19 شوال 1445 هـ   28 اپریل 2024 عيسوى 9:19 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  اسلام ۔۔۔ دین رحمت ہے تو پھر جنگیں کیوں؟
2024-03-16   175

اسلام ۔۔۔ دین رحمت ہے تو پھر جنگیں کیوں؟

قرآن مجید نے رحمت کو اسلام اور نبی اسلام کی شناخت کے طور پر بیان فرمایا ہے ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، )سورۃ الأنبياء: 107)اور مسلمانوں کو ہر قیمت پر اس دین رحمت کو پھیلانے کا حکم دیا۔﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾۔ اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہوسکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا: میں مسلمانوں میں سے ہوں، )سورۃ فصلت: 33(

یہاں تک کہ اس سلسلے میں مسلمانوں پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑے گئے، انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، اسلام در اصل لوگوں کو خدا کی وحدانیت پر قائل کرنے اور انہیں خدا کی عبادت کی طرف بلانے سے عبارت ہے۔ اس راہ میں لوگوں کے ساتھ معقول انداز اپنانا اور منطقی گفتگو کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ مان جائیں پھر اس کے ساتھ ساتھ نرمی اور بہترین سلوک کا مطاہرہ کرنا تاکہ وہ متنفر ہوکر دور نہ ہو جائیں .

یہ دین لوگوں کو دلی طور پر قانع کئے بغیر پھیلنا ممکن ہی نہیں ہے۔ شیخ مھدی شمس الدین ؒ فرماتے ہیں کہ :تمام مسلمانوں کے ہاں بلکہ تمام عقلاء کے ہاں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ مکلف قرار پانے کے دو بنیادی شرائط ہیں۔ 

پہلی شرط : حکم انسان تک اس انداز سے پہنچے کہ وہ اس کو سمجھ سکے، وہ عقائد اور اس سے جڑی چیزوں میں یہ ہے کہ انسان اپنی فکر اور سمجھ کے مطابق تسلیم کرے، پس اعتقاد یعنی دلی طور پر تسلیم کئے بغیر صرف لفظی اقرار کافی نہیں ہے ۔

دوسری شرط: اس فعل کو کرنے یا نہ کرنے پر انسان قادر ہو، پس دینی احکام کے مکلف کو قادر ہونا چاہئے، لہذا اگر معاملہ ایسے امور اعتقادیہ کا ہو کہ جن کو سمجھنا قانع کنندہ عقلی دلائل پر موقوف ہو تو پھر واضح عقلی دلائل کے بغیر وہ حاصل نہیں ہوسکتے ، (جهاد الأمة، ص108)

اسی وجہ سے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں ہر قسم کے جبر کی نفی کی گئی ہے: ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ..﴾، دین میں کوئی جبر اکراہ نہیں ، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے ۔( سورۃ البقرة: 256)

اسی طرح فرمایا: ﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ﴾ اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے ، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ (سورۃ يونس: 99)

یہاں تک کہ خود مسلمانوں کے درمیان بھی کبھی کسی قسم کا اختلاف ہو تو اسے ہمیشہ پر امن انداز میں حل کرنے پر زور دیا گیا ﴿وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیان ہے ۔ (سورۃ فصلت: 34)

لیکن جب دین اور دینی ادارے ظلم و جبر کا شکار بنا دیئے جائے ، پر امن حل کا کوئی راستہ باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں ہر ممکن ذریعے سے اپنا دفاع کرنا ضروری ہے، جن میں جنگ بھی شامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے اسلامی مصادر سے جنگ کے بارے میں احکام کو استنباط کرنے کی ہر دور میں کوشش کی ہے ، کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ دین اگر مجبورا جنگ کی کہیں اجازت دے تو وہ بلا قید و شرط اجازت نہیں دے گا ، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں یہ جنگ ناحق خون بہانے ، لوگوں کے ناموس اور مال کو تاراج کرنے جیسے انتہائی نامطلوب نتائج پر منتج ہو سکتی ہے ،پس اسلام نے جنگ کے لئے بھی حدود و قیود متعین کئے تاکہ یہ جائز اور قابل قبول ہو ۔

اسلام میں جنگ کے جائز ہونے کی کیا شرائط ہیں ؟

تقریبا تمام علماء اسلام نے جنگ کے لئے ایک ہی جواز بتایا ہے ،وہ ہے مسلمانوں پر ظلم ،پس کفر سمیت کوئی اور وجہ جنگ کا سبب نہین بن سکتا ،کیونکہ کفر کو چھپایا جاسکتا ہے جس طرح نفاق کو چھپایا جا سکتا ہے اس لئے ان کے عذاب کو قیامت پر ہی چھوڑا گیا ہے ۔ اگرچہ بعض فقہاء جیسے ابن تیمیہ ،یا پھر امام شافعی کے اقوال میں سے ترجیحی قول یہی ہے کہ کفر بھی جنگ کی وجہ بن سکتا ہے ۔

