18 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 2:10 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلام میں معیشت |  اسلامی معاشیات : بنیاد اور عمل درآمد کے بارے میں نظریہ
2020-01-13   1039

اسلامی معاشیات : بنیاد اور عمل درآمد کے بارے میں نظریہ

معیشت کا لوگوں کی زندگی میں ایک فعال اور اہم کردار ہے، کیوں کہ اس کے وجود کو ایک اہم ریشے سے تشبیہ دی جاتی ہے جو ان کی زندگی کو ان قوانین اور قواعد کے تحت متحرک رکھتا ہے جو اس حرکت کی نگرانی کرتے ہیں اور اس کو اس انداز میں منظم کرتے ہیں جس سے ان کو خصوصی اور عمومی دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ انہی قوانین و قواعد کی بنیادوں پر رہتے ہوئے مفادات کی تبادلے کی بنا پر افراد، گروہوں اور ممالک کے مابین تعلقات تشکیل پاتے ہیں۔

معیشت کی عمومی طور پر یہ تعریف کی جاتی ہے کہ یہ ایسے قوانین و قواعد کا مجموعہ ہے جو ممالک، گروہوں اور افراد کے مابین سامان اور خدمات کی پیداوار، تقسیم، تبادلے اور کھپت کے عمل کو منظم کرتے ہیں۔

چونکہ ہر حکومت کا اپنا خاص اقتصادی نظریہ ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر اس حکومت کا اقتصادی نظام تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا ان حکومتوں کے درمیان اختلاف کا عمل شدت سے وجود میں آتا ہے۔ پس ان میں سے کچھ کی اقتصادی بنیاد نظریہ اشتراکیت پر قائم ہے اور کچھ کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس بنا پر ان حکومتوں کے درمیان اقتصادی بنیادوں اور معیارات میں پایا جانے والا اختلاف، ان کے نظریات اور عمل درآمد کے مابین موجود اختلاف کا طبعی نتیجہ ہے۔ لیکن یہ اقتصادی بنیادیں انسانی عقل و فکر کی پیداوار ہیں اور محدود  صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ ان کی تنظیم و ترتیب اور قانونی شکل جتنی بھی اعلیٰ سطح تک پہنچ جائے، یہ انسان کے آئے روز پیدا ہونے والے نت نئے مسائل کا مکمل حل پیش کرنے سے قاصر ہی رہیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بنیادیں اپنے عمل میں عقل کی محدود صلاحیتوں کی اسیر ہیں، بھلے یہ عقل کتنی ہی خلّاق اور مجدّد کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عقل جن نظریات و قوانین کو نتیجے کے طور پر اخذ کرے گی تو اس عقل کی فطری ساخت اور محدود امکانات کے نقص کی وجہ سے ان نظریات و قوانین کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا شک و شبہ موجود رہے گا۔

