| الخمس | خمس کیا ہے اور کیوں واجب ہے؟
خمس کیا ہے اور کیوں واجب ہے؟
دنیا کی حکومتیں اپنی عوام اورعوامی اداروں سے "ٹیکس" یا "محصولات" کے عنوان سے رقم وصول کرتی ہیں، اور ہرحکومت اس نظام کے ذریعے مختلف شعبوں، جیسے انفراسٹرکچر مثلا: پل، سڑکیں، اور ڈیم وغیرہ تعمیر کرتی ہیں، نیز تعلیم اور دیگر شعبوں کے تعمیر ترقی کے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ماضی میں" ٹیکس "اجناس میں سے ہواکرتا تھا جیسا کہ کسان سے فصل کا ایک حصہ وصول کیا جاتا تھا لیکن اب معاملہ بالکل مختلف ہوچکا ہے، کیونکہ ہرریاست میں ایک خاص شعبہ (جسے جدید اصطلاح میں "وزارت خزانہ" کہا جاتا ہے) قائم ہے جو عام طور پر سول حکومتوں میں عوام اور عوامی اداروں سے ٹیکسوں اور محصولات کی وصولی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اسلام میں خمس ادا کرنا واجب ہے، جیساکہ ہرریاست ٹیکس کی ادائیگی کو لازمی قرار دیتی ہے۔ لیکن اسلام میں اس کی ایک روحانی جہت ہے۔ خمس کی ادائیگی سے جہاں دنیا میں اجر و ثواب ملتا ہے وہاں تزکیہ نفس اور مال کی پاکیزگی ہوتی ہے، جو قیامت کے دن کام آئے گی۔
پیغمبر اسلام صلیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عدی بن حاتم طائی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا) سے گفتگو کرتے ہوے لفظ "خمس" کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا: "انك لتأكل المرباع وهو لا يحل في دينك" ' تم اپنی قوم کی غنیمت (لوٹ) سے چوتھا حصہ وصول کرتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے مذہب کے مطابق تمھارے لیے حلال نہیں ہے" عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے زمان جاہلیت میں مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول کیا اور اسلام میں خمس ادا کیا، اور جب اسلام آیا تومربع (غنیمت سے چوتھا حصہ) کے بجائے اللہ تعالی نے خمس کو واجب قرار دیا۔
خمس کیا ہے؟
لغت میں خمس سے مراد پانچ میں سے ایک حصے کو کہا جاتا ہے جیساکہ خمسة القوم یعنی میں نے ان کے اموال کا پانچواں حصہ لیا، اسی طرح پانچ میں سے ایک جزء کو بھی خمس کہا جاتا ہے۔
خمس کی اصطلاحی تعریف: صاحبِ "معجم الفاظ الفقہ الجعفری" نے خمس کی یوں تعریف بیان کی ہے: کہ خمس ایک شرعی فریضہ ہے اور ہرشخص مکلّف پرمخصوص شرائط کے ساتھ سالانہ بچت اوراس طرح کے بعض دیگر چیزوں کے پانچویں حصے 1/5 کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔
فقہاء کرام خمس کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ خمس مال مملوک میں سے وہ حصہ جو خدا کا ہے خواہ یہ انسان کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو۔ یہ (سادات) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے غریبوں کے لئے اور اس کا ایک حصہ دیگر اموردینیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
وجوب خمس پر کیا دلایل ہے؟
شیعہ مسلمان وجوب خمس پر سورہ انفال کی ایت 41 کے ذریعے استدلال کرتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فراماتے ہیں: (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
اگرچہ یہ آیت ان اموال غنائم کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو مسلمان فوج نے جنگ بدر کے بعد حاصل کی تھی جو مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ پہلی جنگ تھی۔ تاہم یہاں پر بہت ساری ایسی متواتر اور صحیح السند روایات موجود ہیں جو دیگر اموال میں بھی وجوب خمس پردلالت کرتی ہیں۔