پھریہ کہ "کفر اگرچہ بہت بڑے جرائم میں سے ہے ، لیکن وہ خدا اور اس کے بندے کا معاملہ ہے، اس قسم کے معاملات کی جزاء و سزا حشر کے دن تک مؤخر کیا گیا ہے "(الشيباني، السير الكبير، ج4، ص186)

جنگ کی اجازت دینے کا سبب اللہ عز وجل نے ان الفاظ میں بیان فرایا ہے:

﴿الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھڑیوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا اور اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، اللہ یقینا بڑا طاقتور اور بڑا غالب آنے والا ہے۔ (سورۃ الحج: 40).

آیت مجیدہ میں جنگ کو جائز قرار دینے کی وجہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کو قرار دیا ہے، جب کفار قریش نے مسلمانوں کو بے جرم و خطا اپنے گھروں سے نکال دیا جس طرح اللہ عز وجل ارشاد فرما رہاہے:

﴿وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾اور تم راہ خدا میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا (سورۃ البقرة: 190)

اسی طرح اللہ عزو جل نے مسلمانوں کو جنگ کا آغاز کرنے سے منع فرمایا، اور انہیں صبر و تحمل سے کام لینے کی ترغیب دی یہاں تک کہ مکہ میں مسلمانوں کی شہادتیں ہوئیں ، مکہ میں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان اس قدر کمزور تھے کہ وہ اپنا دفاع کر نہیں سکتے تھے ، لیکن مدینیہ جانے کے بعد تو مسلمان اپنا بدلہ لینے پر مکمل قادر ہوچکے تھے،اس کے باوجود رسول خدا کو صبر تحمل کا حکم دیا گیا ،جیسا کہ مدینہ کے بعض لوگوں یا مدینہ کے قریب کے لوگوں کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہوا :

﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾

پس ان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، یہ لوگ (کتاب اللہ کے) کلمات کو اپنی جگہ سے الٹ پھیر کر دیتے ہیں اور انہیں جو نصیحت کی گئی تھی وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے اور آئے دن ان کی کسی خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں البتہ ان میں سے تھوڑے لوگ ایسے نہیں ہیں، لہٰذا ان سے درگزر کیجیے اور معاف کر دیجئے، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔  (سورۃ المائدة: 13)

پس رسول اللہ اور مومنین کو جنگ کی اجازت نہیں دی گئی جب تک ظلم و ستم کی وجہ سے انہیں اپنا گھر بار اور وطن ترک نہ کرنا پڑا ،جب معاملہ اس حد تک پہنچا تو پھر انہیں جنگ کی اجازت دی گئی ،مگر اس میں بھی یہ شرط رکھی گئی کہ وہ ظلم نہیں کریں گے ،یوں اجازت دینے پر اکتفاء نہین کیا گیا بلکہ شرائط بھی بتائے گئے.

پس اسلام ان لوگوں سے جنگ کی اجازت نہیں دیتا کہ جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم نہیں کئے، بلکہ اسلام ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور بہتر تعلق رکھنے سے منع بھی نہیں فرماتا :

﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾

جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اللہ تو یقینا تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہاری جلاوطنی پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور جو ان لوگوں سے دوستی کرے گا پس وہی لوگ ظالم ہیں۔ (سورۃ الممتحنہ : 8 ـ 9)

لہذا اسلام بعض خاص حالات کے علاوہ جنگ کی اجازت نہیں دیتا ،جیسے مسلمانوں کا دفاع ، اسلام کا دفاع اوراسلام کے نشرو اشاعت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنا اور ان دونوں صورتوں کے ساتھ اسلامی حکومت کو دھوکہ دینا بھی شامل ہے ۔

