14 رمضان 1446 هـ   13 مارچ 2025 عيسوى 12:10 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | طبیعت اور ماحولیاتی حقوق |  ایمان اور ماحول میں ہم آہنگی ایک متوازن زندگی کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے
2025-01-19   248

ایمان اور ماحول میں ہم آہنگی ایک متوازن زندگی کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے

تحریر معتصم السيد احمد

ایمان اور ماحول، اگرچہ بظاہر مختلف میدانوں سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کے درمیان ایک گہرا اور اہم ربط موجود ہے جو انسانی زندگی کی تشکیل کرتا ہے اور اس کی دنیا کے ساتھ تعلق کی نوعیت کو واضح کرتا ہے۔ ایمان محض ایک داخلی نظام نہیں جو انسان اور خالق کے درمیان رابطے کو منظم کرے، بلکہ یہ ایک وسیع اور ہمہ گیر نظام ہے جو انسان کی زندگی، اس کے اردگرد کی فطرت اور پوری کائنات پر اثر ڈالتا ہے۔یہ گہرا تعلق اس وقت مزید نمایاں ہوتا ہے جب انسان اپنی حیثیت کو زندگی کے ایک مربوط اور متوازن نظام کا حصہ سمجھتا ہے، جس میں تمام عناصر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔

یہ ایمان اور ماحول کے درمیان تعلق محض روحانی یا فلسفی پہلوؤں تک محدود نہیں رہتا، جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیتے ہیں اور تخلیق کی عظمت پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ بلکہ یہ تعلق عملی اور اخلاقی ذمہ داریوں تک وسیع ہے، جو انسان کو پوری کائنات کے ساتھ اپنے رویے کے بارے میں غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ حقیقی ایمان انسان کو اس بات کا شعور بخشتا ہے کہ وہ ماحول کی حفاظت اور دیکھ بھال کرے، کیونکہ یہ نہ صرف ایک الٰہی امانت ہے بلکہ ایک اخلاقی فرض بھی ہے۔یہ ذمہ داری دینی تعلیمات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں انسانی اصولوں کا بھی اہم کردار ہے، جو زمین کے وسائل کے تحفظ اور ان کی پائیداری کو آئندہ نسلوں کے لیے یقینی بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یوں ماحول کی حفاظت ایک ایسا فریضہ بن جاتی ہے جو دینی شعور اور انسانی اقدار کو یکجا کرتا ہے، اور انسان کو ایک متوازن اور ذمہ دارانہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

ادیان کا فہم: ذاتی تجربے سے کائناتی نقطہ نظر تک

کئی روایتی نظریات میں، خصوصاً بعض تقلیدی نظریات میں، ادیان کو اکثر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ انسان کو روحانی بلندیاں عطا کرتے ہیں اور اسے زمین و فطرت سے الگ کر دیتے ہیں۔ اس محدود تصور نے دین کو صرف ذاتی تجربے اور انفرادی عبادات تک محصور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے انسان کا ماحول کے ساتھ تعلق ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔اس زاویہ نظر کے تحت، بعض مذاہب اور تفسیریں صرف روحانیت پر زیادہ زور دیتی ہیں اور انسان کے زمین کے ساتھ اپنے ذمہ دارانہ تعلق کو نظر انداز کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں دینی فہم کو وسعت دینے کی ضرورت ہے، تاکہ انسان کی کائناتی ذمہ داریوں اور اس کے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ تعلقات کو بھی اہمیت دی جا سکے۔ یہ تبدیلی ایک زیادہ جامع اور ہم آہنگ نظرئیے کی طرف رہنمائی کرتی ہے، جو انسان کو اپنی روحانیت کے ساتھ ساتھ زمین کی حفاظت اور ذمہ داریوں کا بھی شعور دے۔

اسلام اپنے جوہر میں ایک منفرد تصور پیش کرتا ہے جو انسان کو کائنات کے ایک ہم آہنگ حصے کے طور پر دیکھتا ہے، جہاں روح کی ضروریات اور جسم کی حاجات میں توازن رکھا جاتا ہے، اور انسان کے حقوق کے ساتھ ساتھ فطرت کے حقوق کی بھی حفاظت کی جاتی ہے۔ اسلام کائنات کو اللہ کی قدرت اور حکمت کی ایک بڑی علامت سمجھتا ہے، اور انسان کو اس پر غور کرنے اور فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، بشرطیکہ وہ اس کے توازن کو نقصان نہ پہنچائے اور اس کی تخریب سے بچیں۔

یہ تصور انسان کو صرف قدرتی وسائل کا استعمال کنندہ نہیں بلکہ ان کا نگہبان بھی بناتا ہے۔ انسان اس توازن کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے جو کائنات کے مختلف عناصر جیسے فطرت، انسان اور دیگر جانداروں کے درمیان تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ اسلام میں ایمان صرف انسان اور اللہ کے درمیان رشتہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک وسیع ذمہ داری ہے جو اللہ کی تمام تخلیق کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس میں ماحول کا تحفظ کرنا اور دوسروں کے قدرتی وسائل کے حقوق کا احترام کرنا شامل ہے۔ اس طرح، اسلام انسان کو ایک وسیع تر اخلاقی فریم ورک میں شامل کرتا ہے جہاں اس کا کردار صرف فردی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اہمیت رکھتا ہے۔