اس کے برعکس اسلامی اقتصاد کی بنیادیں ایسے نقائص سے پاک ہیں کیونکہ ان کا سرچشمہ خالق کامل ہے، جو اپنے اقتدار کے ذریعے اپنے بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ہے، جو ان کی تمام حاجات و مسائل کا مکمل احاطہ رکھتا ہے۔ اسلامی اقتصاد اپنی جن بنیادوں پر قائم ہے ان سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو بھی تمام انسانی مسائل کا احاطہ کرنے اور اپنے کمال کی بدولت باقی دونوں نظاموں: اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام  سے ممتاز ہے۔ کیونکہ دینی اور اخلاقی بنیاد جس کا سرچشمہ قرآن و سنت نبویؐ ہے ایک معاشرے کے افراد کے درمیان عدالت کے قیام میں اپنے قیمتی اور اخلاقی نظریے پر اعتماد کرتی ہے۔ اور یہ فقط خواہشات اور آرزؤوں کی حد تک ہی نہیں ہے بلکہ معاشرے کے افراد کے درمیان پائے جانے والے طبقاتی فاصلے اور فرق کو ختم کرنے کےلیے خاص قوانین کی قانون سازی کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہو سکتا ہے، اور اسلامی اقتصادی نظام نے  مالی حوالے سے آسودہ حال لوگوں پر خمس و زکوٰۃ جیسے مشخص اور معقول مقدار میں ٹیکس عائد کر کے اسے ثابت بھی کیا ہے۔ ان ٹکیسز کا فائدہ فقراء اور ضرورتمندوں کو ہوتا ہے۔ اس امر سے سماجی اور معاشرتی کفالت کا نظریہ مجسم شکل میں ہمارے سامنے ابھر کر آتا ہے جس پر اسلام یقین رکھتا ہے اور اس کی طرف دعوت بھی دیتا ہے تاکہ ایک طرف تو دنیا پر یہ واضح ہو جائے کہ اسلامی اقتصاد فقط اصلاحات کا ایک  نظام ہونے سے پہلے، اپنے نظام اور حرکت میں اسلامی اخلاقی اصولوں اور بنیادوں پر مضبوطی سے قائم ہے۔ اور دوسری طرف اس بات کی تاکید بھی ہو جائے کہ اسلام کا اقتصادی نظام اور اس کے قوانین ہر زمان و مکان کے ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں  اور کسی بھی تبدیلی کو قبول نہیں کرتے۔

اقتصاد کا اسلامی نظریہ

اسلامی نظریہ اقتصاد اس نکتہ نظر پر اعتماد کرتا ہے کہ سارا مال اللہ تعالیٰ کا ہے اور انسان اس پر فقط اس کا جانشین ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کی تاکید قرآن مجید نے کی ہے:  وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً... (بقرۃ: 30)۔ [اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں]۔ اس آیت نے لوگوں کے سامنے ایک انسان پر حصول رزق اور خرچ کے حوالے سے بھاری دنیوی ذمہ داری عائد کی ہے۔ اور اس پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ کسب و خرچ دونوں میں ہر حرام سے دور رہے جو معصیت خدا شمار ہو تا ہے۔  انسان اخروی زندگی میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہے جو ہر اس چیز کا حقیقی مالک ہے  جو اس نے انسان کی ملکیت میں دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خلافت اور جانشینی کو کچھ ایسے قوانین کا پابند بنایا ہے جو انسان کو حرام طریقے سے مال کمانے، معصیتِ خدا یا لوگوں کو اذیت دینے میں اسے خرچ کرنےسے منع کرتے ہیں۔ اسی لیے اس نے ہر غیر شرعی ذریعے سے مال کمانا اس پر حرام قرار دیا ہے جیسے ملاوٹ، استحصال، فرد اور معاشرے کو نقصان پہنچانے والی چیزوں  کا معاملہ کرنا، مثلاً: منشیات، شراب  یا ماحول کو آلودہ کرنے والی اشیاء وغیرہ۔

اسلامی اقتصاد صاحبِ سرمایہ اور کام کرنے والے شخص کے درمیان مال کی تقسیم اور نفع و نقصان میں شراکت کے نظریے پر یقین رکھتا ہے۔ یہ ان بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے جن پر ان دونوں کے درمیان معاشرتی عدالت قائم ہوتی ہے۔

اسی طرح اسلامی اقتصاد شخصی ملکیت کی حمایت پر بھی اعتقاد رکھتا ہے۔ مسلمان فرد کا حق ہے کہ وہ کسی شے کو اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے اور اس کی کوئی حد بھی مقرر نہیں ہے، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ لوگوں کے عوامی مفادات کو نقصان نہ پہنچتا ہو اور ذخیرہ اندوزی کا عنصر بھی اس میں شامل نہ ہو۔ پس اسے زمین، جائیداد اور پیداوار کے ذرائع اپنی ملکیت میں لینے کا حق حاصل ہے۔  البتہ جہاں تک عوامی ملکیت کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عوامی اہم سہولیات حکومت کی ملکیت یا نگرانی میں رہیں تاکہ معاشرے میں عوامی مفادات کی حفاظت ہو  اور اگر معاشرے کے وسائل کو شخصی ملکیت میں لینا جائز قرار دیا بھی جائے تب بھی ان کے ناجائز استعمال کو روکا جا سکے ۔ جیسا کہ اسلام حکومت کو یہ حق دیتا ہے  کہ وہ رسد و طلب کے دوران قیمتوں کے اتار چڑھاؤ میں مداخلت کیے بغیر بازاروں کی نگرانی کرے تاکہ ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کی جا سکے جسے شریعت اسلام نے حرام قرار دیا ہے اور جس کے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور معاشرے کی قوتِ خرید ختم ہو جاتی ہے۔