جنگ کے لئے مندرجہ بالا وجوہات پر تمام مسلمان علماء کا اتفاق ہے۔ شیخ محمد مھدی شمس الدین ؒ فرماتے ہیں : "جن آیات قرآنی نے جہاد کو واجب قرار دیا ہےوہ حقیقتا ظلم کو روکنے کے لئے ہے". (جهاد الأمة، ص233) کسی آور جگہ آپ فرماتے ہیں: "اسلام میں جہاد کی دو قسمیں نہیں ہیں کہ ایک جہاد ابتدائی ہو اور دوسرا جہاد دفاعی ، بلکہ وہ ایک ہی قسم کا ہے جس کی آگے کوئی قسم نہیں، پس جہاد صرف دفاع کے لئے ہے، اس کے علاوہ کوئی جہاد نہیں ہے، جہاد کی اصل حقیقت دفاع ہی ہے ۔ باقی جہاد کی جتنی ممکنہ قسمیں ہیں وہ سب کی سب دراصل دفاع کی خصوصیات کے اعتبار سے ہیں". (جهاد الأمة، ص199)

معروف مورخ محمد بن حسن شیبانی لکھتے ہیں "کفر اگرچہ بہت برا ظلم ہے، مگر یہ خدا اوراس کے بندے کے درمیان کا معاملہ ہے، اس قسم کے معاملات کی جزا و سزا روز جزا پر موقوف رکھا گیا ہے۔ دنیا میں جو سزا رکھی گئی ہے وہ ایسے معاملات کی نسبت رکھی گئی ہے کہ جٓن کا تعلق بندوں سے ہے ،اور جنگ و جدال سے بچنے کے لئے دنیا میں ان کی سزائیں رکھی گئی ہے۔". (السير الكبير، ج4، ص186)

شیخ ابوزہرہ فرماتے ہیں :"جہاد کی وجہ کوئی اسلامی حکم نہیں بلکہ ظلم و ستم کو اپنے سے دور کرنا اس کی بنیادی وجہ ہے" . (جہاد کا اسلامی تصور، محمد أبو زهرة، ص23)

شیخ رمضان آلبوطی نے جہاد کے بارے میں جمہور علماء مسلمین کی رائے نقل فرمائی ہے: «جمہور علماء مسلمین کہ جن میں حنفی ، مالکی اور حنبلی علماء شامل ہیں وہ اس بات کے قائل ہیں کہ جہاد کی علت حرابہ ہے»، (الجهاد في الإسلام، ص94). حرابہ کسی کی جانب سے ظلم اور حملہ کرنے کا قصد ظاہر ہونے کو کہا جاتا ہے، پس جب خود ظلم یا حملہ واقع ہو جائے تو یقینا یہ جہاد کا مورد ہوگا ۔

اسلام کے دفاع کی صورتیں

یہاں ہمیں یہ بات ذھن نشین کرنی چاہئے کہ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع صرف حملہ آوروں سے مقابلہ ہی میں نہیں ہے بلکہ اس کی اور بھی صورتیں ہیں ، اور وہ سب بھی دفاع ہی کے عنوان کے تحت آتے ہیں ۔ ان میں سے ایک نظام اسلامی کی حفاظت کرنا ، جیسا کہ ذکر ہوا کہ مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری لوگوں کو خدا کی وحدانیت اور اس کی اطاعت پر قائل کرنا ہے ۔

 یہ کام مسلمانوں کے امور کو منظم کئے بغیر انجام نہین پائے گا، امور کو منظم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ طاقت اپنے ہاتھوں میں لینا ہے ،پھر اس کے بعد حکومت بنا کر لوگوں کو اس حکومت کے تابع بنانا اور اس حکومت کے ذریعے لوگوں کی خدمت کرنا ۔

چونکہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری صرف حملہ آوروں سے بچانا نہیں ہے، بلکہ ظالموں کو ظلم سے روکنا ، معاشرے میں عدل کا قیام ،لوگوں کو اپنے حقوق کے حصول پر قادر بنانا اور احکام الہی کو معاشرے میں نافذ کرنا حکومت اسلامی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ جب ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کی راہ  میں مشکلات کھڑی کی جائے گی تو ان کو دور کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ،اس راہ میں اگر حسن تعامل سے کام نہ چلا تو طاقت کا ستعمال کیا جاتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں اپنی حکومت قائم ہونے ،اور مشرکین و یہود کی جانب سے اس حکومت کے خلاف سازشون کے بعد جہاد کا حکم دیا گیا ۔ پھر اللہ عز وجل نے ان کے خلاف جہاد سے روگردانی کرنے والوں کی ان الفاظ میں مذمت کی : ﴿أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾

کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنی قسمیں توڑ دیتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا ؟ پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو، (سورۃ توبہ: 13)

دفاع کے دیگر طریقوں میں سے ایک فتنوں کے خلاف لڑنا بھی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ) اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہاں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔، (سورۃ البقرة: 193)

یہ اس لئے نہیں کہ لوگوں کو دین قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ یہ لوگون کو دین کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے ہے:

(أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ﴾ پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟،( يونس: 99)  آپ ایسا نہیں کر سکتے لہذا فرمایا: (وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا..) اور کہد یجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے یقینا ایسی آگ تیار کر رکھی ہے ، سورۃ (الکہف: 29).

