| طبیعت اور ماحولیاتی حقوق | فطرت اور طبیعت کا تحفظ واجب ہے
فطرت اور طبیعت کا تحفظ واجب ہے
فطرت اور طبیعت کا تحفظ واجب ہے
اسلام فطرت کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ کیونکہ یہ فطرت خود انسان اور اس کی خدمت کے لیے تسخیرکی گئی تمام چیزوں کی جائے سکونت ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس نظام فطرت پر کوئی منفی تبدیلی دکھائی دیتی ہے تو اسے انسان ہی کے کسی غلط کام یا فحش حرکت کا نتیجہ قرار دیا جانا چاہیے۔ کیونکہ قرآن کریم خشکی اور پانی دونوں میں وقوع پذیر ہونے والے فسادات کو انسانی برے اعمال کا ماحصل قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:
(ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ )(سورہ روم آیت 41)
لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔
(وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ )(سورۃ البقرہ آیت 205)
اور جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو سرتوڑ کوشش کرتا پھرتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کر دے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
اسی لئے دین مقدس اسلام نے چند قوانین اور ضوابط واجب قرار دیئے تاکہ ان قوانین کی پابندی کر کے انسان اپنے آپ سے اس فطرت کی خرابی کا الزام دور کر سکے۔اسلام فطرت کے تحفظ کو ہی زندگی قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب یعنی قرآن کریم پکار پکار کر کہتی ہے کہ فطرت اور طبیعت کا تحفظ انسانی زندگی اور اس کے استعمال کے لیے ناگزیر ہے چنانچہ ارشادہوا
(إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) (سورۃ البقرہ آیت 164)
یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
اسی طرح قرآن کریم اس بات کی بھی تاکید کرتا ہے کہ فطرت کے گوناگوں رنگ اور متنوع اقسام سب کی سب خداوند حکیم کی تسخیر کردہ ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ہماری اس زمین کے خشکی پر مشتمل حصے کے علاوہ دریا، سمندر اور اس کے اندر پائی جانے والی چیزیں، فضا اور اس میں موجود چیزیں تمام مخلوقات کے لئے خاص کر تمام مخلوقات کے سردار انسان کے لیے مسخر کیں ۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:
( هُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)(سورۃ النحل آیت 14)
اور اسی نے (تمہارے لیے) سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنتے ہو اور آپ دیکھتے ہیں کہ کشتی سمندر کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے تاکہ تم اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید تم شکر گزار بنو۔
(وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً ( سورۃ الاسراء آیت 70)
اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی
(وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ)( سورۃ الاعراف آیت57 )
اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابر گراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔
(وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا)(سورۃ الرعد، آیت:۳)
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے ۔
چونکہ اس کائنات کی فطرت خالصتاً اللہ تعالی کی ملکیت ہے اس کا مالکِ کل صرف اللہ تعالی ہے اور انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے ۔ پس فطرت پر اسے تصرف کا حق اس وکیل کی طرح ہے جو کئی شرائط کے ساتھ اس سے استفادہ کرنے کا پابند ہے۔ یعنی اس پر واجب ہے کہ انہی شرائط کی پابندی کرے اور انہی کے مطابق معاملہ کرے۔ لہٰذا دین مقدس اسلام نے اسے ہدایت دی ہےکہ وہ زمین کو زندہ کرے، اس میں زراعت کرے اور پانی کے معاملے میں اسراف سے پرہیز کرے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص بہتی نہر کے پاس بھی بیٹھا ہو تو بھی اسے پانی ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسلام نے اسراف اور فضول خرچی کو فطرت میں خرابی پیدا کرنے کی مانند قرار دیا ہے اور اسلام ہر کام میں میانہ روی کا حکم دیتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا:
( ۔۔۔ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ )(سورۃ الاعراف آیت31 )
کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو، یقینا ً اللہ اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (سورۃ الاسراء آیت 27)
فضول خرچی کرنے والے یقینا شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