عوامی مفادات کے حصول کے حوالے سے اسلامی اقتصادی نظام بازار میں مضاربہ کے نظریے کا حامل ہے۔ مضاربہ سرمایہ دار اور عامل (کام کرنے والا شخص) کے درمیان ایک طرح کی شراکت ہے تاکہ نفع و نقصان کی شرط کے ساتھ سرمائے سے فائدہ اٹھایا جا سکے، اس طریقے پر کہ اصل سرمایہ نکالنے کے لیے بعد منافع ان کے درمیان عادلانہ طور پر تقسیم ہو۔  مضاربے کا یہ عمل سود کے بالکل برعکس ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے جس میں سرمایہ دار کام میں نفع و نقصان کو مدنظر رکھے بغیر، عامل سے ہر حالت میں منافع ہی وصول کرتا رہتا ہے: ’’...ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔‘‘ (بقرۃ: 275) [اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس شخص تک اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔] یہ چیز کام پر منافع  کی زیادہ بڑھوتری کے نتیجے میں خسارے کی صورت میں عامل کے شدید افلاس کا سبب بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے مستقبل میں معاشرے کی اقتصادی حالت کو شدید دھچکا لگتا ہے کیونکہ عامل کے لیے خسارے میں اضافہ ہونا اور عامل کے برعکس دوسروں (سرمایہ داروں)کے لیے منافع کا بڑھنا فیکٹریوں، کارخانوں اور اداروں کی بندش اور  کارکنوں کے اخراج کا موجب بن جاتا ہے۔ جس سے معیشت کی مکمل گردش پر منفی اثرات مرتب ہوتےہیں ۔

اسلام نہ صرف مرابحہ کا قائل ہےبلکہ اسے اپناتا بھی ہے۔  مرابحہ یعنی ایک سامان کو کسی قیمت پر خریدنا اور قیمت خرید سے زیادہ پر بیچ دینا چاہے نقد بیچا جائے، چاہے ادھار یا چاہے اقساط پر۔ یہ معاملہ عام رائج تجارت ہی کی طرح ہوتا ہے جس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

اسلام اجارہ کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔  اجارہ یہ ہے کہ کوئی صاحب جائیداد شخص اپنی زمینوں کے لیے  یا سازو سامان کا حامل شخص اپنے سامان کے لیے ایک معلوم مدت تک اجرت پر کوئی کام کسی کے سپرد کرتا ہے۔ کام یا چیز کی حفاظت و نگہداری پر آنے والے اخراجات نکالنے کے بعد بچ جانے والا منافع شرعی طور پر حلال ہوتا ہے۔

اس طرح اسلام نے وراثت کے معاملے کا بھی یوں اہتمام کیا کہ مال ورثاء کے ایک ہی گروہ میں محصور ہو کر نہ رہ جائے۔ اس نے تمام ورثاء میں عادلانہ انداز میں وراثت کی تقسیم کا عمل انجام دیا۔ جہاں قرآن مجید میں بیان کی گئی مشخص مقدار کے ذریعے میراث کو ان کے درمیان تقسیم کیا:  ’’يوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيينِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَينِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيةٍ يوصِي بِهَا أَوْ دَينٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔‘‘ (النساء: 11)۔ [اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تواس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، پس اگر میت کے بھائی ہوں تو ماں کوچھٹا حصہ ملے گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی، تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے۔]

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018