پس جہاد کو اس دین میں واجب قرار دیا گیا تاکہ مشرکین کی طاقت کو ختم کیا جا سکے اور ان کی جانب سے ہونے والے حملوں کو روکا جا سکے ، یہ دو صورتوں میں ممکن ہے ۔

پہلی صورت: جب وہ لوگوں کو دین اسلام کی تبلیغ کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کریں  . دوسری صورت : جب وہ مسلمانوں کو دین اسلام سے دستبردار ہونے پر مجبور کریں .

پس جب ظالم حکومتوں کی جانب سے لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے سے منع کیا جائے تو اس صورت میں جہاد کیا جائے گا: ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ..﴾ لوگ آپ سے ماہ حرام میں لڑائی کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: اس میں لڑنا سنگین برائی ہے، لیکن راہ خدا سے روکنا، اللہ سے کفر کرنا، مسجد الحرام کا راستہ روکنا اور حرم کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک زیادہ سنگین جرم ہے، (سورۃ البقرة: 217)

جبکہ دوسری صورت کے بارے میں بعض آیات قرآنی سے ہمیں واضح حکم ملتا ہے ،جیسا کہ اللہ عز وجل مؤمنین سے لرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ﴾اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہاں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔(سورۃ البقرة: 193)  اس کی وجہ یہ ہے کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ ارشاد ہوا: ﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾ اور انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے، ہاں مسجد الحرام کے پاس ان سے اس وقت تک نہ لڑو جب تک وہ وہاں تم سے نہ لڑیں، لیکن اگر وہ تم سے لڑیں تو تم انہیں مار ڈالو، کافروں کی ایسی ہی سزا ہے۔  (سورۃ البقرة: 191)

اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے : ﴿.. وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾

اور وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوں گے اور ایسے لوگ اہل جہنم ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔، (سورۃ البقرة: 217)

دفاع کی مختلف صورتوں میں سے ایک کمزور اور مظلومین کی مدد بھی ہے ، اپنے حلیف لوگوں کا دفاع ،خصوصا وہ ایسے لوگ ہوں کہ جو اپنا دفاع خود کرنے پر قادر نہ ہو ، یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کے بارے میں اللہ عز وجل فرماتا ہے:

﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا﴾ 

تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارے لیے مددگار بنا دے؟ (سورہ النساء: 75)

جیسا کہ صلح حدیبیہ کے بعد رسول خدا ص نے قبیلہ بنی خزاعہ کی مدد فرمائی جب قبیلہ بکر بن عبد مناف بن کنانہ نے ان پر حملہ کیا اور قریش نے قبیلہ بکر بن عبد مناف کی مدد کی ۔ اسی طرح مسلمانوں پر اھل ذمہ کی حفاظت واجب تھی جب ان پر کوئی جنگ مسلط کی جاتی ، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت میں پناہ لی ہوئی تھی اگر وہ کسی حملے کا شکار ہو تو ان کا دفاع بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی۔

آخری بات

ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے جنگ کی بہت محدود اجازت دی ہے ،مذکورہ تمام صورتوں میں ظلم اور زیادتی کو روکنے کی حد تک اجازت دی گئی ہے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دی گئی ہے، ابی عبد اللہ علیہ السلام سے مروی ہے : «جب کبھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جنگ کےلئے لشکر بھیجنے کا ارادہ فرماتے تو ان کو بلاتے اور اپنے پاس بٹھا کر فرماتے، خدا کی راہ میں ،رسول خدا کے دین پر، خدا کا نام لے کر نکلو،کسی کو غل نہ پہناؤ، دھوکہ سے کسی کو نہ مارو ، بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو نہ مارو ،جب تک مجبور نہ ہو کسی درخت کو نہ کاٹو، تم میں کوئی بھی مسلمان جب کسی مشرک کو دیکھو تو اسے پہلے کلام الہی سناؤ، اگر وہ اس کی اتباع کرے تو وہ تمہارا بھائی قرار پایا ، لیکن اگر وہ اس کے بعد بھی انکار کرے توپھر اسے اپنے انجام کو پہنچاو،اور اس سلسلے میں اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے رہو۔(وسائل الشیعہ  كتاب الجہاد، باب 15، ج15، ص58، حديث 2)

شیخ مقداد الربیعی– استاد و محقق حوزۃ  علمیہ)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018