10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 9:44 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  یتیم؛ اسلام کے سائے میں
2020-01-16   3065

یتیم؛ اسلام کے سائے میں

اسلام جس وقت جزیرہ نما عرب پر اپنے نور کے ذریعے ضوفشاں ہوا تو وہ خطہ جہالت اور ظلم کی تاریکیوں میں گھرا ہوا تھا یہاں تک اسلام عدل، مساوات، رحمت اور مہربانی کا پیغام لے کر آیا۔ پس اس نے کمزوروں کا ہاتھ تھام لیا تاکہ ظالم طاقتوروں سے ان کے حقوق لے کر ان کے حوالے کرے۔ ان کمزور افراد میں سب سے مقدم یتیم تھے۔ پس اسلام نے یتیم کے بچپن سے بلوغت تک اس کے حقوق کو قانونی شکل دی اور ان حقوق کی رعایت اور ضمانت کے لیے مکمل دستور بنایا۔

اسی طرح شریعت مقدسہ نے یتیم کے مالی حقوق کا بھی تحفظ کیا اور اس پہلو کی طرف خاص توجہ دی تاکہ معاشرے کے اس طبقے کے لیے مالی توازن برقرار رہ سکے۔ بالکل اسی طرح شریعت اسلام نے دوسرے لوگوں کو بھی زندگی کے دوسرے معاشی اور تربیتی مراحل میں اس طبقے کی طرف توجہ دینے پر ابھارا ہے اور معاشرے پر یتیموں کی دیکھ بھال واجب قرار دی ہے بلکہ معاشرے کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے۔

انسانی معاشرے اپنے تاریخی ادوار میں جہاں کہیں بھی ایسی مشکل کا شکار ہوئے جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو ایسے وقت میں خداوند کی عنایات کی تجلیاں اپنی بہترین شکل میں ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔ پس وہ بچے جن پر سے سرپرستی کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے تو اگر انہیں کوئی تھامنے والا نہ ہو جو انہیں سماجی پستیوں سے بچا سکے تو وہ آندھیوں کی زد میں آ جاتے ہیں اور رذائل اور انحرافات کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کی رحمت نے یتیم کو اپنے دامن میں پناہ دی ہے اور اس کے لیے اپنی عنایات سے ایک وافر حصے کا اہتمام کیا تاکہ وہ کسی رہنمائی کے بغیر پرورش نہ پائے اور معاشرے پر بوجھ نہ بن جائے۔ پس یتیم سے چشم پوشی، معاشرے سے چشم پوشی اور معاشرے کی شان و شوکت اور عظمت کی تباہی کے مترادف ہے۔

یتیم کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں اس کے لیے بہت زیادہ حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ یتیم کا ذکر قرآن مجید کی 22 آیات کریمہ میں آیا ہے جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ سابقہ شریعتوں میں بھی لطف الٰہی یتیموں کے شامل حال رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ  یتیموں کے بارے میں تبلیغ کرتی ہیں اور ان کے سماجی اور مالی حقوق بیان کرتی ہیں۔ کچھ ایسی آیات بھی ہیں جو یتیم پر عنایت و مہربانی کے مراحل کو ایک خاص شکل میں بیان کرتی ہیں، ایسے مراحل کہ جن کی نصیحت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کی ہے۔

پس یتیم، کہ جس کی کفالت کرنے والا کوئی نہ رہے اور وہ پدری شفقتوں سے محروم ہو جائے تو خدا کی رحمت اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اور اسے وہ کچھ عطا کرتی ہے جو ختم ہو جانے والی پدری شفقتوں کا متبادل ہو سکیں۔ پس آیات کریمہ نے یتیم پر ظلم و زیادتی سے منع فرمایا ہے، اس سے محبت اور لطف و مہربانی کی ترغیب دلائی ہے تاکہ وہ تنہائی اور اکیلے پن کا احساس نہ کرے۔ اسی طرح اسلام نے استحصال کرنے والوں سے اس کی حفاظت کرنے کی بھی حکم دیا ہے۔ یہ مالی حمایت اس معاہدے اور پیمان کی شقوں میں سے ایک ہے جو پہلے خداوند کریم نے بنی اسرائیل سے لیا تھا، جیسا کہ قرآن مجید بھی اس میثاق کے بارے میں فرماتا ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ۔ (البقرة :83)[ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا )کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔]

یہ عنایت انہیں قواعد و ضوابط میں سے ہے جنہیں خدا کا مضبوط دین انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتا ہے۔

