| اسلامک ڈیموگرافی (آبادیات) | مشرقی ترکستان اور مزاحمتی تحریک
مشرقی ترکستان اور مزاحمتی تحریک
ترکستان کے مشرقی حصے کو مشرقی ترکستان کہا جاتا ہے جو وسط ایشیا کا ایک خطہ ہے جس میں آج بھی ترکوں کی اکثریت ہے۔مشرقی ترکستان شمال میں منگولیا اور روس (سائبیریا) سے ملحق ہے، اور جنوب میں تبت اور کشمیر (پاکستان اور ہندوستان)، مشرق میں چین جبکہ اس کے مغرب میں اسلامی ریاستیں قزاقستان، کرغزستان، اور تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان واقع ہیں جو 1991 سے پہلے سابق سوویت یونین کا حصہ تھیں۔ ان تمام علاقوں کو ماوراء النہر کہا جاتا ہے۔ مشرقی ترکستان (یعنی ترکوں کی سرزمین) کو ترکستان کے نام سے اس لئے جانا جاتا تھا کیونکہ یہ ترکوں کا اصلی وطن تھا، لیکن چوتھی صدی ہجری میں حالات و واقعات اورانکے ساتھ پیش آنے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے لوگ مختلف علاقوں، ایران اور ایشیاء مائنر، اناطولیہ (موجودہ ترکی)، آذربائیجان وغیرہ میں پھیل گئے۔
پانچویں صدی ہجری تک یہاں کے سبھی لوگ مسلمان ہوچکے تھے اور انہوں نے ترک سلجوقی ریاست تشکیل دی تھی ، جو بازنطینیوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے خلاف بھی لڑتے تھے۔ پھر آٹھویں صدی ہجری میں عثمانی ریاست کا قیا م ہوا ، جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا اور بازنطینی ریاست کو گرایا، بلقان اور مشرقی یورپ کو فتح کیا ، اور قدیم دنیا کے ایک تہائی حصے سے زیادہ حصے پر کنٹرول حاصل کیا۔ لیکن انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ، روسی اور چینی استعمار کے زیر اقتدار، اس پورے خطے میں رونما ہونے والے طویل تنازعہ کی وجہ سے، ان کے درمیان تقسیم اور تفرقے پیدا ہوگئے، جس سے اس کا مشرقی حصہ چین کے قبضے میں چلا گیا جس کو چینی مشرقی ترکستان کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اس کا مغربی حصہ، روس کے زیر قبضہ چلا گیا جسے روسی مغربی ترکستان کہا جاتا ہے۔
مشرقی ترکستان (1،850،000) کلومیٹر سے زیادہ کے وسیع و عریض رقبے پر مشتمل ہے ۔ اس طرح سے یہ ایران کے رقبے سے بڑا ہے، اور موجودہ چین کے تقریبا پانچویں حصے کے برابر ہے۔ مشرقی ترکستان اس وقت چین کے سب سے بڑے علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ خاص طور پر معاشی لحاظ سے یہ سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے اور سرکاری طور پر سنکیانگ یا چن جیانگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جہاں تک ان علاقوں میں مسلم آبادی کا تعلق ہے تو ایک اندازے کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی آبادی 20 ملین سے زیادہ ہے جن میں سے اکثریت ترک ، قازق اور کرغیز نسل کی ہے ، جبکہ چینی حکام کے اعدادوشمار کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہیں ۔
مشرقی ترکستان میں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ زراعت ہے اور زراعت میں زیادہ کپاس کاشت کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ قالین، ریشم وغیرہ تیار کرنے میں بھی یہ علاقہ بہت مشہور ہے ۔
مشرقی ترکستان کا موجودہ دارالحکومت ارومچی ہے جبکہ اس کا تاریخی اور تہذیبی دارالحکومت کاشغر ہے ، جو مغربی چینی سرحد کے قریب جنوب میں واقع ہے ، اور یہ وہ شہر ہے جس کے باشندے ترکستان کے دیگر شہروں کی طرح سب سے زیادہ مسلمان ہوئے۔ یہ شہر تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے بہت مشہور ہے اور اب بھی اس میں سینکڑوں تاریخی مساجد ہیں جو کہ اسلامی تہذیب کی تاریخ میں ایک بہت بڑا اور ممتاز کردار ادا کرتی ہیں۔
مشرقی ترکستان کی سرزمین معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے اندرونی حصے میں ایک سو بیس سے زیادہ اقسام کی معدنیات موجود ہیں، اور سونے کی پچاس سے زیادہ سرنگیں ہیں ، اور یہاں تیل، زنک، یورینیم موجود ہیں۔، آئرن، اور سیسہ، اور اس کے علاوہ کوئلہ بھی لاکھوں ٹن موجود ہے۔ جبکہ یہاں نمک کا قدرتی ذخیرہ ہے جو اگلی دس صدیوں تک دنیا کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے ، حالیہ اعدادوشمار کے مطابق ، زراعت کے علاوہ ، آبی ذخائر بھی وافر مقدار میں پاپا جاتا ہے۔ جبکہ جن میں بہت سے بڑے اور چھوٹے دریا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کی تقریبا 44 سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔واضح رہے یہ علاقہ سمندر سے کافی دور واقع ہے۔
