11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 9:48 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلام میں معیشت |  اسلام اور اشتراکیت: عوامی ملکیت کے حوالے سے معاشی نقطہ نظر
2019-12-27   1713

اسلام اور اشتراکیت: عوامی ملکیت کے حوالے سے معاشی نقطہ نظر

اسلام نے فقط ایسے نظامِ ہدایت پر اکتفا نہیں کیا جو صرف توحید در خالقیت سے متعلق ہو بلکہ اس سے بھی آگے وہ توحید در ربوبیت کا بھی قائل ہے۔ رب وہ ہے جو اپنی مخلوق کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور ان کی زندگی کے امور کا اہتمام کرتا ہے اور انہی امور میں سے کچھ امور ان کے اقتصادی معاملات کے ساتھ مختص ہوتے ہیں۔ اس کی تدبیر کا دائرہ کار محدود نہیں ہے بلکہ وسیع ہے، کامل ہے، حق ہے کہ جس میں باطل کبھی بھی دخل انداز نہیں ہو سکتا اور وہ اپنے تمام بندوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور اسی مکمل احاطے نے اسے ان کی زندگی کے تمام امور بشمول اقتصادی معاملات، کے لیے مکمل قوانین بنانے کا اختیار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قوانین بنانے میں ایسے تمام اقتصادی نظاموں پر فوقیت اور اولویت حاصل ہے جنہیں انسانوں نے وضع کیا ہو اور جن میں خطا کا امکان بھی موجود ہو۔ کیونکہ رب -اللہ سبحانہ و تعالیٰ- کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کے زمین پر اپنے خلیفہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے سعادت کے راستے ایجاد کرے اور برائیوں کو اس سے دور رکھتے ہوئے اس کے احوال کی اصلاح کرے۔

گذشتہ ابحاث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمومی (سرکاری) ملکیت یا نجی ملکیت کا اصول ایک اعلیٰ مدبرانہ ہدف ہے کہ رب دو جہان ایسے قوانین و ضوابط کے ذریعے اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے جو ملکیت کو اس انداز میں منظم کرتے ہیں کہ نجی اور سرکاری دونوں ملکیتوں کے درمیان موافقت پیدا ہو جائے، کیونکہ اسلامی اقتصاد کی مدیریت میں یہی قوانین ان دونوں ملکیتوں کی بقاء کے ضامن ہیں۔ ان خودساختہ نظاموں کے برعکس کہ جن میں یکطرفہ پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ یہ خود ساختہ نظام یا تو اشتراکی نظام ہے جس میں فرد کی نجی ملکیت ایسے معاشرے کے مفادات کی نذر ہو جاتی ہے جو حکمران طبقے کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے اور یہ امر سہولیات سے عاری نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر دیتا ہے۔ یا وہ سرمایہ دارانہ نظام ہو گا جس میں معاشرتی ملکیت شخصی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں طاقتور ثروتمندوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آتا ہے جو پیسے کے زور پر حکومت پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں اور اسے اپنے شخصی مفادات کے مطابق چلا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض اوقات معاشرے کے عام انسانوں کو بے تحاشا نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا وہ درمیانی اور معتدل راستہ جسے اسلام نے دونوں نظریات کے درمیانی راستے کے طور پر اپنایا ہے ان دونوں نظریات سے متاثر ہونے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ نظریہ زمانی لحاظ سے ان دونوں نظریات پر مقدم ہے اگرچہ اس کے خدوخال ایسے ہیں کہ اس میں دونوں نظریات کی خوبیاں جمع ہیں جبکہ ان کی خامیوں سے یہ دور ہے۔۔۔ ہماری گفتگو سیاسی فلسفے کے احاطے سے باہر ہے۔۔۔ پس یہ نظام اس معبود کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اپنی مخلوق کے تمام معاملات کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان کا علم رکھتا ہے۔

گذشتہ ابحاث کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظریات نے اسلامی اقتصادی نظریے کی یا تو تائید کی ہے یا اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اور یہ بات بعید یا تعجب خیز بھی نہیں ہے خصوصاً اس صورت میں جبکہ ہم اسلام کو سلیم فطرت کا حامل دین کہتے ہیں اور بالخصوص وہ لوگوں کے درمیان عدل و مساوات کے نظریے کا حامی بھی ہے: ’’إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔‘‘ (النحل: 90) [یقیناً اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔]

یہی وہ اعلیٰ ہدف ہے جس کے گرد اسلامی اقتصاد کا نظریہ گھومتا ہے۔ یہ ہدف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب لوگوں میں ثروت کی عادلانہ تقسیم ہو۔ یہی وہ عادلانہ اور منصفانہ نظریہ ہے جو اس مفہوم کے بالکل قریب ہے جسے آج کل اشتراکیت کا نام دیا جاتا ہے اور اسی کی طرف اسلام اپنی حکومت کے آغاز ہی سے دعوت دے رہا ہے۔

