6 ربيع الثاني 1446 هـ   9 اکتوبر 2024 عيسوى 2:15 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | طبیعت اور ماحولیاتی حقوق |  اسلام زمین کو آباد کرنے اور اسے آباد رکھنے کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟
2021-06-17   1018

اسلام زمین کو آباد کرنے اور اسے آباد رکھنے کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟

قرآن کریم میں منظم انداز میں ہماری مادرِ اول (یعنی زمین) کے بارے میں آیات بیان ہوئی ہیں۔ ہماری اصطلاح میں زمین کو دھرتی ماں کہا جاتا ہے کیونکہ یہی ہماری پیدائش کی جگہ ہے۔ نیز آنے والی پہلی مخلوق یعنی انسان کی تخلیق  مٹی ہی سے کی گئی تھی۔ لہذا انسانی جسم کا مادہ یہی زمین ہے۔ دوسری جہت سے دیکھا جائے تو زمین کو اس لیے بھی ماں کہا جاتا ہے کہ یہی ہمارے وجود کو اٹھائے ہوے ہے۔ انسان کی زندگی میں بھی زمین ہی اسے اٹھاتی ہے اور موت کے بعد بھی  یہی زمین اسے اپنی گود میں اس وقت آرام سے سلاتی ہے جب انسان زمین میں دفن ہوتا ہے۔ لہذا زمین کو ماں کہنا ہر لحاظ سے بجا ہے۔ انسان اور زمین کا یہی ماں بیٹے کا رشتہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اس زمین کو آباد کرے اور اسے ہمیشہ ایک دائمی وطن کی مانند آباد رکھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی عزوجل کا فرمان عالیشان بھی ہے:( هُوَاَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اسۡتَعۡمَرَکُمۡ فِیۡہَا) (سورۃ الھود آیت 61) اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا۔

اگر ہم  دقت سے دیکھے تو یہاں (استعمار) زمین کی آبادکاری سے پہلےلفظ تسخیر کا مفہوم  ذکر ہوا ہے کہ  اللہ تعالی نے اس زمین سمیت تمام مخلوقات کو انسان ہی کی مصلحت کے لئے خلق فرمایا ہے۔ البتہ یہ شرط بھی رکھی کہ انسان اس زمین اور باقی تمام مخلوقات سے غلط فائدہ نہ اٹھائے اور انہیں تباہ نہ کرے۔ بلکہ اس زمین کو آباد کرے اور اس کے فطری حسن کو ہمیشہ محفوظ رکھے۔

چنانچہ ارشاد ہوا: (وَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ)  (سورۃ الجاثیہ آیت 13)  اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا۔

(سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ) (سورہ ابراہیم 32)

اور کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور دریاؤں کو بھی تمہارے لیے مسخر کیا۔  اور اسی نے ہمیشہ چلتے رہنے والے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا اور رات اور دن کو بھی تمہارے لیے مسخر بنایا۔

ایک اور جہت سے قرآن کریم خصوصی تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ تعالی کی تمام مخلوقات انسان کی مصلحت کی خاطر خلق کی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا ہے

(وهو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا) (سورۃ البقرہ 29)

وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا۔

اللہ تعالی نے انسان کو زمین کی آبادکاری کا حکم دینے سے پہلے اسے زمین کی اصلاح کرنے کی قدرت اور اس میں موجود تمام اشیا کو تسخیر کرنے کی طاقت عطا فرمائی اور اس زمین اور اس میں موجود تمام مخلوقات سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے ذرائع اور وسائل بھی عطا فرمائے تاکہ اس زمین کو ہمیشہ آباد رکھنے کا فریضہ بخوبی انجام پائے اور زمین بھی اپنے تمام تر فوائد اور ثمرات کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے۔

زمین کو آباد کرنے کا واضح ترین سلیقہ و طریقہ  یہ ہے کہ اس کی تمام تر صلاحیتوں اور امکانات سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ مثلا اس کے اندر چھپی ہوئی معدنیات تلاش کی جائیں اور اس کی سطح پر ہر ممکن طریقے سے زراعت کی جائے۔ اس طرح انسانی عقل و فکر کا بھرپور استعمال کرکے اس میں ہرممکن اصلاح لانے کی کوشش کی جائے اور اس میں ایسی نت نئی ایجادات اور تبدیلیاں لائی جائیں جو اصل خلقت کے خلاف نہ ہوں اور اس نظام کو خراب کرنے کا باعث نہ بنیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی دین کا فلسفہ صرف چند احکام اور رسومات تک محدود نہیں ہوتا ، خاص کر  الہی ادیان کا تعلق انسان کی عمومی ترقی و تکامل سے ہے۔  لہذا فلسفہ دین کی تکمیل اس وقت  ممکن نہیں جب تک تمام دینی احکام اور شعائر کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ زمین پر انسانی زندگی کے لوازمات اور خود زمین کی آبادکاری پر توجہ نہ دی جائے ۔ پس زمین کی آبادکاری وہ اہم فریضہ ہے  کہ  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت سے سخت حالات میں بھی یہ فرض نبھانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

 "إن قامت الساعة على أحدكم وفي يده فسيلة يريد أن يغرسها فليغرسها ولا يقول قد قامت الساعة" (کنز العمال)

اگر قیامت کا دن بھی آن پہنچے اور کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو جسے وہ اگانا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ اگائے  اوریہ نہ کہے کہ اب تو قیامت واقع ہوچکی ہے۔

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین برحق امام علی مرتضی علیہ السلام نے فرمایا:

"اعمل لدنياك كأنك تعيش ابدا، واعمل لأخرتك كأنك تموت غدا"

اپنی دنیا کے لئے ایسے کام کرو گویا تم ہمیشہ کے لئے زندہ رہو گے اور اپنی آخرت کے لئے ایسے کام کرو جیسے کل ہی تمہاری موت واقع ہونے والی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے  کہ انسان کو دنیا میں ایک متوازن زندگی گزارنی چاہیے جس میں اس کی دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی دونوں سے متعلق ایک فکری، روحانی اور عقیدتی توازن پایا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان فقط دنیا داری میں مشغول ہو اور صرف اسی مادی زندگی کے لئے خود کو فنا کرے،یا فقط آخرت کو آباد کرنے کی امید پر تمام دنیاوی امور کو معطل کرے اور دنیاوی زندگی تباہ کرے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دونوں امور کو مناسب انداز میں چلائے یعنی دنیا بھی آباد ہو اور آخرت بھی کمائے اور یہ وہی نظریہ ہے جسے اسلام نے پیش کیا ۔ اسلام میں نہ بالکل رہبانیت کی گنجائش ہے، اور نہ ہی صرف دنیا میں غرق ہونا درست ہے۔ "لا رهبانية في الإسلام". 

اسلام میں دنیا سے مکمل کٹ کر رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018