۔ میں بھی بہت خصوصیت سے اس کا ذکر ہے جیسے سورہ التکویریہ ترتیب نزولی میں ساتویں سورہ ہے۔سورہ تکاثر یہ شان نزول کے اعتبار سے سولہویں سورہ ہے،سورہ القارعہ جو نزول کے اعتبار سے تیسویں سورہ ہے اور سورہ قیامت جو نزول کے اعتبار سے اکتیسواں سورہ ہے۔

اس آیت مجیدہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں ہر طرح سے رحمت خدا کا محتاج ہے۔اللہ تعالی کی ربوبیت اس دنیا تک محدود نہیں ہے،انسان کے لیے ایک وعدہ گاہ ہے جو یوم الدین ہےاس دنیا میں ا للہ تعالی ان اعمال کی جزاء و سزا دے گا جو انسان نے اس دنیا میں انجام دیے ہیں۔اب اللہ تعالی اس دنیا کی زندگی میں ان معاملات کو بغیر رہنمائی کے نہیں رکھ سکتا جس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے وہ آخرت کی زندگی جس میں کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہوگی اور اس دن کوئی حجاب بھی نہیں ہو گا۔یہ دنیا کی زندگی ہے اسے کس طرح سے گزارنا ہے؟اس بارے میں ہدایات اور احکامات اللہ کی طرف سے آ ئے ہیں۔اللہ تعالی حلیم  ومعاف کرنے والا ہے ،اللہ تعالی ک امعاملات انجام دینے کا ایک طریقہ ہے۔وہ مدبر ہے اگرچہ ہر کام بغیر کسی تاخیر کے کر سکتا ہے۔اس سے انسان غفلت میں جا سکتا ہے لیکن جہاں تک آخرت کی بات ہے تو اس دن اللہ کی بادشاہی سب پر حاکم ہو گی:

﴿لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾(13) اللہ سے ان کی کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی، (اس روز پوچھا جائے گا) آج کس کی بادشاہت ہے؟ (جواب ملے گا) خدائے واحد، قہار کی۔

انسان اس زندگی میں اللہ رحمت اور اس کے لطف کرم کا اس زندگی کی نسبت زیادہ محتاج ہے کہ اس کی وہ زندگی اس زندگی سے زیادہ ہے۔اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انسان قدم با قدم اس زندگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس لیے اس زندگی کو فانی امور میں بے حیثیت کاموں میں ضایع نہ کریں۔اس کی طرف ہی کوشش کرنی چاہیے۔

پانچویں اور چھٹی آیت

سورہ مبارکہ الحمدکے آغاز میں اللہ سبحانہ کی حمد اور اس کے اپنی مخلوق  پر مہربان اور صاحب رحمت ہونے کا تذکرہ ہو گیا۔اسی  طرح اللہ کی ربوبیت پر بھی بات ہو گئی۔اب اللہ تعالی اپنی تعریف سے بات کو دعا اور اقرار کی طرف منتقل کرتا ہے اور انسان کو سکھاتا ہے کہ دعا کیسے کی جائے ؟وہ کونسی سی صفات ہیں جن صفات کے ساتھ اللہ تعالی دعا کو قبول کرتا ہے۔دعا میں انسان اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسے مدد کے لیے پکارتا ہے۔دعا کی قبولیت کے تین معیارات پر پورا اترناچاہیے،یہ تین امور بہت اہم ہیں اور وضاحت کے طلب گار ہیں۔ان تین امور سے ہی انسان کے خدا سے تعلق کی مضبوطی کا پتہ چلتا ہے۔پہلا عبادت خدا،دوسرا اسی سے مدد مانگنا اور تیسرا اسی سے ہدایت کا طلب گار ہونا۔

۱۔ عبادت خدا

انسان صرف اور صرف اللہ کی الوہیت کا قائل ہو اور اپنے عمل و کردار سے صرف اور صرف اسی کی عبادت کرے۔عبادت سے مراد وہ خضوع اختیار کرنا ہے جو صرف خدا کے لائق ہے اور عبادت فقط اسی کے لیے ہے۔توحید عبادت سے مراد یہ ہے کہ الوہیت اور ربوبیت میں اللہ کو لاشریک مانا جائے۔