قرآنی آیات نے یتیم پر احسان کی صرف تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ اس کی مثال بھی پیش کی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عبد صالح (حضرت خضرؑ) کے ساتھ پیش آنے والے واقعے میں ہے جب انہوں نے دورانِ سفر ایک دیوار دیکھی: جِدَارًا يرِيدُ أَنْ ينْقَضَّ فَأَقَامَهُ‘‘ [وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا۔] اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے اس عمل اور وہ بھی بغیر اجرت کے، کی وجہ پوچھی: قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا‘‘ [اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔] تو حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سے جواب آیا: وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ۔‘‘ [اور رہی دیوار تو وہ اسی شہرکے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپناخزانہ نکالیں۔]

پس خدا وند کریم نے اپنی عنایت سے ان یتیموں کے باپ کی کسی نیکی کے اجر کے طور پر ان کے دفن شدہ خزانے کو محفوظ کر دیا۔

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا * قَالَ هَٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا* أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا * وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا * فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا * وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا * وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا۔ (الكہف: 77 تا 83) [پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے ہاں پہنچ گئے تو ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوںنے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔ انہوں نے کہا: بس یہی میری اور آپ کی جدائی کا لمحہ ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی تاویل بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔ وہ کشتی چند غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر (سالم )کشتی کوجبراً چھین لیتا تھا۔ اور لڑکے (کامسئلہ یہ تھاکہ اس) کے والدین مؤمن تھے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ لڑکا انہیں سرکشی اورکفر میں مبتلا کر دے گا۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو ۔ اور رہی دیوار تو وہ اسی شہرکے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا، یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔ اور لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: جلد ہی اس کا کچھ ذکر تمہیں سناؤں گا۔]

اسی طرح ہمیں کچھ ایسی آیات کا مجموعہ بھی نظر آتا ہے جو یتیمی کے مسئلے سے مختص ہیں:

وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا۔ (النساء :2) [اور یتیموں کا مال ان کے حوالے کرو، پاکیزہ مال کو برے مال سے نہ بدلو اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھایا کرو، ایسا کرنا یقینا بہت بڑا گناہ ہے۔]

یتیموں کو مال دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بچپن میں اس مال سے ان پر خرچ کیا جائے لیکن جیسے ہی وہ بالغ اور رشید (عاقل) ہو جائیں تو ان کا مال ان کے حوالے کر دیا جائے۔

پہلی چیز جسے یہ آیت کریمہ بیان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یتیموں کے مال کو تبدیل نہ کیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں بعض یتیموں کے اوصیا یتیم کے مال میں سے بڑھیا مال خود لے لیتے تھے اور اس کی جگہ گھٹیا مال رکھ دیتے  تھے۔ قرآن مجید نے انہیں اس عمل سے ڈرانے اور اس ظلم سے باز رکھنے کے لیے قدم اٹھایا: إنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا۔ (النساء:10) [جو لوگ ناحق یتیموں کامال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔]

اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ یتیم کے مال میں تصرف کی حدبندی کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَ أَوْفُوا الْكَيْلَ وَ الْميزانَ بِالْقِسْطِ لا نُكَلِّفُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَها وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كانَ ذا قُرْبى‏ وَ بِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ (انعام: 152) [اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو (یتیم کے لیے) بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور جب بات کرو تو عدل کے ساتھ اگرچہ اپنے قریب ترین رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جائے اور اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرو، یہ وہ ہدایات ہیں جو اللہ نے تمہیں دی ہیں شاید تم یاد رکھو۔] فقہاء نے اس آیت کے متعدد معانی بیان کیے ہیں۔ جن میں سے ایک یتیم کے مال کی حفاظت کرنا، اور اس کے حق کی رعایت کرتے ہوئے تجارت میں اس کی سرمایہ کاری کرنا اور منافع اٹھانا ہے، لیکن یتیم کا مال ان کے حوالے کرنے کے عمل کی شریعت مقدسہ نے حدبندی کی ہے اور اس کے لیے ایک خاص وقت معین کیا ہے کہ جس میں ولی یا وصی کے لیے ممکن ہو کہ وہ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے جو یتیم کا مال اس تک پہنچانے کے حوالے سے اس کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ خداوند کریم فرماتا ہے: وَ ابْتَلُوا الْيَتامى‏ حَتَّى إِذا بَلَغُوا النِّكاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ وَ لا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَ بِداراً أَنْ يَكْبَرُوا وَ مَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ كانَ فَقيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَ كَفى‏ بِاللَّهِ حَسيباً۔ (النساء: ۶) [اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور مال کا مطالبہ کریں گے) فضول اور جلدی میں ان کا مال کھا نہ جانا، اگر (یتیم کاسرپرست ) مالدار ہے تو وہ (کچھ کھانے سے) اجتناب کرے اور اگر غریب ہے تو معمول کے مطابق کھاسکتا ہے، پھر جب تم ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو ان پرگواہ ٹھہرایا کرو اور حقیقت میں حساب لینے کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔]