ترکستان میں اسلام:
ترکستان کو ولید بن عبد المک نے قطیبہ بن مسلم الباھیلی کی قیادت میں سنہ 83 سے 94 ھ بمطابق 702 سے 712 م کے دوران فتح کیا اور ترکستان کے سب سے اہم علاقوں اور شہروں کو بھی فتح کیا یہاں تک کہ ان فتوحات کا سلسلہ خراسان کے صدر مقام میرو سے شروع ہوتا ہوا سنہ 95ھ کو کاشغر تک پہنچ گیا اور ان تمام ریاستوں میں اسلام پھیل گئے یہاں تک کی اسلام چینی سرحد تک پہنچ گیا۔
دعوت ِتبلیغ، تجارت وغیرہ کے توسط سے اسلام ترکستان کے داخلی علاقوں میں پھیل گیا یہاں تک سنہ 322ھ کو خاقان بغرا خان نے اسلام قبول کیا جس سے وہاں مسلمانون کو مزید تقویت ملی اور اس طرح د عوت ِ اسلامی کا تعلق اسی علاقے تک محدود نہ رہا بلکہ یہ سلسلہ چین، تبت اور ایشیا ء کے مختلف خطوں تک جاپہنچا۔
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہاں کے لوگ عربی زبان بھی جانتے تھے ، اور پھرکثرت استعمال کی وجہ سے عربی ہی ان کی زبان بن گئی کیونکہ عربی مسلمانوں کی شناخت ہے اور یہ قرآن وسنت کی زبان ہے۔ پھر بعد میں انہوں نے عربی رسم الخط کو اپنی مقامی اور مادری زبانوں ، جیسے ایغور ، قازق اور کرغیز میں لکھنے کے لئے استعمال کیا
یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی ترکستان کی طرح مشرقی ترکستان میں بھی ایک نفیس اسلامی تہذیب قائم ہوئی۔ جس کا اثر کئی شہروں اور دیہاتوں میں دیکھا جاسکتا ہے جن میں صرف کاشغر شہر میں (300) مساجد ہیں جو وہاں کے لوگوں میں اسلامی نظریات اور اسلامی علوم کو فروغ دینے میں نمایاں کردار کرتی ہیں۔
اسلامی قومیتوں کی کثرت کے باوجود یہاں کے سبھی لوگ عقیدہ، قانون اور طرز زندگی وغیرہ میں بحیثیت مسلمان ایک ساتھ ہی زندگی گزارتے تھے، یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ہی وہاں کے رہنے والے تمام مسلمانوں کی قومیت تھی۔ اس طرح سے مشرقی ترکستان کو، بلکہ پورے ترکستان کو ایک اسلامی ملک کے قیام اور ایشیاء میں اسلام کے پھیلاؤ میں مرکزیت کا مقام حاصل رہا ہے۔
یہاں کے عظیم سکالرز اور فقہاء نے بہت بڑی کتب کا ذخیرہ اور لائبریریاں چھوڑیں جس سے کاشغر جیسا شہر پوری دنیا کے مسلم سکالرز اور محقیقین کے لئے ایک منزل بن گیا اسی وجہ سے اسے بخاریٰ صغیر بھی کہا جاتا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب چین دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ خاص طور پر عباسی دور حکومت میں جب طلس/طرس کے ساتھ لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں چین کی بدترین شکست کے بعد یہ دنیا سے بالکل الگ زندگی گزارنے پر مجبور تھا اور جنوبی سمندری راستے کے تمام تجارتی مراکز مسلم تاجروں کے ماتحت تھے ۔کیونکہ زیادہ تر تاجروں کا تعلق عرب، فارس اور ترک سے ہی تھا۔
سیاسی اتارچڑھاؤ اور دیگر مشکلات کے باوجود ترکستان کی اسلامی کمیونیٹی نے مسلم تہذیب و ثقافت اور اپنی شناخت کو نسل در نسل منتقل کیا۔ جیسا کہ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ کے سفر نامےسے ظاہر ہوتا ہے ۔
مشرقی ترکستان 200 سال تک روس اور چین کے مابین تنازعہ کا موضوع بنارہا یہاں تک کہ 200 سال بعد یہ چین اور روس کے مابین تقسیم ہوگیا۔اس طرح روس کو مغربی ترکستان مل گیا جس پر انہوں نے 1865 م میں قبضہ کرلیا اس وقت اس میں پانچ دیگر اسلامی ریاستین بھی شامل تھیں۔جبکہ چین کے حصے میں مشرقی ترکستان آگیا۔