یہ فقرہ انسان کی طرف سے جواب ہے جس کے ذریعے وہ اللہ کی تعریف کر رہا ہے کہ فرض کی گئی حمد صرف اللہ کے لیے ہے۔وہی خدا  دیگر عالمین کی طرح انسان کا بھی رب ہے۔وہی خدا دنیا و آخرت کے تمام معاملات کا مالک ہے۔اسی لیے انسان اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہے کہ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ﴾ دنیا میں اللہ کے علاوہ کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں جو لائق عبادت ہو۔ہر طرح کی حمد اسی کی ہے اور وہ ہر چیز کا رب ہے ،ہر چیز اس سے متعلق ہے اور ہر چیز کا مالک ہے۔جب سب کچھ وہی ہے تو اللہ سبحانہ  کے علاوہ کوئی بھی رب اور اللہ نہیں ہو سکتا۔انسان خدا کی تلاش اس لیے کرتاہے کہ وہ اس کا خیال رکھے اور اس کی طرف توجہ کرے۔جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی کو بطور خدا مان لیتے ہیں  وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان غیر اللہ کا ان کی زندگی میں کوئی کردار  ہے یا وہ کسی چیز کی ملکیت رکھتے ہیں جس کے ذریعے انسان کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان کی تعریف کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں جب وہ کسی چیز کے مالک ہی نہیں ہیں اور سب چیزوں کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے تو تمام کی تمام حمد  بھی اللہ کی ہو گی۔وہی تمام عالمین کی کفالت کرنے والا رب ہے۔وہی خدا آخرت کے دن کا مالک ہےجو انسان کی منزل ہے۔اس لیے انسان پر فرض ہے کہ وہ صرف اور صرف ایک خدا کی عبادت کرے﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ﴾۔ ہم نے  جو معانی بیان کیے ان کی روشنی میں یہی مناسب ترین ہے کہ صرف اسی کی عبادت ہو۔

۲۔ اللہ سے مدد مانگنا

اللہ سے  ہی مدد طلب کرنا ان امور میں جن میں اللہ سے ہی مدد مانگی جاتی ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ دنیا کی زندگی میں بہت بار ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انسان کے پاس ظاہری اسباب ختم ہو جاتے ہیں اس وقت انسان اللہ سے مدد و نصرت کا طلب گار ہوتاہے۔یہ طبعی اور فطری بات ہے۔اسی طرح یہ بھی فطری بات ہے کہ کچھ معاملات کو اللہ نے ظاہری اسباب کے تابع قرار دیا ہے اور انسان بہت سے معاملات میں دوستوں،رشتہ داروں اور اوزار و مشینوں سے مدد لیتا ہے۔انسان ہمیشہ اس رب کا محتاج رہتا ہے جو ان اسباب سے بلند ہے،وہ ایک قادر رب ہے۔ان وجوہات کی بنیاد پر انسان کا اللہ پر ایمان  بڑھتا ہے اور بہت سے لوگ اس رپ ایمان لاتے ہیں۔یہ بات انسان کے شعور میں موجود ہے کہ وہ ایک اعلی کی طرف محتاج ہے جو اس کی ضروریات کو پورا کرے۔

الوہیت،ربوبیت اور اختیار سب کا سب اللہ کا ہے اس کے ذریعے لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینے میں مدد ملتی ہے۔جب اس سے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے لیے رحیم ہے اور اس نے ان کی پرورش و خیال کا عہد کیا ہے۔اللہ تعالی ہمارا کفیل اور رب ہے۔پس ہم اپنے لیے اسی مدد مانگیں گے،ہمیں بتوں اور ان جیسی چیزوں سے مدد مانگنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔

۳۔ہدایت کا طلب کرنا

انسان صرط مستقیم کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالی سےمدد طلب کرتا ہےجس کے نتیجےمیں وہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزار کر آخرت میں کامیاب ہوتاہے۔یہ امکان رہتا ہے کہ انسان زندگی کا مقصد کھو دے اور عقیدہ و عمل میں صراط مستقیم سے ہٹ جائے۔ایسا ہونے کا امکان اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب وہ گمراہ ماحول میں پروان چڑھا اور ابھی زندگی ایسے ماحول میں گزار رہا ہےجہاں شرک و کفر کا خظرہ منڈلاتا رہتا ہے۔اب بھی ماضی کی طرح کے حالات درپیش ہوتے ہیں جن حالات میں گمراہی کا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اصحاب نے ان خطرات کو بیان کیا ہے اس لیے ہمیں ہر وقت ہر قسم کے شر سے بچنے کے لیے اللہ سے مدد مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں سیدھے راستے پر رکھے اور اس کے لیے  اللہ کی مسلسل مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

صراط مستقیم کا ذکر کرتے ہوئےیہ آیت انسان کو ایک حیرت انگیز تاثر دیتے ہوئے بتاتی ہے کہ اس زندگی میں کئی راستے ہیں، لیکن صرف ایک راستہ ہی سیدھا راستہ ہے جو سعادت کی منزل پر ختم ہوتا ہے۔ہر انسان اس سعادت کی منزل کی خواہش رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرے۔زندگی میں بہت سے راستے ہیں جو دائیں بائیں جا رہے ہیں اگر انسان ان کو اختیار کرے گا تو راستے سے بھٹک جائے گا۔سیدھے راستے سے بھٹکنا اس کے لیے پریشانی اور مصیبت کا باعث بنے گا۔

انسان کی زندگی کا سفر جاری ہے اور وہ ایک یقینی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ انجام بہت سنگین ہے۔اس سفر میں  انسان کو اختیار ہے کہ وہ  اس سیدھے راستے کو اختیار کرے جس کی نشاندہی اللہ تعالی نے کی ہے یا وہ ان راستوں کا مسافر بن جائے جو اللہ کے راستے کی بجائے دائیں بائیں لے جاتے ہیں۔یہ قابل توجہ مفہوم ہے جس میں  انسان کے سامنے کئی راستے ہیں اور ان میں سے ایک راستہ سیدھا ہے باقی سب راستے منزل سے سرگرداں کرنے والے ہیں۔انسان کی منزل جس تک اسے پہنچنا ہے وہ ایک ہی راستہ ہے قرآن مجید کی بہت سی آیات اس کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾(14)

اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے، اللہ نے تمہیں یہ ہدایات (اس لیے) دی ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

اللہ تعالی نے صرف سیدھے راستے کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا یہ سیدھا راستہ ہے،بلکہ  اللہ تعالی نے بتایا کہ اس راستے پر رہنمائی کے لیے ایسے رہنما ہیں جن کے نقش پا کی پیروی کرنی ہے۔یہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں  ان پر اللہ تعالی نے انعامات کیے ہیں۔سب سے پہلا انعام تو یہ ہے کہ یہ صاحب ہدایت ہیں،راہ ہدایت کے رہنما ہیں۔دوسرے لوگ راستے سے بھٹک گئے،گمراہی میں ٹھوکریں کھاتے رہے ۔ان کی گمراہی کی وجہ یا تو یہ تھی کہ ان لوگوں کو حق کے راستے کا  علم ہو گیا مگر انہوں نے جان بوجھ کر اسے اختیار ہی نہیں کیا اور اللہ کے غضب کا شکار ہو گئے۔یا انہیں راستہ ہی نہیں ملا اور گمراہ ہو کر بھٹک گئے اور راستے کی معرفت ہی حاصل نہ کر سکے۔