یہ شریعت اسلامی کا ایک معروف حکم ہے۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان احکامات کی طرف اشارہ کیا ہے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے ان کی تفصلات بیان فرمائی ہیں۔ مثلا: قرآن مجید میں روزانہ کی پانچ نمازوں اور نماز طواف کے بارے میں ذکر ہوا ہے لیکن قرآن میں ان نمازوں کے طریقے، تفصیلات اور افعال کا ذکر نہیں ہوا ہے جو مسلمانوں میں رائج ہے۔ ان نمازوں کی تفصیلات، طریقے اور دیگر اعمال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام نے اپنی حدیثوں کے ذریعہ بیان فرمائی ہیں۔
حتی کی نماز آیات کا ذکر بھی قرآن میں نہیں ہوا ہے لیکن اس نماز کی وجوب پر تمام مسلماں متفق ہیں کیونکہ اس کا وجوب احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
وجوب خمس کا مسئلہ بھی یہی ہے خاص طور پر "مال غنیمت" یہاں تمام علماء شیعہ متفق ہے کہ ہر طرح کی آمدنی اور نفع پر مخصوص شرائط کے ساتھ خمس ادا کرنا واجب ہے۔
اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت روایات نقل ہوئی ہے کی جس کے مطابق ہر وہ آمدنی جو سالانہ اخراجات سے بچ جائے اور ضرورت میں استعمال نہ ہو اس پر خمس واجب ہے۔
حكيم مؤذّن بني عيس امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ جب میں نےاس آیت مبارکہ کی تلاوت کی:(وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ) تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم اس سے مراد روزانہ کے منافع ہیں جو انسان حاصل کرتا ہے۔
اسی طرح موثقہ سماعہ میں ہے کہ جب ابا الحسن علیہ السلام سے خمس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا " جو آمدنی انسان کو حاصل ہو چاہے وہ کم ہو یا زیادہ اس پر خمس ہے۔
محمد بن حسن اشعری سے روایت ہے، کہ ہمارے کچھ اصحاب نے ابوجعفر ثانی (امام محمد تقی )علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا کہ جس میں استدعا کی کہ ہمیں بتائیے کہ انسان جو کچھ چھوٹی بڑی منفعت کماتا ہے اور ہر قسم کے ذریعہ معاش سے کماتا ہے، جائیداد کی امدنی بھی ہے۔ تو آیا خمس سب پر واجب ہے؟ اور کس طرح ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے اپنے دستخط سے لکھا کہ خمس اخراجات کے بعد ہے۔
اسی طرح علی بن مہز یار کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو علی بن راشد نے کہا کہ میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپکے فرمان پر عمل کروں اور آپ کا حق لوگوں سے حاصل کروں ۔ جب یہ خبر میں نے آپکے موالیوں کو دی تو ان میں سے بعض نے سوال کیا کہ ان کا ہم پر کون سا حق ہے ؟ چونکہ مجھے معلوم نہیں تھا لہذا میں انکا جواب نہیں دے سکا تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ان پر خمس واجب ہے۔ میں نے سوال کیا، کس چیز میں ؟ فقال فی امتعتھم و اضیاعھم'' انکے ساز و سامان میں'' پھر میں نے عرض کیا کہ تاجر اور کاریگر کیا کریں ؟ تو فرمایا: ان کے لئے سالانہ خرچ کے بعد جو بچے اس میں خمس ہے۔
شیخ طوسی علیہ الرحمہ باسناد عبد اللہ بن سنان سے اور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور فرمایا: ہر اس شخص پر جسے مال غنیمت ملے یا جو کسب سے مال حاصل کرے اس پر خمس لازم ہے۔ یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ان کی ذریت میں سے ان آئمہ اہل بیت علیھم السلام کا حق ہے جو لوگوں پر خدا کی حجت ہیں ۔ یہ ان کا خصوصی مال ہے۔ وہ جہاں چاہیں اسے صرف فرمائیں اور ان پر صدقہ حرام ہے۔ حتی کہ اگر درزی پانچ دانق میں کوئی کپڑا سیتا ہےتو اس میں سے ایک دانق ہمارا حق ہے۔ مگر یہ کہ ہم جسے چاہیں اس کے لئے حلال کردیں یعنی اپنے چاہنے والوں کو تاکہ ان کی ولادت پاکیذہ ہو۔ قیامت کے دن خدا کے نزدیک زنا سے بڑھ کر کوئی سنگین گناہ نہیں ہوگا جبکہ خمس کا ایک حق دار کھڑا ہوکر کہے گا: اے اللہ ان (خمس کھانے والوں) سے پوچھ کہ انہوں نے کس طرح اسے مباح سمجھاتھا۔