یہ ایمان اس معنیٰ میں  ایک مکمل اور وسیع اعتراف کو کہا جاتا ہے  جو ہر چیز کی حقیقت اور اس کے حقوق کو شامل کرتا ہے ۔ جب عقل اپنی معرفت کیساتھ ہمیں دنیا کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی طرف رہنمائی کرتی ہے، تو ہم چیزوں کی حقیقت اور ان کے حقوق کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ اور جب  ہم سورج، زمین اور اپنے ارد گرد کی زندگی کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، تو ہم ان مخلوقات کے حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے ایک مضبوط رشتہ قائم کرتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ہمیں انسانوں اور قدرتی عناصر کے ساتھ اپنے تعلقات میں حقوق کی اہمیت سمجھنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اگر ہم چیزوں کی حقیقت کو تسلیم نہ کریں، تو ہم ان کے ساتھ کوئی حقیقی رشتہ یا ہم آہنگی پیدا نہیں کرسکتے ۔

مثال کے طور پر، جب ہم فطرت کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں، تو ہمیں اس کے حقوق کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم فطرت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، اور یہ ہمارا حق ہے، لیکن اس کے بدلے ہمیں اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی کرنی ہوگی، کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ قدرت اور اس کے حقوق کا اعتراف ہمیں فطرت کے ساتھ ایک متوازن اور ہم آہنگ تعلق قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ ہم اس توازن کو برقرار رکھ سکیں جو انسان اور فطرت کی زندگی کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔

اس نقطہ نظر سے، حقوق کی قانونی حیثیت صرف ذاتی مفاد پر نہیں بلکہ چیزوں کی حقیقت اور ان کی اہمیت کے تسلیم پر مبنی ہوتی ہے۔ اس گہری سمجھ کے ذریعے، ایمان اور ماحول کے درمیان ایک مضبوط تعلق سامنے آتا ہے، جہاں ایمان قدرت کے تحفظ اور اس کے حقوق کے احترام کا بنیادی محرک بن جاتا ہے۔

اس طرح ایمان انسان کی کائنات میں موجودگی کی حقیقت کو سمجھنے کا ایک وسیلہ بن جاتا ہے، اور اسے مخلوقات اور موجودات کے جڑے ہوئے نظام کا حصہ سمجھنے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اس توازن کو اس طرح بیان کیا گیا ہے(وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ) (القصص: 77)  اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد پھیلنے کی خواہش نہ کر یقینا اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔

یہ آیت ایک دوہری پیغام دیتی ہے: ایک طرف انسان کو روحانی مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اور دوسری طرف اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ مادی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہ کیا جائے، نیز اللہ کی حکمت سے تخلیق شدہ فطرت کو نقصان پہنچانے سے بچایا جائے۔ یہ اعتدال کی طرف ایک  واضح دعوت ہے، جہاں ماحول کے ساتھ عاقلانہ طور پر  اور احترام کیساتھ برتاؤ کیا جائے۔ حقیقی ایمان اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب انسان ماحول کے ساتھ ذمہ داری  اور محبت سے پیش آئے۔ یہ نظریہ صرف قدرت کو ایک مفید وسیلے کے طور پر نہیں دیکھتا، بلکہ اسے ایک زندہ وجود کے طور پر تسلیم کرتا ہے جس کے اپنے حقوق بھی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا فرمان ہے:( ما من مسلم يغرس غرساً أو يزرع زرعاً فيأكل منه إنسان أو طير أو بهيمة إلا كانت له به صدقة.) کوئی مسلمان ایسا درخت نہیں لگاتا یا بیج نہیں بوتا، جس سے انسان، پرندہ یا جانور کھاتا ہو، مگر اس کے لیے اس کا صدقہ شمار ہوتا ہے۔" اور ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إن قامت الساعة وبيد أحدكم فسيلة، فإن استطاع أن لا تقوم حتى يغرسها، فليفعل" اگر قیامت واقع ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہو، اور وہ اس کو لگانے کی استطاعت رکھتا ہو، تو اسے قیامت کے قیام سے پہلے اس کو لگا دینا چاہیے۔" یہ حدیث واضح  طور پر دلالت کرتی ہے کہ ماحول کے تحفظ اور بہتری کے لیے عمل کرنا انتہائی اہم ہے، چاہے حالات کتنے بھی مشکل ہوں۔

اختتامیہ:

ایمان اور ماحول کے درمیان تعلق صرف ایک نظریاتی تصور نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عملی نظر ہے جو ایک متوازن اور پائیدار دنیا کے قیام میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ جب ایمان کو صحیح طریقے سے سمجھا جائے، تو یہ مثبت تبدیلی اور ذمہ دارانہ عمل کے لیے ایک طاقتور محرک بن جاتا ہے۔آج کے دور میں جب دنیا کو بڑھتی ہوئی ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، تو ایسے میں  اس بات کی شدید  ضرورت ہے کہ ہم ایمان کے اس متوازن فہم کو دوبارہ زندہ کریں، تاکہ یہ نوعِ انسان کو فطرت کے احترام اور دیکھ بھال کی طرف رہنمائی فراہم کرے، اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک پائیدار اور خوشحال سیارے پر زندگی گزارنے کا حق یقینی بنائے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018