اور اگر باقی نظریات نے بھی اسی اسلامی نظریے کا راستہ اپنایا ہے تو اس سے اسلام اور ان دوسرے نظریات کے درمیان ایک نقطہ اتصال پیدا ہو جاتا ہے کہ جس میں کوئی مشکل بھی پیدا نہیں ہوتی، کیونکہ انسانوں کے بنائے ہوے نظاموں کا ہدف جب تک انسانی سعادت کا حصول ہو، تب تک اسلام بھی ان کی خوبیوں کو کبھی رد نہیں کرتا، چاہے وہ نظام اشتراکی ہو یا سرمایہ دارانہ۔

لیکن چونکہ اسلام ایک منفرد اقتصادی نظام کا حامل ہے اس وجہ سے اس میں اور اشتراکی اور سرمایہ دارانہ جیسے دوسرے انسان ساختہ نظاموں میں فرق بھی پایا جاتا ہے کیونکہ اسلام کے اقتصادی نظام کی تفسیر ویسی نہیں کی جا سکتی جیسے ان دو نظاموں کی ہے۔ یعنی یوں نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام کا اقتصادی نظام سرمایہ دارانہ ہے یا اشتراکی ہے کیونکہ اسلام اپنی اقتصادی سیاست میں، جس کا سرچشمہ عدل ہے، کسی ایک نظریے کی طرف نہیں جھکتا، بلکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ اسلام کا اپنا خاص اقتصادی نظریہ ہے۔ مثلاً اسلام کبھی اس نظریے کا قائل نہیں ہوا کہ فرد کے حقوق کو معاشرے کے حقوق پر ترجیح دی جائے جیسا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہے، یا فرد کے حقوق کو معاشرے کے مفادات پر قربان کر دیا جائے جیسا کہ اشتراکی نظام میں ہے بلکہ اسلام اس چیز کا قائل ہے کہ دو متوازی راستوں کے درمیان ایک ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو آن واحد میں معاشرہ اور فرد دونوں کی کفالت کرے اور سالم معاشی تعمیر کے لیے موزوں قانون سازی کے مطابق ان کی حفاظت کرے۔ مثلاً خمس و زکوٰۃ کا ٹیکس:إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (بقرۃ: 277) [البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل بجا لائیں نیز نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے اور ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔] جو آسودہ حال لوگوں پر فرض کیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں موجود طبقاتی فرق  کو کم کیا جا سکے اور سرمایہ معاشرے  کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ہاتھوں میں محصور ہو کر نہ رہ جائے، جو عام معاشرے کے لیے تباہ کن معاشرتی اور اقتصادی اثرات کا سبب بنتا ہے۔ البتہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام ایسی حدود وضع کرتا ہے جو انفرادی ملکیت کا دائرہ تنگ کر دیں یا اسے سرے سے قابل اعتنا ہی نہ سمجھیں یا اسے باطل ہی قرار دیں بلکہ وہ اس ملکیت کے لیے ایسے ضوابط و حدود مقرر کرتا ہے جن کی بدولت معاشرتی عدالت وجود میں آتی ہے۔

انفرادی ملکیت، عوامی ملکیت اور سرکاری ملکیت کے مابین دولت تقسیم کے حوالے سے وجود میں آنے والی ملکیت کی مختلف صورتوں پر اسلام کا یقین رکھنا ہی ایک ایسا مرکزی ستون ہے جس پر اسلام کا اقتصادی نظریہ استوار ہے۔ بلکہ اس کا عمومی اور کلی نظریہ ہی یہی ہے کہ اس نے ہر شعبے کے لیے قواعد و ضوابط اور حدود کا تعین کیا ہے، جیسا کہ میراث کا مسئلہ: ’’يستفتونك قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ۔‘‘ (النساء-176)  [لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے (احکام) بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے۔] اسی طرح ہبہ، خرید و فروخت اور زمین کو زندہ و آباد کرنا: ’’وَ يَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ۔‘‘ (ہود-85) [اوراے میری قوم! انصاف کے ساتھ پورا ناپا اور تولا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔] اور انسان کی شخصی ملکیت کی آزادی کے احترام میں ایسے قوانین بنائے جو چوری اور غصب کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مال کو صاحب مال کی طرف لوٹانا واجب قرار دیا: ’إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ۔۔۔‘‘ (النساء: 58) [بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو۔۔۔]