ان لوگوں کے لیے نشانی ہے کہ انہیں چاہیے جب وہ ایمان لے آئے ہیں تو ایسے ہدایت یافتہ کو اپنا امام بنائیں جس کی  پیروی میں راستہ طے کریں اور اسی کے پیچھے پیچھے منازل عبور کریں۔ان قائدین میں سب سے بڑے انبیاءؑ ہیں جن کی شان میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آیات نازل کی ہیں۔ان کے ذریعے سے ہدایت کا پیغام شروع ہوا،ان پر اللہ تعالی نے نعمتیں نازل کیں اور ان میں سے بعض کو بعض پہلو کی پیروی کا حکم دیا۔انبیاءؑ کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آَدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آَيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا﴾(15)،

 یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا اور ابراہیم و اسرائیل کی اولاد میں سے اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔

﴿وَمِنْ آَبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ آَتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهِ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ﴾([16])

 اور اسی طرح ان کے آبا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں کو بھی (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں منتخب کر لیا اور ہم نے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کی۔۸۸۔یہ ہے اللہ کی ہدایت جس سے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازے اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے کیے ہوئے تمام اعمال برباد ہو جاتے ۔۸۹۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی، اب اگر یہ لوگ ان کا انکار کریں تو ہم نے ان پر ایسے لوگ مقرر کر رکھے ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں۔۹۰۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے تو آپ بھی انہی کی ہدایت کی اقتدا کریں،کہدیجئے: میں اس (تبلیغ قرآن) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ تو عالمین کے لیے فقط ایک نصیحت ہے۔

قرآن پاک میں سورہ الحمد کے بعد بہت سی آیات نازل ہوئیں ان میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا کہ انبیاء (علیہ السلام) وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے سیدھے راستے کی ہدایت سے نوازا ہے۔ان کے ذریعے اللہ تعالی نے لوگوں کو ہدایت دی۔جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ  يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾(17)

 اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کر بیان کرنے کے لیے آئے ہیں جن پر تم پردہ ڈالتے رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں، بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔۱۶۔ جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور وہ اپنے اذن سے انہیں ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں راہ راست کی رہنمائی فرماتا ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہوتاہے:

 ﴿قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾(18)

۱۶۱۔کہدیجئے: میرے رب نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے جو ایک استوار دین ہے، (یہی) ملت ابراہیم (اور توحید کی طرف) یکسوئی کا دین ہے اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہیں تھے۔

 ﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾(19)

۱۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں، غالب آنے والے قابل ستائش اللہ کے راستے کی طرف۔

﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ   صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ﴾(20)

۵۲۔ اور اسی طرح ہم نے اپنے امر میں سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی ایمان کو (جانتے تھے) لیکن ہم نے اسے روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور آپ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں،۵۳۔ اس اللہ کے راستے کی طرف جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے، آگاہ رہو! تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں فرمایا:

 ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾(21)

 ابراہیم (اپنی ذات میں) ایک امت تھے اللہ کے فرمانبردار اور ( اللہ کی طرف) یکسو ہونے والے تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔ (وہ) اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں برگزیدہ کیا اور صراط مستقیم کی طرف ان کی ہدایت کی۔

اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کےبارے میں دوسرے مقام پر ہے:

﴿يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا﴾(22)  اے ابا! بتحقیق میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری بات مانیں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ کےبارے میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَآَتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ وَهَدَيْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾(23)

اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب دی۔۱۱۸۔ اور ان دونوں کو سیدھا راستہ ہم نے دکھایا۔

حضرت عیسیؑ کے متعلق ارشاد باری ہوتا ہے:

﴿وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ﴾(24)

بیشک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

اسی طرح اور آیات میں بھی ہے۔

ان آیات مجیدہ سے یہ بات واضح ہو گئیکہ جن لوگوں پر اللہ تعالی نے انعام کیا ہے وہ انبیاءؑ ہیں وہ صاحبان ہدایت ہیں اور ان کے ذریعے اللہ تعالی نے لوگوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دی ہے۔

یہ سورہ حمد کے اس حصے کی مختصر سی تفسیر ہےاس میں بہت زیادہ علمی اور دقیق ابحاث نہیں کی گئیں۔اس میں بہت ہی دقیق ابحاث موجود ہیں۔اللہ تعالی اس سورہ میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾روز جزا کا مالک ہے۔

