6 ربيع الثاني 1446 هـ   9 اکتوبر 2024 عيسوى 1:37 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقدس مزارات، اور تاریخی مقامات |  مسجد سہلہ: آخری نمائندہ الٰہی کے قیام، اورعالمی حکومت الٰہیہ کا مرکز
2020-12-29   1518

مسجد سہلہ: آخری نمائندہ الٰہی کے قیام، اورعالمی حکومت الٰہیہ کا مرکز

مسجد سہلہ اسلام کی بڑی، قدیم ترین اور اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اس کی تعمیر اور بنیاد پہلی ہجری میں ہی رکھی گئی اور یہ ابھی تک اسی شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے، اور یہ لاکھوں زائرین  کی زیارت گاہ بھی ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس کی بڑی منزلت ہے اسی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں اور حصوں سے لوگ اس کی زیارت کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد وہاں جاتے ہیں۔

یہ مسجد مہدی دوران امام العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے نام سے منسوب ہے، چونکہ یہیں سے آپ حکومت الٰہیہ کا آغاز کریں گے اور یہ مسجدہی آپ کی انقلابی تحریک کا مرکز بنے گی اور آپؑ اپنے اہل وعیال سمیت اسی مسجد میں قیام فرمائیں گے، بلکہ جب تک آپ ؑ کی حکومت باقی رہے گی آپ ؑ کی حکومت کا مرکز یہی مسجد ہی رہے گی۔

یہ عظیم مسجد عراق کے مقدس شہر کوفہ کے نواح میں واقع ہے، کوفہ دوسرا بڑا شہر ہے کہ جس کو مسلمانوں مجاہدین نے فتح کیا۔ یہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے جنوب میں ۱۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ مسجد مسجد کوفہ کے شمال مغرب میں واقع ہے، ان دونوں کے درمیان فاصلہ صرف دو کلومیٹر کا ہے۔ یہ مسجد مستطیل شکل میں بنی ہوئی ہے، اس کی لمبائی ۱۴۰ میٹر اور چوڑائی ۱۲۵ میٹر ہے، اور یہ ۱۷۵۰۰ مربع میٹر مساحت  پر پھیلی ہوئی ہے، اس کے چار کونوں میں نیم دائرہ شکل کے برج بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سےمساوی فاصلے پر واقع ہیں۔ مشرقی ضلع کی دیوار کے درمیان میں ایک مینار ہے جس کی بلندی 30 میٹر ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ اس کے مشرقی ضلع کےبیج میں مذکورہ مینار کے نزدیک واقع ہے۔

یہ مسجد ۱۷ ایوانوں پر مشتمل ہے اورنماز پڑھنے کی جگہ اس کے مرکزی مقامِ مسجد کے جنوب کی طرف ہے، اور اس کے صحن میں بہت سے سی محراب موجود ہیں۔

کوفے میں موجود مساجد میں مسجد سہلہ دوسری بڑی مسجد ہے جو مسجد جامع کوفہ کی نسبت چھوٹی ہے  اور مسجد کوفہ سے دو کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہے۔

مسلمانان جہاں کے ہاں اس مسجد کی بڑی عظمت ہے اور یہ کوفہ کی مقدس مساجد میں سے ایک ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ اس مسجد کو بابرکت مسجد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مسجد ظفر ایک بابرکت مسجد ہے، خدا کی قسم اس میں ایک صخرہ خضراء (اونچی جگہ یا سبز چٹان) ہے جس میں تمام انبیاء الٰہی کے چہرہ مبارک کی تصویر بنی ہوئی ہے اور وہ مسجد سہلہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ جب ہمارا صاحب (امام مہدی) تشریف لائیں گے تو اسی مسجد میں اپنے اہل کے ساتھ قیام فرمائیں گے۔

یہ مسجد عراق کے فتح کرنے کے بعد تعمیر کی گئی، اوربعد از فتح عراق، عرب اسی کوفہ میں ہی سکونت پذیر رہے، چونکہ ہر گروہ اور ہر قبیلہ مخصوص جگہوں پر قیام پذیر تھے، تو ان میں سے بعض نے اپنے قیام کے دوران عبادت الٰہی کی خاطر مسجدیں بھی تعمیر کیئں، انہیں قبائل میں سے ایک قبیلہ بنی ظہر تھا، وہ انصار مدینہ کے ظفرنامی شخص سے تعلق رکھتا تھا، اس کا اصل نام کعب بن خزرج، بن نبیت، بن مالک، بن اوس، بن حارثہ، بن ثعلبہ تھا۔ انہوں نے کوفہ میں قیام کے دوران اس مسجد کو تعمیر کروائی۔ یہ مسجد مسجدِکوفہ سے دور نہیں ہے۔

