

| انسانی حقوق | اسلام میں حقوقِ انسانی کا تصور

اسلام میں حقوقِ انسانی کا تصور
شیخ معتصم السید احمد
"انسانی حقوق" کی اصطلاح، جسے عام طور پر مغربی دنیا کے تاریخی اور ثقافتی ارتقا کی پیداوار سمجھا جاتا ہے، اپنے اندر گہرے فکری اور نظریاتی پہلو رکھتی ہے۔ یہاں یہ ضروری ہے کہ اس اصطلاح کی مفہومی دلالات اور اس کے پیچھے کارفرما فکری پس منظر پر غور کیا جائے۔الفاظ، چاہے بظاہر کتنے ہی واضح نظر آئیں، اپنے اندر ایسے معانی اور مفاہیم رکھتے ہیں جو ان فلسفیانہ اور نظریاتی سیاق و سباق سے متاثر ہوتے ہیں جن میں وہ پیدا ہوتے ہیں۔ "حقوق" اور "انسان" جیسے الفاظ بھی اسی اصول سے مستثنیٰ نہیں ہیں؛ ان پر تہذیبی اور ثقافتی اثرات نے ایسے گہرے نقوش چھوڑے ہیں کہ یہ تصورات معنوی لحاظ سے پیچیدہ اور بعض اوقات غیر واضح ہو گئے ہیں۔
"حقوقِ انسانی " کا تصور مغربی لبرل فکر میں اُس وقت تشکیل پایا جب یورپی نشاۃ الثانیہ کے فلسفے نے فرد کی قدر و منزلت کو اس حد تک بلند کر دیا کہ اسے کائنات کا مرکز اور قوانین کا ماخذ قرار دیا۔ اس فلسفے میں انسان کو ایک مطلقا قدر کے طور پر پیش کیا گیا جو معاشرے سے بھی بالاتر ہے۔ یہ تصور "قانونِ فطرت" کے نظریے پر مبنی تھا، جو انسان کو ایک خودمختار مادی وجود کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس تصور میں انسان کو سماجی، تاریخی یا اخلاقی پابندیوں سے آزاد سمجھا جاتا ہے، اور اس کا وجود صرف مادی ضروریات اور جبلتوں کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے، جسے اخلاقی اور روحانی اقدار کے تابع زمانے سے الگ رکھا گیا ہے۔
تاہم، اس تصور میں ایک واضح تضاد پایا جاتا ہے جو انسانیت کے نعروں اور اس ثقافت کی بنیاد بننے والے فلسفیانہ اصولوں کے درمیان موجود ہے۔ اگر انسان محض ایک مادی وجود ہے جس پر اندھی فطرت حکمرانی کرتی ہے، تو ایسی انسانی اقدار کیسے تخلیق کی جا سکتی ہیں جو مادیت سے ماورا ہوں؟ یا ایسے اخلاقی اصول کیسے قائم کیے جا سکتے ہیں جو انصاف اور وقار کے حصول کی کوشش کریں؟ روحِ انسانی کو تسلیم نہ کرنا، جو کسی غیبی کمال کے ذریعے مکمل ہوتی ہے، اخلاقی اقدار کو کسی بھی وجودی جواز سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آزادی، جمہوریت، عقل پسندی اور سیکولرزم جیسی تصورات محض انسان کی مادی اور خود غرض ضروریات کی تکمیل کے اوزار بن کر رہ جاتے ہیں۔
اس کے برعکس، ایمان پر مبنی نظریہ، جو توحید پر قائم ہے، ایک مکمل طور پر مختلف تصور پیش کرتا ہے۔ یہ نظریہ انسان کو ایک دو جہتی وجود کے طور پر دیکھتا ہے: مادی اور روحانی۔ یہ امتزاج انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اخلاقی اور معنوی اقدار کی بنیاد پر فطرت سے بلند ہو سکے، جو اسے علمی اور اخلاقی استحکام فراہم کرتا ہے۔
اسلام، خاص طور پر، انسان کو ایک ایسے وجود کے طور پر دیکھتا ہے جو اپنے اندر کے ساتھ ایک گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہ تعلق اس کی زندگی کو معانی اور اقدار سے مالا مال کر دیتا ہے، اور اسے مادی تغیرات سے ماورا ایک بلند تر تناظر میں رکھتا ہے۔ لیکن اگر یہ روحانی پہلو موجود نہ ہو، تو انسان مادی تبدیلیوں کا قیدی بن جاتا ہے، جو اسے ان مستقل اقدار اور مشترکہ اصولوں سے محروم کر دیتا ہے جو اس کی زندگی کے استحکام اور اس کے وجود کے معنی کو قائم رکھتے ہیں۔
