5 محرم 1447 هـ   30 جون 2025 عيسوى 2:28 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | انسانی حقوق |  کیا اسلامی معاشروں میں عورت کے ساتھ نامناسب سلوک کی وجہ دین ہے؟
2025-03-08   253

کیا اسلامی معاشروں میں عورت کے ساتھ نامناسب سلوک کی وجہ دین ہے؟

مقداد الربيعي

انسان مرد ہو یا عورت ہمیشہ سے ہی ظلم و ستم کا شکار رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف تہذیبوں میں عورت کو ظلم و جبر کا نسبتاً زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ عورت پرپابندیاں اور ناانصافیاں مردوں سے کہیں زیادہ رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اخلاقی طور پر ضروری ہے کہ عورت کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق اسلام سب سے زیادہ انصاف پر مبنی اور عادلانہ نظام رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عورت کے ساتھ انصاف کرے اور اس پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کو ختم کرے۔ ماضی اور حال میں اسلامی معاشروں میں عورت کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظالمانہ رویہ اور اس کے ساتھ کمتر درجے کا سلوک اسلامی تصور کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ یہیں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اس صورتِ حال کا سبب خود اسلام ہے؟

چلیں اسلام کے ابتدائی دور کو دیکھتے ہیں کہ اسلام نے عورت کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ یہاں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد قرآنِ کریم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اہلِ بیتؑ کی تعلیمات ہیں۔ اسلام میں عورت خلقت اور انسانی وقار کے لحاظ سے مردوں کے بلکل برابر قرار دیا۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)، النساء:1

اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔

جہاں تک شرعی احکام کی بات ہے تو اللہ کا خطاب مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر اور عمومی طور پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)، الأحزاب: 35

یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

یہ برابری صرف انفرادی فرائض تک محدود نہیں، بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں جنہیں فرض کفائی کہا جاتا ہے کو بھی شامل ہے بلکہ یہاں معاملہ اور بھی واضح ہے۔ ان میں سب سے نمایاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، التوبة: 71

اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اسی طرح اجر میں بھی دونوں برابر ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)، (النحل: 97 )جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔

اسلامی نقطہ نظر سے خلقت، شرعی احکام اور جزا کے حساب سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں، بعض احکام میں عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی خصوصیات کے مطابق کچھ رعایت دی گئی ہے۔ چنانچہ صحابیہ اُمَیمہ بنت رُقَیقہ ؓ سے روایت ہے کہ:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جس قدر تم استطاعت اور طاقت رکھتی ہو۔

قرآنِ کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید کے نتیجے میں مسلمانوں نے عورت کو برابری کو حقوق کے دیے۔جہاں مرد کے ہر حق کے ساتھ عورت کا بھی ایک حق ہے۔ حبر امہ،حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:بے شک، میں اپنی بیوی کے لیے زینت کرتا ہوں، جیسے وہ میرے لیے زینت اختیار کرتی ہے۔یہ کیسے نہ ہوتا ؟ جب کہ قرآن نے خود اس کی تعلیم دی ہے؟ چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:

(وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، البقرة: 288

اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق کیا ہے اسے چھپائیں اور ان کے شوہر اگر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جو ایک درجہ دیا  ہےوہ درحقیقت "قوامیت"کے معنی میں ہے۔یہ خاندان کی سربراہی سے متعلق ہے اور اس کی بنیاد مرد کی سماجی تجربہ کاری پر ہے۔ ازدواجی زندگی ایک سماجی نظام ہے اور ہر نظام کے لیے ایک سربراہ ہونا ضروری ہے۔ یہ برتری کا مفہوم ہرگز نہیں رکھتا۔ یہ صرف ذمہ داریوں کی تقسیم ہے۔ قوامیت مساوات کو ختم نہیں کرتی بلکہ ہر فرد کو اس کی فطری ساخت کے مطابق ذمہ دار بناتی ہے۔ اسی طرح عورت بھی ان امور کی ذمہ دار ہے جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا ارشاد ہے:

(كلكم راعٍ وكلكم مسؤول عن رعيته، فالأمير الذي على الناس راعٍ عليهم ومسؤول عنهم، والرجل راعٍ على اهل بيته وهو مسؤول عنهم، والمرأة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسؤولة عنهم.. الحديث) (مجموعة ورام)، "تم میں سے ہر ایک مسئول ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ جو حاکم لوگوں پر مقرر ہے وہ ان کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے."  (مجموعة ورام، ج 1، ص 6)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی سنت نے اس قرآنی فہم کو بعثت کے آغاز اور ابتدائی اسلامی دور میں ہی عملی شکل دے دی۔ چنانچہ اسلام کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی ایک خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد علیہا السلام تھیں۔اسلام کی برکت سے عورت ایک بے حیثیت شے نہیں رہی، جس کے تمام امور میں مرد ہی فیصلہ کرتا تھا۔ اسلام نے عورت کو خودمختار شخصیت دی جو مالی معاملات میں خود فیصلے کر سکتی ہے، اپنی مرضی سے شریکِ حیات کا انتخاب کر سکتی ہے، گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کر سکتی ہے اور سماجی و اجتماعی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لے سکتی ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا؟

دو اہم عوامل اس تبدیلی کا سبب بنے۔

پہلا یہ کہ امت اپنی اصل قیادت سے دور ہو گئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصیاء اور ان کی عترت کی صورت میں تھی۔ ان کی جگہ قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی جن کا اصل مقصد اپنی سلطنت کو وسعت دینا تھا، اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ان کی ترجیح نہیں تھی۔ چنانچہ فتوحات ہوئیں جن میں مختلف اقوام اور تہذیبیں اسلامی خلافت کے زیرِ سایہ آ گئیں، جس کے نتیجے میں اسلامی زندگی میں خالص اور غیر خالص (ملاوٹ شدہ) عناصر باہم گڈمڈ ہو گئے۔

دوسرا سبب یہ تھا کہ تہذیب کی ترقی، دولت کی فراوانی، علوم، فنون اور ادب کے فروغ کی وجہ سے مسلمانوں کی ثقافت پر آسائش ہو گئی اور عیش و عشرت کے اثرات نمایاں ہو گئے۔ یہ تبدیلی (عیش پرستی) مسلمانوں کو آرام طلب زندگی کی طرف لے گئی اور نتیجتاً اسلامی ریاست اپنی فوج اور طاقت کے لیے فارس، ترک اور دیلم کے افراد پر انحصار کرنے لگی۔ مؤرخ طبری عربوں  پر  اس عیش و عشرت کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"یہی وہ پہلا ضعف تھا جو اسلام پر طاری ہوا اور یہی پہلی آزمائش تھی جس نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔"(شرح نہج البلاغہ، ج 11، ص 12)

ان دو عوامل کے نتیجے میں ایک ایسا غیر عرب طبقہ ابھرا، جس نے اسلام کی تشریح اپنی ثقافتوں اور سماجی پس منظر کے مطابق کی۔ اس کا اثر مسلم معاشروں پر پڑا، خصوصاً جب تہذیبی زوال کے ادوار آئےتو اس کے منفی اثرات مسلمان عورت پر بھی پڑے۔خلفاء، امراء اور فوجی سرداروں کے محلات لونڈیوں اور باندیوں سے بھر گئے۔ حالانکہ ابتدائی اسلام میں مرد اور عورتیں باہم نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر بحث کرتے تھے کہ ہم میں سے جنت میں اعلی مقام پر کون ہوگا؟ حتیٰ کہ خواتین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آئیں اور کہا:"یا رسول اللہ! مرد آپ سے زیادہ وقت لے لیتے ہیں ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کریں جس میں ہمیں تعلیم دیں!"لیکن بعد میں یہ مسابقت عورتوں کے لیے صرف زینت و آرائش اور مردوں کو لبھانے تک محدود ہو گئی۔ یہاں تک کہ اسلامی دنیا میں لونڈیوں اور غلاموں کی منڈیاں قائم ہو گئیں!یوں عورت کی اصل حیثیت تبدیل ہوگئی اور مسلمان ان اعلیٰ قدروں سے دور ہو گئے جن کی طرف اسلام نے انہیں دعوت دی تھی۔ وہ دوبارہ جاہلی دور کی طرف پلٹ گئے۔ چنانچہ مسلمان عورت، جو مجاہد، عالمہ، راویہ حدیث اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی امین تھی کو محض ایک ایسی شخصیت میں تبدیل کر دیا گیا جو مردوں کی خواہشات کو پورا کرے۔ یہاں تک کہ بعض شعرا نے اس صورت حال کو یوں بیان کیا:

مجھ پر قتل و قتال (جنگ) لازم کر دیا گیا ہے.جبکہ خوبصورت عورتوں کے لیے دامن گھسیٹ کر چلنا مقدر ہے۔بعض نے اسے (شرم) کے طور پر بھی کہا۔اس (عورت) کو صرف قبر ہی ڈھانپ سکتی ہے۔میں نے کسی شریف آدمی کے لیے ایسی کوئی نعمت نہیں دیکھی...جیسے کہ کسی عورت (عورت ہونا) کی نعمت، جو قبر کے پردے میں چھپ جائے۔

ایک دوسرے شاعر نے کہا:

عظمت اور شرف کی انتہا یہ ہے کہ بیٹے زندہ رہیں اور بیٹیاں مر جائیں۔

قرآن مجید نکاح کو ایک مضبوط عہد قرار دیتا ہے، جو محبت اور رحمت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور سکون و رحمت کا ذریعہ بنتا ہے۔وہیں بعض فقہاء نے اپنے دور کے معاشرتی حالات کے زیرِ اثر ازدواجی تعلق کو مختلف انداز میں بیان کیا۔چنانچہ ابن القیم الجوزیہ اپنے زمانے کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"آقا اپنے غلام پر غالب ہوتا ہے، اس پر حکومت کرتا ہے اور اس کا مالک ہوتا ہے اور اسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی پر غالب ہوتا ہے، اس پر حکمرانی کرتا ہے اور وہ اس کے اختیار اور حکم کے تحت ایسے ہوتی ہے جیسے قیدی ہے۔"(أعلام الموقعین، ج 2، ص 106)

اس سے اس دور کے معاشرتی رہن سہن کا پتہ چلتا ہے جو قرآن کی اصل تعلیمات سے مختلف تھا۔ جب جدید دور آیا اور مغربی یلغار نے اسلامی معاشروں پر بھی اثر ڈالا تو خواتین کے مغربی تصور کو مسلمان خواتین پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ لبرل سرمایہ دارانہ ماڈل تھا، جس میں عورت کو تجارتی جنس کے طور پر پیش کیا گیا، جس کی نسوانیت اور حسن کو بیچا جاتا ہے دوسرا یہ کہ اسے مرد کے مقابل سمجھا گیا۔عورت کی فطری خصوصیات حیا اور عفت کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔بعض مسلمان مردوں اور عورتوں نے بھی اس طرز زندگی کو اپنا لیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے منفی اثرات آج ہمارے معاشروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔چنانچہ مسلمان عورت دو انتہاؤں کے درمیان پھنس کر رہ گئی:پہلا ماڈل: عورت کو ایک قیدی، مجبور اور الگ تھلگ رکھنے کا تھا، جیسے عورت ہونا عار ہو۔ اس نظریے کو سلفیت اور کچھ دیگر گروہوں نے اسلام کے نام پر رواج دیا۔دوسرا ماڈل: اس میں عورت کو بے حساب آزادی دی گئی اور مردانہ خصوصیات اپنانے پر مجبور کر دیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دو انتہا پسند نظریات کے درمیان پھنس گئی:پہلا گروہ عورت کے کسی بھی حق کو تسلیم نہیں کرتا۔دوسرا گروہ کسی بھی قسم کی حد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری معاشرتی مشکلات کے ذمہ دار یہی دو انتہا پسند نظریات ہیں اور اسلام کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام نے ہمیشہ عورت کے لیے ایک متوازن اور معتدل ماڈل پیش کیا ہے، جو اسے اس کی اصل فطری حیثیت، وقار اور اس کے حقوق عطا کرتا ہے۔اسلام نے موروثی روایات اور جاہلی رسم و رواج سے خود کو پاک رکھا کیونکہ ان پر واپس لوٹنا تہذیبی زوال کی علامت ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018