| مقدس مزارات، اور تاریخی مقامات | تاج محل اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار
تاج محل اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار
یہ ایک عظیم درسگاہ اور مسجد، جو تعمیر کے لحاظ سے بہت حیراکن، اور دیکھنے میں بہت ہی دلکش، اور دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک ہے۔اسے برصغیر میں مسلمانوں کی تعمیرکردہ عمارتوں میں سب زیادہ متاثر کن بلکہ تمام عالم میں موجود عمارتوں میں سے سب سے زیادہ حیران کن اور تعجب خیز عمارت شمار کی جاتی ہے، یہ ہندوستان کے شمال میں آگرہ کے مقام پر دریائے جمنا کے ساحل پر واقع ہے۔ اسے یونیسکو نے سنہ ۱۹۸۳ عیسوی میں ورلڈ ہیریٹیج قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایک ایسی عمارت ہے کہ جسے مغلیہ، ہندی، اور فارس کے اسلامی طرز وفن تعمیر کا ایک حسین امتزاج اور شاہکار شمار کیا جاتا ہے۔ اس عمارت کو مغلیہ مسلمان بادشاہ شاہجہان نے سنہ ۱۶۳۲ عیسوی میں اپنی اہلیہ ممتاز محل (جسے بادشاہ بے حد محبت کرتا تھا) کی یاد میں تعمیر کروایا۔
پروجیکٹ کی تفصیل
یہ پروجیکٹ اپنی ڈیزایننگ، کنسٹریکشن، اور تعمیراتی میٹریلز کے اعتبار سے بے مثال ہے، اس کی ڈیزائینگ ایک ایرانی انجینئر عیسیٰ شیرازی نے، جبکہ بعض مؤرخین کے مطابق پروفیسر احمد لاہوری نے کی۔ اور اس پر کام کا آغاز سنہ ۱۶۳۲ عیسوی میں ہوا، اور یہ سنہ ۱۶۵۳ عیسوی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس پروجیکٹ پر مغل بادشاہ نے اس وقت کی ۳۲ ملین رقم خرچ کی، جو آج کے حساب سے ۱۵۰ ارب سے زیادہ رقم بنتی ہے۔ اس کام کی تکمیل میں ۲۰۰۰۰ ہزار سے زیادہ مزدوروں اور معماروں نے کام کیا۔ اور اس پروجیکٹ کی تکمیل میں ۲۰ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ اتنی خطیر رقم کے صرف کرنے اور ہزراوں مزدوروں اور معماروں کی آمد کی وجہ سے آگرہ میں بہت بڑی اقتصادی ترقی ہوئی تھی اور لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا تھا۔
بادشاہ شاہجاہان نے دنیا بھر کے مشہور، ماہر، تجربہ کار، عظیم معماروں، انجینئروں، کاریگروں، ارکیٹیکٹس، اور مصوروں کو اس کام لیے اکھٹا کیا۔ اور ان کام کرنے والوں کے لیے پرکشش تنخواہیں، اور مختلف پیکیجز مقرر کئے، اور اس منصوبہ کی تکمیل تک خود ہی نگرانی کرتا رہا۔
انہوں نے اس عمارت کی پختگی، خوبصورتی اور دلکشی کی خاطر دور دراز کے شہروں سےنہایت عمدہ اور بہترین عمارتی مٹیریلز اور تعمیراتی سازوسامان منگوایا، جیسے راجستھان سے سفید سنگ مرمر، اور alabaster منگوایا، جو آگرہ سے ۵۶۳ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔
اس سفید سنگ مرمر اور دیگر سامان کو ہزاروں ہاتھیوں اور بیلوں کے ذریعے لایا گیا۔ اس کی نقش ونگاری ، تزیین، سجاوٹ، اور آرائش میں سونے، چاندی سمیت چالیس دیگر قیمتی دھاتیں استعمال کی گئیں جیسے جواہرات، سرخ عقیق، جسے بغداد سے منگوایا گیا، فیروزہ تبت سے منگوایا گیا، کرسٹل ترکستان سے منگوایا گیا، اسی طرح دیگر قیمتی اور نایاب پتھر جیسے لؤلؤ ومرجان، زمرد، اور ہیرے تھے کہ جنہیں دنیا کے مختلف حصوں سے منگوا کر استعمال کیا گیا۔ اس طرح باہر کےممالک سے منگوائی گئی قیمتی دھاتوں، لعل وجواہر اور دیگر قیمتی اور نایاب پتھروں کی قیمت کی مد میں آج کل کے حساب سے ۸۲۷ میلیین ڈالرز خرچ کئے گئے۔
تعمیر کی تفصیل
یہ بڑی عمارت جو دور سے دیکھنے والوں کو دو منزلوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے،اس کی عمارت (3025) ۲ میٹر یعنی (m55 x55 میٹر) ایریا پر ایک Octagonal Shapeمیں بنائی گئی ہے ۔
اس کا ایک مرکزی گیٹ ہے اور تین دیگر اہم داخلی دروازے ہیں اوراس کے اوپر ایک خوبصورت اونچامینار ہے ، جس کی نہایت ہی عمدہ اور شاندار طریقے سے ڈیزائننگ کی ہوئی ہے ، جس کی اونچائی ۳۵ میٹر ہے ، جسے سنگ مرمر کے ستونوں پر قائم کیا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک کی اونچائی ۷ میٹر ہے، جسے قبہ بصلیہ کہا جاتا ہے چونکہ یہ پیاز کی شکل میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار بھی ہے جو ایک دوسرے سے حددرجہ مشابہ ہے۔
انیسویں صدی کے اوائل میں سونے کو کانسی میں ڈھالا اور اس میں ہلال کی شکل بنائی گئی ہے جو ایک گلدان میں نہایت خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا ، جس پر عربی زبان کے لفظ جلالہ (خدا) کو نہایت خوبصورت انداز میں کندہ کیا گیا تھا جو درحقیقت اس جگہ کی اسلامی شناخت کو ظاہر کرتا ہے۔