اسی بنیاد پر حقوقِ انسانی، اپنے لبرل سیاق میں، محض عالمی قوانین کا مجموعہ نہیں ہیں، بلکہ انسان اور زندگی کے بارے میں ایک خاص نقطۂ نظر کی عکاسی کرتی ہیں جو مغربی فلسفے کے زیرِ سایہ پروان چڑھا۔ یہ نقطۂ نظر فرد کو مرکزِ توجہ بناتا ہے، جو اسے ایک مخصوص ثقافتی نظام کی نمائندگی بناتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ تمام معاشروں کے لیے جامع ہو۔ جب یہ تصور دیگر اقوام کی ثقافتی خصوصیات کو نظرانداز کرتے ہوئے نافذ کیا جاتا ہے، تو یہ ان لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی بن جاتا ہے جو انسان اور اس کے حقوق کے بارے میں مختلف تصورات رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر، مارکسی نقطۂ نظر کائنات اور انسان کے بارے میں ایک مختلف تصور رکھتا ہے جو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کارل مارکس نے لبرل نظریے پر مبنی ان حقوق پر تنقید کرتے ہوئے انہیں دولت مند طبقے کے مفادات کا عکاس قرار دیا، نہ کہ تمام انسانوں کے عمومی حقوق جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔ مارکس کے مطابق، "آزادی کے حق" کو دوسروں کی نظراندازی کا جواز بنا دیا جاتا ہے، جس سے خودغرضی اور انفرادیت کو تقویت ملتی ہے۔ اسی طرح "ملکیت کے حق" پر فرد کی اپنی جائیداد کے تحفظ پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ دوسروں کے حقوق، خاص طور پر غربت اور محرومی کے شکار افراد، کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
مارکس نے چند عملی سوالات اٹھائے جو مسئلے کی اصل کو اجاگر کرتے ہیں: اس شخص کےلئےآزادی کا کیا فائدہ جو کسی مالک کے کنٹرول میں زندگی بسر کر رہا ہو؟ اس کےلئے ملکیت کا کیا مطلب جو کچھ بھی نہ رکھتا ہو؟ اور اس بندے کےلئے تحفظ کا کیا فائدہ جو بھوک سے مر رہا ہو؟ مارکس کے مطابق، سماجی اور اقتصادی حقوق صرف کھوکھلے نعروں تک محدود رہتے ہیں جب تک وہ حقیقی حالات میں تبدیل نہ ہوں جو ان کے حصول کو ممکن بنائیں۔ ان حالات کی غیر موجودگی میں، ان حقوق پر بات کرنا محض ایک ایسا ذریعہ بن جاتا ہے جو ایک مخصوص طبقے کے مفادات کو فروغ دیتا ہے۔[1]
یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ معرفت اور فلسفی پس منظر کس طرح انسانی حقوق کے تصور کی تشکیل اور تعبیر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اس مغربی تصور کو اسلامی فکر پر نافذ کرنا، بغیر اس بات کو سمجھے کہ اسلام انسان اور حقوق کے حوالے سے کیا فلسفہ پیش کرتا ہے، ایک بنیادی علمی غلطی ہے۔
اسلام ایک متوازن نظریہ پیش کرتا ہے جو فرد کے حقوق اور اس کے معاشرے کے لیے فرائض کے درمیان ہم آہنگی قائم کرتا ہے۔ یہ نظریہ روحانی اور معنوی پہلوؤں کو مادی پہلوؤں کے ساتھ جوڑ کر انسان کے وجود کو ایک مکمل تناظر میں دیکھتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اس مفہومی خلا کو محض کسی اصطلاح کو دوسرے سے بدلنے سے حل نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ کچھ مفکرین نے "کرامت انسانی" کو انسانی حقوق کے اسلامی متبادل کے طور پر پیش کیا۔ بلکہ اس کے لیے اسلامی نقطۂ نظر کی گہری تفہیم ضروری ہے، جو عدل اور شمولیت کی اقدار پر مبنی ہے۔ یہ نقطۂ نظر انسان کی روح اور جسم کی مرکب فطرت کو مدنظر رکھتا ہے اور فرد اور معاشرے کے درمیان ایک حقیقی توازن قائم کرنے کو یقینی بناتا ہے
اسلام انسان کو زمین پر خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے، جو اسے اس زمین کی آبادکاری اور انتظام کی ذمہ داری سونپتا ہے، ایسی اقدار کے تحت جو انفرادی انصاف اور اجتماعی ذمہ داری کو یکجا کرتی ہیں۔ یہ تصور اسلامی نقطۂ نظر میں حقوق کے مفہوم کو ایک جامع فلسفے کا حصہ بناتا ہے جو اخلاقیات کو بلند مقام دیتا ہے اور دوسروں کے لیے ذمہ داری پر زور دیتا ہے۔
