19 شوال 1445 هـ   28 اپریل 2024 عيسوى 12:06 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  دنیامیں ملحدین کی کتابیں کیوں زیادہ نشر ہوتی ہیں؟
2024-03-27   251

دنیامیں ملحدین کی کتابیں کیوں زیادہ نشر ہوتی ہیں؟

بعض ملحدین کی کتابیں جب شائع ہوتی ہیں تو وہ کئی مہینوں تک سب سے زیادہ خریدی جانے والی کتابوں میں سر فہرست رہتی ہیں، جیسے رچرڈ ڈوکنز، سام ہاریس، کریسٹوفرہیچنز، دانیال ڈینل ، وغیرہ کی کتابیں ، اس صورت حال کو دیکھ کر بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کتابوں کی شہرت کی وجہ ان میں موجود مواد کی پختگی اور دلائل کی مضبوطی ہے ۔

لیکن اس سلسلے میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن پولیفینٹ(1) نے جو سماجی سروے کرایا اس نے حقیقت کو آشکار کر دیا ،وہ کہتے ہیں کہ "ہم نے جب ان کتابوں کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ الحاد جدید کے نام پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ اس قدر اہم نہیں ہے جتنا اسے اہم ظاہر کیا جاتا ہے، اسی طرح ملحدین کی تعداد بھی بہت زیادہ نہیں ہے ، نہ وہ پہلے زیادہ تھی ۔ پس الحاد ایک سماجی تحریک نہیں ہے ،اسی طرح نظریہ، جدیدت اور مضبوطی میں جدید ملحدین کے دلائل کا 19ویں صدی کے اواخر کے ملحدین جیسے مارکس، نیتشہ ، سارتر اور کاموس وغیرہ کے دلائل سے کوئی مقائسہ ہی نہیں ہے ۔ نیزجب جدید ملحدین کا مقائسہ ان ملحدین سے کرتے ہیں تو یہ جدید ملحدین بہت سطحی نظر آتے ہیں"(2)

دوسری بات یہ ہے کہ الحادی کتب کی نشر واشاعت میں تیزی کا مسئلہ اس وقت اہم کہلائے کہ جب مغربی معاشرہ دینی معاملات کو اہمیت دے رہا ہو، جبکہ مختلف سرویز سے یہ بات ناقابل تردید حد تک ثابت ہو جاتی ہے کہ مغربی معاشرے میں دینی معاملات سے لا تعلقی کا رجحان بہت زیادہ ہے ، یہاں تک کہ ویٹیکن کی ثقافتی مجلس کے سربراہ کارڈینئل بوبر کا یہ کہنا ہے کہ: " کلیسا کے سامنے  اس وقت لا دینیت اور دین سے لا تعلقی کے مسئلے کی بجائے الحاد کی شکل میں ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے۔کیونکہ اس وقت دنیا میں الحاد کی فکر ایک خاص حد پر رکی ہوئی ہے جبکہ لا دینیت اور دین سے لا تعلقی کی فکر سیکولر ذہنیت کے لوگوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ ملحدین کی ان کتابوں کی شہرت کا سبب ان میں موجود دلائل ہرگز نہیں ہیں ۔ پس سوال یہ ہے کہ عالمی سطح  پر ان کتابوں کی شہرت کی وجہ پھر کیا ہے ؟

اس سلسلے میں ڈاکٹر پولی ونٹ دین مخالف سب سے زیادہ بکنے والی ان دین مخالف کتابوں میں قدر جامع کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں مثلا کتاب  "شفرہ ڈایونسی کا قصہ "جسے ڈان براؤن نے تحریر کیا اور 2003 میں شائع ہوئی ، اپنی طباعت کے ابتدائی تین سالوں میں اس کتاب کے چالیس ملین نسخے بکے ،اسی طرح ڈوکنز کی کتاب "خدا کا دھوکا " صرف دو سالوں میں بیس لاکھ نسخے فروخت ہوئے ۔

داکٹر پولی وینٹ کے مطابق ان دونوں کتابوں میں جو موضوع مشترک ہے وہ ان کا کلیسا کے سکینڈلز پر بات کرنا ہے ۔ شفرہ ڈاوینسی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ حضرت عیسی خدا کے بیٹے  نہیں ہیں،لیکن کلیسا  ہی نے لوگوں پر ظلم کر کے اور ڈرا دھمکا کر اس راز کو آج تک لوگوں سے چھپائے رکھا، پس کلیسا کے اس شیطانی عمل پر بات کرنا ہی اس کتاب کی شہرت کی اصل وجہ ہے ،اس کتاب میں موجود دلائل کی مضبوطی اور ذکر شدہ باتوں کی سچائی سے اس کی شہرت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس یہ قصہ مصنف کی فکری تخیلات کی پیداوار ہے جو کسی حقیقت پر قائم ہی نہیں ہے ۔