چین نے پہلی بار منچوریہ کے تعاون سے 1760 م میں مشرقی ترکستان پر قبضہ کیا اسی دوراں ترکستانی مسلمان اور چینی فوجیوں کے درمیاں سخت لڑائی ہوئی۔ اس جنگ میں کئی ہزار مسلمان شہید ہوگئے، گرفتار شدہ مسلمان فوجیوں کو ذبح کردیا گیا۔ اس طرح سے مسلمانوں پر سخت ظلم ڈھالئے گئے۔ نتیجتا چینی فوجیوں نے ترکستان پر قبضہ کرلیا۔اس قبضہ کے خلاف مسلمان مزاحمتی تحریک ایک سو سال تک جاری رہی یہاں تک کہ 1863 ء میں مسلمان چین اور ان کے اتحادیوں کو ملک بدر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اور پھر انہوں نے اپنی ایک خودمختار ریاست تشکیل دے دی ، لیکن یہ ریاست زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی ، کیونکہ چین نے برطانیہ کی مدد سے 1876 ء میں ترکستان پر دوبارہ قبضہ کرلیا تاہم 1881 ء تک چین نے اس خطہ کا باضابطہ طور پر اپنے ساتھ الحاق نہیں کیا گیا تھا۔ پھر ان قابض چینیوں نے 18 نومبر 1884 ء کو جاری ہونے والے ایک شاہی فرمان کے مطابق ان اسلامی ممالک کو کئی علاقوں میں دوبارہ تقسیم کیا، اور اس کا نام چن جیانگ رکھ دیا ، یعنی نئی سرزمین، اور پھر اس کو چینی صوبہ شمار کیا گیا۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ شہروں اور دیہاتوں کے نام بھی تبدیل کرکے چینی نام رکھ دئے گئے، اسلامی اور ترکی تاریخی یادگاروں کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی، اور مساجد اور اسلامی اسکولوں کو بند کردئے گئے۔
1949 ء میں ماؤٹنگ کی قیادت میں کمیونسٹوں نے ملک کے مختلف خطوں پر قبضہ شروع کیا ۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف خوفناک قتل عام شروع کیا۔ اس کے لئے انہوں نے چینی امیگریشن کے دروازے کھول دیئے، اور انفرادی املاک کو ختم کردیا گیا،یہاں تک کہ تمام مسلمان خواتین کی زیورات سمیت دولت کو ضبط کرلیا گیا۔ کمیونسٹوں نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ اسلام ملکی قانون سے خارج ہے اس طرح سے اسلامی قوانین کو ختم کردیا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ملک سے باہر جانے سے منع کیا اور کسی غیر ملکی کو بھی داخلے سے روک دیا، مذہبی اداروں کو بند کردیا ، اور مساجد کو کلب کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، چینی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ، اسلامی تاریخ کو ماوزینگ کی تعلیمات سے تبدیل کردیا، اور ساتھ ہی ساتھ مسلمان خواتین کو چینیوں سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جبکہ ان کے ثقافتی انقلاب کے نعروں میں سے ایک یہ تھا: "قرآن کریم کی تعلیمات کو ختم کرو" اور اس طرح مسلمانوں پر ثقافتی اور تعلیمی تبدیلی کی پالیسی نافذ کی گئی۔
1976 میں ماؤزینگ کی موت واقع ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ بیرونی دنیا سے چین کا رابطہ بھی شروع ہونے لگا لیکن پھر بھی اس پالیسی میں کوئی فرق نہیں پڑا، بلکہ چین اسی راہ پر چلتا رہا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سابق سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد ، چینی حکام نے مزید سختی شروع کردی ، کیونکہ ان کے آس پاس جاری نئی تبدیلیوں او مسلم ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں نے ان کو خوف زدہ کردیا کہ کہیں یہ تحریک مشرقی ترکستان تک نہ پہنچ جائے۔ پھر ان کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کا ایک اور جواز اس وقت ملا جب 11 ستمبر 2001 کا واقعہ پیش آیا۔ تب اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جانے لگا۔ اور دہشت گردی کے نام پر قتل و غارت گری، بدسلوکی، جبری گمشدگی وغیرہ جیسے سلوک مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے لگے۔
نتیجتًا لاکھوں چینی باشندے اس خطے میں مستقل طور پر آباد ہوئے خاص طور پر 1950 کے دہائی میں اور خطے میں بڑھتی ہوئی معاشی اہمیت کے پیش نظر کثیر تعداد میں چینی باشندے یہاں منتقل ہوگئے۔اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک جیسے بچے پیدا کرنے پر پابندی وغیرہ جیسی پالیسی کی وجہ سے حالیہ دہائیوں میں بڑی تعداد میں مسلمان اس خطے سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اور مسلمان اپنی ہی ریاست میں اقلیت بننے کی راہ پر گامزن ہیں، جس سے ان خطوں میں اسلامی تہذیب و ثقافت چینی ثقافت میں تبدیل ہونے کا خطر ہ ہے۔
ہم آج یہاں چین کے ڈیڑھ ارب کے مقابلے میں محض دو کروڑ مسلمانوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جبکہ اں خطوں میں آج سے سو سال پہلے سو فیصد مسلمان آباد تھے۔