| التبري من اعداء الله | تولی اور تبری ایمان کی مضبوط چٹانیں
تولی اور تبری ایمان کی مضبوط چٹانیں
اللہ تعالی نے آدم کو بطور نوع )نہ بطور فرد( بہترین طریقے سے خلق فرمایا۔ اللہ تعالی نے انسان کو فطرت عطا کی جس کے مطابق وہ اللہ سبحانہ و تعالی کے ارادے کے مطابق چلتا ہے اور تب تک چلتا رہتا ہے جب تک کسی آلودگی میں مبتلا نہ ہو جائے جو اسے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے۔انسان کو سیدھے راستے پر چلانے کے لیے کہ وہ فطرت اصلی کے مطابق رہے اللہ تعالی نے احکام کا ایک سلسلہ امر و نہی کی صورت میں نازل کیا جنہیں تکالیف شرعیہ کہا جاتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ))(سورة الروم ـ 30)
۳۰۔ پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اس فطرت سلیمہ میں اللہ تعالی نے تولی اور تبری بھی رکھے ہیں یہ دونوں شریعت اسلامی کے اہم ترین حصے ہیں۔تولی اور تبری دو ایسی چیزیں ہیں جن پر عقل اور منطق ہر دو کا اتفاق ہے۔ہم عام انسان کو دیکھتے ہیں اس سے ہماری مراد وہ انسان ہے جس کی فطرت سالم ہےوہ الھی فطرت کے مقابل تمام چیزوں کا انکار کرنے والا ہوتا ہے۔ایسا شخص ہمیشہ جھوٹ سے نفرت کرے گا اور سچ کو پسند کرے گا۔ ظلم کی مخالفت کرے گا اور عدل و انصاف کا داعی ہو گا۔جو بھی برائی کو انجام دینےو الا ہے اس سے نفرت کرے گا اور جو بھی خیر کی دعوت دینےو الا ہے وہ اس سے اور بھلائی سے محبت کرنےو الا ہو گا۔وہ ہمیشہ امن کے درپے ہو گااور قتل و جنگ سے اجتناب کرے گا۔یہ سب وہ اس لیے کر رہا ہو گا کہ وہ اللہ کی دی ہوئی فطرت پر باقی ہو گا۔دوسرے لوگوں کے برعکس جو اللہ کے راستوں کے علاوہ راستوں کو اختیار کرتے ہیں۔ اللہ کے دشمنوں پر تبری کیونکہ ایسے لوگ یقینا حق کے دشمن ہوتے ہیں اور ہر اس سے تولی اور تعلق کا اظہار کرنا جو اللہ سے ملا دے ایسی بات ہے جس کا تقاضا فطرت انسان کرتی ہے۔ایسے لوگوں سے تبرا کرنا جو اللہ کے دشمن ہیں اور ان سے تعلق توڑنا اور جو اللہ کے دوست ہیں ان سے دوستی کرنا اور ان کی قربت اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ اللہ کے قریب ہیں اور اللہ کے دشمنوں سے دور ہیں۔
لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو لفظ ولی کا معنی تتابع کا ہے اس کی دلالت قرب حقیقی اور قرب معنوی دونوں پر ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ میں نے فلاں سے تولی کیا تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے قریب ہوا اس کے پاس بیٹھا اس کی مدد کی۔ولی کافی معانی میں استعمال ہوتا ہے جیسے حلیف،ناصر،منعم وغیرہ۔جہاں تک تبراء کی بات ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جس کے قریب ہونے کو انسان نا پسند کرتا ہے،اس کے پڑوس میں ہونے کی خواہش نہیں ہوتی ۔اسی سے ہے کہ وہ دوا کے ذریعے بیماری سے دور ہو گیا یعنی یہاں بھی براء دوری کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی دواء کے ذریعے بیماری دور ہو گئی اور شفاء آ گئی۔
کس سے تولی کریں اور کس سے تبراء کریں؟
ہمیں اللہ کے حکم کے مطابق تولی اور تبراء کرنا چاہیے یہ ایک اجتماعی موقف بھی ہو سکتا ہے کہ جو کوئی فرد اختیار کرتا ہے کہ مثلا زید سے تولا اور عمر سے تبری اختیار کرے یعنی زید کو پسند کرے اور اور عمر کے موقف کو ترک کر دے۔یہ ہو سکتا ہے کہ ہر دو موقف اجتماعی موقف ہوں۔یہ موقف جذبات،صرف مزاج،شبہ،تنگ نظری اور صرف رجھان کی وجہ سے اختیار نہ کیا جا رہا ہو۔یہ ایسا موقف ہونا چاہیے کہ جو انسان کے ضمیر کی آواز ہو اور اس موقف کی تائید شارع مقدس کا شرعی حکم کر رہا ہو جو اللہ کے قول یا فرمان معصوم کی روشنی میں واضح ہو رہا ہو۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ .....))(سورة النساء ـ 59)
