19 شوال 1445 هـ   28 اپریل 2024 عيسوى 9:10 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  کائنات کودین کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے یا سائنس کے؟
2024-03-15   253

کائنات کودین کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے یا سائنس کے؟

کائنات کو دین کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے یا سائنس کے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو عام طور پر سننے کو ملتا ہے۔ اگرچہ یہ سوال ایک شبہہ کا نتیجہ ہے کہ دینی تعلیمات اور سائنس میں تضاد و عناد موجود ہے، لیکن چونکہ اس سوال کا تعلق دینی امور سے بھی ہے اور موجودہ دور میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ موجود ہے اس لئے ہم اس پر قلم اٹھا رہے ہیں ۔

ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ انسان کی بھلائی اس بات میں ہے کہ قرآن و سنت ہی پر مکمل اکتفاء کیا جائے، پس قرآن و سنت کے علاوہ کسی بھی علم کی طرف بڑھنا وقت کا ضیاع اورعلم کی برکت سے دوری کا موجب ہے۔ جبکہ اس کے مد مقابل دوسرے گروہ کا یہ کہنا ہے کہ انسان کو صرف سائنسی تحقیقات و تجربات ہی پر اکتفا کرنا چاہئے، وہ قرآن و سنت کو مکمل طور پر پس پشت ڈالنے کے خواہاں ہیں۔ ان کے خیال میں قرآن و سنت کو وقت دینا انسان کو ذہنی پسماندگی کی طرف لے جاتا ہے اور زندگی کی حقیقتوں سے لا بلد کر دیتا ہیں، نیزوہ سائنسی حقائق سے استفادہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ان دو نظریات کے درمیان مسلمان منقسم ہیں۔

اگر ہم اس اختلاف کا تاریخی جائزہ لینا چاہیں تو یہ ایک بہت پرانی اور تاریخی بحث ہے کہ جب سے ثقافت کی بنیاد پڑی ہے اس وقت سے ہی کچھ لوگ یہ سمجھتے آئے ہیں کہ دین میں انسانی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہم عقل کی طرف رجوع کریں، پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ سائنس نے عقل کی جگہ لے لی۔ اب انسانی معاشروں کا انتطام و انصرام سائنس کے ہاتھوں میں ہے اور معاشرے کی انفرادی و جتماعی مسائل کا حل سائنس میں ہی تلاش کیا جا رہا ہے، دین کے انکار میں یہ شدت پسندی اس قدر ہے کہ یہ لوگ نہ صرف دین کو محدود کرنے کی بات کرتے ہیں بلکہ دین کو انسانی معاشرے سے مکمل طور پر نکالنے پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ تجربے سے یہ ثابت ہے کہ عقل اور سائنس کی توجہ صرف مادی ضروریات تک ہے ۔ اس سلسلے میں آیت اللہ سید محمد حسین طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: «انسانی فطرت اور وہ عقل جو صحیح اور سلیم ہو وہ انسانی معاشرے میں موجود اختلافات اور فساد کی جڑکا خاتمہ کرنے کے لئے قوانین سازی میں ناکام رہے ہیں ، اس بات پر دلیل کے طور پر وقتا فوقتا پیش آنے والے اجتماعی حادثات،اور اخلاقی انحطاط اور انسانیت کا فقدان کہ جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں،یہی کافی ہیں۔ اسی طرح نسلوں اور فصلوں کو تباہ کرنے والی جنگہیں، لاکھوں لوگوں کو بے گھر اور لاکھوں کو ہجرت پر مجبور کرنے والی لڑائیاں۔ دوسروں کو غلام بنانے کے نئے طریقے ،لوگوں کی عزت و آبرواور مال کے لئے موجود خطرات آپ دیکھ رہے ہیں ، حالانکہ اس زمانے کو علم اور سائنس کا زمانہ کہا جاتا ہے ، یہ علم و ثقافت ، شہری زندگی اور ترقی کا زمانہ کہا جاتا ہے ، ایسے میں ان زمانوں کا کیا حال ہوگا کہ جب جہالت اور لا قانونیت کا دور دورہ ہوگا ؟ (المیزان ، ج2 ص 132)

بہر حال ہماری نظر میں اس تقسیم کی بنیادی وجہ دونوں گروہوں کے ہاں دینی تعلیم اور سائنس کے دائرہ کارکو نہ سمجھنا ہے ۔ اور یہ دونوں گروہ اپنی اس غلط اور محدود سوچ کی وجہ سے سکیولرزم کی بڑی خدمت کر رہے ہیں ۔ سانئس ہی کو سب کچھ ماننے والے تو ظاہر ہے دین کو معاشرے سے مکمل ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ سکیولرمعاشرے کو جس طرح چاہے چلا سکیں اور تعلیم، سیاست، سماجیات اورمالی امور میں اپنی منصوبہ بندی کے مطابق معاشرے کو چلائیں ، دوسری طرف ظاہرا ایک دین دار طبقہ سائنس کی مکمل مخالفت کے ذریعہ قرآن و سنت سے تمسک کے نام پر دین کو خارجی دنیا سے جدا کر رہا ہے، پس وہ دینی علم کو اس دنیا سے الگ کر رہا ہے کہ جس کی مسائل کو حل کرنا قرآن و سنت ہی کے ذریعے ممکن تھا۔ وہ دینی نصوص کو صرف راہبوں کے ذکر و اذکار ، برکت کے لئے ختم قرآن اور بچوں کی حفاظت کے لئے تعویز وغیرہ تک محدود کر دیتے ہیں ۔

