10 شوال 1445 هـ   18 اپریل 2024 عيسوى 12:45 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  اسلامی فلسفہ پر ایک طائرانہ نظر
2021-02-23   1840

اسلامی فلسفہ پر ایک طائرانہ نظر

مختصر تاریخ:

فلسفہ کی تاریخ اسلام میں اسلامی علوم کی تاریخ کا جزء شمار ہوتی ہے ،خواہ وہ علوم جن کو مسلمانوں نے ہی متعارف کرائے جیسے علم فقہ ، اصول فقہ ، تفسیر، حدیث ،درایہ ، رجال ، صرف و نحو ، معانی ، بدیع اور علم بیان وغیرہ یا پھر وہ علوم کہ جن کو عالم اسلام کے باہر سے ترجمے کئے گئے ،اور پھر وہ اسلامی علوم کا حصہ بن گئے ، جیسے علم طب ، نجوم ، حساب ،منطق اور فلسفہ وغیرہ ، ۔

فکری زندگی ...

مسلمانوں کی فکری زندگی کو سمجھنے کے لئے ہمیں رسول گرامی اسلام پر وحی نازل ہونے کے دور سے ہی مسلمانوں کی فکری زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا ۔ نیزاس بات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں بعض عقلی وفکری مسائل کو بیان کیا گیا ہے ۔ قرآن نے منطقی و قیاسی استدلال پیش کیا ہے اور ساتھ ساتھ تعقل و تفکر اور تدبر پر بہت زور بھی دیا ہے ۔

اسی طرح رسول اکرم صل اللہ علیہ ولہ وسلم اور امیر المؤمنین علیہ السلام سے جو احادیث ہم تک پہنچی ہیں ان میں بھی گہری ، دقیق اور عقلی ابحاث ہمیں ملتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں ہی اسلامی معاشرے میں علمی انداز فکر اور عقلی ابحاث کا سلسلہ رائج تھا ۔

اس زمانے میں رائج علمی فضا پر دلالت کرنے کے لئے جبر واختیار ، مشیئت الہی ، نظریہ تفویض ، کلام خدا ، خلق قرآن جیسے عقلی و استدلالی ابحاث کافی ہیں کہ جن کو مسلمانوں نے اسلامی دور کے ابتدائی ایام میں زیر بحث لائے ۔ 

فلسفی زندگی ...

ظہور اسلام کے دو صدیوں بعد اسلامی معاشرے میں ایک خاص علمی وعقلی فضا عام ہوئی ،کہ جسے ہم فلسفی زندگی سے تعبیر کرتے ہیں ،یونانی اور اسکندرانی علوم کے عربی زبان میں ترجمے ہونے لگے ، ترجمے کا یہ دور زیادہ طولانی نہ ہوا دوسری ، تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں یہ سلسلہ جاری رہا ،اگرچہ تیسری صدی اس سلسلے کے عروج کی صدی تھی ، اس کے بعد یہ سلسلہ زوال پزیر ہوا کیونکہ اس دور سے مسلمانوں نے خود تالیف و تصنیف اور تحقیق کا آغاز کر دیا ۔یعقوب ابن اسحاق کندی متوفی 260 ہجری پہلے مسلمان فلسفی شمار ہوتے ہیں کہ جس نے فلسفے میں اپنے بہت سے مولفات و آثار دنیا کو دئے

فلسفہ اسلامی کے مراحل :

جب اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوا اور مختلف اقوام اسلام میں داخل ہوئیں تو بہت سے علمی مراکز بھی اسلام کے دائرہ اثر میں آیا ،یوں علماء کے درمیان افکار و علوم کا تبادلہ ہوا جس سے ثقافتی نمو خصو صا فلسفہ کے میدان میں ترقی میں بڑی مدد ملی ۔

لیکن  زبان اور مترجمین و مؤلفین کے درمیان مشترکہ اصطلاحات کے فقدان کا مسئلہ برقرار رہا ، اسی طرح فلسفہ مشرق اور مغرب کے درمیان بنیادی اختلاف اپنی جگہ قائم رہا ، جس نے فلسفہ کی تعلیم کو ایک مشکل کام بنائے رکھا ۔ مگر مختصر مدت میں ہی اسلامی دنیا میں ابی نصر فارابی ، اور ابن سینا جیسے نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں کہ جنہوں نے اپنی ناقابل فراموش کوششوں سے اس زمانے کے فلسفی افکار و نظریات کا علم حاصل کیا  نیز وحی الہی اوردینی رہبروں کی احادیث کی زیر سایہ نشو نما پانے والی اپنی بے مثال صلاحیتوں اور استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے ان فلسفی افکار ونظریات میں تحقیق کا عمل انجام دیا ،اور بالاخر ایک فلسفی نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے کہ جوافلاطون ،ارسطو اور ان کے ہم فکر فلسفیوں کے افکار اور ان افکار کا امتزاج تھا کہ جو خود ان مسلمان فلاسفر نے روشناس کرائے تھے ، اگرچہ ارسطوی فلسفہ اور فلسفہ مشائیہ کا رنگ اس نطام پر بہت گہرا تھا ۔