۵۹۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔۔۔
اللہ تعالی اسی طرح کے شرعی حکم کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
((لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ))(سورة المجادلة ـ 22)
۲۲۔ آپ کبھی ایسے افراد نہیں پائیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہوں خواہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو ثبت کر دیا ہے اور اس نے اپنی طرف سے ایک روح سے ان کی تائید کی ہے اور وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے راضی ہیں، یہی لوگ اللہ کی جماعت ہیں، آگاہ رہو! اللہ کی جماعت والے ہی یقینا کامیاب ہونے والے ہیں۔
اس موضوع پر ائمہ اہلبیتؑ کے اقوال کی بڑی تعداد موجود ہےامام رضا ؑ کا یہ قول موجود ہے :دین کا کمال ہماری محبت ہے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری ہے۔
انسان میں دو طرح کی ولایتیں ہو سکتی ہیں ایک اللہ کی ولایت اور دوسری شیطان کی ولایت ہے۔ پہلی کو ولایت الھیہ اور دوسری کو ولایت شیطانیہ کہتے ہیں۔جب انسان اپنے رب سے تعلق بنا لیتا ہے تو اس کا تعلق اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی اہلبیت ؑ سے ہو جاتا ہے۔ ایسا انسان جب ان کی ولایت میں آ جاتا ہے تو ان کے دشمنوں سے تبراء کرتا ہے۔امیر المومنین علی ؑ فرماتے ہیں: تم ہدایت کو اس وقت تک نہ پہچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو،اور قرآن کے عہد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک کہ اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو، اور اس سے وابستہ نہیں رہ سکتے جب تک اسے دور پھینکنے والی کی شناخت نہ کرلو۔ جو ہدایت والے ہیں انہی سے ہدایت طلب کرو۔
جو اللہ کے دشمنوں سے تبراء نہیں کرے گا وہ جلد شیطان کی محبت میں گرفتا ر ہو جائے گا اسی کو قرآن مجید کی یہ آیت بیان کرتی ہے:
((يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (27) وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (28) قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ (29) فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ (30))(سورة الأعراف ـ 27 ـ 30)
۲۷۔اے اولاد آدم!شیطان تمہیں کہیں اس طرح نہ بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور انہیں بے لباس کیا تاکہ ان کے شرم کے مقامات انہیں دکھائے، بے شک شیطان اور اس کے رفقائے کار تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے انہیں تم نہیں دیکھ سکتے، ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا آقا بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔۲۸۔اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، کہدیجئے:اللہ یقینا بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟۲۹۔کہدیجئے: میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر عبادت کے وقت تم اپنی توجہ مرکوز رکھو اور اس کے مخلص فرمانبردار بن کر اسے پکارو، جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا ہے اسی طرح پھر پیدا ہو جاؤ گے۔۳۰۔ (اللہ) نے ایک گروہ کو ہدایت دے دی ہے اور دوسرے گروہ پر گمراہی پیوست ہو چکی ہے، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا آقا بنا لیا ہے اور (بزعم خود) یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت یافتہ ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ))(سورة الممتحنة ـ 13)