سورہ حمدمیں ارشاد ہوتا ہے:

﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾

جن پر نہ غضب کیا گیا نہ ہی (وہ) گمراہ ہونے والے ہیں۔

اس آیت میں لفظ غضب استعمال ہوا ہے اور یہ شدت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہاں پر غضب کے  مخاطب لوگوں کے لیے نہیں ہے ان کے لیے ہے جو موجود  نہیں ہیں۔

سورہ الحمد میں نبوت کا واضح ذکر نہیں ہے،یہاں توحید اور قیامت پر ایمان کا واضح ذکر ہے اللہ تعالی کا یہ فرمان اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے:

﴿صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾

ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا،

قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس میں  نبوت کا ذکر نہیں ہے صرف اللہ اور آخرت پر ایمان کی تاکید کی گئی ہے۔(25)قرآن مجید کی چھوٹی سورتوں جیسے اخلاص میں ایسے ہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خود یہ پیغام اور آیات جن کے ذریعے یہ توحید اور آخرت پر ایمان کا ذکر پڑھا جا رہا ہے یہ نصرسول اکرم کےذریعے ہی پہنچ رہی ہے۔نبوت خود اس کلام سے ہی سمجھی جا رہی ہے۔اسی لیے نبوت کے ذریعے  توحید اور آخرت کا پیغام دیا جا رہا ہے۔بالخصوص مکی دور میں نبی اکرم کا پیغام رسالت انہیں دو بنیادی پیغامات کا حامل تھا کہ مشرکین نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے ان دو کا اقرار کر لیں۔اسی لیے سورہ فاتحہ میں نبوت پر ایمان کا ذکر تلویحا کیا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

﴿صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا،

رسول ؑ ان لوگوں کا سب سے بڑا مصداق ہیں جن پر اللہ تعالی نے انعام نازل کیے ہیں اسی سورہ کی تفسیر میں ہم اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی حضرت مسیح ؑ سے ارشاد فرماتا ہے:

﴿إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾(26)  وہ تو بس ہمارے بندے ہیں جن پر ہم نے انعام کیا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لیے نمونہ ( قدرت) بنا دیا۔

یہ سورہ فاتحہ کی مختصر تفسیر ہے۔

اس سے صحیح معنوں میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت اپنی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اعلی مقام رکھتی ہے اور اس میں سھل ممتنع ہے اور ممکن ہے عربی زبان جاننے والا مسلمان بھی اس متن کی خوبصورتی کو مکمل طور پر محسوس نہ کرے۔ کیونکہ یہ روزانہ عادی طورپر اس سورہ کو سنتے ہیں۔یہ اس زمانے کے عربوں کو بہت خوبصورت لگی اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اس سورہ کے الفاظ و مضامین کو ان مذہبی متون کے ساتھ ملا کر دیکھتے تھے جو ان کے پاس ان کے خداوں کے بارے میں موجود تھے۔اس لیے قرآن مجید میں اس سورہ کی خاص توصیف آئی ہے:

﴿وَلَقَدْ آَتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآَنَ الْعَظِيمَ﴾ (27(  اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔

کسی کے لیے اس سورت کی فضیلت سے انکار ممکن نہیں۔یہ  امتیازی مقام کی حامل سورہ ہے۔ اس کے ذریعے  قرآن کریم نے عربوں کو چیلنج کیا تھا۔ اس سورہ مبارکہ کے مطالب اور الفاظ کی خوبصورتی کو ان لوگوں نے بھی پہچانا جو قرآن اور دیگرکتب آسمان کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں۔دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی اس خوبصورتی کو درک کیا بالخصوص ان مسیحی اہل بلاغت نےجن کا تعلق خطہ عرب سے تھا۔وہ اس خوبصورتی کو اس وقت جان جاتے ہیں جب وہ اپنی دینی کتب کے ساتھ اس کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں۔(28)