یہاں سے یہ ضرورت واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں حقوق کے مفہوم کو ایک اصل اور منفرد زاویے سے تشکیل دیا جائے، جو اس کے مضبوط اصولوں اور مستحکم تعلیمات سے ماخوذ ہو۔ یہ تصور کسی ردعمل یا مغربی فکری نمونوں کی نقل کی بجائے ایک مستند اور آزاد اسلامی فہم پر مبنی ہو۔ہم اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ عرب اور اسلامی دنیا میں انسانی حقوق کو اجاگر کرنے کے لیے بڑی کوششیں کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے متعدد بیانات اور معاہدے سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس تصور کو اسلامی تناظر میں فروغ دینے کی کوشش کی، جیسے: اسلامی عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق (1980)، اسلام میں انسانی حقوق کا بیان (1980)، قاہرہ اعلامیہ برائے انسانی حقوق (1990)، اور تہران میں جاری کردہ اسلامی اعلامیہ برائے انسانی حقوق (1989)۔ اس کے علاوہ، بے شمار تحریریں انسانی حقوق کو اسلامی نقطۂ نظر سے بیان کرنے کے لیے لکھی گئیں۔تاہم، ان میں سے زیادہ تر کوششیں بین الاقوامی معاہدات کے ساتھ مثبت یا منفی ردعمل کے زیر اثر رہیں، جس کے نتیجے میں ان کی طریقہ کار میں تنوع اور تضاد پایا گیا۔
علامہ محمد مہدی شمس الدین ان تحریروں کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ اکثر تین بنیادی پس منظر سے متاثر ہوتی ہیں:
دفاعی رجحان:
بعض تحقیقات کا مقصد اسلام کا دفاع کرنا ہوتا ہے، خاص طور پر ان الزامات کے خلاف کہ اسلام انسانی حقوق کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ تحریریں خارجی حملوں کے سامنے ایک مدافعانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔
موازنہ:
ایسی تحریریں جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ اسلام میں انسانی حقوق کے وہی اصول موجود ہیں جو مغرب یا بین الاقوامی معاہدات میں اعلان کیے گئے ہیں۔ اس رجحان کے تحت اسلام کو مغربی سیاق کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
شکایت:
ان تحریروں میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور ان مظالم کے ثبوت کے لیے بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔[2]
دوسری جانب، بعض تحریریں جنہوں نے اسلام میں انسانی حقوق کی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی، وہ بین الاقوامی معاہدات میں بیان کردہ اصولوں سے متاثر ہوئیں اور پھر ان کے لیے دینی متون میں دلائل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یہ انتخابی انداز کئی خامیوں کا شکار ہے، جن میں سب سے نمایاں اسلامی متون کے ساتھ تضاد یا تصادم ہے۔
بعض اوقات یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ کچھ شرعی نصوص کو رد کر دیا جائے یا ان کی ایسی تاویلات کی جائیں جو ان کے اصل سیاق سے دور ہوں۔ اس کی مثالیں ان معاملات میں دیکھنے کو ملتی ہیں جیسے مرد اور عورت کے درمیان وراثت میں فرق یا حجاب، جسے بعض افراد نے خواتین کی آزادی پر پابندی کے طور پر پیش کیا۔ یہ مغربی معیارات سے براہ راست اثر لینا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے تصور کو ایک جامع اسلامی نقطہ نظر کے مطابق دوبارہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نقطہ نظر جو ان بڑے اصولوں کو مدنظر رکھے جو اسلام کی فلسفہ انسانیت اور حقوق کے حوالے سے رہنمائی کرتے ہیں۔اسلام میں انسانی حقوق مغربی تنقید کا جواب دینے یا مغربی تصورات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش پر مبنی نہیں ہیں، بلکہ یہ اسلام کے کلی تصور کا ایک لازمی حصہ ہیں، جو انسان کی زندگی کے مقصد، اور زمین پر اس کے بطور خلیفہ کردار کو واضح کرتے ہیں۔