پھر یہ فلسفی نظام بعد میں آنے والے مسلم فلاسفر جیسے غزالی ، ابو البرکات البغدادی ،اور فخر رازی وغیرہ کے تنقیدی جائزے سے گزرا ،جب کہ اس کے مقابل سہروردی نے ایک جدید فلسفی مذہب کی بنیاد رکھی جو کہ مذہب اشراقی کے نام سے معروف ہوا ، جس میں سہروردی نے قدیم ایرانی حکماء کے آراء و نظریات سے استفادہ کیا اور ان کو افلاطون اور افلاطونی فلسفے کے حامی فلاسفر کے نظریات سے ملا کر یہ فلسفی نظام تشکیل دیا ،اسی لئے اس کے فلسفی نظام پر فلسفہ افلاطون کا اثر گہرا تھا ۔  اسی کے ساتھ ہی اسلامی فکری میدان میں افلاطونی مکتبہ فکر اورارسطوئی مکتبہ کے درمیان ایک جدید فلسفی کشمکش کا دور شروع ہوا جس نے اسلامی فلسفی نظام کو بہت ترقی ملی ۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عظیم فلاسفر پیدا ہوئے جیسے شیخ نصیر الدین طوسی ، محقق دوانی ، سید صدر الدین دشتکی ، شیخ بھائی ، میر داماد جنہوں نے اپنے روشن اور تازہ افکار سے اسلامی فلسفہ کو مالا مال کر دیا ،یہاں تک کہ یہ سلسلہ صدر الدین شیرازی المعروف ملا صدرا تک پہنچا جہنوں نے اپنی بے مثال فکری صلاحیتوں کے ذریعے ایک جدید فلسفی نظام مرعارف کرایا جو کہ پہلے ذکر شدہ تمام فلسفی مکاتب کے نظریات ایسا مرکب تھا کہ جس میں گہرے اور قیمتی فسلفی افکار پر  قرآن اور روایات نور بھی شامل تھا ،اس فلسفی نظام کو حکمت متعالیہ کا نام دیا گیا ۔ 

فلسفی مسائل :

یہ جاننے کے بعد کہ فلسفہ کا موضوع بطور مطلق" وجود"یا "موجود "ہے ۔ اور اسلامی دنیا میں فلسفے کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد یہ مناسب لگتا ہے کہ ہم اختصار کے ساتھ یہ بھی جان لیں کہ وہ کون سے مسائل ہیں کہ جن سے اس علم میں بحث کی جاتی ہے ۔

فلسفہ کے مسائل وجود یا موجود کے گرد ہی گھومتے ہیں ۔ اور یہ وجود جیسےعلم طب کی نسبت انسانی جسم ہے ، یا علم ریاضیات میں عدد ہے ۔ علم فلسفہ کے تمام مسائل کا محور وہی وجود ہے ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ فلسفہ کا موضوع کوئی خاص وجود نہیں ہے ،کیونکہ موجودات جزئیہ بے شمار ہیں اور لا محدود ہیں ۔ پس فلسفہ بطور کلی وجود سے بحث کرتا ہے ، اس بات کو مزید واضح کرنے کے لئے فلسفی مسائل کے اقسام کو ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

1۔ وجود اور اس کے نقطئہ مقابل یعنی ماہیت اور عدم سے متعلق مسائل ، عالم واقع و خارج میں تو وجود کے علاوہ کوئی شئی موجود نہیں ہے ، لیکن انسانی ذھن – جو کہ صورت و مفاہیم کوتخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے – وہ  وجود کے مقابلے میں مفہوم ماھیت اور مفہوم عدم کا تصور کر سکتا ہے ۔ یوں اسلامی فلسفہ میں بعض مسائل ایسے ہیں کہ جو وجود و عدم سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض دیگر مسائل وجود اور ماھیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔

  وجود کے مساوی اشیاء کے مسائل ۔ فلسفے میں بعض مسائل ایسے ہیں کہ جو خود وجود سے متعلق نہیں ہے بلکہ ایسے امور سے متعلق ہیں کہ جن سے فلسفہ میں بحث کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ اشیاء خود وجود کے مساوی ہیں ۔ مثلا یہ مسئلہ کہ "ہر وجود ایک شئی ہے " اور ہر شئی ایک وجود ہے ، پس شئی ہونا وجود کے احکام میں سے ہے اور شئی وجود کے مساوی ہے ۔ اسی طرح عینیہ اور خارجیہ بھی وجود کے مساوی ہیں ، یعنی ہر ہر موجود خارج میں وجود رکھتا ہے ،اور جو بھی خارھ مین موجود ہو اس کا وجود ہوتا ہے ۔ اسی طرح اصالہ بھی وجود کے مساوی ہے ،کیونکہ ہر وجود اصیل ہے اور ہر اصیل موجود ہے ، اسی طرح وحدت بھی وجود کے مساوی ہے پس کل وجود واحد ہے اور ہر واحد وجود ہے ۔ 