اس مقبرہ کے اندر شہنشاہ شاہ جہاں اور اس کی اہلیہ ممتاز محل کی قبریں موجود ہیں، جنہیں سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی اور نایاب پتھروں سے مزین کیا گیا ہے۔ ان قبروں پر ان مٹ الفاظ سے یہ تحریر ہے کہ یہ بڑی قبر بادشاہ شاہجہان کی ہے اور چھوٹی قبر اس کی بیگم ممتاز محل ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی مسجد بھی موجود ہے جو نماز پڑھنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس عمارت میں چار مینار بھی موجود ہیں جنہیں مأذن کہا جاتا ہے چونکہ یہاں سے پرانے زمانوں میں آذان دی جاتی تھی۔ ہر مینار کی اونچائی ۳۷ میٹر ہے، جن میں میں سے تین میناروں کا جھکاؤ عمارت کے مخالف سمت کی طرف ہے تاکہ کسی تباہ کن زلزلے کی صورت میں عمارت پر گرنے سے بچا جاسکے، اور چوتھا مینارمستقیم کھڑا ہے کیوں کہ یہ عمارت سے نسبتا دور ہے، ان میناروں کو اسلامی مآذن کے طرز تعمیر کے انداز میں بنایا گیا ہے، جہاں سے نماز کے لیے اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، اور یہاں پر کوئی نقاشی اور سجاوٹ نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے۔
عمارت مکمل طور پر نایاب سفید سنگ مرمر سے ڈھکی ہوئی ہے، جس پر قرآنی آیات کو سیاہ رنگ میں لکھا گیا ہے۔ عمارت کی دیواروں کی بات کی جائے تو انہیں مکمل طور جواہرات اور قیمتی پتھروں سے مرصع کیا گیا ہے، جیسے عقیق ، فیروزہ اور زہور عباد الشمس۔ سب سے زیادہ دلکش اور حسین منظر اس وقت پیش آتا ہے کہ جب عمارت میں لگے ہوئے سفید بلور اور کرسٹل کے پتھر رات کی گھٹا توپ تاریکی میں چمکتی ہوئی چاندنی کا منظر پیش کرتا ہے، جسے دیکھ کر نظارہ کرنے کے والوں کو اس عظیم عمارت کی خوبصورتی اور دلکشی کا احساس ہوتا ہے۔
باغات میں گھرا ہوا محل
تاج محل کی مسجد بہت خوبصورت اور بڑے باغات میں گھری ہوئی ہے، ان باغات کو فارسی باغات کے طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہے، ان باغات کی اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں موجود حوض اور پانی کے تالابوں کو ماربل اور سنگ مرمر سے بہت بہت ہی خوبصورت انداز میں مزین کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگ گئے ہیں۔ خوبصورت حوض اور تالابوں میں موجود صاف اور شفاف پانی میں جب اس عظیم عمارت کی عکس اور جھلکیاں نظر آتی ہیں تو دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں سیاحوں حیرت قابل دید ہوتی ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ شاہجہان نے اس محل کے معماروں، انجینیروں، اور کاریگروں کو جو اس منصوبے کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے اس بات کا پابند کیا تھا، کہ وہ اس جیسا محل کہیں اور تعمیر نہیں کریں گے، تاکہ یہ عمارت دنیا میں منفرد رہے اور اس کی خوبصورتی اور دیدنی باقی رہے۔
تاج محل کی سیاحتی اہمیت
تاج محل کی مسجد اور مقبرہ کو ایک اہم اسلامی سیاحتی مراکز میں سے شمار کیا جاتا ہے، جسے برصغیر میں مسلمانوں کی شان وشوکت اور فن تعمیر میں اعلیٰ ذوق کا ایک اعلیٰ مظہر مانا جاتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیدیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک قراردیدیا۔ اور دنیا بھر سے ۱۰۰ ملیون لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ آج بھی ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں لوگ انڈیا آتے ہیں تاکہ اس عظیم اور شاندار عمارت کی ناقابل فراموش اور ناقابل بیان خوبصورتی اور طرز تعمیر کو دیکھیں اور لطف اندوز ہوسکیں۔ فقط سنہ ۲۰۱۵ ء میں اسے دیکھنے کے لیے ۱۱ ملیون ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے اس کا رخ کیا، بلا شبہ اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کا آنا اس کی سیاحتی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہونے پر دلالت کرتا ہے، اور اقتصادی اعتبار سے ہندوستانی حکومت کو بھی بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ بعض اعداد وشمار کے مطابق اس سیاحتی مقام سے حکومت ہند کو چار سالوں میں ۷۵۰ ملیون ڈالر کی آمدنی ہوئی۔