| حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ایک نبی تھے | حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کب منصب نبوت پر فائز ہوئے ؟
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کب منصب نبوت پر فائز ہوئے ؟
جب نبوت کی عظیم ذمہ داریوں کو نبھانے کےلیے ضروری کمالات اور صفات اپنے عروج پر پہنچیں تو صادق اور امین کہلانے والی ذاتِ محمدی پر نبوت کی گران ذمہ داری آئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لازم قرار پایا تھا کہ ہر چیز کو تعلیمات الٰہی کے مطابق بجالائیں، اور لوگوں کو جدید دین کی طرف دعوت دینے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکمل طور پر دین مقدس پر خود عمل پیرا ہوں اور لوگوں کو دکھائیں کہ دین پر عمل کیسے کرنا ہے، اور دین کے اہداف اور مقاصد کیا ہیں، اور لوگوں پر یہ واضح ہوجائے تاکہ دین سے مربوط امور پر کیسے مکمل طور پر عمل کرنا ہے۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلہ میں شریک ہوئے اور اس تجارت میں اللہ کی طرف سے خاص لطف وکرم اورعنایات آپ کے شامل حال ہوئیں تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سفر فائدے کے لحاظ سے بہت منافع بخش رہا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تجارتی سفر سے حاصل ہونے والے تمام فوائد کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پوتے حضرت امام علی ابن محمد ہادیؑ (آپ بارہ اماموں میں سے دسویں امام ہیں) فرماتے ہیں: اس سفر کے بعد زندگی کے ایک نئے مرحلہ میں آپ نے قدم رکھا، اور مکہ مکرمہ کے مشرق میں موجود غار حراء کی طرف جانے لگے، اور وہاں تنہائی میں رہنے لگے اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق،اور دن اور رات میں رونما ہونے والے عقل انسانی کو حیران کردینے والے واقعات کے بارے میں غور وخوص کرنے لگے، جب کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر چالیس سال تھی، اور آپ عظمت کی اس بلندی پر فائز ہوچکے تھے کہ آپ نداء آسمانی سن سکتے تھے۔ جب آپ اس منزلت پر پہنچے تو ایک فرشتہ آپ پر نازل ہوا، جبکہ نزول کا یہ منظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بالکل نیا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نور الٰہی سے پر منورایک عظیم فرشتے کو اپنے قریب آتے ہوئے دیکھا۔ اور وہ فرشتے جبرائیل امین تھے جو آپ سے مخاطب تھے اور وہ کہہ رہے تھے یا محمد! پڑھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کیا پڑھوں؟ تو جواب آیا:
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ، اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ، الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ (علق: ۱، ۲، ۳، ۴، ۵)۔
(اے رسول) پڑھیے! اپنے پروردگار کے نام سے جس نے خلق کیا۔ اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
یہاں سے وحی الٰہی کا نزول شروع ہوا اور جبرائیل امینؑ آسمان سے وہ پیغام لیکر آئے جس کا آپ کو انتظار تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعوت اور امت کے بارے میں بہت پریشان تھے، جیساکہ حضرت امام ہادیؑ فرماتے ہیں : جب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہاڑی سے اترے تو عظمت اور جلوہ الٰہی کی وجہ سےغش کھاگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ یہ پریشانی لاحق تھی کہ قریش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلائیں گے اور آپ کی طرف جنوں کی نسبت دیں گے، اور یہ کہنا شروع کریں گے کہ شیطان نے آپ کو بہکایا ہے۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ عاقل اور تمام مخلوقات میں سے سب سے افضل تھے اور آپ وہ تھے کہ جن کے ساتھ کسی کا کوئی مقابلہ نہ تھا، جس چیز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ نفرت تھی وہ شیاطین اور پاگلوں کے افعال اور اقوال تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےسینے کو کشادہ اور آپ کے دل کو مضبوط کیا اورآپ کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کی خاطر پہاڑوں، صحراوں، اور درختوں کو گویائی عطا کی، اور آپ جب بھی ان میں سے کسی کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم میں السلام عليك يا محمّد، السلام عليك يا وليّ الله، السلام عليك يا رسول الله کہہ کر صدا بلند کرتے تھے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ آپ کو بشارت ہو، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اولین اور آخرین پر فضیلت دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ خوبصورت بنایا، سب سے زیادہ زینت دی، اور تمام مخلوقات پرآپ کو اکرام بخشا۔ آپ قریش کے مجنون اور فتنہ گر کہنے سے پریشان نہ ہوں، کیونکہ صاحب فضیلت وہ ہے جسے پروردگار عالم فضیلت دے، صاحب کرامت وہ ہے جسےتمام مخلوقات کا خالق کرامت بخشے، قریش کی تکذیب اورعربوں کے طعن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل تنگ نہ ہو، بیشک اللہ تعالٰی آپ کوعظمت، کرامت اور بلندی کے اس مقام پر پہنچائے گا، جہاں تک کسی بشر کی رسائی ممکن نہ ہوگی۔