  وہ مسائل کو وجود سے اخص شمار ہوتے ہیں ۔ یہ در اصل وجود کی تقسیمات کی بحث ہے ۔ چونکہ بعض صفات و مسائل وجود کے برابر تو نہیں ہیں لیکن ان کے مقابل ایک شئی وجودی ہے ۔ مثلا موجود کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے ،موجود بالفعل اور موجود بالقوہ ، پس بالفعل اور بالقوہ دونوں ملکر وجود کے مساوی ہیں ۔ پس بعض موجودات فعلی ہیں جن کے مقابلے میں بعض موجودات بالقوہ ہیں ۔اسی طرح بعض موجودات بالقوہ ہیں بعض دیگر موجودات کے مقابلے میں کہ جو فعلی ہیں ۔ مثال کے طور پر نطفہ اور انسان کو لے لیں ،نطفہ بالقوہ انسان ہے اور انسان نطفے کی فعلی صورت ہے ۔ لہذا نطفہ انسان کی نسبت بالقوہ ہے ۔اور انسان موجود بالفعل ہے اس بالقوہ کی نسبت ، اسی طرح یہ بحث کہ موجود یا خارجی ہے یا ذھنی ، وجود یا واحد ہے یا کثیر ، وجود ممکن ہے یا واجب ، حادث ہے یا قدیم ، ثابت ہے یا متغیر وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ تقسیمات وجود کی تقسیمات اولیہ ہیں، یعنی وجود کو از حیث وجود جب دیکھیں گے تو یہ تقسیمات بنتی ہیں ۔ فلسفہ وجود کے تقسیمات ثانویہ سے بحث نہیں کرتا ، جیسے وجود سفید یے یا کالا ، چھوتا ہے یا بڑا ،مفرد ہے یا زوج، وغیرہ  وغیرہ ، یہ وجود کی تقسیمات ثانویہ ہیں کیونکہ یہ وجود بما ھو جسم تقسیمات ہیں نہ کہ بما ھو موجود ۔

4۔ ان کلی قوانین کے مسائل جو وجود پر حاکم ہیں ، جیسے قانون علیت ، کیونکہ عالم وجود مکمل طور پر نظام علت و معلول کے تابع ہے ، اسی طرح نظام علت و معلول پر حاکم قاعدہ ضرورت ، تقدم و تاخر ، اور معیت جو کہ وجود کے مراتب ہیں ۔

 5۔ وجود کے طبقات کو ثابت کرنے کے مسائل ۔ یا دوسرے لفظوں میں عوالم الوجود ۔

مسلمان فلسفی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وجود کے چار کلی عوالم ہیں ۔ 

1۔ عالم طبیعت ،جسے عالم ناسوت کہتے ہیں ، یہ عالم مادہ و حرکت ،اورعالم  زمان و مکان ہے ، یعنی عالم دنیائے محسوسات ۔

2۔ عالم مثال جسے عالم ملکوت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، یہ عالم طبیعت سے مافوق عالم ہے ، اس کی شکل اور ابعاد تو ہیں مگر حرکت ، زمان اور تغییر سے ماوراء ہے ۔

3۔ عالم عقل جسے عالم جبروت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یہ عالم عقلی ہے جس میں معنی تو ہوتا ہے مگر صورت وغیرہ سے خالی ہے ، یہ عالم ملکوت سے بلند مرتبہ ہے۔

4۔ عالم الالوھیہ  جسے عالم لاھوت کہا جاتا ہے ، جو کہ عالم احدیت ہے ۔

ہم یہ ملاحظہ کرتے ہیں کہ ان تمام کے تمام عوالم کے مسائل کا تعلق وجود سے ہے، لیکن بعض کا تعلق عالم طبیعت اور اس کے مافوق عوالم  سے ہے، یہ وہ مسائل ہیں جن کا تعلق وجود کے عالم لاھوت سے علام طبیعت تک کے سیر نزولی سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر علام طبیعت سے اوپر والے عوالم کی طرف سیر صعودی سے تعلق رکھتے ہیں۔ خصوصا وجود انسان کی نسبت، کہ اس سلسلے  کو معاد سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور اس بحث کو اسلامی فلسفہ میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے خصوصا صدر المتآلھین ملا صدرا کے فلسفہ حکمت متعالیہ میں اس سے بہت بحث کی گئی ہے ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018