مال یتیم کی حفاظت کے آخری مراحل کو آیات کریمہ نے دو بنیادی شرطوں کے ساتھ محدود کیا ہے اور وہ ہیں بلوغت اور رُشد۔ ان دو آیات سے واضح ہوتا ہے کہ یتیم بچے سے ولی کی ولایت ختم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یتیم کو عقلی اور بدنی دونوں قدرتیں حاصل ہو جائیں لہٰذا مال کو اس کے حوالے کرنے کے لیے صرف بلوغت کافی نہیں ہے حتی کہ اس کی رجولیت مکمل ہی کیوں نہ ہو جائے جب تک کہ اس کی عقل پختہ نہ ہو جائے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی قدرت آ جائے کہ وہ اپنے نفع و نقصان اور اپنے لیے مفید اور مضر چیزوں کی شناخت کر سکے۔

دوسری شرط جسے آیت کریمہ نے یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کے لیے ضروری گردانا ہے وہ رُشد ہے۔ رُشد کے معنی کے حوالے سے فقہاء کے کئی نظریات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ مال کا صحیح استعمال کر سکتا ہو۔ بعض کے نزدیک وہ دین اور عقائد کے حوالے سے صالح انسان ہو۔ ان کے علاوہ کچھ دوسرے اقوال بھی ہیں لیکن ان فقہاء نے بلوغت کے برعکس کہ جس میں بلوغت کی حدبندی کی گئی ہے، رُشد کے لیے کوئی سال معین نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رُشد کا متحقق ہونا یتیم کے نفسیاتی اور سماجی حالات کے مطابق ہے اور ان تجربات اور معلومات پر موقوف ہے جو وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے حاصل کرتا ہے اور جو اسے زندگی کے امور چلانے اور اموال کے استعمال میں اعتدال کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رشد کا تحقق اس کی اس استعداد پر موقوف ہے جو وہ اپنی سالم عقل کے ذریعے زندگی کے سخت معاملات میں غور و خوض کر کے حاصل کرتا ہے۔ ان چیزوں کی شناخت یتیم لڑکے میں تجارت وغیرہ کے ذریعے سے اور یتیم لڑکیوں میں گھریلو معاملات اور معاشرتی طرزِ عمل کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