معاشرے میں کلیسا کے ان رسوا کن بد اعمالیوں کے بارے میں گفتگو کرنے اور ان کے بارے میں جاننے کی جستجو در اصل کلیسا کے انہی شرمناک کردار کی وجہ سے ہے کہ جس کا مغربی معاشرہ وقتا فوقتا مشاہدہ کرتا رہا ہے ۔ کلیسا میں بچوں پر جنسی زیادتی کے حوالے سے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی ایسی خبریں ہی اس بات کی واضح دلیل ہے ۔ جیساکہ ایک یورپی جریدہ " دراسۃ قیم الاروبیہ ،ای وی ایس " کے مطابق 45.9 فیصد برطانوی لوگوں کو کلیسا پر زیادہ اعتبار نہیں ہے جبکہ 19.7فیصد کو سرے سے کوئی اعتبار نہین ہے ۔

پس ملحدین کی کتابوں کی شہرت کا سبب در اصل بعض اھل کلیسا کی اخلاقی بدعنوانیاں اور اس پر لوگوں کا رد عمل ہے نہ کہ ان کتابوں میں موجود مواد کی سچائی ۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین کے خیالات عام لوگوں کے ہاں موجود سازشی تھیوری کے موافق ہیں۔ اور وہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اہل دین نے لوگوں کو اپنے سامنے اطاعت گزار رکھنے کے لئے سازش سے کام لیا ہے ۔ چنانچہ ایڈورڈ ویزر کہتے ہیں کہ: "جدید فرضیات میں سازشی تھیوری بہت پھیلی ہوئی ہے حالانکہ آپ دیکھیں گے کہ یہ ایک باطل نظریہ ہے ـ کیونکہ علم ، فلسفہ ، تنقیدی فکر  جیسے عوامل عام طور پر حکمرانوں کو کمزور کرنے اور رائج طور طریقوں کے نقائص کو آشکار کرنے میں مشترکہ کردار ادا کرتے ہیں ۔ .اس لئے عام آدمی اسی قسم کے سازشی مفروضوں پر یقین کر لیتا ہے۔ وینسنٹ پولیسی اپنی کتاب (إصلاح التاريخ) میں لکھتے ہیں : "لوگ بجا طور پر سازش کو ایک ہیجان آور اور قابل اہتمام چیز کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں زیادہ تر لوگ  غیر شعوری طور پر ان سازشی نظریات کا شکار ہو جاتے ہیں " ایڈورڈ ویزر اپنی کتاب آخری خرافات میں لکھتے "وہ لوگ جو ان سازشی نظریات کو واضح کرتے ہیں انہیں لوگ ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں کہ جس نے معاملے کو بد مزہ ہی کر دیا"( 3)

چونکہ معاشرے میں رائج فکر دینی فکر ہے اور الحاد اس فکر پر طاری ہونے والی ایک سوچ ہے ،لہذا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جدید الحادی افکار معاشرے میں رائج موجودہ دینی فکرکی رسوائی کا موجب ہیں۔  اس سلسلے میں ویزر لکھتے ہیں کہ : اس بات سے قطع نظر  کہ اگر چہ آج بھی زیادہ تر لوگوں کی کسی نہ کسی حد تک دینی تربیت ہو چکی ہے ،تاہم اب چونکہ معاشرے میں دینی نظریات کو فرسودہ سمجھا جا رہا ہے جبکہ ان کے ،مقابلے میں سیکولر نظریات کو جدید اور قابل عمل سمجھا جا رہا ہے ، لھذا ایسے میں دینی افکار کی دلیل خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو ،ان افکار کا دفاع کرنے کا رجحان بہت کم اور ایسا کرنے والا شخص پسماندہ سوچ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔4

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان الھادی کتابوں کی وسیع پیمانے پر خریداری  کی وجہ گوناگون سماجی عوامل ہیں، جبکہ مذکورہ بالا تحقیق کی بنا پر ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ  دلیل کی طاقت اور مواد کی سچائی ان کتابوں کی شہرت کی وجوہات میں شامل نہیں ہے ۔

شیخ مقداد  الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ

ملاحظات

1-       پروفیسر سٹیفن پولیفینٹ ، وولف اسٹون کالج، آکسفورڈ یونیورسٹی کا محقق اور استاد ہے، انہوں نے  الہیات میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کی ہے، جبکہ  2009 میں الحاد کے ساتھ کیتھولک مذہب کے تعلق کو تلاش کیا۔ اوروہ لادینیت اور سیکولرازم پر بین الاقوامی بین الضابطہ تحقیقی نیٹ ورک کے بانی رکن اور شریک ڈائریکٹر ہیں۔

2-      - Edward Feser, "We the Sheeple? Why Conspiracy Theories Persist" TCS Daily (September 20, 2006)

3-     ایڈورڈ فیسر(Edward Feser کتاب: الخرافة الأخيرة تفنيد الإلحاد الجديد (The Last Superstition) ، ص79

4-     ایضا

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018