وہ کتاب جسے خدا نے لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا ،اور جسے خدا نے نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کیا جائے، جسے خدا نے 23 سال کے عرصے میں تدریجا نازل فرمایا ،ہر آیت کا کوئی سبب نزول قرار دیا کہ اس خاص مسئلے کا حل اور خاص موقع کی مناسبت کے ذریعہ یہ سمجھایا جاسکے کہ آیت کا تعلق لوگوں کی زندگی اور معاشرے کے مسائل سے ہے ۔

حق بات یہ ہے کہ علم اور دین دونوں ایک دوسرے کے مددگار اور انسانیت کی خدمت میں ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں ، دین انسان کو تمام علوم سیکھنے ، دنیا کے اسرار و رموز کو کشف کرنے، دنیا اور آخرت میں کامیابی کے وسائل کو جاننے کی ترغیب دیتا ہے، اس کے جواب میں سائنس دینی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے نہایت اہم مقدمات فراہم کرتی ہے، یوں سائنس اور دین مل کر انسانیت کی خدمت کا مشن آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں تاکہ انسانیت کے لئے دنیا اور آخرت دونوں کی سعادت و خوشبختی نصیب ہو سکے ۔

شہید محمد باقر الصدرؒ فرماتے ہیں کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید کی اس طرح شرح لکھی جائے کہ جو حقیقی دنیا میں موجود معاشرتی مسائل کا حل پیش کرے ۔ آپ فرماتے ہیں : «قرآن مجید کی جزئی تفسیر کرنے والوں کا تفسیری انداز زیادہ تر منفی ہوتا ہے، کیونکہ وہ قرآن مجید کے کسی خاص نص کو پیش نظر رکھتے ہیں مثلا کوئی خاص آیت یا بعض مخصوص آیات، جبکہ ان کے پاس پہلے سے کوئی مفرضہ یا خاص مسئلہ نہیں ہوتا ،لہذا وہ صرف لفظ کو دیکھ کر قرآن مجید کے مدلول کو متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف تفسیر موضوعی کو اختیار کرنے والے اپنے کام کا آغاز نص قرآنی سے نہیں کرتے بلکہ خارجی دنیا کے کسی خاص مسئلے سے کرتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے سماجی، عقائدی یا اجتماعی زندگی کے کسی خاص مسئلے پر توجہ دیتا ہے ،اب تک فکر انسانی نے اس مسئلے کے بارے میں کیا کچھ پیش کیاہے ،ان کا مشاہدہ کرتا ہے ،پھر اس معاملے میں طول تاریخ میں کس قسم کے سوالات اٹھائے گئے ہیں ،پھر یہ دیکھتا ہے کہ کن کن چیزوں کا جواب ابھی تشنہ جواب ہے، یہ سب دیکھنے کے بعد وہ قرآنی نص کو لیتا ہے، اس لئے نہیں کہ اب اپنے آپ کو نص کے سامنے ایک سامع کے طور پر پیش کرے بلکہ وہ نص قرآنی کے سامنے بیٹھ جاتا ہے تاکہ اس نص کے سامنے اس موضوع کو پیش کرے کہ جس پر بہت سے افکارکا وہ مطالعہ کر چکا ہے ۔ یوں وہ اس نص قرآنی کے ساتھ گفتگو شروع کرتا ہے، سوال و جواب شروع کرتا ہے، مفسر قرآن سے پوچھتا ہے اور قرآن اس کا جواب دیتا ہے۔ مفسر یہاں صرف خاموشی سے سننے کے لئے نہیں بیٹھا بلکہ وہ قرآن سے گفتگو کرنے بیٹھا ہے، وہ قرآن سے سوال کرتا ہے اور اسے غور و فکر کے ذریعے سمجھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دراصل یہاں مفسر کا ہدف یہ ہے کہ جو کچھ انسانی تجربات اور علمی نظریات کے نتیجے میں اس تک پہنچا ہے ان معلومات کو ذھن میں رکھتے ہوئے اس خاص نظرئیے پر قرآن مجید کا موقف معلوم کرے، یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر تفسیر موضوعی کے نتائج انسانی تجربات سے حاصل شدہ معلومات کے بہت قریب ہوتے ہیں کیونکہ وہ در اصل انسانی زندگی ہی کے کسی خاص مسئلے پر قرآن کا موقف اور الہی نظریہ کو بیان کرتے ہیں ۔

تفسیر موضوعی میں قرآن مجید اور انسانی زندگی کے مسائل ساتھ ساتھ چلتے ہیں ، اس طرز تفسیر میں تفسیر زندگی کے مسائل سے شروع ہو کر قرآن پر ختم ہوتی ہے ،ایسا نہیں ہے کہ قرآن ہی سے آغاز ہو اور قرآن ہی پر ختم ہو جائے، یوں قرآن کو در واقع انسانی زندگی کے مسائل سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو، انسانی تجربات سے کوئی سروکار ہی نہ ہو، بلکہ یہ تفسیر واقع حال سے شروع ہوتی ہے اور قرآن پر ختم ہوتی ہے کیونکہ قرآن ہر مسئلے اور نظرئے کی نسبت فیصلہ کنندہ و اور خدا وند متعال کا پیغام ہے " (مدرسۃ   القرآنیہ، ص23 ـ 30.)

یوں نص قرآنی اور سائنس کے درمیان ہمیشہ ایک تعلق اور تعاون کا رشتہ قائم رہتا ہے ۔

الشيخ مقداد الربيعي – محقق و استاد حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018