حواشیح

(1) بحث کے پہلے حصے میں ہم نے اس سورہ کی حیثیت، اس کا شان نزول، بسم اللہ اس کا اورباقی سورتوں کا حصہ ہے یا نہیں اس کے بارے میں بحث کی۔ جیسا کہ تحقیق کی ضرورت ہے، اس میں بسم اللہ اور اس سورہ کی تفسیر سے متعلق بہت سی چیزیں شامل ہیں۔

(2) سورة العلق: آية 1

(3) سورة العلق: آية 1

(4)یہ کہا گیا ہے کہ کفار لکھتے: (بسم اللات والعزى)، ملاحظہ کریں: المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام: 6/113

(5) سورة النمل: آية 30

(6)اس بارے میں تفصیل سے بحث گزر گئی ہے کہ بسم اللہ جزء سور قرآنی ہے یا جزء سور قرآنی نہیں ہے۔

(7) سورة الأعراف: آية 156

(8) سورة الحجر: آية 87

)9 ( سورة لقمان: آية 25

)10( سورة البقرة: آية 186

)11( سورة الزخرف: آية 86

)12( سورة العلق: آية 8

)13( سورة غافر: آية 16

)14( سورة الأنعام: آية 153

)15( سورة مريم: آية 58

)16( سورة الأنعام: آية 87 ـــ 90

)17( سورة المائدة: آية 15 ـــ 16

)18( سورة الأنعام: آية 161

)19( سورة إبراهيم: آية 1

)20( سورة الشورة: آية 52 ـــ 53

)21( سورة النحل: آية 120 ـــ 121

)22( سورة مريم: آية 43

)23( سورة الصافات: آية 117 ـــ 118

)24( سورة آل عمران: آية 51

)25( ان میں اللہ تعالی کا قول ہے: ﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آَمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآَتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾ سورة التوبة: آية 18 )اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم کرتے ہوں نیز زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھاتے ہوں، پس امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔(

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آَمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آَمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ سورة البقرة: آية 62 ) بے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آَمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آَمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾ سورة البقرة: آية 126 )اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ابراہیم نے دعا کی: اے رب! اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائیں انہیں ثمرات میں سے رزق عنایت فرما، ارشاد ہوا : جو کفر اختیار کریں گے انہیں بھی کچھ دن(دنیا کی) لذتوں سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دوں گا، پھر انہیں عذاب جہنم کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے(

اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ﴾ سورة البقرة: آية 228 )اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما، یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔(

ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ سورة البقرة: آية 232 )اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازدواج پر باہم راضی ہوں، یہ نصیحت اس شخص کے لیے ہے جو تم میں سے خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تمہارے لیے نہایت شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے اور (ان باتوں کو) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(

(26) سورة الزخرف: آية 59

(27) سورة الحجر: آية 87

(28) کچھ لوگوں کو اس سورہ کے کے معانی کی تلاش میں مشکل پیش آ سکتی ہے اور کوشش کرنی پڑے گی جبکہ الفاظ کو مماثل بنانے کے لیے تبدیل کرنا پڑے گا۔لیکن تقابل کا یہ طریقہ  خود متن کے اقتضاء کے لحاظ سے درست نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بلاغت صرف مفردات اور ان کے وزن پر محدود نہیں ہے۔بلکہ مطلوبہ مقصد کے لیے موزوں مواد کا انتخاب ایک اہم چیز اور فصاحت کا ایک حصہ ہے۔وہ کلام جو کیا گیا اس میں مناسب مفردات کے حساب سے بلاغت نہیں ہے۔تفصیل کے لیے آیۃ اللہ العظمی سید خوئیؒ کی تفسیر ملاحظہ کریں:  تفسير البيان للسيد المحقق الخوئي ورسالته نفحات الإعجاز (لاحظ: البيان في تفسير القرآن (طبعة المؤسسة): ص95

آیۃ اللہ سید محمد باقر السیستانی: استاد حوزہ  علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018