۱۳۔ اے ایمان والو! اس قوم سے دوستی نہ رکھو جس پر اللہ غضبناک ہوا ہے جو آخرت سے اس طرح مایوس ہیں جیسے کفار اہل قبور سے ناامید ہیں۔
شیطان کی ولایت کمزور،مکرو فریب پر مبنی،تھوکہ دینے والی ہے اسی کی طرف قرآن مجید کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے:
(( مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ))(سورة العنكبوت ـ 41)
۴۱۔ جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی بنایا ہے ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور گھروں میں سب سے کمزور یقینا مکڑی کا گھر ہے اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔
تولی اور تبراء اسلام کے دو بنیادی موقف ہیں جیسے توحید پر انسان ایمان لاتا ہےاس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے رب پر دل سے ایمان لائے،اس کے ساتھ کسی بھی حالت میں کسی کو شریک قرار نہ دے اور اس کی شہادت دے " اشهد أن لا اله الا الله وأن محمدا رسول الله" اس شہادت پر غور کریں تو عبد اپنے مولی اور رسولﷺ کا اقرار تولی کے ذریعے کر رہا ہےان کی ضد شیطان ہے اور اس کی جماعت ہے۔انسان اس شہادت میں بھی پہلے حصے میں شیطان کی جماعت کا انکار کر کے ان سے تبراء کر رہا ہے جب شرک کی نفی کر رہا ہے اور دوسرے حصے میں وہ اللہ سے اور اس کے رسولﷺ سے تولی کر رہا ہےجب وہ اللہ کے آخری نبیﷺ کا اقرار کر رہا ہے۔وہ اللہ کی خالص توحید کا اعلان کر رہا ہے اور اس کی وحدانیت کا بتا رہا ہے۔اللہ اور اس کے دشمنوں سے تبراء کر رہا ہے کیونکہ وہ آخری نبیﷺ کی تصدیق کر کے پورے سلسلہ انبیاءؑ کی تصدیق کر کے ان سے تولی کر رہا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (55) وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ(56))(سورة المائدة ـ 55 ـ 56)
۵۵۔تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔۵۶۔اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا))(سورة النساء ـ 59)
۵۹۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔
امام صادقؑ کا فرمان ہے جو اللہ تعالی سے ان دس چیزﷺں کے ساتھ ملا وہ جنت میں داخل ہو گا جس نے یہ شہادت دی لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وآله،یہ اقرار کیا کہ جو اللہ کے نبیﷺ جو لائے ہیں اس پر ایمان لایا ہے،نماز کو ادا کیا،زکوۃ کو دیا،حج کیا،ماہ مبارک رمضان کے روزے رکھے،اللہ کے ولیوں کی ولایت کو مانا،اللہ کے دشمنوں سے تبراء کیا اور ہر طرح کے نشے سے پرہیز کیا۔
نبی رحمتﷺ نے اللہ کے دوستوں سے تولی اور اللہ کےد شمنوں سے تبراء کی تاکید کی بلکہ اسے مضبوط ترین ایمان قرار دیا۔آپ ﷺنے صحابہ کرام سےپوچھا سب سے مضبوط ایمان کونسا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔بعض نے نماز،بعض زکوۃ،بعض نے روزہ، بعض نے حج و عمرہ اور بعض نے جہاد کا کہا۔آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ تم لوگوں نے کہا ان میں سے ہر ایک کے لیے فضیلت ہے مگر میری یہ مراد نہیں ،سب سے مضبوط ایمان اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے بغض رکھنا ہے۔اللہ کے اولیاء سے محبت رکھنا اور اللہ کے دشمنوں سے تبراء کرنا ہے۔