| اللہ تعالی سے رابطہ (نماز) | فکر و معرفت والی نماز
فکر و معرفت والی نماز
تفکر
قرآن مجید کی بہت سے آیات جو اپنی دلالت میں واضح ہیں انسان کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ غور و فکر کرے۔ایسی آیات قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں بکھری ہوئی ہیں جو انسان کو تخلیق میں سوچنے اور زمین و آسمان پر تدبر کرنے پر ابھارتی ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وعلى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ))(آل عمران ـ911)
جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے رب! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔
((........ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ))(الأنعام ـ151)
یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔
(( قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يوحى إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأعمى وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ))(الأنعام ـ50)
کہدیجئے: میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی ہوتی ہے، کہدیجئے: کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟کیا تم غور نہیں کرتے؟
اسی لیے اسلام ایسے عقیدے کو نا پسند کرتا ہے کہ کوئی اس وجہ سے ایمان لائے کہ یہ عقیدہ اسے وراثت میں ملا ہے۔اسلام ہر انسان سے غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہےاسلام انسان سے ایسا عقیدہ چاہتا ہے جس پر ماننے والے نے خوب غور و فکر کیا اور وہ اس کے وجدان اور بصیرت کا نتیجہ ہو۔ اسلام ایسے ایمان اور عقیدہ کو نہیں چاہتا جس میں کسی چیز کو ایسے ہی مان لیا جائے یا ایسے ہی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے اور اس عقیدے اور انسان کے درمیان کوئی ہم آہنگی اور ہم فکری نہ ہو۔
ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ اور اہلبیتؑ جب یہ چاہتے کہ وہ روح عبادت کو بیان کریں تو وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے کہ درست سوچنا عبادت ہےبلکہ اس کی نماز نماز نہیں ہے جو صرف کلمات پر مشتمل ہے ۔
امام علیؑ فرماتے ہیں سب سے افضل عبادت اللہ اور اس کی قدرت میں غور و فکر کرنا ہے۔
امام صادق ؑ فرماتے ہیں فکر کرنا نیکی اور عمل کی طرف دعوت دیتا ہے۔
امام رضاؑ نے فرمایا روزوں اور نمازوں کی کثرت عبادت نہیں ہے اللہ کے امر میں غور و فکر کرنا ہی عبادت ہے۔
ایسا کیوں ہے؟کیونکہ وہ انسان جو اللہ کی عبادت ا س میں فکر کرتے ہوئے انجام دیتا ہےاس کی عقل جلد اس اصل نماز تک پہنچ جاتی ہے جو ثمرآور اور نتیجہ دیتی ہے اور پوری زندگی کو تبدیل کر دیتی ہے۔
اسلام کا ہدف عقل کی تربیت ہےاور ہمیشہ کی رہنمائی ہے جو انسان کو حق و حقیقت کا راستہ دکھاتی ہے۔وہ مصیبت جس میں آج کا انسان زندگی بسر کر رہا ہے اس میں عقلی اور روحانی آسودگی کا نہ ہونا ہے۔
عقل جدید غفلت کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے اور کسی روشنی کو نہیں پاتی اس لیے ہمیں حواس کو حرکت دینا ہو گی ۔ انسان کو آسمان و زمین میں غور و فکر کرنا ہو گاجن سے غور و فکر کیے بغیر آرام سے گزر جاتا ہے۔اگر غور و فکر نہیں کرے گا تو کسی نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔انسان ان سے جہالت سے گزر جائے گا اور اندھا ہی رہے گا حقیقت کو نہیں دیکھ سکے گا۔حالانکہ حقیقت واضح و آشکار اس کے سامنے ہوگی مگر یہ دیکھ نہیں سکے گا۔یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید ایسے لوگوں کی شدید مذمت کرتا ہےجو عقل کو استعمال نہیں کرتے۔وہ عقل اور حواس دونوں سے کام نہیں لیتے ارشاد باری تعالی ہے:
((وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ))(الأعراف ـ179)
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔
تاریخ میں یہ واقعہ آیا ہے کہ ایک شخص صاحب فراش تھا اس نے سر اٹھایا آسمان اور ستاروں پر نظر ڈالی پھر کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ ان کے لیے رب اور تخلیق کرنے والا ہے اور اے میرے اللہ میری مغفرت فرما اللہ نے اس کی طرف دیکھا اور بخش دیا۔
اسلام جس غور و فکر کی بات کرتا ہے وہ کسی محدود دائرے میں رہ کر غور و فکر کرنا نہیں ہے کہ انسان کچھ موضوعات پر سوچے اور کچھ پر نہ سوچےبلکہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں سوچنے کی بات کرتا ہے۔اسی طرح اسلام پوری کائنات میں غور و فکر کی بات کرتا ہے کیونکہ جس طرف بھی غور و فکرکریں گے اس کی نتیجے میں معرفت کے مراتب طے ہوں گے اور انسان سچے ایمان تک پہنچ کر آخرت کی معرفت حاصل کر لے گا اور یہ معرفت دنیا کی معرفت سے ملی ہو گی۔اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسانی بساط میں جتنا ہے اتنا سوچ لے اتنا غور و فکر کر لے اس میں صرف وہی قید ہے کہ انسان کی طاقت محدود ہے وہ سب لگا کر سوچ لے اسلام اس سے روکتا نہیں ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ ))(ق ـ6)
کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا اور مزین کیا؟ اور اس میں کوئی شگاف بھی نہیں ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((....... كَذلِكَ يُبيِّنُ اللّه لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ)) (البقرة ـ 219)
اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے ارشاد ہوتا ہے:
((إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ)) (فاطر ـ 28)
اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، معاف کرنے والا ہے۔
وہ شخص جو اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اس کے حکم کے مطابق انجام دیتا ہے بہت جلد وہ اللہ کی عبادت سے مانوس ہو جاتا ہے اور بعض اوقات اس کی عادت بن جاتی ہے۔ہم اس کو عبادت گزار نہیں کہتے بلکہ یہ اس کی عادت ہوتی ہے کیونکہ نماز اس کے دل پر اثر نہیں ڈال رہی ہوتی اور نہ ہی اس فرد کی روح میں داخل ہوئی ہوتی ہے۔نماز ایسی عبادت ہے جو خاص پیغام اور اہداف رکھتی ہے یہ انفرادی،اجتماعی اور امت کی سطح کے پیغام کی حامل ہے۔
وہ نماز جو فقط عادت کے طور پر انجام دی جا رہی ہے وہ نتائج سے خالی ہوتی ہے اس میں کسی قسم کی تربیت کے کوئی آثار نہیں ہوتے۔ایسا شخص جو عادت کے طور پر نماز ادا کر رہا ہے اس کا ایمان کسی لمحے جا سکتا ہے اور ساتھ ہی اس بشری کمزوری کی وجہ سے نماز بھی چلی جائے گی ایسا ہو گا جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔یہ اس لیے ہوتا ہے کہ کوئی شخص نماز کو خاندان کی طرف سے مسلط کردہ ایک عمل کے طور پر انجام دے رہا ہوتا ہےیا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی مشکل پریشانی میں کسی تکلیف سے نجات کے لیے ایک فوری جذباتی ردعمل کے طور پر انجام دے رہا ہوتا ہے۔
اس طرح کا بندہ نماز کے نظام تربیت میں داخل ہی نہیں ہوا ہوتا کیونکہ اس کا مسلسل نماز انجام دینا بھی تقلید،خوف اور لالچ میں ہوتا ہے۔اسلام میں اس طرح کے مقلدین محض کی مذمت کی ہے جو اپنے عقیدے کو ایک وراثت کے طور پر ہی لے کر چلتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے ایسا ہی ہوتے دیکھا تھا۔وہ اپنے آباء و اجداد کے دین پر ہوتے ہیں وہ اگرچہ گمراہی اور ضلالت پر ہی کیوں نہ ہو۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ))(البقرة ـ170)
۱۷۰۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آبا و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔
((وكذلك مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ))(الزخرف ـ23)
اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
بعض ایسے لوگ آئے جو دین کا نام لیتے ہیں انہوں نے اس بات کو موضوع گفتگو بنایا کہ نماز کی صرف شکل و صورت ہے۔وہ صرف ظاہری نماز کو ادا کرنے کا کہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نماز کو چھوڑنے والوں کے لیے جہنم کی وعید سنائی ہے اور جو لوگ نماز کو ادا کرتے ہیں ان کے لیے جنت اور اس کی نعمتوں کا وعدہ کیا ہے۔اس طرح کچھ نوجوان نماز کو ایک ایسا ذریعہ سمجھتے ہیں جس سے وہ اپنی نیکیاں لکھوا سکتے ہیں او ربرائیوں کو مٹا سکتے ہیں۔اس طرح کے لوگ نماز کے ساتھ انسانیت،معاشرے اور دل کی زندگی کا تعلق قائم نہیں کر پاتے۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خدا کے ساتھ ہمارا رشتہ کیسا ہے ؟ اور یہ رشتہ ہی وہ بنیاد ہے جو نجات کا ذریعہ ہے اور یہ ہمیں دوسرے مذاہب سے الگ کرتا ہے۔
یہاں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم نبی اکرمﷺ کی اس وصیت کا ذکر کر دیں جو آپﷺ نے جلیل القدر صحابی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے کی تھی آپ ﷺ نے فرمایا:اے ابوذروہ مختصر دو رکعتیں جن میں غور و فکر ہو پوری رات اللہ کے قیام سے بہتر ہے جس میں حضور قلب نہ ہو۔
امام ؑ سے سوال کیا گیا کہ غور وفکر کی حقیقت کیا ہے؟آپ نے فرمایا: تم کھنڈرات اور ویران گھروں سے گزرتے ہو اور کہتے ہو: تمہارے خزانے کہاں ہیں، تمہارے مکین کہاں ہیں؟
اسی حقیقت کی وجہ سے ہم نے یہ موقف اختیار کیا ہے اور ہمارا نماز کی طرف دعوت دینے کا طریقہ یہ ہے کہ غور و فکر والی نماز کی طرف آو اور ہمارا نعرہ ہے کہ پہلے غور و فکر کرو اور پھر نماز ادا کرو۔