ابتداء میں یہ مسجد مسجدِ بنی ظفر کے نام سے مشہور تھی، چونکہ وہ لوگ نماز ، ملکی امور میں تبادلہ خیال، اور باسیانِ شہر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے اسی مسجد میں جمع ہوتے تھے، اور بعد میں مسجد سہلہ کے نام سے یہ مسجد مشہور ہوگئی۔ اس کی دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے چونکہ مسجد اور ارد گرد کی زمینیں بہت ہی نرم، اور وسیع ہیں اس لیے (سہل یعنی آسانی یا نرمی) سہلہ کہا جاتا ہے۔ سہل لغت میں حزن کے مقابل میں استعمال کیا جاتا ہے اور حزن کے معنی ہیں سخت، اور پریشانی۔ اور احتمال قوی کے مطابق یہی وجہ تسمیہ درست ہے، بازہم سہلہ کہنے کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جاتی ہے چونکہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والے کا نام سہل تھا جو بنی ظفر کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اس وجہ سے سہلہ کہا گیا ہے۔

سہل ایک صحابی تھا کہ جس نے جنگ احد میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی معیت میں جنگ کی۔

جیسا کہ تاریخدان لکھتے ہیں یہ اس مسجد کے سہلہ کے نام سے شہرت پانے سے پہلے دیگر بہت سارے نام تھے، مثلا؛ مسجد البرِ یعنی نیکی والی مسجد چونکہ اس میں بہت سارے نیک امور انجام پاتے تھے، اور اسی خیر اور برکت کی وجہ سے بر کہا جاتا ہے۔ مسجد عبدالقیس بھی کہتے تھے چونکہ یہ بنی عبد قیس کی زمین پر موجود تھی، اور مسجد قریٰ بھی کہتے تھے۔

اس مسجد کے تقدس کے بارے اہل عراق خاص کر اہل کوفہ قدیم زمانہ سے ہی بہت حد باخبر تھے ۔ بنی ظفر اپنے لیے اس مسجد کی تعمیر کی جگہ کو منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مقام پر بہت سارے انبیاء کرام اور صلحاء کے مقامات موجود تھے۔ اور مسجد سہلہ اس زمانے میں کوفہ میں تعمیر ہونے والی مساجد میں سے ایک بڑی مسجد تھی، جسے مسجد کوفہ کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد ہی تعمیر کی گئی۔ 

روایات کے مطابق یہ پہلے بہت سارے انبیاء علیھم السلام کی جائے رہائش و سکونت تھی۔ جیسا کہ صادق آل محمد علیہ السلام  مسجد سہلہ کے بارے میں فرماتے ہیں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر تھی اور آپ اس میں خیاطت کا کام کرتے تھے، آپ ہی وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے کپڑے کی سلائی شروع کی اورسیا ہوالباس پہنا شروع کیا۔ جبکہ اس وقت کے لوگ چمڑوں سے بنے ہوئے لباس پہنتے تھے۔

اسی مسجد سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم عمالقہ کی  طرف سفر کیا، یہیں سے حضرت داؤد نے جالوت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے سفر کیا، اس میں ایک سرسبز چٹان ہے کہ جس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی تصویریں موجود ہیں، اسی صخرہ سے ہی تمام انبیاء کی تخلیق کی مٹی کو چنا گیا۔ یہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر کی ملاقات ہوئی۔

اس مسجد کے فضائل بیان کرتے ہوئے امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ جو مسجد سہلہ میں دو رکعات نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالی اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام مسجد سہلہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ جب بھی کوفہ جائے تو ضرور مسجد سہلہ بھی جائے اور اس میں نماز پڑھیے، اللہ تعالٰی سے دنیوی اور اخروی حاجات طلب کرے، کونکہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام سلائی کیا کرتے تھے، نماز پڑھا کرتے تھے، او رجو شخص بھی اس میں جاکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اپنی شرعی حوائج کی برآوری کی دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجات برآوری کرتا ہے، اور قیامت کے دن حضرت ادریس علیہ السلام کے مقام کے برابر اس کا مقام بلند کرے گا، اور دنیا کی ناپسندیدہ چیزوں سے اسے دور رکھے گا، اور دشمنوں کے شر اور کید سے محفوظ رکھے گا۔

مسجد سہلہ میں بہت سارے مقدس مقامات ہیں:

جیسے مقام امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ: جو مسجد کے درمیانی حصے میں تھوڑا سا جنوب کی طرف مائل  اور امام سجادؑ اور حضرت یونسؑ کے مقامات کے درمیان واقع ہے۔

مقامِ حضرت امام سجادؑ: جو مسجد کے درمیان میں کمی جنوب مشرق سمت کی جانب مائل ہے۔

مقامِ حضرت امام صادقؑ: جو مسجد کے عین وسط میں واقع ہے۔

مقام ِحضرت خضر علیہ السلام ہے ۔

مقامِ حضرت ادریس علیہ السلام بھی اس میں موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ادریس کا گھر بھی یہی تھا۔ مقامِ صالحین بھی موجود ہے جیسے مقام ِنبیین یعنی حضرت ھود ؑ اور صالحؑ کے نام سے جانا جاتا ہے ، اسی طرح مقام ابراہیم علیہ السلام بھی موجود ہے، کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا گھر بھی یہی تھا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018