اسی طرح اسلام نے سود کو بھی حرام قرار دیا۔ سود یعنی قرض پر ایک معین مدت تک منافع لینا اور اگر معین مدت میں وہ قرض ادا نہ ہو تو منافع بڑھا دینا جس سے مقروض شخص مفلوک الحال ہو جاتا ہے جو معاشرے میں معیشت کی سست روی کا سبب بنتا ہے جس کے نتیجے میں ثروت بھاری قرضوں میں جکڑی معاشرے کی اکثریت کے ہاتھوں سے نکل کر ایک اقلیتی گروہ کے پاس جمع ہو جاتی ہے  اور یہ امر اس اکثریتی طبقے کو مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے بلکہ معاشرے کی سماجی بنیادوں پر بہت ہی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے صدقات کے نظام کی شکل میں اس کا متبادل پیش کیا ہے جو ایک کفالتی اصول ہے جس کے ذریعے ایک ثروتمند شخص اپنے مال میں سے کچھ مال مفلوک الحال فرد کو دیتا ہے۔ اس سے معاشرے پر بہت ہی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، افلاس کی شرح کم ہوتی ہے اور بالآخر معاشرے کے اندر جرائم میں بھی کمی آ جاتی ہے۔ اسی کے ذریعے اسلامی اقتصادی نظام کے مطلوبہ اہداف حاصل ہوتے ہیں: ’’الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ* يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ۔‘‘ (البقرة -275ـ 276).[ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس شخص تک اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ سود کو ناپائیدار اور خیرات کو بابرکت بنا دیتا ہے]

تاریخ سے مثال: عوام اور رعیت کے معاملے میں امیر المومنین علیہ السلام کی سیاست بعینہٖ رسول اعظم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست تھی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے عہد سے مثالیں لینے کی وجہ یہی ہے کہ اسلامی ریاست کی بنیادیں مکمل ہوں کیونکہ اسلامی ریاست کی اقتصادی اقدار کا سب سے  بہترین مجسمہ امیر المومنین علیہ السلام ہی کی ذات تھی۔ وہ اپنے خطبے میں اپنی حکومت کے نظام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس نظام میں اسلامی ریاست کسی حد تک اسلامی مفہوم کے ساتھ اشتراکیت کے قریب نظر آتی ہے، ایک ایسے اقتصادی نظام کی طرح جو اجتماعی ملکیت کی بدولت ممتاز ہے۔ البتہ یہ بات مد نظر رہے کہ ہماری گفتگو فقط اقتصادی نقطہ نظر سے ہے نہ کہ نظریاتی نقطہ نگاہ سے۔

امام علیہ السلام کے کچھ اور فرامین بھی ہیں جن میں وہ کسی رنگ، نسل یا صنف کے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے سب کو برابری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس عمل نے ان لوگوں کو امام کے خلاف برانگیختہ کر دیا جن کے دلوں میں لوگوں پر تسلط اور ان کی سیادت کا خبط موجود تھا۔ اس حوالے سے آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا: [اے لوگو! آدمؑ کو نہ تو غلام پیدا کیا گیا اور نہ ہی کنیز۔ سب کے سب لوگ آزاد ہیں، البتہ خدا نے تم میں سے بعض کو بعض کے اختیار میں دیا ہے۔ پس جو کوئی بھی کسی مصیبت میں گھر جائے اور صبر کرے تو اس خدا پر احسان نہیں جتلانا چاہیے۔ ہمارے پاس (خراج سے)کچھ مال جمع ہوا ہے جسے ہم سیاہ و سرخ کے درمیان مساوی تقسیم کریں گے۔]  تو مروان نے طلحہ اور زبیر سے کہا: ’’علی کی مراد تم دونوں ہو۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ہر ایک کو تین دینار دیے۔ ایک انصاری شخص آیا تو اسے بھی تین دینار اور اس کے بعد ایک سیاہ فام غلام آیا تو اسے بھی تین دینار دیے تو انصاری کہنے لگا: ’’یا امیر المومنین! یہ تو غلام ہے جسے میں نے کل ہی آزاد کیا ہے۔ آپ اسے میرے برابر قرار دے رہے ہیں۔‘‘ تو امامؑ نے جواب میں فرمایا: ’’میں نے کتاب خدا کو پڑھا ہے اور اس میں مجھے کہیں بھی نظر نہیں آیا کہ اسماعیل کے کسی فرزندکو اسحاق کے کسی فرزند پر فضیلت حاصل ہو۔‘‘ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ہماری ملت کی تصدیق کرے، ہمارے دین میں داخل ہو جائے اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے تو اس پر اسلام کے حقوق اور حدود واجب ہو جاتی ہیں۔ پس تم سب اللہ کے بندے ہو اور مال، خدا کا مال ہے جسے وہ تمہارے درمیان برابر تقسیم کرتا ہے۔ اس میں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اور کل بروزِ محشر متقین کے لیے اللہ کے ہاں بہترین جزا اور افضل ثواب ہو گا۔ خدا نے دنیا کو متقین کے لیے اجر و ثواب نہیں قرار دیا بلکہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ نیک افراد کے لیے سب سے بہتر ہے۔ اور ان شاء اللہ کل ہمارے پاس آؤ کیونکہ ہمارے مال ہے جس ہم تم میں تقسیم کریں گے۔ اور تم میں سے ہر ایک چاہے وہ عربی ہو یا عجمی، بیت المال سے وظیفہ لیتا ہو یا نہ لیتا ہو، حتماً حاضر ہو۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018