اس کے بنیاد پر، یہ ضروری ہے کہ ہم اسلام میں انسانی حقوق سے متعلق تحقیق کے طریقہ کار پر دوبارہ نظر ثانی کریں، اور ایک جامع نقطہ نظر اپنائیں جو ان بنیادی اقدار پر استوار ہو جو انسانی وجود کے مقصد کو واضح کرتی ہیں۔ اسلام حقوق و فرادیات کو اس تناظر میں دیکھتا ہے کہ یہ انسان کی تخلیق کا مقصد، جو اللہ کی عبادت اور زمین کی آباد کاری ہے، سے جڑا ہوا ہے، اور یہ ایک وسیع اخلاقی و قیمتی ضابطہ کار کے تحت انجام پاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنا پر، حقوق نہ تو مطلق ہیں اور نہ ہی فردی خواہشات کی بنیاد پر قائم ہیں، بلکہ یہ اجتماعی ذمہ داریوں کے ساتھ متوازن ہیں اور اخلاقی و روحانی اقدار میں جڑیں رکھتے ہیں جو انسان کی کائنات میں حرکت کو منظم کرتی ہیں۔
اس مقالے کی محدودیت کے پیش نظر، ہم اسلام کے وہ تمام فلسفے جو انسان و حقوق سے متعلق ہیں ،ان کی تمام تر تفصیلات سمیت ان کی گہرائی تک نہیں جا سکتے، تا ہم اس فلسفے کی عمومی خصوصیات کا ذکر کر سکتے ہیں اور وہ بنیادی معیار فراہم کر سکتے ہیں جن کی مدد سے حقوق کو سمجھا جا سکتا ہے ، جنہیں بلکل بھی نظرانداز یا ترک نہیں کرسکتے۔ ہم گفتگو کو مختصر کرنے کی کوشش کریں گے اور مسائل کو اہم نکات میں تقسیم کریں گے تاکہ اسلامی تصور حقوق الإنسان کا بنیادی ڈھانچہ واضح کیا جا سکے۔
انسان دو پہلوؤں والی مخلوق ہے:
اسلام انسان کو ایک ایسی مخلوق کے طور پر دیکھتا ہے جو دوہری ساخت رکھتی ہے، یعنی مادی جسم اور روحانی نفس کا مجموعہ، اور یہی خصوصیت اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کا توازن حقوق کے تصور پر گہرا اثر ڈالتا ہے، جہاں حقوق اس کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وضع کیے جاتے ہیں، جیسے کھانے، لباس اور رہائش، اور اس کی روحانی عظمت کو بڑھاتے ہیں، جیسے عقیدے اور اظہار کی آزادی، بشرطیکہ یہ اخلاقی اقدار کے دائرے میں ہوں۔چنانچہ، اسلام انسان کو محض مادی مخلوق کے طور پر دیکھنے والی مادی فلسفیات یا محض روحانی مخلوق کے طور پر دیکھنے والے بعض انتہا پسند صوفیانہ نظریات کو مسترد کرتا ہے۔
تخلیق کا مقصد:
اسلام میں انسانی حقوق ایک اعلیٰ مقصد سے جڑے ہوئے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں بیان ہوا(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں" (الذاریات: 56)۔یہ مقصد محض عبادات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں زمین کی آبادی، عدل کا قیام، اور انسانیت کی بھلائی شامل ہے۔ اس تناظر میں، حقوق مطلق نہیں بلکہ ایک بلند تر مقصد کے تابع ہیں، تاکہ وہ اللہ کے عظیم مقاصد، جیسے روحانی اور سماجی تکامل، کے حصول کا ذریعہ بنیں۔
اخلاقیات کو حقوق کی بنیاد:
اسلام میں حقوق اخلاقیات سے جدا نہیں بلکہ اعلیٰ اقدار، جیسے عدل، احسان، اور رحمت، کے حصول سے مشروط ہیں۔ مثلاً، فرد کا حقِ ملکیت اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کی قیمت پر مالدار ہو جائے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ دولت کو عوامی بھلائی کے لیے استعمال کرے۔یہ حقوق اور اخلاقیات کا امتزاج اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حقوق ظلم یا استحصال کے آلے نہ بنیں، جیسا کہ ان نظاموں میں ہوتا ہے جو اخلاقیات اور قانون کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں۔
حقوق اور فرائض کا تعلق:
اسلام ایسے نظریے کو مسترد کرتا ہے جو انسان کو محض حقوق کا مستفید قرار دیتا ہو، جبکہ اس پر دوسروں کے حوالے سے کسی قسم کی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر، زندگی کا حق ایک ذمہ داری کے ساتھ مشروط ہے کہ دوسروں کی زندگی کا احترام کیا جائے اور ان پر کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ اسی طرح آزادی کا حق اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان دوسروں کی آزادی کو نقصان نہ پہنچائے اور اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔یہ باہمی تعلق معاشرتی توازن کو برقرار رکھتا ہے اور انارکی سے بچاتا ہے جو بلا قیود آزادی کے نتیجے میں پیدا ہو سکتی ہے۔
سماجی انصاف: انسانی حقوق کی بنیاد:
اسلام میں عدل کا مطلب ہر چیز میں مطلق مساوات نہیں، بلکہ افراد کی ضروریات، صلاحیتوں اور مختلف حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر، مرد اور عورت کے درمیان وراثت میں فرق تفریق نہیں بلکہ ذمہ داریوں اور سماجی و اقتصادی عوامل پر مبنی انصاف کا اظہار ہے۔اسلامی عدل ہر شخص کو اس کا حق دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی ہم آہنگی قائم ہوتی ہے۔
حقوق کا اجتماعی نظریہ:
لبرل فکر کے برعکس، جو فرد اور اس کے حقوق کو مطلق ترجیح دیتا ہے، اسلام انسان کی سماجی فطرت پر زور دیتا ہے، جہاں فرد کی تکمیل اس کے معاشرتی تعلقات کے ذریعے ہوتی ہے۔فردی حقوق معاشرے کی بھلائی کے دائرے میں استعمال کیے جاتے ہیں، اس طرح کہ انفرادی آزادی کو اجتماعی مفاد کے تابع رکھا جاتا ہے۔یہ نقطہ نظر خود غرض رجحانات کو روکنے اور سماجی ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
حقوق: مستقل اور ارتقائی:
اسلامی شریعت ثابت نصوص پر مشتمل ہے جو کلی اقدار اور اصولوں کا احاطہ کرتی ہیں، اور اجتہاد کے لیے ایک وسیع گنجائش فراہم کرتی ہیں تاکہ حقوق کو زمانے کی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔یہ لچک اسلامی حقوق کو معاصر چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بناتی ہے، جبکہ وہ اپنی مستحکم جڑوں سے جڑے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر، تعلیم اور صحت سے متعلق حقوق وقت کی ضروریات کے تحت ترقی کر سکتے ہیں، لیکن وہ انصاف اور مساوات کے اصولوں پر قائم رہتے ہیں۔
اسلامی حقوق کی عالمگیریت:
اسلام میں حقوق اس حقیقت سے جنم لیتے ہیں کہ انسان اپنی اصل میں معزز ہے، چاہے اس کا رنگ، نسل یا مذہب کچھ بھی ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ )اور یقیناً ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی" (الإسراء: 70)۔یہ عالمگیریت اس تصور سے متصادم ہے جو حقوق کو مخصوص طبقات تک محدود یا سیاسی و معاشی حالات سے مشروط کر دیتا ہے۔اسلام ہر انسان کے لیے ان حقوق کی ضمانت دینے کی دعوت دیتا ہے، کیونکہ وہ انسانی خاندان کے ایک بڑے حصہ کا رکن ہے۔
اختتامیہ:آخر میں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی حقوق سے متعلق فلسفہ ایک جامع اور مربوط نظریہ پیش کرتا ہے جو روح اور جسم، فرد اور معاشرہ، ثبات اور ارتقاء، اور اخلاقیات و حقوق کو آپس میں جوڑتا ہے۔اس نظریے کے ذریعے، اسلام ایک متوازن متبادل پیش کرتا ہے جو انسان کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اقدار اور اصولوں کو برقرار رکھتا ہے جو انسان کی حتمی غایت کی تشکیل کرتے ہیں۔یہ فلسفہ انسانی حقوق کو محض ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور انسانی نظام کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا مقصد دنیا اور آخرت میں عدل اور بھلائی کا قیام ہے۔
[1] راجع كتاب سليفان ماتون، حقوق الإنسان من سقراط إلى ماركس، ترجمة محمد الهلالي، الرباط، 1995
[2] محمد مهدي شمس الدين، حقوق الإنسان في الإسلام، إصدارات منظمة افعلان الإسلامي، القاهرة، 1988، ص389.