خداوند کریم کی طرف سے یتیم کو دی گئی ان ساری مراعات اور عنایات سے بڑھ کر بھی خدا نے انہیں کچھ مزید حقوق بخشے ہیں۔ پس اس آیت کے ذریعے اسے خمس میں بھی شامل کیا: وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ وَ الْيَتامى‏ وَ الْمَساكينِ وَ ابْنِ السَّبيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَ ما أَنْزَلْنا عَلى‏ عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ وَ اللَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدير۔ (انفال؛ 41) [اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔] لہٰذا جس وقت یتیم پر رحمت کے دروازے بند ہو جائیں، وہ بھوک سے نڈھال ہو کر روٹی کے لقمے کی طرف محتاج ہو جاتا ہے تو خدا اس شخص کو جنت میں داخل کرنا اپنے اوپر واجب قرار دیتا ہے جو یتیم کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھائے جیسا کہ خداوند کریم نے لوگوں کو، یتیموں کو عطا کرنے پر ابھارا ہے، حتی کہ اس میراث میں سے بھی عطا کرنے کی ترغیب دی جسے میت کے ورثاء آپس میں تقسیم کرتے ہیں: وَ إِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى‏ وَ الْيَتامى‏ وَ الْمَساكينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَ قُولُوا لَهُمْ قَوْلاً مَعْرُوفا۔ (النساء: 8) [اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت قریب ترین رشتے دار یتیم اور مسکین موجود ہوں تو اس (میراث) میں سے انہیں بھی کچھ دیا کرو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو] پس اسلام کے دامن میں یتیم محفوظ ہے جہاں اسے ایسا ہاتھ ملتا ہے جو اس کی طرف بڑھتا ہے اور اس کے سر پر شفقت سے پھرتا ہے تاکہ یتیمی کے غم اس سے دور ہو جائیں اور اسے محبت اور شفقت کے سائے میں لے لے۔ چنانچہ خداوند کریم یتیم کے ساتھ مہربانی نہ کرنے اور اس کی اہانت کرنے کو نعمتوں کے زوال کا سبب اور اس اہانت کو خود اہانت کرنے والے شخص کی اہانت قرار دیتا ہے۔ خداوند عزوجل فرماتا ہے: فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَ نَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ۔ وَ أَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ۔ (الفجر: 15-16) [مگر جب انسان کو اس کا رب آزما لیتاہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے توکہتاہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔ اور جب اسے آزما لیتاہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتاہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔] اس اہانت کا سبب یہ ہے کہ اس شخص نے یتیم کی عزت نہیں کی اور اسے پناہ دینے اور اس پر خرچ کرنے کے حوالے سے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ اس وجہ کو خداوند کریم اگلی آیت میں بیان فرماتا ہے: كَلاَّ بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتيم۔ (الفجر: 17) [ہرگز نہیں ! بلکہ تم خود یتیم کی عزت نہیں کرتے۔] جیسا کہ خدا نے ایک اور جگہ نصیحت کی ہے: فَأَمَّا الْيَتيمَ فَلا تَقْهَرْ۔ (الضحیٰ: 9) [لہٰذا آپ یتیم کی توہین نہ کریں۔] پس یتیم کو جھڑکنا اور اس سے بے رخی برتنا بھی اس چیز کا سبب بنتا ہے کہ یتیم کو جھڑکنے والا اور بے رخی برتنے والا اس آیت مبارکہ کی روشنی میں دین کی تکذیب کرنے والا شمار ہوتا ہے: أَ رَأَيْتَ الَّذي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ۔ فَذلِكَ الَّذي يَدُعُّ الْيَتيمَ۔ (الماعون: 1-2) [کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتاہے؟ یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتاہے] انہی مذکورہ آیات کے ضمن میں کثیر تعداد میں پیغمبر اکرمﷺ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی کثیر احادیث موجود ہیں جو یتیم کے ساتھ مہربانی کرنے پر ابھارتی ہیں۔ یہ احادیث شریفہ اور روایات اس مہربانی پر تاکید کرتی ہیں اور یتیموں پر ظلم کرنے والوں کو متنبہ کرتی ہیں۔ انہی احادیث میں سے حضور اکرمﷺ کی یہ حدیث ہے: ’’جس نے ایک یتیم یا دو یتیموں کو پناہ دی اور اس پر صبر و تحمل کیا تو میں اور وہ جنت میں ان دو (انگلیوں) کی طرح ہوں گے۔‘‘

امام علی علیہ السلام نے اپنے بیٹوں حسنین علیہما السلام کو جو وصیت کی اس میں فرمایا: ’’یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ان کے کام و دہن کے لیے فاقہ کی نوبت نہ آئے اور تمہاری موجودگی میں وہ تباہ و برباد نہ ہو جائیں۔‘‘

اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’یتیم کا مال کھانے سے انسان پر دنیا اور آخرت میں مصیبت نازل ہوتی ہے۔ دنیا کی مصیبت جس کے بارے میں خداوند کریم ارشاد فرماتا ہے: وَ لْيَخْشَ الَّذينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعافاً خافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَ لْيَقُولُوا قَوْلاً سَديداً۔ (النساء: 9) [اور لوگوں کو اس بات پر خوف لاحق رہنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جاتے جن کے بارے میں فکر لاحق ہوتی (کہ ان کا کیا بنے گا) تو انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سنجیدہ باتیں کریں ۔] اور آخرت کی مصیبت وہ ہے جس کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے: إِنَّ الَّذينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَيَصْلَوْنَ سَعيراً۔ (النساء: 10)۔ [جو لوگ ناحق یتیموں کامال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔]

اسی طرح امام علیہ السلام نے یتیم کا مال کھانے کو گناہان کبیرہ میں سے شمار کیا ہے۔

ان کے علاوہ بے شمار ایسی روایات اور احادیث موجود ہیں جو یتیم کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے پر ابھارتی ہیں۔ پس دین اسلام ہر مسلمان پر یتیم کی کفالت اور اس پر شفقت کو واجب قرار دیتا ہے تاکہ ایک مکمل اور سالم اسلامی معاشرے کی بنیاد ڈالی جا سکے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018