10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 9:21 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | تہذیب اور اقوام |  سلطنت مملوک
2021-01-29   2428

سلطنت مملوک

ممالیک ،جنگجو سپاہیوں کی ایک جماعت تھی۔ یہ جماعت ان مسلح غلاموں پر مشتمل تھی جس کو عباسیوں نے مغربی ایشیاء کے علاقے قفقاز اور ترکمانستان سے غلام بنا کر لایا تھا۔اور انہیں اپنے اور لشکر کے اہم کمانڈروں کی حفاظت پر مامور کیا تھا۔یہ سلطنت ۱۲۵۰ عیسویں میں قائم ہوئی اور ۲۵۰ سالوں تک قائم رہی، اس سلطنت کا مرکز مصر میں تھا۔ عراق اور شام کے علاوہ جزیرہ عرب کے کچھ حصے بھی اس سلطنت میں شامل ہوگئے تھے۔

اس سلطنت کے دو دارالحکومت تھے۔ایک بحری مملوک کا دارالحکومت تھا جس میں باالترتیب  سلطان عز الدین ایبک ،سلطان قطوز، ظاہر بیرس ، منصورقلاؤن اور ناصر محمد بن قلاؤن نے حکمرانی کی۔دوسرا برجی مملوک  کا دارالحکومت تھا، اس کی حکمرانی ، برقوق، فرج، اینال، اشرف سیف الدین برسبائی ، قانصوہ غوری اور طومان بے نے کی۔

اس سلطنت کا بانی عزالدین ایبک تھا۔ وہ بحری مملوک کےبادشاہ تھے۔ بحری مملوکوں نے تقریباً 135 سال تک حکومت کی۔ ان کی حکومت ۱۲۵۰   عیسویں سے ۱۳۸۲عیسویں تک رہی۔ انہوں نے اپنی اس حکومت کو ’’ بحریہ‘‘ کا نام دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایوبی سلطان نجم الدین نے دریائے نیل کے قریب قلعہ روضہ میں اپنی حکومت سے مربوط کاموں کو قائم رکھنے کے لئے ان لوگوں کو وہاں آباد کیا تھا۔

بُرجی مملوک کی سلطنت جسے ’’ جرکسیہ‘‘ یا ’’ شرکسی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس سلطنت کو (بُرجیۃ) نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے بانی منصور قلاوون نے اپنی حکومت سے وابستہ تقریباً چار ہزار (۴۰۰۰ ) افراد کو قلعہ جبل کے پل کے آس پاس میں آباد کیا تھا۔(بُرج عربی میں پُل کو کہا جاتا ہے) یہ حکومت بھی تقریباً ۱۳۹ سال قائم رہی۔

جب ایوبی سلطنت میں آمرانہ حکمرانی اور ڈکٹیٹرشپ کی ابتدا ہوئی ،تو یہ سلطنت وجود میں آگئی۔ ان کو عین الجالوت کے مقام پر جب منگولوں کے ساتھ  لڑی گئی ایک جنگ میں اپنی شجاعت کی ایک تاریخ رقم کرنے کا موقع ملا۔

جب سلطنت مملوک کو عروج ملا تو دارالحکومت قاہرہ نے خوب ترقی کی اور مشرق و مغرب کے درمیان ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا۔لیکن مملوکوں اور ان کی سلطنت کا عروج بھی آخر کار زیادہ دیر کے لیے باقی نہ رہ سکا۔ اور یہ سلطنت بھی اپنے زوال کی طرف بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ عثمانی سلطان سلیم اول نے مملوکوں کو شکست دی اور مصر، شام اور حجاز کے ساتھ عراق کو بھی سلطنت عثمانی میں شامل کر دیا گیا۔

مملوکوں کی سلطنت کا آغاز

مملوکوں کی سلطنت  کا آغاز سلطان ایوب کی وفات سے ہی ہوا تھا۔یہ ایک ایسا وقت تھا جب مصر میں فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کی قیادت میں ایک صلیبی لشکر جرار کے ساتھ جنگ چھڑ گئی تھی  جو قاہرہ کے نزدیک دمیاط شہر پر چڑھائی کرنا چاہ رہا تھا۔دوسری طرف ۱۲۵۰  عیسویں میں توران شاہ اور اس کے خاندان نے سلطان ایوب کی بیوہ شجرۃالدر سے ایوبی سلطنت تقسیم کرنے پر زور دے کر منانے کی کوشش کی کہ اس طرح سلطنت کو سنبھالنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔لیکن اس موقع پر سلطنت کی تقسیم بندی کرنے کے بجائے سلطان ایوب کی بیوہ شجرۃ الدر نے سلطان ایبک سے شادی کرلی اور اپنی جگہاور مسند پر سلطان ایبک کو بٹھا دیا۔
بغداد میں ۱۷۰۲ء میں عثمانیوں کی حکومت تھی۔ عثمانی سلطنت کے مشیروں نے مملوک سلطنت کے افراد کو خصوصی دعوت دے کر اپنی حکومت میں کام کرنے کا موقع دیا۔لیکن تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد یہ مملوک افسران اس قدر طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ انہوں نے  سلطنت عثمانی سے صرف  آزادی کا اعلان نہیں  کیا بلکہ قبائلی بغاوتوں کا سرکچلتے ہوئے بغداد کے حکمران بھی بنے۔تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد عثمانی سلاطین نے ۱۸۳۱ عیسوی میں داوود پاشا کوقتل کرکے بغداد کو مملوکوں سے آزاد کر کے دوبارہ  اپنی حکومت قائم  کی ۔

اگر  ہندوستان کی بات کی جائے تو یہاں ۱۲۰۶  عیسوی میں مملوکوں کی حکومت،  سلطان قطب الدین ایبک کے ذریعے پہنچی اور ۱۲۹۰ ؁ عیسویں تک قائم رہی۔ سلطان قطب الدین ایبک نے جونہی ہندوستان میں قدم رکھا ، یہاں کے بادشاہ سلطان شہاب الدین محمد غوری  کے نزدیک ایک بلند مقام حاصل کرلیا۔ ۱۲۰۶ عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری وفات پاگئےاور ان کے بعد ان کی سلطنت کا کوئی وارث نہ ہونے کی وجہ سے پوری سلطنت سلطان قطب الدین ایبک کے ہاتھ میں آ گئی۔انہوں نے پہلے لاہور کو اپناپایہ تخت بنایا پھر اسے دہلی منتقل کیا۔قطب الدین کی وفات کے بعد سلطنت ان کے داماد شمس الدین التمش کے ہاتھ میں آئی۔ پھر اس کے بعد ہندوستانی مملوکوں نے حکومت کی۔

ابتداء میں سلطان ناصر الدین کی فوج کے کمانڈر سلطان غیاث الدین بلبن نے حکومت کی پھر ان کے پوتے معزالدین کیقباد نے اقتدار سنبھال لیا۔ اور اس خاندان کا بھی اختتام بہار اور بنگال میں خلجی خاندان کے بانی فیروز خلجی کے ہاتھوں ہوا۔سلطنت مملوک نے مصر اور دیگر علاقوں میں اسلامی مذہب کے نام پر حکمرانی کی۔ اس سلطنت نے پچاس لاکھ کلومیٹر سے زیادہ وسیع زمین کو اپنی سلطنت میں شامل کر کے چار کروڑ سے زیادہ لوگوں پر حکومت کی ۔اس سلطنت میں رائج کرنسی مملوک دینار تھی اور اس کی سرکاری زبان عربی تھی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018